1
0
Friday 14 Aug 2015 23:04

اسلامی آزادی میں پاکستان کو درپیش مسائل

اسلامی آزادی میں پاکستان کو درپیش مسائل
تحریر: سید حسن رضا نقوی

ہندوﺅں کے لئے بھارت ماتا نہایت مقدس تصور ہے اور مسلمانوں کے نزدیک اسلام کا تشخص ایک مقدس تصور ہے۔ دسمبر 1930ء میں علامہ اقبال نے آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس منعقدہ آلہ آباد میں ایک بلیغ عالمانہ خطبہ دیا، جو آگے چل کر قیام پاکستان کی فکر تک پہنچا اس صدارتی خطبہ کے اقتباس کا ترجمہ درج ذیل ہے، ”میں آپ کا بے حد ممنون ہوں کہ آپ نے ایک ایسے وقت میں مجھے آل انڈیا مسلم لیگ کی صدارت کا اعزاز بخشا ہے جبکہ مسلمانان ہندوستان کی سیاسی زندگی نے ایک نہایت ہی نازک صورت اختیار کر لی ہے، مجھے یقین ہے کہ اس عظیم الشان اجتماع میں، ان حضرات کی کمی نہیں جن کا تجربہ مجھ سے کہیں زیادہ وسیع ہے اور جن کی معاملہ فہمی کا میں دل سے قائل ہوں، لہٰذا یہ بڑی جسارت ہوگی، اگر میں ان مسائل میں جن کے فیصلے کے لئے آج یہ حضرات یہاں جمع ہوئے ہیں، ان کی رہنمائی کا دعویٰ کروں۔ میں نے اپنی زندگی کا زائد حصہ اسلام اور اسلامی فقہ و سیاست، تہذیب و تمدن اور ادبیات کے مطالعے میں صرف کیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس مسلسل اور متواتر تعلق کی بدولت جو مجھے تعلیمات اسلامی کی روح سے رہا ہے، میں نے اس امر کے متعلق ایک خاص بصیرت پیدا کر لی ہے کہ ایک عالم گیر حقیقت کے اعتبار سے اسلام کی حیثیت کیا ہے، میں صرف ہندوستان اور اسلام کی فلاح و بہبود کے خیال سے ایک منظم ”اسلامی ریاست“ کا مطالبہ کر رہا ہوں، اس سے اسلام کو اس امر کا موقع ملے گا کہ وہ ان اثرات سے آزاد ہوجائے، جو عربی شہنشاہیت کی وجہ سے اب تک اس پر قائم ہیں اور اس جمود کو توڑ ڈالے جو اس کی تہذیب و تمدن، شریعت اور تعلیم پر صدیوں سے طاری ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس ملک میں اسلام بحیثیت ایک تمدنی قوت کے زندہ رہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایک مخصوص علاقے میں اپنی مرکزیت قائم کرسکے“۔

اِسی طرح قائد اعظم کی نظر میں بھی حصول پاکستان بذات خود مقصد نہ تھا بلکہ ایک ارفع و اعلٰی منزل کی جانب ایک اہم قدم تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ پاکستان کے ذریعے اسلام کا نظام عدل معاشرہ میں نافذ کیا جاسکے۔ قائد اعظم نے اپنے لاہور کے ایک خطاب میں یہ کہا تھا کہ اسلام اور پاکستان کو مضبوط بنانے کے لئے ابھی مزید قربانیوں اور پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اس تصور کو بھی اجاگر کیا کہ تیرہ صدیاں قبل اسلام نے جن اصولوں کو پیش کیا تھا، وہ آج بھی نافذ العمل ہیں۔ انہوں نے مساوات، حریت اور بردباری کے اسلامی اصولوں کا کئی بار ذکر کیا۔ نظام معیشت کے حوالے سے قائد اعظم نے کہا کہ مغربی طرز معیشت ہمارے مسائل حل نہیں کرسکتا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں دنیا کے سامنے اسلامی اصولوں کی بنیاد پر نظام ربوبیت کو پیش کرنا ہے اور بنی نوع انسان کو عالمی امن کا پیغام دے کر ان کی ترقی، فلاح اور خوشیوں کی ضمانت مہیا کرنا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے سٹیٹ بینک کے افتتاح پر کیا تھا، جو اتفاق سے ان کی آخری تقریر ثابت ہوئی۔ ہندوﺅں کے نزدیک مسلمان الگ وطن کا مطالبہ کرکے گویا ہندوﺅں کے بھارت ماتا کے تصور کو ختم کرنا چاہتے تھے۔ لہذا ہندوﺅں کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف شدید نفرت اور دشمنی پیدا ہوگئی اور اِس دشمنی کا ظہو ر تقسیم ِ ہند کے وقت شدت اختیار کر گیا۔ چنانچہ مسلمانوں کا قتل عام ہوا، انسان بھیڑیوں سے بڑھ کر سفاک بنا، چھوٹے چھوٹے بچوں کو نیزوں پر پُرویا گیا، لاکھوں عورتوں کی عصمت دری ہوئی، بے شمار عورتیں اغوا ہوئیں، لاکھوں آدمی قتل ہوئے اور اسلام کے نام پر ایک علیحدہ اسلامی مملکت کا حصول ممکن ہوسکا۔

دنیا میں اس وقت کم و بیش پچاس ایسی حکومتیں ہیں جو اسلامی حکومتیں کہلاتی ہیں۔ کیا یہ سب حکومتیں واقعاً اسلامی حکومتیں ہیں؟ یا صرف اس بنا پر کہ ان کے حکمران واقعاً یا برائے نام مسلمان ہیں یا ان حکومتوں پر اسلامی حکومت کا لیبل چسپاں کر دیا گیا ہے۔ اگر اس مسئلہ پر حقائق کی روشنی میں انصاف سے غور کیا جائے تو یہ اعتراف کرنا پڑے گا کہ درحقیقت حکمران کا مسلمان ہونا اس بات کی دلیل نہیں کہ حکومت بھی اسلامی ہے۔ شاید یہ کہنا درست ہو کہ ہمارے موجودہ پالیسی ساز جو پاکستان کی اندرونی و بیرونی پالیسی پر اثر انداز ہوتے ہیں، یہ بھارت دشمنی کی ذہنیت اور دو قومی نظریئے کا محض بہانہ بناتے ہیں۔ اگر پاکستان اسلامی مُلک ہے تو اسلام کا مستقبل دُنیا کے مستقبل کے ساتھ جُڑا ہوا ہے کہ نہیں، یہ بھی ابھی تک سوال بنا ہوا ہے۔ کیا ہر سوال کا جواب بھارت کو سامنے رکھ کر دیا جائے گا؟ بھارت سے جنگ کرتے رہنا کیا ہمارے وجود کی شرط ہے؟ کیا ”بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی“ کا فلسفہ علمی اور عقلی بحث کے ذریعے سے ماننا ممکن نہیں ہے؟ دو قومی نظریئے کے سنجیدہ طالب علم کو معلوم ہے کہ یہ تشخص کا معاملہ ضرور ہے لیکن تصادم کا نہیں۔ مثلاََ اگر ہم امریکہ سے نفرت کی نفسیات کا مطالعہ کریں تو اِس کی بنیاد نہ تو قومی آزادی کے جذبوں میں ملے گی اور نہ ہی انسانی ہمدردی اور انصاف کے تقاضوں میں بلکہ اِس نفرت کی جڑیں اسلامی تشخص میں ملیں گی۔ کیا اِس وقت پاکستان کو مذہبی بنیاد پر چلانے کا کوئی فکری، اخلاقی یا سیاسی جواز موجود ہے؟ پاکستان کی موجودہ حکمت ِ عملی کے انتشار کا سبب یہی افکار ہیں۔ ایسے افکار کی صحت یا نقص کا فیصلہ تفصیلی فکری بحثوں کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

مسلم معاشروں کی نشوونما کا بہترین نسخہ عدل اور رجولیت ہے۔ عدل عملی زندگی سے لیکر افکار تک اور فکری عدل کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ خود پسندی کا شکار ہوئے بغیر دوسروں کی راہنمائی کی جائے، لیکن فکری خود پسندی کا مرکزی احساس اِس دعویٰ سے ہوتا ہے کہ ہر کوئی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ ہم ”تحریک ِاسلامی کا ہراول دستہ ہیں، کیونکہ یہ ملک اسلام کے نام پر لیا گیا تھا“ اور دوسری طرف یہ لوگ جو پاکستان میں عملی طور پر اسلامی حکومت نافذ کرنا چاہتے ہیں، لیکن چونکہ اسلامی حکومت کے عینی اور حقیقی صورت میں قائم ہونے کو چودہ صدیاں گزری ہیں اور خاص طور پر اِس دوران رونما ہونے والی عظیم تبدیلیوں کے پیش نظر لوگوں کے لئے واضح نہیں ہے کہ سلطنتی حکومت کے کھنڈرات پر تشکیل پانے والی اسلامی حکومت کیسی ہوگی اور مختلف مسائل بالخصوص عصر حاضر کے رونما ہونے والے حوادث سے کیسے مقابلہ کیا جائے اور معلوم نہیں کہ رہبر کیسا ہوگا اور کیا یہ حکومت بھی دنیا کی رائج دوسری حکومتوں کی مانند ہوگی؟ تو اگر بالفرض پاکستان میں قیام ِاسلام کا مرحلہ عملاََ تکمیل ہوجاتا ہے، تو اِس کے بعد کا جو مرحلہ ہوگا، وہ اُن وعدوں کی تکمیل کا مرحلہ ہوگا، جو اسلامی حکومت کے قیام کی بنیاد ہیں، یعنی اسلامی دائرہ میں عوام کے مسائل کا حل اور خیر و خوبی سے لبریز معاشرہ کا قیام۔ اگر یہ وعدے پورے نہیں ہوتے تو اسلامی حکومت سے لوگوں کے بددل ہونے کا شدید خطرہ ہوگا۔

ہمارے ہمسایہ ملک ایران میں اسلامی حکومت کے عملاََ قیام کو اِتنی اُلجھنوں کا سامنا نہیں تھا، جتنا پاکستان میں اسلامی حکومت کے قیام کو ہوگا کیونکہ ایران میں دینی اور سماجی مسائل تھے، جو چند ہزار افراد کو پھانسیاں دینے یا لاکھ دو لاکھ افراد کی قید و جلا وطنی سے یا پھر عورتوں کو حجاب کا پابند کرنے سے کافی حد تک حل ہوگئے تھے۔ ایران میں انقلاب ِاسلامی کو ایک اور آسانی یہ ہے کہ علماء کے ذریعے اجتہاد کے ایسے راستے کُھلے ہیں، جن سے جدید دور کے فکری اور سماجی اصول جوں کے توں رائج رکھے جاسکتے ہیں، لیکن پاکستان میں اسلامی معاشرے کو زبردست مالی، معاشی، انتظامی اور معاشرتی مسائل کا سامنا ہوگا۔ اگرچہ معارف ِاسلامی بیان کرنے سے عوام کو سادہ زندگی کے اسلامی اصول اپنانے پہ قائل کیا جاسکتا ہے اور مادیت کی پرچھائیاں جو جدیدیت کے نام سے لوگوں کے دلوں میں موجود ہیں، اُن کو نکالا جاسکتا ہے۔ میں نے یہ نظریاتی خاکہ حتی المقدور مبالغہ سے پرہیز کرتے ہوئے بیان کیا ہے اور جب ایسے خاکے کا بیان بے تکلف انداز سے کیا جاتا ہے، تو شاید مزاحیہ، غیر سنجیدہ اور مبالغہ آرائی دکھائی دیتی ہے اور یہ بات اپنی جگہ ایک الگ المیہ ہے۔
خبر کا کوڈ : 479890
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

عرفان علی
Pakistan
ایک اچھا زاویہ فکر و نظر۔ احسنت
عرفان علی
ہماری پیشکش