0
Tuesday 28 Jul 2015 02:33

خوش آئند تاریخی جوہری معاہدہ

خوش آئند تاریخی جوہری معاہدہ
تحریر: ڈاکٹر ماریہ لودھی

تعصب کی عینک اتار کر ہی اسلامی جمہوریہ ایران کے حالیہ جوہری معاہدے کے ممکنہ ثمرات و اثرات کا اعادہ کیا جاسکتا ہے۔ میری ذاتی رائے میں بغض، تعصب اور مفادات کے عدسے، عمومی طور پر مشاہدات کو دھندلا دیتے ہیں، اور ان دھندلے مشاہدات سے ایسے کمزور اور بیمار تجزیات ہی جنم لیتے ہیں، جو مخصوص ذہنیت رکھنے والے چند عناصر اس جوہری معاہدے کے حوالے سے رقم کر رہے ہیں، اور اپنی تحریروں کے ذریعے غلط فہمی و خوش فہمی کی ایک فضا ترتیب دینے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ بغض، نفاق اور تعصب سے متاثرہ تحریروں سے یہ غلط فہمی پیدا کی جا رہی ہے کہ جوہری معاہدے کے بعد ایران اور امریکہ کے درمیان پائے جانے والے اختلافات دوستی میں تبدیل ہو رہے ہیں، اور امریکہ اب ایران کی نظر میں شیطان بزرگ نہیں رہا ہے، ایران نے بھی بعین اسی طرح امریکہ بہادر کے سامنے اپنے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں، جس طرح عشروں پہلے عربوں نے ٹیکے تھے، اور کچھ عرصے بعد ایران بھی عربوں کی طرح امریکہ کی ناز برداریوں میں مصروف نظر آئے گا۔ غلط فہمی پھیلانے والی ان تحریروں کے خالق اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ شائد اس طرح وہ ایران کی سفارتی کامیابیوں کو ناکامی کا طوق پہنا سکتے ہیں، مگر حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ اسلامی دنیا کا فخر اسلامی جمہوریہ ایران کڑی پابندیوں اور آزمائشوں سے اسی طرح نکل کر باہر آرہا ہے کہ جیسے سونا آگ میں تپ کر کندن ہو کر نکلتا ہے۔

اس سے بڑھ کر کامیابی اور کیا ہوگی کہ نام نہاد عالمی طاقتوں نے ایران کے اصولی موقف کے سامنے گھٹنے ٹیکے ہیں۔ ایران کا موقف پہلے دن سے دنیا پر واضح تھا کہ ترقی، خدمت انسانی اور پرامن مقاصد کیلئے جوہری توانائی کا حصول ایران کا بنیادی حق ہے، جس سے وہ ہرگز دستبردار نہیں ہوگا۔ جوہری معاہدے کے بعد بھی ایران اپنا یہ حق محفوظ رکھتا ہے اور طب، زراعت، متبادل توانائی ذرائع کے طور پر وہ ایٹمی توانائی سے استفادہ کرے گا۔ جوہری معاہدہ ایران کو اپنے اصولی موقف سے دستبردار نہیں کر پایا، بلکہ اس کے اصولی موقف پر تصدیقی مہر ثبت کرتا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ معاہدے کی صورت میں امریکہ نے ایران کو ایٹم بم بنانے سے روک دیا ہے، اور پابندیاں ختم کرانے کیلئے بلاآخر ایران کو اپنا ایٹمی پروگرام رول بیک کرنا پڑا ہے۔ اس دعویٰ کی حقیقت جاننے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ آج تک برادر اسلامی ملک ایران کی کسی ذمہ دار شخصیت نے ایٹم بم بنانے یا استعمال کرنے کی بات نہیں کی، بلکہ ایران کا شروع انقلاب سے ہی یہ موقف ہے کہ وہ ایٹم بم بنانا اور اس کا استعمال ناجائز سمجھتا ہے۔ وہ نیوکلیئر توانائی کو اپنے پیٹرولیم وسائل پر انحصار کم کرنے، میڈیکل اور دیگر پرامن و تعمیری مقاصد کیلئے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ اس کے علاوہ این پی ٹی پر دستخط کرکے ایران اپنے آپ کو عالمی معاہدے کی صورت میں پابند بھی کرچکا ہے۔

ایک اور غلط فہمی یہ پیدا کی جا رہی ہے کہ آئی اے ای اے کے افسران کو ہر جگہ بلاروک ٹوک انسپکشن کی اجازت ہوگی۔ یہ افسران معاہدے سے پہلے بھی ایران کی جوہری پلانٹس کا معائنہ کرتے تھے۔ جس میں کبھی کبھار تعطل بھی آیا، تاہم دفاعی تنصیبات ان معائنہ کاروں سے پہلے بھی مستثنٰی تھیں اور معاہدے کے بعد بھی مستثنٰی ہیں۔ چنانچہ یہ تاثر بھی غلط ہے کہ ایران کی دفاعی تنصیبات اب معائنہ کاروں کی زد میں ہوں گی۔ شور و غوغا اٹھانے کی تیاریاں ہیں کہ مرگ بر امریکہ، شیطان بزرگ امریکہ کے نعرے اب قصہ پارینہ بن گئے اور اب انقلاب اسلامی نے شیطان بزرگ امریکہ کو تمام تر برائیوں کے ساتھ بطور دوست قبول کر لیا ہے۔ یہ شور و غوغا اٹھانے والوں کو نہ ہی ایران کے رہبر اعلٰی امام خامنہ ای کے ہاتھ میں وہ عصر حاضر کا اسلحہ نظر آتا ہے، جو انہوں نے اپنے خطبہ میں تھام رکھا ہے اور نہ ہی امریکی وزیر دفاع کی ایران پر حملے کے حوالے سے وہ دھمکی جو اس نے معاہدے کے بعد بھی دینی ضروری سمجھی۔ علاوہ ازیں وطن عزیز پاکستان نے اپنے ازلی دشمن بھارت کے ساتھ کتنے ہی معاہدے کئے ہیں۔ یہاں تک کہ دونوں ملکوں کے درمیان دوستی کے عہد و پیمان بھی ہوئے ہیں، مگر اس کے باوجود دونوں ایک دوسرے کو اپنی سلامتی کے لئے نمایاں خطرہ گردانتے ہیں۔

اگر اتنے معاہدات، منصوبوں اور عہد و پیمان کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی ختم نہیں ہو پائی تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ انقلاب اسلامی اور امریکہ کے درمیان مخالفت دوستی میں بدل جائے۔ وہ بھی اس صورت میں جب امریکہ اپنی انہی تمام پالیسیوں کو لیکر چل رہا ہو کہ جن کی بنیاد پہ اسے شیطان بزرگ قرار دیا گیا، جبکہ ایران اپنے اسلامی انقلاب کے بنیادی نکات پر پوری استقامت کے ساتھ موجود ہو۔ امام خمینی کی قیادت میں جو انقلاب برپا ہوا، اس کے بنیادی نکات ہی امریکہ اور اس کی پالیسیوں سے متصادم ہیں۔ مشرق و مغرب سے آزاد اور اسلام کے زیرسایہ مملکت کا نظام، اپنی خود مختاری کا تحفظ، آزادی فلسطین کی حمایت، ظالم کی مخالفت اور مظلومین جہاں کی حمایت، بنیادی طور پر یہ وہ نکات ہیں کہ جن کے ساتھ امریکہ ایران کو قبول نہیں کرسکتا، چنانچہ شیطان بزرگ سے دوستی کا الزام قلمی زیادتی اور انقلاب سے بغض کے سواء کچھ نہیں۔ اگر متعصب قلمی زیادتیوں اور خیانتوں کی وجہ تلاش کریں تو حقائق کچھ کم دلچسپ نہیں ہیں۔ معاشی اور اقتصادی پابندیوں میں جکڑے ایران نے فلسطین، غزہ، لبنان، شام، عراق، یمن اور دیگر ممالک میں اسلامی و روحانی اثر و رسوخ کے ذریعے خود کو خطے کی بڑی طاقت ثابت کیا ہے۔ اب اسرائیل اور اس کے عرب ہم نواؤں کو یہی خوف کھائے جا رہا ہے کہ معاشی و اقتصادی پابندیوں سے آزاد ایران کو خطے اور عالم اسلام میں قائدانہ کردار ادا کرنے سے کون روک پائے گا۔

یہی وجہ ہے کہ امریکی وزیر دفاع باری باری اسرائیل اور سعودی عرب کو بریفنگ کے نام پر تشفی و دلاسہ دیتے نظر آئے۔ اسرائیل اور عربوں کی مشترکہ بے چینی انہی قلمی خیانتوں کی بنیادی محرک ہے۔ جو عناصر اس جوہری معاہدے کو ایران کی پسپائی قرار دے رہے ہیں، ان کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ ڈھائی ہزار سالہ سیاست کا تجربہ رکھنے والے ایران سے پسپائی پر مبنی معاہدے کی توقع کم علمی اور خام خیالی کے سوا کچھ نہیں اور جو شخصیت ماضی میں نہایت خاموشی سے معاہدے کی درخواست لیکر ایران حاضر ہوئی تھی، ممکن ہے کہ آئندہ امریکی صدارت کی حقدار قرار پائے۔ وطن عزیز پاکستان کے عوام کیلئے اس معاہدے کا خوشگوار ترین پہلو یہی ہے کہ جوہری معاہدے کے بعد ایران سے پابندیوں کے خاتمے سے پاک ایران گیس پائپ لائن اور دیگر منصوبہ جات کو عملی جامہ پہنانے کی صورت نظر آئی ہے۔ اب دونوں ممالک آپس میں توانائی کے ذرائع، اجناس، معدنیات کی تجارت کو فروغ دیکر نہ صرف تجارتی حجم کو بڑھائیں گے، بلکہ خطے میں سرمایہ کاری کا ایک نیا باب بھی کھلنے کو ہے، جس کے ثمرات سے لامحالہ خطے کے عوام مستفید ہوں گے، جو کہ انتہائی خوش آئند و مبارک ہے۔
خبر کا کوڈ : 476409
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش