QR CodeQR Code

دنیا کی چھت، بحرگل اور ارض بہار سے منسوب دیوسائی بلتستان کے ماتھے کا جھومر

14 Aug 2015 22:27

اسلام ٹائمز: کوئی حتمی طور پر نہیں بتا سکتا کہ یہ جگہ جنت کے ہونے کی دلیل ہے، کسی معصوم ہستی کی دعاوں کا نتیجہ ہے یا دنیا کی ثبات (سائنسی نکتہ نگاہ سے گرین ہاوس ایفکٹس کو کم کرنے اور ایکو لوجیکل نظام کو قائم رکھنے یعنی دنیا کو تباہی و بربادی سے بچانے کے ایسے مقامات کی موجودگی سے انکار ممکن نہیں) کے لئے لازمی و واجبی۔ کچھ بھی ہو اہل نظر نے اسے دنیا کی جنت بھی قرار دیا ہے اور دنیا کی چھت بھی، بحر گل کا نام بھی دیا ہے اور ارض بہار بھی ( دیوسائی دنیا کی چھت کی معروف ہے جبکہ ایک انگریزی مصنف نے اپنے سفر نامے میں اسے Ocean of Flowers قرار دیا ہے جبکہ مقامی بلتی زبان میں اسے غبیر سا یعنی ارض بہار کہا جاتا ہے) جبکہ دیوسائی کی جنوب میں موجود ضلع استور کی شینا زبان میں دیوسائی یعنی دیو اور پریوں کے رہنے کی جگہ قرار دیکر زیب داستان میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔


رپورٹ: میثم بلتی

کوہ قاف پہ حسین و جمیل پریوں کے اترنے کی، گانے کی اور گنگانے کی کہانیوں سے کون آشنا نہیں، لیکن ان کہانیوں اور افسانوں کے لکھنے والوں نے کبھی دیوسائی (اسکردو میں موجود ایک عظیم اور حسین ترین سطح مرتفع) کا نظارہ کیا ہوتا تو ضرور پریوں کے اترنے کی گواہی بھی دے دیتے اور اسے پریوں کی آماجگاہ قرار دیتے۔ اگر جنت نظیر وادی کشمیر کے بارے میں رائے قائم کرنے والے حکیم الامت، ’’اگر فردوس بر روئے زمین است، ہمیں است و ہمیں است ہمیں است ‘‘ شعر کے خالق دیوسائی میں گنگاتی خاموشی، مہکتے پھول، چہکتی کلیاں، مچلتی یخ بستہ ہوائیں، ہیرے کی مانند چمکتے پانی، اٹھکیلیاں کرتے دنیا بھر میں معدوم بھورے رنگ کے ریچھ، دریا کے سینے پر کھیلتی، تیرتی اور دریائی بہاو کے مخالف سمت پانی کو چیرتی نکلتی مچھلیاں، اڑتی رنگ برنگ کی تتلیاں، ترارے بھرتی ہرنیں، کوکو کرتی کوئل، منڈلاتے عقاب اور شاہین، سیٹیاں بجاتی گلہریاں، یاقوت کی مانند نیلے نیلے آسمان، گھنگھور گھٹائیں، پل میں رنگ بدلتے آسمان، چھم چھم کے اور جم جم کے برستی بارش، گھٹا ٹوپ اندھیرے میں بھٹکتے مسافروں کی مانند چمکتے جگنو، یہ قدرت سے ابھارا ہوا نقش و نگار، تاحد نگاہ لہلہاتے سبزہ زار، فطرت سے مشاطہ شدہ کیاریاں اور پھول، قدرت کا سینچا ہوا روش اور سطح سمندر سے سولہ ہزار فٹ کی اونچائی پر چمکتی جھیل اور اس جھیل کے اوپر موجیں کرتی موجیں، منڈلاتے اور آسمان پر مخمور پھیلتے رخ بدلتے بادلوں کو دیکھتے تو ضرور کہتے کہ فردوس کہیں نہیں یہیں ہے اور صرف یہیں ہے۔

بغیر کسی مبالغے کے کہا جاسکتا ہے کہ کوئی ایک بار یہاں پر آئے تو دل و جان یہاں چھوڑ کے ہی جاسکتا ہے۔ دنیا کی چھت کہنے والی سرزمین پر انسان کو یقین نہیں آتا کہ یہ حقیقت ہے یا کوئی خواب دیکھ رہا ہے۔ اتنی بلندی پر قدرت کی خلاقیت اور رزاقیت پر یقین کامل اس وقت ہوتا ہے جب انسان کو معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ سرزمین کم و بیش آٹھ ماہ برف کی چادر اوڑھ لیتی ہے اور ہر طرف سفید ہی سفید نظر آتا ہے اور تقریباً تیس فٹ برف پڑتی ہے لیکن اس سخت ترین سردی میں بھی اس سطح مرتفع پر موجود جھیل و دریاوں کی مچھلیاں زندہ، بلوں میں موجود لاکھوں کی تعداد میں گلہریاں اور دنیا کے نایاب بھورے ریچھ بھی رزق حیات سے بہرہ ور رہتے ہیں۔ سطح سمندر سے سولہ ہزار کی بلندی پر موجود ہونے سے زمین اور چاند کا فاصلہ سمٹ کر رہ جاتا ہے اور چاندنی رات کو مسحور کن عالم ہوتا ہے، جھیل کنارے یا بہتے صاف و شفاف پانی کے کنارے ناقابل یقین حد تک بڑا مہتاب عالم تاب اور اسکی غیر معمولی چاندنی کے سبب سورج کا گمان ہوتا ہے۔ رات کے آخری پہر جب پرندہ ھائے شب بھی خاموشی اختیار کرے اور ہو کا عالم ہو تو اس وقت خاموشی گنگناتی ہے اور خوب گنگناتی ہوئی محسوس ہوتا ہے۔ دیوسائی کے میدان میں موجود رنگ برنگے پھولوں کی ترتیب، کیاریوں کی ترتیب اور ہر قطار میں موجود الگ الگ پھول سے گمان ہوتا ہے کہ نادیدہ مخلوقات اور منتخب و مقرب مخلوقات لاکھوں کی تعداد میں قدرت کے اس چمن کی تزئین و آرائیش کے لئے مامور ہیں اور وہ اپنے فرائض میں ذرہ برابر بھی کوتاہی کے قائل نہیں۔ آئینہ تجرید اور تصورات و خیالات کی دنیا سے نکل کر بھی دیکھا جائے تو ہر چشم بینا کے لئے یہ مناظر مسحور کن ہے، اسے دیکھ کے بلاشبہ سبحان اللہ، ماشاءاللہ، لاحول ولا قوہ بے ساختہ طور پر لب اظہار کی زینت بن جاتی ہے اور کہا جاسکتا ہے کہ یہاں پر خوبصورتی اور حسن و رعنائی کو درک کیا جاسکتا ہے۔

راقم نے اس مقام پر بہت سے اللہ والوں کو کم سن بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کے روتے بھی دیکھا، شاید یہ مقام پاک و منزہ اور انسانی چیرہ دستیوں سے مبرا اور پرودگار کے احسن الخالقین ہونے کے بینّ دلیل فراہم کرنے کے سبب انسان قرب الہی اختیار کرتا ہوا اور راز و نیاز کے عقدے کھلنے لگتے ہیں، یا یوں کہوں کہ یہاں پر شاید فکر انسانی کو اس بلندی پر بلندی عطا ہوتی ہو یا نعمت خداوندی کا احساس ہوتا ہو۔ کچھ بھی ہو، انسان کے اندر کی دنیا میں بھونچال سا ضرور آہی جاتا ہے۔ کوئی حتمی طور پر نہیں بتا سکتا کہ یہ جگہ جنت کے ہونے کی دلیل ہے، کسی معصوم ہستی کی دعاوں کا نتیجہ ہے یا دنیا کی ثبات (سائنسی نکتہ نگاہ سے گرین ہاوس ایفکٹس کو کم کرنے اور ایکو لوجیکل نظام کو قائم رکھنے یعنی دنیا کو تباہی و بربادی سے بچانے کے ایسے مقامات کی موجودگی سے انکار ممکن نہیں) کے لئے لازمی و واجبی۔ کچھ بھی ہو اہل نظر نے اسے دنیا کی جنت بھی قرار دیا ہے اور دنیا کی چھت بھی، بحر گل کا نام بھی دیا ہے اور ارض بہار بھی (دیوسائی دنیا کی چھت کی معروف ہے، جبکہ ایک انگریزی مصنف نے اپنے سفر نامے میں اسے Ocean of Flowers قرار دیا ہے جبکہ مقامی بلتی زبان میں اسے غبیر سا یعنی ارض بہار کہا جاتا ہے) جبکہ دیوسائی کے جنوب میں موجود ضلع استور کی شینا زبان میں دیوسائی یعنی دیو اور پریوں کے رہنے کی جگہ قرار دیکر زیب داستان میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔

اس نعمت خداوندی کی سطح سے نیچے موجود ذخائر و معادن تک ید انسانی کا پہنچنا تو درکنار، اس کی سطح پر موجود سینکڑوں نادر و نایاب جڑی بوٹیوں کی ماہیت و اثرات اور انواع پر لقمانی نگاہ تاحال نہیں پڑسکی ہے اور نہ ہی مسیحا صفت اطباء ان کی دولت معرفت سے مستفیض ہوسکے ہیں۔ کوئی یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ سینکڑوں اقسام کے پھول اور جڑی بوٹیاں کیا صرف ماحول میں حسن و رعنائی بکھیرنے کے لئے ہیں یا ان کے فوائد بھی ہیں اور اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں۔ متعدد جڑی بوٹیوں کی معرفت کے بعد مقامی لوگ ان سے مستفید بھی ہو رہے ہیں۔ دنیا میں ناپید بھورے رنگ کا ریچھ صرف اس مقام پر کیوں ہے، یہ بھی شاید کوئی نہ بتا سکے۔ اس میدان میں موجود تمام تر رعنائیوں کو کیمرہ کی آنکھ میں محفوظ کرنا بھی چند ساعت کا کام نہیں بلکہ تین ہزار مربع کلومیٹر پر محیط اس جنت نظیر میدان میں گھومنے اور تمام تر مناظر کو محفوظ کرنے کے لئے کم از کم ایک ہفتہ درکار ہوتا ہے۔ بہت زیادہ بلندی پر ہونے اور وسیع میدان ہونے کی وجہ سے دیوسائی کو دفاعی اہمیت بھی حاصل ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں سے انڈیا، چائینہ، افغانستان اور تاجکستان کی پاکستان کی شمال مغربی، اور شمالی فضائی سرحدوں کی آسانی سے نگرانی ہوسکتی ہے۔ اس سرزمین کی ثقافتی اور تاریخی اہمیت بھی غیر معمولی ہے۔ مختصر یہ کہ دیوسائی کو گلگت بلتستان کے ماتھے کا جھومر کہا جاسکتا ہے۔
نوٹ: حسن و رعنائی کے علاوہ دیوسائی کی دفاعی، سائنسی، تاریخی اور ثقافتی اہمیت بھی منفرد ہے اور یہ موضوع تفصیلی رپورٹ کا متقاضی ہے۔


خبر کا کوڈ: 479879

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/479879/دنیا-کی-چھت-بحرگل-اور-ارض-بہار-سے-منسوب-دیوسائی-بلتستان-کے-ماتھے-کا-جھومر

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org