0
Thursday 20 Aug 2015 13:31

دل کا کیا کریں صاحب

دل کا کیا کریں صاحب
تحریر: عقیل احمد

اس بار پاکستانی قوم نے اپنا اڑسٹھواں یومِ آزادی ایک نئے ولولے اور جوش سے منایا۔ ہر طرف عید کا سا جشن اور سماں تھا۔ بڑی عمارتوں پر چراغاں اور پاکستانی پرچم والی جھنڈیوں نے ہر سُو رنگ بکھیر دیئے۔ سرکاری اور نجی طور پر آتشبازی کے شاندار مظاہروں، منچلوں کے بھنگڑوں اور بزرگوں کی آنکھوں میں ایک نئی چمک نے دہشت گردی کے ناسُور سے تنگ پاکستانی قوم کا ایک نیا چہرہ دنیا سے روشناس کرایا۔ یہ سب کرنے کے باوجود پاکستانی معاشرے کا وجود کہیں نہ کہیں سے بہت کھوکھلا لگا۔ یہ ہومِ آزادی ہمارے ذہنوں پر بہت سے سوالات چھوڑ گیا۔ بہت سی ایسی باتیں ہیں جنکا سوچ کر روح تک کانپ اُٹھتی ہے۔ بہت سے ایسے مسائل ہیں جو حل طلب ہیں۔ دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح آج ہمارے پاس بھی مینارِ پاکستان، مزارِ اقبال، فیصل مسجد اور مزارِ قائد جیسی کئی یادگاریں قومی یکجہتی کی علامت کے طور پر موجود ضرور ہیں، مگر حقیقت میں ہم صوبائیت، لسانیت اور فرقہ واریت جیسی لعنتوں کا شکار ہو کر ایک قوم کہلانے کی کسی بھی تعریف پر پورا اُترنے کے لائق نہیں ہیں۔ معاشرتی طور پر انفرادیت کا شکار اِس پاکستانی معاشرے کی ثقافت، روایات اور طرائق و اطوار کچھ بھی اپنا نہیں لگتا۔ سب کچھ پرایا اور ادھارا لگتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دکھاوے کی پاکستانیت زور پکڑتی جا رہی ہے جبکہ حقیقی زندگی میں ہم ذہنی، معاشی، معاشرتی اور روحانی تنزلی کی طرف بڑھتے جا رہے ہیں۔

ہم ایک ایسی قوم ہیں کہ جسکی قومی زبان اردو آج اڑسٹھ سال گزر جانے کے باوجود بھی نہ صرف دفتری زبان نہیں بن سکی بلکہ آج ایک عام پاکستانی ٹھیک طریقے سے اردو بول بھی نہیں سکتا۔ اردو زبان میں بات کرتے ہوئے شرم محسوس کی جاتی ہے کہ اگر انگریزی زبان یا انگرایزی زدہ اردو میں بات نہ کی تو لوگ ہمیں کمتر اور پینڈو سمجھیں گے۔ حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ آج پاکستان کی سپریم کورٹ کو کہنا پڑ گیا کہ ملک میں اردو زبان کے دفتری زبان کے طور پر نفاذ میں پاکستان کے کرتا دھرتا سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ دوسری طرف نظر دوڑائی جائے تو لاقانونیت اور اقرباء پروری نے اِس معاشرے کو معاشی اور معاشرتی بدحالی میں دھکیل دیا ہے۔ ایسا نظر آتا ہے جیسے اِس ملک میں وہی طبقہ خوشحال رہ سکتا ہے، جس کے پاس ڈھیر سا پیسہ ہو یا پھر گولی کی طاقت کے بل بُوتے پر نچلے طبقے پر راج کرسکتا ہو۔ پاکستانی معاشرے میں ایک عام تاثر یہی ہے کہ غریب کا کوئی پُرسانِ حال نہیں۔ بس جس کے پاس پیسہ یا کوئی سفارش ہے، وہ اپنا مُشکل سے مُشکل کام بھی آسانی سے نکلوا سکتا ہے۔ اسکے علاوہ تیسری طاقت گولی کی ہے کہ دوسروں کو ڈرا دھمکا کر دھونس دھاندلی سے اپنا کام نکلوا لیا جائے۔

معاشرتی تنزلی کی ایک اور بڑی مثال حال ہی کی لی جاسکتی ہے۔ گذشتہ برس جب پاکستان تحریکِ انصاف اور عوامی تحریک کے اسلام آباد میں دھرنوں کے دوران جب کسی نے اپنی شلوار دھو کر سپریم کورٹ کے جنگلے پر لٹکائی تو عالٰی عدلیہ فوری طور پر حرکت میں آئی۔ ایک سو موٹو نوٹس بھی لیا گیا مگر آج جب قصور میں سینکڑوں بچوں کی شلواریں بے دھڑک اتار کر انکی آبروریزی کی گئی تو ایسا کوئی عمل دیکھنے کو نہیں ملا۔ اور تو اور قومی اسمبلی میں بھی اس مسئلے کو ایک صوبائی مسئلہ قرار دے کر تحریکِ التوا کو مسترد کر دیا گیا۔ اسکے ساتھ ساتھ پنجاب کے وزیرِ قانون نے تو اسے جائیداد کا تنازعہ قرار دے کر مٹی پانے کے فارمولے پر عمل کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ ایک ایسے وقت میں جب ملزمان اپنے جرم کا اعتراف کرچکے تھے، پنجاب کے وزیرِاعلٰی نے اس مسئلے پر جوڈیشیل کمیشن کی تشکیل کی بات کرکے متاثرین کے زخموں پر مزید نمک چھڑک دیا۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں ملک کی آدھے سے زیادہ آبادی سطح غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہو، جہاں 70 فی صد سے زیادہ نوجوان نسل تعلیم حاصل کرنے سے قاصر ہو، جہاں عوام کو صحت جیسی سہولت کی فراہمی کے نام پر چونا لگا دیا جاتا ہو، جہاں بجلی، پانی اور قدرتی گیس جیسی سہولتیں بے پناہ قدرتی ذخائر ہونے کے باوجود ناپید ہوتی نظر آتی ہوں اور جہاں امیر، امیر سے امیر تر اور غریب نہ صرف غریب سے غریب تر ہوتا جا رہا ہو بلکہ ملک میں غربت کی بجائے غریب ختم کرنے کی ترکیب استعمال کی جاتی ہو، وہاں حقیقی جذبات سے عاری اس طرح کے جشن کھوکھلے ہی محسوس ہوتے ہیں۔
مگر دل کا  کیا کریں صاحب، پھر بھی دل ہے پاکستانی
خبر کا کوڈ : 480775
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش