1
0
Wednesday 26 Aug 2015 14:34

کسالت و سستی باعث عقب ماندگی

کسالت و سستی باعث عقب ماندگی
تحریر و ترتیب: جاوید عباس رضوی

انسان کی اسکے روز مرہ امور میں سستی اسے دائمی سست بنا دیتی ہے، دائمی سستی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان کو دنیا اور آخرت میں پشیمانی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا، سستی دنیا اور آخرت میں انسان کو خالی ہاتھ رکھتی ہے، سستی و کسالت کا لازمہ یہ ہوتا ہے کہ انسان نہ صرف اپنی دنیا اور آخرت خراب کرتا ہے بلکہ اپنے دوستوں اور وابستگان کے حقوق بھی تلف کرتا ہے، ایک سست فرد کی وجہ سے اس کے ساتھ رہنے والے دیگر افراد بھی متاثر ہوتے ہیں، سست فرد دیگر معاشرے کے لئے بوجھ اور سر درد ہے، اور ایک فعال اور سرگرم فرد معاشرے کے لئے نعمت اور سربلندی کا باعث ہوتا ہے، میں نے ایسے بڑے بظاہر ذہین اور پڑھے لکھے افراد دیکھے ہیں جو کہولت کی وجہ زندگی کے مقاصد سے کوسوں دور تو رہے ہی ہیں، ساتھ ساتھ دوسرے افراد پر بوجھ بھی، اور ایسے بھی افراد دیکھے ہیں جو کم تعلیم، کم ذہنیت کے ہوتے ہوئے بھی زندگی کے اعلٰی اہداف تک رسائی حاصل کرچکے ہیں اور دیگر معاشرے کو بھی راحت میسر کرکے مستفید کرتے رہتے ہیں۔ غرضیکہ کاہل انسان اگرچہ دیگر اعلٰی صفات کا مالک ہو، اپنے اہداف کو مکمل طور پر نہیں پہنچ سکتا ہے، اور فعال اور سرگرم انسان اگرچہ متوسط خصوصیات کا حامل ہو، اپنی جدوجہد کے نتیجہ میں کامیابی سے قریب تر ہوتا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسل مندی اور سستی سے پناہ مانگی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سستی کا رویہ آخرت کے لئے بھی اتنا ہی نقصان دہ ہے جتنا دنیاوی معاملات کے لئے۔ سستی و کہولت سے متعلق تمام احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ سستی باعث ہے دائمی عقب ماندگی اور دنیا و آخرت کے نقصان کی۔ امام علی (ع) سستی کے متعلق فرماتے ہیں کہ ’’کاہلی آخرت کو تباہ کر دیتی ہے اور جو دائمی طور پر سست رہتا ہے وہ اپنی آزادی میں ناکام رہتا ہے۔’’ امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں کہ ’’سستی اعمال کی دشمن ہے۔‘‘ مزید فرماتے ہیں کہ ’’اگر ثواب خدا کی طرف سے (ملنا) ہے (اور یقیناً ملنا ہے) تو پھر سستی کیسی۔’’؟ امام محمد باقر (ع) فرماتے ہیں کہ ’’میں اس شخص سے سخت ناراض ہوں جو اپنے دنیوی امور میں کاہلی برتتا ہے، کیونکہ جو اپنے دنیوی امور میں کاہلی سے کام لیتا ہے، وہ اخروی امور کے بارے میں تو اور بھی زیادہ کاہل ہوتا ہے۔ (فروع کافی جلد ۷۵۵) دوسری جگہ آپ (ع) فرماتے ہیں کہ ’’تلاش معاش میں سستی کا مظاہرہ نہ کرو، کیونکہ ہمارے بزرگ اس بارے میں بڑی دوڑ دھوپ سے کام لیتے اور روزی تلاش کرتے تھے۔’’ ‘‘دو قسم کی عادتوں سے بچا کرو، تنگدلی اور سستی سے کیونکہ اگر تنگدلی اختیار کرو گے تو حق بات پر صبر نہیں کرسکو گے اور اگر سستی کرو گے تو کوئی حق ادا نہیں کرپاؤ گے۔" کسالت و سستی کے حوالے سے امام محمد باقر (ع) فرماتے ہیں کہ ’’کاہل انسان دین اور دنیا دونوں کو نقصان پہنچاتا ہے۔’’ امام رضا (ع) فرماتے ہیں کہ ’’انسان کے پاس معاش کو بہتر بنانے کے لئے سوائے تلاش و کوشش کے کوئی راستہ نہیں ہے، پس تلاش و کوشش کو مت چھوڑو۔’’ امام علی (ع) فرماتے ہیں کہ ’’جب کاہل اور ناکارہ افراد عمل میں کوتاہی کرتے ہیں تو اللہ کی طرف سے یہ عقلمندی کے لئے ادائے فرض کا بہترین موقع ہوتا ہے۔’’

عملی جدوجہد اور محنت:
اس میں کوئی شک نہیں مولائے کائنات علی (ع) ہر میدان میں محنت اور مشقت کرتے تھے، چاہیے وہ جنگ کا میدان ہو یا پھر نخلستان کے باغات کی آبیاری کا کام ہو، میدان علم ہو یا میدان عمل، ہر جگہ جدوجہد اور تلاش جاری رکھتے تھے، اس حیثیت سے نہج البلاغہ کا مثالی معاشرہ کاہلی اور سستی سے دور ایک زحمت کش، عملی جدوجہد اور سعی و تلاش کرنے والے افراد کا معاشرہ ہے، جہاں غربت اور افلاس کی کوئی جگہ نہیں ہے، وہاں کے لوگ اپنی محنت اور مشقت کے بل بوتے پر آباد ہیں، اس معاشرے میں کام اور محنت کرنے کا حوصلہ اور ہمت بلند ہے، معاشرے کی غربت کی ایک وجہ یہی کسالت اور کاہلی ہے، چنانچہ آپ فرماتے ہیں: ’’جب امور ایک دوسرے سے مل جاتے ہیں تو کسالت اور ناتوانی وجود میں آجاتی ہے اور ان دونوں سے غربت جنم لیتی ہے۔‘‘ لہذا جس معاشرے میں کام کاج اور عملی جدوجہد کی حاکمیت قائم ہو، جس سوسائٹی میں لوگوں نے کام کاج اور محنت کو اپنا پیشہ بنایا ہو، وہ کبھی افلاس اور غربت کی بیماری میں مبتلا نہیں ہوسکتا۔ اسی لئے امام علی (ع) ایسے مثالی معاشرے میں پرورش پانے والے افراد کی محنت اور مشقت نیز اپنے اہل خانہ کی فلاح و بہبود کی خاطر جدوجہد میں سحر خیزی کرنے کو راہ خدا میں جہاد کرنے والوں کی سحر خیزی سے بھی برتر جانتے ہیں۔

آپ مزید فرماتے ہیں کہ ’’راہ خدا میں تمہاری سحر خیز کرنا ایسے شخص کی سحر خیزی سے بڑھکر نہیں ہے جو اپنی اولاد اور گھر والوں کی مصلحت کو نظر میں رکھتے ہوءے طلب معاش کے لئے سحر خیزی کرے۔“ نیز فرماتے ہیں کہ کام اور محنت سے ہی ہر طرح کی طاقت اور قدرت میں اضافہ ہوجاتا ہے، لیکن غربت اور بیکاری، تنگدستی اور غلامی ہی وجود میں لاتی ہے، جس کا ایک لازمی نتیجہ فساد اور بربادی ہے، جو کسی بھی طرح سے ایک مثالی معاشرہ اور آئیڈئل سوسائٹی سے تناسب نہیں رکھتا ہے۔ جو شخص کام اور محنت کرتا ہے، اس کی طاقت بڑھ جاتی ہے اور جو شخص کام چوری کرتا ہے اسکی تنگدستی میں اضافہ ہوجاتا ہے۔“ پس اس بنا پر مثالی معاشرہ ایک محنت کش افراد کا معاشرہ ہے، جہاں ہر شخص اپنی ذاتی توانائیوں سے معاشرے کی ترقی اور سعادت کی راہیں ہموار کرتا ہے، اپنے معاشرے کو غربت اور افلاس اور اسکے ذریعے سے پھیلنے والی ہر طرح کی برائی اور فساد سے نجات دلاتا ہے۔

راہ نجات، خود میں عزم پیدا کریں:
آپ کے اندر عزم آجانا چاہئے، زندگی میں اپنا ایک مقصد طے کریں اور اسے حاصل کرنے کے لئے دن رات کوشاں رہیں۔ اس کے لئے بہترین طریقہ یہ ہے کہ آپ سب سے پہلے اپنے لئے چھوٹے چھوٹے اہداف طے کریں، جیسے کوئی کتاب اتنے دنوں میں پڑھ لینا، قرآن کی کوئی چھوٹی سی سورہ نہج البلاغہ کے اقوال یاد کرنا وغیرہ، جب آپ اسے عملی شکل دینے جائیں گے تو ہوسکتا ہے کہ آپ کے ذہن میں مختلف قسم کے شکوک و شبہات پیدا ہوں، انہیں فوری طور اپنے من سے حذف کر دیں، جو بھی وعدہ یا عہد کریں تو اسے پورا کرنے کی حتیٰ الامکان کوشش کریں، چھوٹی سی وعدہ خلافی آپ کو دائمی سست بنا سکتی ہے۔

اہداف کو حاصل کرنے کیلئے اپنے نفس کو لگام دیں:
جو کوئی بھی اپنا خواب شرمندہ تعبیر کرنا چاہتا اور اپنے اہداف کو پانا چاہتا ہو، اسے چاہیے کہ وہ اپنے نفس کو لگام دے، اپنے نفس پر کنٹرول کرے، اگر کسی نے نفس کو بہلانے کی کوشش نہیں کی تو سستی اس کی شناخت بنتی جائے گی۔ قرآن نے سستی و کسالت منافقین کی صفت بتائی ہے، منافقین ضعف بصارت کی بنا پر خدا سے زیادہ عوام اور لوگوں کے لئے حرمت و عزت کے قائل ہوتے ہیں، مومن الہی مشن پر ہوتا ہے، اسے ہر طرح کی کسالت و سستی سے بچنا چاہیے، مومن لوگوں کے سامنے جوابدہ نہیں بلکہ اللہ کے یہاں جوابدہ ہوگا، اسے ہر صبح اور ہر شام اور رات کے اندھیرے میں بھی اللہ سے حساب و کتاب دینا پڑتا ہے، تو سستی کیسے ممکن ہے۔

کسل مندی اور سستی پر قابو کیسے پایا جائے:
1۔اپنے روزمرہ امور کے لئے ٹائم ٹیبل مرتب کریں۔
2۔ یہ ہر وقت ذہن میں رکھیں کہ دنیا موقتی ہے، بہت کم مدت میں ہمیں بہت کچھ حاصل کرنا ہے۔
3۔ قرآنی اصول کے تحت بندہ الہی مشن پر ہوتا ہے، مشن کے بعد حساب ضرور دینا ہے۔
4۔ دنیا آخرت کی کھیتی، جو یہاں فعال کردار ادا کرے گا، اس کی جزا وہاں ضرور پائے گا۔
5۔ دنیا کے فعال ترین لوگوں کی سوانح حیات پڑھنا، اس سے بھی سستی سے بچا جاسکتا ہے، اور وہ رموز ہاتھ آسکتے ہیں، جس سے انسان فعال کردار ادا کرسکے۔
6۔ زیادہ کھانے و شکم سیری سے پرہیز کیا جائے، ایک شکم سیر سستی کا غلام ہوجاتا ہے۔
7۔ نماز پنجگانہ کی وقت پر ادائیگی اور نماز شب کی پابندی بھی سستی سے نجات دلا سکتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 482097
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

سید جہانزیب عابدی
Pakistan
جزاک اللہ تقبل اللہ
ہماری پیشکش