0
Monday 3 Aug 2015 18:55

صیہونی ايجنڈے كی تكميل ميں فتنہ تكفيريت كا كردار

لبنان میں ہونیوالی فلسطین کانفرنس میں پیش کیا گیا مقالہ
صیہونی ايجنڈے كی تكميل ميں فتنہ تكفيريت كا كردار
تحریر: ڈاکٹر علامہ شفقت شیرازی

سب سے پہلے انٹرنيشنل علماء مقاومت اتحاد كا شكريہ ادا كرتا ہوں، جنہوں نے ہمیں "ہم فلسطين كی خاطر متحد ہیں" كے عنوان کے تحت ہونے والى اس كانفرنس ميں شركت كی دعوت دی۔
محترم خواتين و حضرات! جب 2006ء ميں صیہونی دشمن كو مقاومت اسلامی لبنان نے شرمناک و ذلت آميز شكست كا ذائقہ چکھایا تو انہوں نے مقاومت اسلامی، امت اسلامی اور دين اسلام سے اسكا انتقام لينے کے لئے تكفيريت كا بهيس بدلا۔ جيسا كہ پوری دنيا روز روشن كی طرح جانتی ہے كہ فتنہ تكفير، تكفيری فكر اور تكفيری مسلح گروہ يہ سب مغربی، امريكی اور صیہونی انٹيليجنس اداروں كی پیداوار ہیں، گریٹر اسرائيل كی منصوبہ بندی کو پایہ تكميل تک پہنچانے اور امت مسلمہ كو تقسيم كرنے كی خاطر انہیں وجود بخشا گیا ہے۔

خواتين و حضرات! صیہونی دشمن نے اپنے تمام تر ميڈيا وسائل اور خطے ميں موجود اپنے ايجنٹوں كے ذریعے گذشتہ کئی دہائیوں سے جھوٹا پروپیگنڈہ شروع كر ركها ہے كہ امت اسلاميہ كا سب سے بڑے دشمن، اس کیلئے سب سے بڑا خطرہ صیہونی ايجنڈا اور اسرائيل نہیں بلكہ صفوی ايجنڈا، ايران اور شيعہ ہیں اور جہان اسلام كو سب سے بڑا خطره شيعی ہلال سے ہے، جو كہ تہران سے شروع ہوتا ہے اور بغداد، دمشق سے گزرتے ہوئے بيروت تک آتا ہے، تو ضروری ہے كہ اس كے خلاف جنگ كی جائے۔ افسوس سے كہنا پڑتا ہے كہ بہت سے ساده لوح اور ناعاقبت انديشوں نے اس پروپیگنڈہ كو حقيقت سمجها اور صیہونی جال ميں پھنس گئے۔ بعض عرب حكمرانوں نے اسی پروپیگنڈہ كی بنياد پر پالیسیاں بنائیں اور اسے شيعہ سنی جنگ كا رنگ ديا۔ پوری دنيا سے تكفيريوں كو اكٹھا كيا، انہیں تمام تر جنگی لوازمات و وسائل فراہم كئے اور کہا گیا كہ وه اہل سنت كا دفاع كرنے آئے ہیں اور شيعوں كو ختم كرنا ہے۔
تو پھر نتيجہ كيا نكلا؟
كيا ان تكفيری مسلح گروہوں نے نہ فقط شيعوں كو قتل كيا بلکہ اہلسنت کا بھی بے دریغ قتل عام ہوا؟
صیہونی ایجنڈے اور عرب مال سے جبهہ مقاومت پر جو جنگ مسلط کی گئی، اسكے نتائج كيا ہیں؟ اور كيا نتيجہ اخذ كیا جاسكتا ہے؟

لاكهوں عراقی اور شامی اہل سنت عوام كا قتل:
* كيا ان اہل سنت كے دفاع كiلئے آنے والوں تكفيری گروہوں نے درعا، دمشق، حمص، حماة، ادلب، حلب، الرقہ، ديرالزور اور الحسكہ ان تمام  اہلسنت اكثريتی شہروں ميں قتل عام نہیں كيا؟
انكی عزتيں نہیں لوٹی گئیں؟
انكی خواتين كو غلام بنا كر بازاروں میں نہیں بیچا؟
اسی طرح عراق ميں جاری جنگ، كيا اہل سنت كے علاقوں ميں نہیں ہو رہی؟ دنيا جہان سے آئے ہوئے دہشت گرد مقامی اہل سنت پر مسلط ہیں اور انہیں یرغمال بنايا ہوا ہے۔
* اولياء و صالحين، صحابہ و اہل بيت كی قبور منہدم كرنا، انبياء و مرسلين كے آثار مٹانا، تاريخ اسلام اور تاريخ بشريت كے گرانقدر سرمایوں کو برباد كرنا انكا شعار ہے۔
* اے علماء اسلام! كيا اسلام اور قرآن نے حدود اور سزاؤں كے احكامات نہیں بتائے؟
يہ بربريت و وحشت پر مبنی سزائیں انسانوں كو  زنده جلانا، بچوں كو جلتے تنور ميں پھینکنا، حاملہ خواتين كے پیٹ چاک كرنا وغيره وغيره، کیا یہ اسلامی سزائيں ہیں؟
اسلام كے نام پر جهاد النكاح و لواط اور انسانی گوشت كهانے كے فتاویٰ دينا اور ان پر عمل كرنا، كيا ان کو اسلامی مذاہب اربعہ میں سے کوئی قبول کرے گا؟
کیا یہ لوگ ہمارے مذہب كی نمائندگی كرتے ہیں؟
يہ دہشتگرد تکفیری قبل از اسكے كہ اہل تشيع كے دشمن ہوں، يہ اہل سنت كے دشمن ہیں اور انكے وجود سے دين اسلام خطرے ميں ہے۔ جہان اسلام كے سب علماء خواه سنی ہوں يا شيعہ، انكی ذمہ داری ہے كہ وه اپنی تاريخی و شرعی ذمہ دارياں ادا كريں اور اسلام كے لبادے ميں ان صیہونی ايجنٹوں كو بے نقاب كريں۔

محترم علماء كرام!
انكا دوسرا كام صہيونسٹوں كیخلاف برسر پیکار قوتوں کو داخلی جنگ ميں الجها دينا۔ ان تكفيريوں نے صیہونیوں کی خدمت كرتے ہوئے مشرق وسطؑى ميں آزادی اور مقاومت كی تحريكوں كو داخلی جنگ ميں الجها کر اسرائیل کو خوش کیا ہے۔ آج تكفيری گروہ اسرائيل كے دشمنوں كے خلاف اسرائيلی نيابت ميں جنگ لڑ رہے ہیں۔ مقاومت اسلامی حزب الله، فلسطينی جهادی فصائل اور شام كی فوج كی تياری اسرائيل سے لڑنے كی تهی۔ آج چار سال سے زياده عرصہ گزر چكا ہے، يہ اسرائيل دشمن فوجيں اور گروہ اپنے ملک كے اندر اسلامی بهيس ميں آئے ہوئے صیہونیوں كے خلاف لڑ رہی ہیں۔ جنكو ٹریننگ، اسلحہ، معلومات، علاج معالجہ اسرائيل فراہم كرتا ہے۔ بعض جنگجو جو مقبوضہ فلسطين ميں اسرائيل كے خلاف بر سرپیکار تهے اور آزادی كی جنگ لڑ رہے تھے، اس تكفيری فكر كی بدولت وه فلسطين اور قدس پر غاصبانہ قبضہ كرنے والا اسرائيل مخالف مورچہ چھوڑ كر ان مسلمانوں سے لڑ رہے ہیں، جنہوں نے ہر مشكل وقت ميں انكی مدد كی تهی اور انہیں پناه دی تهی۔

يہ كس كی خاطر ہو رہا ہے؟
علماء كرام بتائيں کہ اسكا فائدہ كسے پہنچ رہا ہے؟
يہ تكفيری كن قوتوں كی خدمت كرتے ہوئے عرب اور اسلامی ممالک كی فوجوں كا خون بہاتے ہیں اور انہیں كمزور كرنا چاہتے ہیں؟
كيا ان تكفيريوں نے پاكستانی، مصری، عراقی، شامی اور يمنی مسلح افواج كا خون نہیں بہايا؟
كيا انہوں نے ليبيا كو تباه نہیں كيا؟ اور كيا انكا فتنہ تيونس اور الجزائر تک نہیں پہنچا؟
كيا يہ سارا كچھ  رافضی اور صفوی ايجنڈے كے خلاف تها؟
يہ جنگ تشيع يا ايران كے خلاف نہیں، حقيقت ميں يہ جنگ صیہونی ايجنڈے كی تكميل كے لئے جہان اسلام پر مسلط كی گئی ہے اور اس كا مقصد جہان اسلام كے سب ممالک كو فرقہ، دين، قوميت اور نسل وغيرہ كي بنياد بر تقسيم کرنا، چھوٹے چھوٹے ناتوان اور كمزور ممالک ميں تقسم كرنا ہے، تاكہ سب ممالک اسرائيل كے زير سرپرستی اپنے امور چلائیں اور صیہونیوں كے غلام بن جائيں۔

ميرے عزيز بهائيوں اور بہنوں!
ہم اپنے ملک ميں گذشتہ 35 سال سے فتنہ تكفيرت كا مقابلہ كر رہے ہیں۔ پاکستانی عوام باخبر اور آگاہ ہیں كہ تكفيری گروہ امريكی و خليجی مدد اور سرپرستی سے وجود ميں آئے، یہ دہشتگرد لوگ اپنے سرپرستوں كے ايجنٹ اور انكے ايجنڈے پر عمل كرتے ہیں۔ وه اہل سنت اور اہل تشيع دونوں كو قتل كرتے  ہیں، حكومتی اداروں پر حملہ آور ہوتے ہیں اور انكے وجود سے ملک كا امن و امان خطرے ميں ہے۔ اسی لئے ہماری مسلح افواج اور امن و امان قائم كرنے والے ادارے انكے خلاف كامياب كارروائياں كر رہے ہیں، تاكہ وطن عزيز كو انكے رجس سے پاک كيا جائے۔ پوری پاکستانی عوام اپنی مسلح افواج كے پیچھے کھڑی اور اسکی بھرپور حمايت كرتی ہے۔ باكستان ميں شيعہ سنی کا کوئی مسئلہ نہیں ہے، جس طرح مغربی اور مغرب زده ميڈیا پيش كرتا ہے، ہماری مشتركہ كونسلز اور كميٹیاں ہیں، ہم آپس ميں صلاح و مشورہ بهی كرتے رہتے ہیں، تمام اہم اور حساس مسائل زير بحث آتے ہیں اور انكا حل تلاش كيا جاتا ہے۔

ہم مجلس وحدت مسلمين کے پلیٹ فارم سے اپنے سيكرٹری جنرل علامہ ناصر عباس جعفری كی ولولہ انگیز قيادت میں فعاليت كر رہے ہیں۔ ہم شہيد قائد علامہ السيد عارف حسين الحسينی كے حقیقی فرزند ہیں، جو اس وحدت اسلامی كی راه ميں شہيد ہوئے اور ہم ان کے بتائے ہوئے راستے پر گامزن ہیں۔ ہمارے وفد ميں قائد اہلسنت شہيد صاحبزاده فضل كريم كے فرزند اور بہادر و مجاہد سنی ليڈر صاحبزاده حامد رضا بهی ہیں، جو سنی اتحاد كونسل كے چیئرمین ہیں اور اس كونسل ميں شامل  22 اہل سنت جماعتوں كی سربراہی كرتے ہیں۔ ميری دوسری انتہائی فاضل شخصيت فضيلتہ الشيخ ڈاکٹر راغب نعيمی تشریف فرما ہیں، جو جامعہ نعيميہ لاہور کے پرنسپل ہیں، انكے عظيم والد اور معروف مفتی ڈاکٹر سرفراز نعيمی جو تکفیریت کے خلاف فتوىٰ دينے كے جرم ميں خودكش حملے ميں شہید كر دیئے گئے۔ اسی طرح ہمارے وفد ميں نمائنده جماعت اسلامی، سابق ممبر پارليمنٹ جناب مظفر احمد ہاشمی ہیں اور وحدت اسلامی كے علمبردار جناب مرحوم قاضی حسين احمد كی فكر كی نمائندگی كر رہے ہیں۔ اسی طرح ہمارے وفد میں فلسطين فاونڈيشن پاكستان كے جنرل سيكرٹری جناب صابر كربلائی اور ميڈیا كے مسئول جناب سيد محمد على زيدی بهی شامل ہیں۔

آخر ميں ہم اپنی اور اپنے وفد كی جانب سے يقين دلاتے ہیں كہ ہم صیہونی غاصب ايجنڈے كيخلاف ہونے والی مقاومت كی بھرپور حمايت اور مدد كرتے رہیں گے۔ ہمارا ايمان اور اعتقاد ہے كہ مقاومت كے بغير صیہونی غاصب وجود اسرائيل ختم نہیں ہوسكتا اور بغير مقاومت كے قدس شريف آزاد نہیں ہوسکتا۔ مقاومت کی راه ميں لبنان، فلسطين، شام، عراق، يمن اور پاكستان سے نائجيریا تک شہيد ہونے والے تمام مقاومين كو سلام پیش كرتے ہیں اور آپ تمام شرکاء کی اطلاع كے لئے عرض ہے کہ  پاكستانی عوام كا بيت المقدس سے اتنا گہرا تعلق ہے كہ اس سال عالمی يوم القدس كی مناسبت سے ملک بھر میں 500 سے زياده ريلياں نکالی گئیں۔ پوری دنيا ميں صیہونی ايجنڈا سے برسر پيكار مجاہدين اور مقاومين كو بهی سلام پيش كرتے ہیں، بالخصوص فخر امت اسلامیہ و سيد مقاومت علامہ مجاہد السيد حسن نصرالله اور پوری دنيا ميں بيداری اسلامی كى بابصيرت اور قابل افتخار قيادت، ولی امرالمسلمين حضرت امام خامنہ ای كو سلام پيش كرتے ہیں۔ دشمن چاہے جتنے بھیس بدل لے، ہم اسے خوب پہچانتے ہیں اور صیہونی سازشوں کے خلاف ہماری جدوجہد جاری رہے گی۔ ہم وحدت و اخوت كا پرچم بلند كركے دشمن کو ذليل و رسوا كرتے رہیں گے۔
خبر کا کوڈ : 478109
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش