0
Thursday 13 Aug 2015 12:41

یورپی داعش

یورپی داعش
تحریر: ڈاکٹر عباس لقمانی

یورپ میں داعش کی موجودگی کو مشرق وسطٰی کے خطے میں داعش کی موجودگی سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا۔ جب سے داعش نامی ایک مسلح گروہ تشکیل پایا ہے، اس وقت سے اس میں کسی قسم کی کوئی شک و تردید موجود نہ تھی کہ اس گروہ کی مالی اور اسٹریٹجک لحاظ سے حمایت کی جاتی ہے۔ یہ حمایت دو طریقوں سے انجام پاتی تھی: ایک یہ کہ بعض عرب ممالک خاص طور پر سعودی عرب اور قطر اس گروہ کو مالی مدد فراہم کر رہے تھے، جبکہ دوسرے مرحلے میں اس گروہ نے پہلے مشرق وسطٰی اور اس کے بعد یورپ سے افرادی قوت اکٹھی کرنا شروع کر دی۔ موجودہ اعداد و شمار کے مطابق مغربی یورپ سے داعش میں شامل ہونے والے افراد کی اکثریت فرانس کے جوانوں پر مشتمل ہے۔ اس کی بنیادی وجہ بھی یہ ہے کہ یورپ میں سب سے بڑی مسلمان کمیونٹی فرانس میں رہائش پذیر ہے۔ تکفیری دہشت گرد گروہ داعش میں شمولیت کے لحاظ سے مغربی یورپ کے ممالک میں سے فرانس کے بعد برطانیہ، جرمنی اور آسٹریا کا نمبر آتا ہے۔

یورپی مسلمانوں کی جانب سے تکفیری دہشت گرد گروہ داعش میں شمولیت کی کئی وجوہات ہیں، جن میں سے چند اہم وجوہات درج ذیل ہیں:
1)۔ یورپ میں بسنے والے مسلمانوں کی سماجی اور اقتصادی زندگی نسلی تعصب کا شکار ہے۔ یورپ میں رہنے والے مسلمان درحقیقت ان مسلمانوں کی دوسری یا تیسری نسل شمار ہوتے ہیں جو شمالی افریقہ سے ہجرت کرکے یورپ آئے۔ لہذا اس بنا پر انہیں یورپی ممالک میں شدید نسلی تعصب کا نشانہ بنایا گیا اور آج بڑے پیمانے پر یورپی مسلمانوں کی داعش میں شمولیت ایک قسم کا ردعمل تصور کیا جاتا ہے۔
2دوسری اہم وجہ یورپ میں موجود اسلام دشمن فضا ہے۔ یورپی ممالک میں مغربی ذرائع ابلاغ نے عوام کے اندر اسلام کا خوف بٹھا رکھا ہے، جس کی وجہ سے وہ باہر سے آئے مسلمان مہاجرین کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک اپناتے ہیں۔ اسی طرح اسلام فوبیا پر مبنی فضا بعض امتیازی رویوں کا بھی باعث بنتی ہے۔ مثال کے طور پر یورپ کے اکثر ممالک خاص طور پر جرمنی میں دیکھا گیا ہے کہ سرکاری بھرتیوں کے دوران افراد کے نام کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے اور ایسے افراد جن کا نام عربی یا اسلامی طرز پر ہوتا ہے فوراً ہی مسترد کر دیئے جاتے ہیں جبکہ یورپی یا جرمن ناموں والے افراد کو ترجیح دی جاتی ہے۔
3)۔ یورپ میں بسنے والے مسلمان افراد کی داعش میں شمولیت کی ایک اور بڑی وجہ ان میں قومی تشخص کی کمی ہے۔ اپنی آبائی سرزمین سے یورپ کی طرف نقل مکانی کر جانے کے بعد نسل در نسل ان افراد کا قومی تشخص کمزور ہوتا چلا گیا اور اب جب جوان دیکھتے ہیں کہ ایک ایسا گروہ ابھر کر سامنے آیا ہے جو "امارت اسلامی" یا خلافت اسلامی کا نعرہ لگا رہا ہے تو وہ اپنے اسلامی تشخص کے احیاء کی خاطر اس گروہ میں شمولیت کا فیصلہ کر لیتے ہیں۔

یورپ میں داعش کی تبلیغی سرگرمیاں:
تکفیری دہشت گرد گروہ داعش نے یورپ میں ایسے مراکز قائم کر رکھے ہیں جو بظاہر دینی ہیں اور وہ مذہبی سرگرمیوں کی آڑ میں داعش کیلئے افرادی قوت اور پیسہ جمع کر رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان مراکز کو دی جانے والی مالی امداد کا بڑا حصہ سعودی عرب سے آتا ہے۔ یورپی ممالک میں موجود داعش کے مراکز کا بنیادی مقصد زیادہ سے زیادہ افراد کو اپنی طرف جذب کرنا ہے۔ یہ مراکز یورپ میں رہنے والے مسلمان جوانوں کی مالی مدد بھی کرتے ہیں۔ مسلمان جوانوں کو ماہانہ تنخواہ دیتے ہیں اور انہیں روزمرہ مسائل و مشکلات جیسے روزگار، شادی وغیرہ میں بھی مدد کرنے کا وعدہ دیتے ہیں۔ ان مراکز کا طریقہ کار یہ ہے کہ وہ یورپی مسلمان جوانوں کی مالی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ شدید تبلیغاتی سرگرمیاں بھی انجام دیتے ہیں اور اس طرح سے یورپ میں تشخص کے بحران یا تحقیر کا شکار مسلمان جوانوں کو داعش میں بھرتی کرکے انہیں خودکش بمبار یا جنگجو میں تبدیل کر دیتے ہیں۔

داعش میں یورپی مسلمان جوانوں کا کردار:
یورپ سے داعش میں شامل ہونے والے مسلمان افراد داعش کے فوجی اور میڈیا شعبوں میں سرگرم ہیں۔ داعش طرز کے گروہ کو جو دنیا بھر سے آئے افراد پر مشتمل ہوتا ہے، اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کیلئے ہمیشہ نئے افراد کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ نئے افراد آنے سے ایسے گروہ کا اسٹرکچر مضبوط ہوتا ہے اور اس کی افادیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ یورپ سے آنے والے مسلمان جوان انتہائی پڑھے لکھے اور مختلف شعبوں جیسے کمپیوٹر، سینما، میڈیا، کیمسٹری، فزکس وغیرہ کے ماہر ہوتے ہیں۔ لہذا ان کی بدولت داعش کی آپریشنل اور ٹیکٹیکل صلاحیتوں میں بھرپور اضافہ ہو جاتا ہے۔ میڈیا کے شعبے میں ماہر افراد داعش کی پروپیگنڈہ مشینری کا حصہ بن کر اس کی طاقت میں اضافہ کرتے ہیں۔ اس طرح یورپی مسلمان جوانوں کی مدد سے داعش مشرق وسطٰی میں اپنی فعالیت اور سرگرمیوں کو نئی روح عطا کرتی ہے۔

یورپی یونین اور داعش:
داعش کی نظریاتی طاقت اس حد تک نہیں کہ وہ اس کے ذریعے اتنے بڑے پیمانے پر یورپی مسلمانوں کو اپنی طرف جذب کرسکے۔ دوسری طرف تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کا دنیا حتی مشرق وسطٰی کے خطے میں بھی کوئی روشن مستقبل نظر نہیں آتا۔ وہ یورپی جوان جو جذبات میں آکر داعش میں شامل بھی ہوچکے ہیں، بہت جلد اپنے فیصلے پر پشیمان ہو کر اس دہشت گرد گروہ کو چھوڑ کر چلے جائیں گے۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ چند سال بعد داعش نامی گروہ کا وجود ہی باقی نہیں رہے گا۔ اس وقت مغربی حکمران اس پریشانی میں مبتلا ہیں کہ اگر داعش میں شامل یورپی مسلمانوں میں سے دس فیصد بھی واپس وطن لوٹ آتے ہیں تو وہ یورپ کیلئے بڑا سکیورٹی بحران پیدا کرسکتے ہیں۔ داعش جیسے دہشت گرد گروہ میں ٹریننگ حاصل کرنے کے بعد ان افراد کی ممکنہ یورپ واپسی اس براعظم کیلئے ایک بڑا خطرہ تصور کی جا رہی ہے۔ واپس آنے والے افراد میں سے ہر فرد ایک چلتا پھرتا بم سمجھا جائے گا۔ لہذا پہلے مرحلے پر یورپی حکومتوں کی کوشش ہے کہ وہ مسلمان جوانوں کو تکفیری دہشت گرد گروہ داعش میں شمولیت سے روکیں۔ دوسرے مرحلے پر یورپی ممالک مسلمان مہاجرین کے خلاف امتیازی رویوں اور سلوک میں کمی لانے کی کوشش کر رہے ہیں، تاکہ اس طرح مسلمان جوانوں کو داعش کی طرف جانے سے روکا جاسکے۔ یورپی حکام نے سماجی اور اقتصادی راہ حل کے ساتھ ساتھ اس مسئلے سے نمٹنے کیلئے کچھ سکیورٹی اقدامات بھی انجام دیئے ہیں۔ ان اقدامات کے ذریعے داعش کا مقابلہ کرنے اور سکیورٹی صورتحال کو کنٹرول کرنے کی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس طرح ایک طرف تو داعش کو افرادی قوت کی فراہمی روکنے کی کوشش کی گئی ہے اور دوسری طرف ان افراد کو بھی کنٹرول کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جو پہلے سے داعش میں شمولیت اختیار کرچکے ہیں۔

یورپ میں داعش کا مستقبل:
داعش کیلئے یورپ سے افرادی قوت جمع کرنے کا اصل منبع ناراضی مسلمان جوان ہیں۔ ایسے جوان جو نچلے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ سماجی اور اقتصادی محرومیت کا شکار ہیں۔ یورپی حکام کو یہ مسئلہ جڑ سے ختم کرنا پڑے گا۔ دوسری طرف داعش کے نظریات میں اس قدر طاقت نہیں کہ وہ پورے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیں کیونکہ یورپی عوام میں یہ نظریات زیادہ مقبولیت کے حامل نہیں۔ اسی طرح داعش کی طرف سے انجام پانے والے غیر انسانی اور دہشت گردانہ اقدامات نے اس گروہ کی نسبت لوگوں میں نفرت بڑھا دی ہے۔ لہذا یورپ میں داعش کا مستقبل انتہائی تاریک نظر آتا ہے۔ 
خبر کا کوڈ : 479623
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش