0
Tuesday 21 Jul 2015 19:11

اسرائیل اور داعش میں مماثلت

اسرائیل اور داعش میں مماثلت
تحریر: صابر کربلائی
ترجمان فلسطین فائونڈیشن پاکستان


ماضی میں عرب اقوام کے مابین تنازعات اس بات کا سبب بنے کہ بالآخر غیر ملکی استعماری قوتوں نے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عرب خطے اور اسلام کے قلب میں اسرائیل نامی خنجر گھونپ دیا، یہ خنجر آج تک عالم اسلام کے قلب سے خون بہا رہا ہے اور اس قلب جسے فلسطین و القدس کہا جاتا ہے خون میں نہلا رہا ہے۔ گذشتہ چند برس میں ایک مرتبہ پھر ایسا ہی دیکھنے میں آیا ہے کہ چند عربوں کے اختلافات اور تنازعات اس قدر آگے بڑھے ہیں کہ ایک اور دشمن یعنی دہشت گردی کو جنم دیا گیا ہے۔ اس دہشت گرد گروہ کو پوری دنیا عام فہم میں "داعش" کے نام سے جانتی ہے، اب اسرائیل ہو یا داعش، دونوں ہی پورے خطے کے لئے بلکہ عالم اسلام اور پوری دنیا میں بسنے والی انسانیت کے لئے کینسر کی صورت اختیار کرچکے ہیں، دونوں کی وجہ تخلیق ایک ہی قرار پائی ہے، اسرائیل نے فلسطین پر قبضہ کیا اور اس قبضے کی بنیاد فرانس اور برطانیہ کے درمیان طے پانے والا سائیکس پیکو معاہدہ اور پھر اس کے نتیجے میں اعلان بالفور تھا۔ داعش نے شام اور عراق کو اپنا نشانہ بنا لیا اور ساتھ ساتھ لبنان اور اردن وغیرہ میں بھی اپنے ڈیرے جمانے کی کوشش کی۔ اب خبریں یہاں تک آپہنچی ہیں کہ پاکستان اور افغانستان میں بھی ان کے ڈیرے پہنچ چکے ہیں۔

اسی طرح موجودہ داعش کو دیکھا جائے تو ماضی میں فلسطین پر اسرائیلی قبضہ کے وقت دہشت گرد گروہوں میں "ہگانہ" اور اس کی مددگار دیگر دہشت گرد تنظیموں کی طرف بھی خیال جاتا ہے، کیونکہ آج داعش اور ہگانہ جیسی صیہونی دہشت گرد تنظیموں میں کہ جس نے لاکھوں فلسطینیوں کو نہ صرف فلسطین سے نکلنے پر مجبور کیا بلکہ دسیوں ہزار فلسطینیوں کے خون سے سرزمین فلسطین کو سرخ کر دیا تھا۔ آج مشاہدے میں یہ بات بڑی واضح طور پر نظر آرہی ہے کہ جس طرح صیہونی دہشت گرد گروہوں نے فلسطینیوں پر مظالم ڈھائے تھے، اسی طرح کی مماثلت داعش کی جانب سے مسلمان ممالک میں مسلمانوں کے خلاف جاری ہیں، خاص طور پر داعش کے ان صیہونی مماثل مظالم کو شام، عراق اور اسی طرح مصر اور فلسطین کے سرحدی علاقے سینا اور لیبیا میں بھی دیکھا جاسکتا ہے، جبکہ رپورٹس کے مطابق 2008ء میں داعش کے دہشت گردوں نے غزہ کی ایک مسجد پر قبضے کے دوران حماس کے ایک اعلٰی عہدیدار کی گردن بھی مسجد کے اندر کاٹ کر اس کے ساتھ بے حرمتی کی اور فٹبال کھیلتے رہے۔

سرزمین فلسطین پر صیہونیوں کے غاصبانہ تسلط کے بعد فلسطینیوں کو جبری جلا وطنی، قتل و غارت، لاشوں کی پائمالی، بچوں اور خواتین کا قتل، خواتین کی عصمت دری، فلسطینیوں کی زمینوں اور باغات و کھیتوں پر قبضے، جیلوں میں قید سمیت متعدد سخت قسم کے مظالم برداشت کرنے پڑے ہیں، اسی طرح داعش کی جانب سے شام اور عراق پر حملوں کے دوران بھی یہی دیکھا گیا ہے کہ راہ چلتے معصوم انسانوں کو گولیوں سے بھون ڈالا گیا، معصوم بچوں کا بڑے پیمانے پر قتل عام، خواتین کی عصمت دری اور جہاد النکاح جیسی لعنت کو اسلام سے منسوب کرنا، معصوم انسانوں کے گلے کاٹ کر ان کے ساتھ فٹبال کھیلنا، انسانوں کے جسم سے کھال اتارنا، مقامی آبادی کو گھروں سے ہجرت کرنے پر مجبور کرنا، زمینوں اور گھروں پو تسلط قائم کرنا اور اسی طرح دیگر سفاکیت پر مبنی انسانیت سوز مظالم داعش کی جانب سے شام اور عراق میں دیکھنے میں آئے ہیں۔

اگر پاکستان کی بات بھی کی جائے تو یہاں بھی اسی داعش مائنڈ سیٹ نے گذشتہ چند برسوں میں پچاس ہزار سے زائد پاکستانیوں کو موت کی نیند سلا دیا ہے اور درج بالا سارے مظالم پاکستان کے اندر بھی انہی دہشت گردوں کی جانب سے ہوتے رہے ہیں۔ ماضی میں جس طرح غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کی جانب سے مسلم امہ اور عیسائیوں کے مقدس مقامات کی توہین اور ان پر قبضے کئے گئے جس میں 1969ء میں مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس یعنی مسجد اقصٰی کو نشانہ بنایا گیا اور نذر آتش کر دیا گیا۔ اسی طرح اور بھی درجنوں واقعات فلسطین میں رونما ہوئے جن میں مقدس مقامات کی نہ صرف توہین کی جاتی رہی بلکہ مقدس مقامات کو منہدم کرنے کے ساتھ ساتھ مسجد اقصٰی کو منہدم کرنے کے لئے زیر زمین کھدائی کا عمل بھی شروع کیا گیا، جس کا مقصد مسجد اقصٰی کو منہدم کر دینا ہے، تاکہ مسلمانوں کا تیسرا مقدس ترین مقام اور قبلہ اول ہمیشہ ہمیشہ کے لئے روئے زمین سے ختم ہوجائے اور اس کی جگہ صیہونیوں کی عبادت گاہ اور ہیکل سلیمانی تعمیر کیا جائے۔

یہ تو بات رہی فلسطین میں صیہونی سازشوں کی، اب ذرا دیکھئے کہ داعش نے اس حوالے سے کیا کارنامے انجام دیئے، شام میں موجود قدیم اور مقدس ترین مقامات جن میں پیغمبر اکرم حضرت محمد (ص) کے جلیل القدر صحابہ کرام (رض) اور آنحضرت (ص) کی نواسی جناب سیدہ زینب (س) سمیت دیگر اہلبیت کرام کے مزارات مقدسہ موجود تھے، ان مقامات کو داعش نے نہ صرف اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں کا نشانہ بنایا بلکہ بعض مقامات پر جلیل القدر صحابہ کرام (رض) کے مزارات کو منہدم کرنے کے ساتھ ساتھ قبور کو کھود کر جسد خاکی کو بھی نکال لیا گیا اور نامعلوم مقامات پر لے جایا گیا، اس کی ایک مثال پیغمبر اکرم (ص) کے جلیل القدر صحابی جناب حضرت حجر ابن عدی کے مزار مقدس کی ہے کہ جہاں یہ سفاکیت کا عمل دیکھنے میں آیا۔ اسی طرح داعش نے نواسی رسول اکرم (ص) حضرت سیدہ زینب (س) کے روضہ مبارک کو بھی بموں اور راکٹوں کا نشانہ بنایا، تاہم اپنے ناپاک عزائم کو مکمل کرنے میں ناکام رہے۔

یہ وہ بنیادی اور چیدہ چیدہ نکات ہیں جن سے واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ اسرائیل کے قیام اور داعش کے قیام میں کس حد تک مماثلت پائی جاتی ہے اور اسی طرح اسرائیلی مظالم اور داعش کے مظالم کا جائزہ لیا جائے تو دونوں میں مماثلت کے ثبوت پائے جاتے ہیں۔ ایک فلسطینی نوجوان نے سوشل ویب سائٹ پر ایک پیغام ارسال کیا ہے، جس میں فلسطینی نوجوان لکھتا ہے کہ فلسطینی داعش سے پوچھتے ہیں کہ وہ کب اسرائیل کے خلاف اپنا جہاد یا اپنی جنگ کو وہ جو بھی نام دیتے ہیں شروع کریں گے تو اس کے جواب میں ایک اور فلسطینی نوجوان لکھتا ہے کہ جب اسرائیل مسلمان ہوجائے گا یا اسلام قبول کر لے گا۔ یہاں اس بات کو ملحوظ غور رکھا جانا بہت ضروری ہے کہ داعش ہو یا اسرائیل یہ کسی خاص مکتب یا مسلک کے مخالف نہیں بلکہ دونوں میں ایک مماثلت جو اور پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ اسرائیل اور داعش دونوں ہی انسانیت کے دشمن، انسانیت کے لئے خطرناک کینسر ہیں اور اسرائیل کے ساتھ ساتھ داعش کا خاتمہ بھی ناگزیر ہے۔

اسی طرح دنیا کے ماہرین سیاسیات اور بین الاقوامی تعلقات عامہ کہتے ہیں کہ داعش مغرب ایشیاء میں جہاں ایک طرف اسرائیل کے لئے ڈھال کا کردار ادا کر رہی ہے، وہاں اسرائیل کو تحفظ فراہم کرنے اور اسرائیلی مظالم سے دنیا کی توجہ ہٹانے میں بھی داعش کا بہت بڑا کردار شامل ہے، لہذٰا دنیا کو باور کرنا ہوگا کہ اسرائیل ہو یا داعش دونوں ہی ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہوئے ہیں، دونوں کا طریقہ واردات ایک جیسا ہے اور ہدف بھی ایک ہی ہے کہ اسرائیل جیسی غیر قانونی ریاست کا دفاع اور عالم انسانیت کے سلگتے ہوئے مسئلہ فلسطین سے دنیا کی نظریں اوجھل کرنا، تاہم آج شدت سے اس بات کی ضرورت کو محسوس کیا جا رہا ہے کہ دنیا اس بات کو سمجھے اور جس طرح اسرائیل اور داعش مل کر فلسطین کاز کو نقصان پہنچانے کے لئے سرگرم عمل ہیں، اسی طرح ہمیں بھی فلسطین کاز کے لئے زیادہ سے زیادہ جدوجہد کرنا ہوگی، تاکہ فلسطین کاز زندہ رہے اور فلسطین کی آزادی کی جدوجہد جاری رہنے کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کی اخلاقی و سیاسی حمایت کا سلسلہ بھی جاری رہے، کیونکہ فلسطین نہ صرف عالم اسلام کے لئے اتحاد کا مظہر ہے، بلکہ امت اسلامی کے لئے مرکز و محور بھی ہے، تاہم اسے انسانی بنیادوں پر حل کرنے کے لئے کی جانے والی کوششوں کا سلسلہ تیز سے تیز کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
خبر کا کوڈ : 475091
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش