0
Friday 28 Aug 2015 23:11

ملت جعفریہ کا درخشندہ ستارہ، علامہ مفتی جعفر حسین

ملت جعفریہ کا درخشندہ ستارہ، علامہ مفتی جعفر حسین
تحریر و تحقیق: سید فیضان عباس نقوی

نام: جعفر حسین ابن حکیم چراغ دین ابن حکیم غلام حیدر
پیدائش: 1332 ھجری 1914ء گوجرانوالہ، پنجاب، انڈیا
وفات: 29 اگست 1980ء گوجرانوالہ، پنجاب، پاکستان
سرزمین لاہور زمانہ قدیم سے ہی بزرگان دین، اولیاء کرام اور علماء کرام کا مسکن رہی ہے، جہاں مختلف ادوار میں بڑی بڑی بزرگ ہستیاں یہاں وارد ہوئیں اور دین خدا کی تبلیغ کے ساتھ ساتھ یہاں کے لوگوں کو رشد و ہدایت فراہم کی۔ جہالت میں بھٹکتی ہوئی انسانیت کو صراط مستقیم دکھائی اور گمراہی سے بچایا۔ ملت جعفریہ میں علامہ مفتی جعفر حسینؒ کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے، لیکن بدقسمتی سے وہ لوگ ہمارے درمیان سے بہت تیزی سے ختم ہوتے جا رہے ہیں، جن لوگوں نے علامہ مرحوم کو اپنی زندگی میں دیکھا، سنا اور ان سے فیض حاصل کیا۔ ہماری آنے والی نئی نسل اپنے ان مشاہیر کے حالات زندگی اور انکے قومی اور ملی کارناموں سے واقفیت نہیں رکھتی، لہذا دور حاضر میں بہت ضروری ہے کہ اپنی نسل کو اپنے اسلاف کے کارناموں سے روشناس کرایا جائے۔

ابتدائی حالات زندگی
جناب مفتی جعفر حسین گوجرانوالہ کے ایک قصبے میں پیدا ہوئے۔ آپکے والد کا نام حکیم چراغ الدین تھا۔ آپ کا خاندان اس علاقے میں شرافت و نیک نامی میں اپنی مثال آپ تھا۔ آپ کے چچا حکیم شہاب الدین نہ صرف ایک مشہور حکیم بلکہ تاریخ، ادب، شاعری پر گہری نظر رکھنے والے تھے۔ آپ کا گھر علاقے کا معروف حلقہ ادب شمار ہوتا تھا۔ آپ پانچ بہن بھائی تھے۔ علامہ مفتی جعفر حسین نے اپنی ابتدائی تعلیم چچا شہاب الدین کی زیر سرپرستی حاصل کی۔ چچا نے آپ کو یونانی حکمت کے ساتھ ساتھ فارسی زبان کے ادب سے بھی روشناس کروایا۔ آپ نے بچپن سے ہی قرآن مجید، فقہ کے مسائل، فارسی ادب اور حکمت و طب کی تعلیم حاصل کر لی تھی۔ اس کے بعد کے چچا نے مقامی جامعہ مسجد میں تعلیم کے لئے بھیجا۔ جہاں اہلسنت علماء مولانا چراغ علی، قاضی عبدالرحیم، مولانا محمد اسماعیل سلفی بھی تھے۔ جن سے سے مفتی جعفر نے فقہ اور حدیث کی تعلیم حاصل کی۔ اس دوران انکی ذہانت اور قابلیت کے جوہر کھل کر سامنے آنے لگے۔ آپ کی ذہانت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ آپ نے قافیہ کو بچپن میں ہی 27 دنوں میں پڑھا۔ قافیہ گرامر کی ایک ایسی کتاب ہے، جس کی 350 سے زیادہ شرح لکھی جا چکی ہے، اور عمومی طور پر اس کتاب کو ختم کرنے کے لئے طلباء کو کئی مہینے درکار ہوتے ہیں۔ اس کے بعد آپ نے عربی ادب، صرف و نحو، گلستان، بوستان سعدی، اخلاق محسنی، اخلاق جلالی کے ساتھ ساتھ منطق میں قلبی، فلسفہ میں ہدیہ سعدیہ اور ادب میں مقامات، مریدی تک تمام کتب صرف چودہ سال کی عمر میں پڑھ لیں تھیں۔

آپ کا خاندان ہر قسم کے مذہبی تعصب سے آزاد ہونے کے ساتھ ساتھ اہل بیت (ع) سے خاص عقیدت رکھتا تھا اور معاشی تنگی کے باوجود بچوں کی مذہبی اور دینی تعلیم پر خاص توجہ دی جاتی تھی۔ 12 سال کی عمر میں ہی آپ نے اردو، عربی، فارسی پر عبور حاصل کر لیا تھا۔ علم کی تلاش میں مقامی استادوں سے استفادہ کے بعد آپ نے لکھنو جانے کا فیصلہ کیا۔ جو اس وقت فقہ جعفریہ کی تعلیم کے لحاظ سے اہم تعلیمی مرکز کی حیثیت رکھتا تھا۔ 1928ء میں لکھنؤ، ہندوستان میں تشریف لے گئے۔ جہاں زمانے کے عظیم اساتذہ جن میں نجم الملت علامہ سید نجم الحسن، سید ظہور حسن بہاروی، سید عبدالحسن منان صاحب جو کہ علامہ سید علی نقوی کے والد تھے۔ سید سبط حسن جونپوری، مفتی سید محمد علی صاحب قبا، مفتی سید احمد علی اور علامہ سید علی نقی النقوی شامل ہیں، ان سے کسب فیض کیا۔ نہایت محنت اور جانفشانی اور سخت غربت افلاس کے باوجود نہایت اعلٰی استعداد اور علمی قابلیت کے ساتھ لکھنؤ یونیورسٹی سے فاضل ادب و فاضل حدیث کی اسناد حاصل کیں۔ آپ نے وہاں آٹھ سال قیام کیا۔ آٹھ سال تک تحصیل علم کے بعد ایک سال کے لئے مدرسہ نظامیہ میں استاد کی حیثیت سے فرائض انجام دیتے رہے۔ اس ایک سال کے دوران انھوں نے مزید تعلیم کی غرض سے سفر عراق کے وسائل کا انتظام بھی کر لیا، اور 1936ء میں نجف اشرف عراق کی جانب روانہ ہوگئے۔

آپ کو وقت کے عظیم استادوں کے زیر نگرانی رہنے کا موقع ملا، جن کے نام مندرجہ ذیل ہیں۔ آیت اللہ العظمٰی سید ابوالحسن اصفہانی، حجت السلام آغائی شیخ عبدالحسین رشتی، حجت السلام شیخ ابراہیم رشتی، آغا جواد تبریزی، حجت السلام آغا باقر زنجانی، آغا سید علی نوری شامل ہیں۔ وہاں سے آپ نے پانچ سال میں مفتی کی سند حاصل کی۔ آپ کی یہ دستاویزات آج بھی انکے خاندان کے پاس گوجرانوالہ میں محفوظ ہیں۔ آپ 1940ء میں واپس لکھنو تشریف لائے۔ آپ کے اساتذہ نے آپ کو مراد آباد کے نواحی علاقے نواں گاؤں انڈیا جانے اور مدرسہ باب علم میں سرپرستی مدرسہ کے فرائض انجام دینے کا حکم دیا۔ جس کو آپ نے ایک فرما بردار شاگرد کی حیثیت سے قبول کیا، اور وہاں چار سال قیام کرنے کے بعد اپنے آبائی قصبے میں واپس آگئے اور گوجرانوالہ شہر میں خدمات انجام دیتے رہے، لیکن ایک استاد کبھی بھی علم کی روشنی کو پھیلانے سے دوری اختیار نہیں کرسکتا۔ اس لئے آپ نے بھی اس جذبے کی خاطر گوجرانوالہ میں مدرسہ کے قیام کی کوششیں تیز کر دیں۔

مدرسہ جعفریہ کا قیام
مدرسہ کے قیام کیلئے آپ کی محنت رنگ لائی اور ایک مومن شخص ماسٹر اللہ دتہ نے مدرسہ کے قیام کے لئے اپنا گھر وقف کر دیا۔ جس کے نتیجے میں گوجرنوالہ کا سب سے پہلا مدرسہ جعفریہ وجود میں آیا۔ یہ علامہ بکر علی چکوالی اور علامہ محمد یار شاہ کے ادارہ کے بعد اپنی نوعیت کا واحد ادارہ تھا۔ برکت علی جعفری کی سرپرستی میں ایک کمیٹی بنائی گئی، جس کا کام مدرسہ کا انتظام دیکھنا تھا، اور مولانا حکیم نور الدین اور مولانا شریف حسین کو استاد کی ذمہ داری دی گئی۔ مفتی جعفر خود بھی استاد کی حیثیت سے سرگرم ہوگئے۔ مدرسہ جعفریہ کے اہم طالب علموں میں علامہ حسین بخش جاڑا، مولانا عبدالغفور، مولانا سید عابد حسین شامل ہیں۔ تاہم معاشی پسماندگی کے باعث یہ سلسلہ منقطع ہوگیا۔ جس کے بعد مفتی صاحب نے مجالس میں خطابت کے فرائض سرانجام دینا شروع کئے۔ اس مقصد کی خاطر آپ نے پورے ملک کے سفر کئے، یہ 1944ء سے 1946ء کا زمانہ تھا، جس وقت پاکستان کے قیام کی مہم اپنے عروج پر تھی۔ جب 1947ء میں تقسیم ہوگئی، تو آپ نے اس کے بعد ادبی کام کا آغاز کیا۔ سب سے پہلے حضرت علی مرتضٰی (ع) کے خطبات اور خطوط پر مبنی کتاب نہج البلاغہ کا اردو ترجمہ کیا، جو کہ آپکا عظیم کارنامہ ہے۔

بورڈ آف اسلامک ایجوکیشن

1949ء میں نوابزادہ لیاقت علی خان نے آپ کو (BOIE) میں منتخب کیا۔ جس کی اہمیت کا اندازہ باقی اراکین کے ناموں سے لگایا جاسکتا ہے۔ جن میں ڈاکٹر حمید اللہ چیئرمین، مفتی محمد شفیع، سید سلمان ندوی، مولانا ظفر احمد انصاری کے نام سرفہرست ہیں۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہر موقع پر مفتی جعفر حسین نے اس بورڈ کے سامنے جرات کے ساتھ فقہ جعفریہ کا نقطہ نظر پیش کیا۔ قیام پاکستان کے بعد جب حکومت کو دستور سازی کا مسئلہ پیش آیا، اس وقت ملک اسلام کی بنیادوں پر کھڑا تھا۔ ہر فرقہ اس پر غلبہ پانے کی کوشش میں تھا۔ ان دنوں حکومت آئین سازی میں مصروف عمل تھی۔ جب مفتی جعفر نے اپنی ملت کے حقوق کو پامال ہوتے دیکھا، تو آپ نے فقہ جعفریہ کو اس کے مضر اثرات سے بچانے کے لئے اور اس میں عوام کو انکے حقوق دلوانے کے لئے اور ان کے حقوق کی آئینی حفاظت کا بیڑا اٹھایا اور نسبت روڈ لاہور میں ایک ادارہ انجمن عالیہ حقوق تحفظ شیعہ پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ جس کے خود صدر منتخب ہوئے۔ جبکہ مظفر علی شمسی اور علامہ حافظ کفایت حسین آپ کے شریک کار تھے۔ مفتی جعفر حسین کو ادارے کے ترجمان کی حیثیت سے حکومت سے بات چیت کے لئے مقرر کیا گیا۔

قرارداد مقاصد
قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات کے بعد مختلف قوتوں نے پاکستان کے خلاف اپنی سازشیں تیز تر کر دیں۔ جس میں ایک سب سے اہم اسلام کے نفاذ کو ناقابل عمل قرار دینے کی سازش تھی۔ جس میں بڑی دلیل مسلمانوں کے اندرونی اور تاریخی اختلافات کو بنایا گیا تھا۔ جس کے جواب میں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے اکتیس علماء نے 22 نکاتی ایجنڈا پیش کر دیا۔ جس کو 24 جنوری 1951ء کو حتمی تحریر صورت میں پیش کرکے اسلام دشمنوں کے منہ بند کر دیئے۔ مفتی جعفر حسین نے جمہوری طریقہ کار کے عین مطابق تمام لوگوں کے حقوق کی حفاظت کی اور رائے سامنے رکھی، اور قرآن و سنت کے مطابق تمام لوگوں کو انصاف، آزادی اور برداشت پر عمل کرنے کو کہا۔ آپ نے کہا آئین کچھ ایسا ہونا چاہیے جو انفرادی و اجتماعی طور پر بھی بھرپور آزادی سے اسلام پر عمل کرنا آسان ہو، اور جو اقلیتوں کو ان کے مذہب کے عین مطابق زندگی گذارنے کا موقع دے۔

مفتی جعفر حسین اور قادیانیت

18 مئی 1952ء کو وزیر خارجہ چوہدری ظفر اللہ خان نے کراچی میں مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے والی تقریر کی، جس پر علماء اسلام نے اجلاس طلب کرلیا۔ مفتی جعفر کو بھی اس میں خصوصی دعوت دی گئی۔ آل پارٹیز کانفرنس کے اس اجلاس میں قادیانیت کے خلاف مفتی جعفر حسین نے اہنے مکتب تشیع کا نقطہ نظر پوری صراحت اور جامیعت کے ساتھ واضح کیا۔ اس کے علاوہ آپ نے تحریک تحفظ ختم نبوت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، اور ختم نبوت کے متعلق امامیہ نقطہ نظر واضح کیا۔ آپ نے قادیانیت کے خلاف ایک جامع رد کی تقریر پیش کی۔ جس میں آپ نے قادیانیت کے متعلق فقہ جعفریہ کی رائے کو بھی واضح کیا۔ اس مجلس میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا آغاز ہوا اور ظفر اللہ چوہدری کو عہدہ سے برطرف کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

علمی مقام اور خدمات
آپ ایک اعلٰی درجہ کے عالم تھے، جس کا اندازہ ان کے بچپن میں کافیہ ابن حاجب کو صرف 27 دن میں مطالعہ کرنے سے بہ خوبی ہوتا ہے۔ آپ کے علمی مقام و مرتبہ کو الفاظ میں قید کرنا سورج کو مٹھی میں لانے کی کوشش کے مترادف ہے۔ صرف چودہ سال کی عمر میں یونانی طب، عربی، اردو اور فارسی کے علوم پر عبور رکھنے والی شخصیت کا علمی مقام اپنی مثال آپ تھا۔ نہج البلاغہ کا ترجمہ آپ کی علمی بصیرت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کو آپ کی علمی کاوشوں کا ثمر قرار دینا چاہیے۔ علاوہ ازیں آپ نے اور بھی تراجم کئے، اور آپ ایک مولف بھی ہیں۔ آپ نے شافع طلحہ کا اردو ترجمہ کیا۔ اس کو پڑھنے والا اس میں گم ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ آپ کی سیرت امیر المومنین (ع) بھی ایک عمدہ تحقیق ہے۔ جس کا اب انگریزی میں بھی ترجمہ چھپ چکا ہے۔

مفتی جعفر بطور رہبر
فیلڈ مارشل ایوب خان نے اپنے عہد اقتدار میں اسلامی امور سے متعلق مشاورت کے لئے اسلامی مشاورتی کونسل قائم کی۔ جس میں علامہ مفتی جعفر حسین کو بطور شیعہ راہنما نمائندہ مقرر کیا، لیکن 1971ء میں سوشلزم کے خلاف فتویٰ دینے کی بناء پر حکومت نے کونسل سے آپکی رکنیت معطل کر دی۔ بعد ازاں 1979ء میں جب ضیاء الحق نے اسلام کے نفاذ کی کوشش شروع کی، تو زکواۃ کو حکومتی سطح پر اکٹھا کرنے کا لائحہ عمل طے کیا، لیکن اس سفر میں فقہ جعفریہ کو نظر انداز کرنے کی کوشش کی گئی۔ صدر ضیاءالحق نے اسلامک کونسل کا بھی اعلان کیا۔ تو ان حالات میں مفتی جعفر حسین نے حکومتی رویے کے خلاف ایک اجتماعی پریس کانفرنس کا انعقاد کیا۔ کچھ لوگوں نے ساتھ دیا اور شیعہ کانسٹی ٹیوشن کا قیام عمل میں آیا۔ جس نے 12 اور 13 اپریل کو ملکر ملاقات کی۔ جس میں چار مراحل ہوئے۔ جنکی قیادت مفتی جعفر حسین نے کی۔ جس کا مدعا یہ تھا کہ جعفریہ فقہ کو شیعہ مسلک کے لئے انکے تمام معاملات میں نفاذ کی یقین دہانی کروانا تھا۔ ان مطالبات میں عزاداری کی آزادی، زیارات کے جلوسوں کے لئے حکومت سے سہولتوں کا مطالبہ، شیعہ علماء کو شریعت کورٹ میں عہدہ دار ہونے، تعلیمی میدان میں فقہ جعفریہ کی ترجمانی اور فقہ جعفریہ کے علماء کو ریڈیو اور ٹیلی ویثرن پر آنے کی آزادی، جیسے مطالبات شامل تھے۔ ایران سے بھی علماء جعفریہ کو دعوت دینے کا اعلان ہوا۔ اس موقع پر مفتی جعفر حسین کو ملک بھر میں فقہ جعفریہ کے راہنما کے طور پر تسلیم کیا گیا۔

مفتی جعفر حسین نے اپنی تقریروں میں اپنی ملت کی ان تمام مانگوں کو پورا کرنے کے لئے حکومت پر زور دیا، لیکن تمام فرقوں کی امیدوں کے خلاف صدر نے اعلان کیا کہ ایک ملک میں دو اقسام کے قوانین کا نفاذ ممکن نہیں ہے، اور جمہور کی بناء پر فقہ خنفیہ ہی ملک میں نفاذ ہوگا۔ صدر کے اس سخت بیان پر فقہ جعفریہ میں شدید بے چینی پیدا ہوئی۔ یہ بیان پاکستان کی تین کروڑ شیعہ برادری کے خلاف تھا، لہذا ملت جعفریہ کے لئے اپنے حقوق کی خاطر اپنے وجود کا اظہار ضروری تھا۔ 4 جولائی 1980ء کو آیت اللہ موسٰی الصدر کی برسی کے موقع پر ایک اجتماع ہوا۔ جس کو مفتی جعفر حسین کی اجازت سے تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کا نام دیا گیا۔ مفتی جعفر حسین علماء کونسل سے 30 اپریل کو ہی استعفٰی دے چکے تھے۔ مفتی جعفر حسین ہنگامی بنیادوں پر پورے ملک کے دورے کر رہے تھے اور تمام ملت انکو بطور لیڈر قبول کر رہی تھی۔ ہر کسی کی زبان پر ایک نعرہ تھا۔ ایک قائد، ایک ہی رہبر، مفتی جعفر، مفتی جعفر۔ جب حکومت وقت کو اس جذبے کی شدت کا اندازہ ہوا۔ تو انھوں نے اسلام آباد میں ہونے والے اس پروگرام کو روکنے کا فیصلہ کیا اور سخت سے سخت کارروائی کا اعلان کیا۔ پورے وفاق کو سیل کر دیا گیا اور ساتھ ہی یہ افواہ بھی اُڑائی گئی، کہ پروگرام ہو ہی نہیں رہا ہے۔ بعض جگہوں پر یہ افواہ اڑائی گئی کہ حکومت تمام مانگیں پوری کرنے کو تیار ہے، جس کے لئے پروگرام کی ضرورت نہیں ہے، لیکن ان سب کے باوجود ایک بڑا اجتماع ہاکی گراؤنڈ کے قریب جمع ہوا۔ گلی محلوں کی بجائے لوگ دارالخلافہ میں آکھڑے ہوئے۔ مفتی جعفر بھی وہاں ان کی قیادت کے لئے موجود تھے۔ آپ نے 2 جولائی کو صدر کی دعوت پر ان سے ملاقات کرنے گئے، جو کہ دو گھنٹے جاری رہی۔

صدر نے اس اجتماع کو لیاقت باغ میں منتقل کرنے کی تجویز دی، جسے آپ نے رد کر دیا، اور اجتماع جاری رہا۔ جس میں جوش و خروش والی تقریریں ہوتی رہیں۔ اس کے ساتھ ہی مفتی جعفر حسین نے اس اجتماع کے کارکنوں کو پرامن رہنے کی تاکید کی۔ اس کے بعد پانچ علماء کی ایک کمیٹی نے وزارت مذہبی امور کے وزیر محمد ہارون سے ملاقات کی، جنہوں نے تمام تر مطالبات صدر کو پہنچانے کی یقین دہانی کروائی۔ جس پر پورا ایک دن انتظار کیا گیا، لیکن حکومت کی جانب سے کوئی نتیجہ خیز جواب نہ آیا۔ اس پر قائد کے حکم پر ملت جعفریہ کے اس اجتماع نے مارچ کرنے کا فیصلہ کیا۔ لوگ حکومت کے خلاف نعرے لگاتے، سیکرٹریٹ کی جانب چلے جا رہے تھے۔ اس پر پولیس اور انتظامیہ نے ان نہتے لوگوں پر شدید لاٹھی چارج کیا اور آنسو گیس کا بے دریغ استعمال کیا گیا، لیکن وہ قوم کہ جس کا رشتہ ہی آنسوؤں سے ہے، نہیں گھبرائی اور ثابت قدم رہ کر مارچ کو جاری رکھا۔ ساتھ ہی مفتی جعفر حسین نے پرامن رہنے کا حکم بھی دے رکھا تھا۔ اس مارچ کو اس کی منزل پر پہنچنے سے پہلے ہی شدید قوت کے ساتھ روکا گیا۔ جب پانی سر سے گذر گیا، تو حکومت نے مذاکرات کی ایک کمیٹی بنائی، چنانچہ اگلے دن 6 جولائی 1980ء کو صدر پاکستان کی دعوت پر مفتی جعفر حسین پانچ لوگوں کا وفد لیکر صدر سے ملاقات کرنے گئے۔ جو کہ بارہ گھنٹے جاری رہی۔ ملت جعفریہ کی اس مذاکراتی کمیٹی میں مولانا گلاب شاہ، مولانا سید صفدر حسین نجفی، سید فدا حسین نقوی، سید صابر حسین نقوی شامل تھے۔ جبکہ سرکاری وفد میں صدر پاکستان، وزیر مذہبی امور اور زکواۃ کونسل کے راہنما شامل تھے۔

اس کمیٹی کے تمام مطالبات سننے کے بعد صدر پاکستان نے یہ یقین دہانی کروائی کہ پاکستان میں تمام مکاتب فکر کو آزادی حاصل ہوگی، اور کوئی ایک فقہ کسی دوسرے فقہ کے پیروکاروں پر نافذ نہیں ہوسکتی۔ اگر ایسا کوئی قانون موجود ہے، جو کہ فقہ جعفریہ کی تردید کرتا ہو، بھی تو اس میں ترمیم کی جائے گی اور آئندہ قانون سازی میں بھی اس کو مدنظر رکھا جائے گا۔ اس کے بعد مفتی جعفر حسین نے حکومت کو اجتماع کے منتشر کرنے کی یقین دہانی کروائی۔ اس دوران اجتماع آپ کا منتظر رہا۔ جہاں مختلف علماء تقریریں کرتے رہے۔ جس سے اجتماع کو پرامن رکھا گیا۔ شام کے قریب ان کے عظیم راہنما مفتی جعفر حسین ظاہر ہوئے، جس پر ایک بار پھر ایک ہی قائد ایک ہی رہبر مفتی جعفر، مفتی جعفر کے نعروں سے فضا گونجتی رہی۔ آپ نے سب کو خاموش کروایا اور قرآن کی سورۃ فتح کی تلاوت کے بعد فرمایا کہ بھائیوں جس نیک مقصد کے لئے آپ یہاں اکٹھے ہوئے ہیں، اس کو اللہ کے فضل و کرم اور محمد (ع) و آل محمد (ص) کی عطا سے حاصل کر لیا گیا ہے۔ آپ نے اجتماع کو بتایا کہ زکواۃ کے قوانین فقہ جعفریہ کے مطابق لاگو ہونگے، اور ساتھ حکم دیا کہ اب پرامن طریقے سے منتشر ہو کر گھروں کی جانب چلے جاؤ اور باقی لوگوں کو اس خوشی کی خبر سے آگاہ کرو۔

اس معاملے کے بعد مفتی جعفر حسین نے تمام ملک کے دورے کرکے ملت کے مسائل کو حل کرنے کی کوششیں کیں، اور فقہ جعفریہ کے مطابق زکواۃ کمیٹیاں تشکیل دیں، لیکن وہ اس طرح کام نہ کرسکیں، جس طرح مفتی جعفر حسین چاہتے تھے۔ ان کے چار سالہ دور قیادت میں اہم کام جو انجام پائے وہ یہ ہیں۔
۱۔ فقہ جعفریہ کا سرکاری نفاذ
۲۔ شیعہ زکوۃ کمیٹیوں کا قیام
۳۔ صحافت میں فقہ کی سرگرمی، اخباروں اور رسالوں کا اجراء
۴۔ شیعہ سکولوں کے لئے نصاب کی فراہمی
۵۔ عزاداری کی راہ میں رکاوٹوں کو دور کرنا
۶۔ شیعہ وقف بورڈ کا قیام

علامہ مرحوم کی ذات گرامی پاکستان کے شیعہ عوام کی شناختی علامت بن چکی تھی۔ آپ کی اولین جدوجہد اور ملت کی بقاء اور تحفظ کے لئے خدمات نے جہاں ملت کو اپنے پامال ہوتے ہوئے حقوق کے حصول کی طرف متوجہ کیا، وہاں باہمی اتحاد کی نعمت عطا کرتے ہوئے ایک لڑی میں پرو دیا۔ آپ کی عمر 66 برس ہوچکی تھی۔ آخری ایام میں آپ 25 دن تک ہسپتال میں رہے۔ آپ نے وصیت کی تھی کہ آپ کو غسل مولانا عبدالحفیظ جعفر اور مولانا سید نجم الحسن دیں گے، اور آپ کو گامے شاہ میں دفن کیا جائے۔ 28 اگست کی رات آپ کی طبیعت نہایت خراب ہوگئی، رات بھر سو نہ سکے اور ذکر الہی میں مشغول رہے، اور 29 اگست کی صبح صادق اس دار فانی سے کوچ کیا۔ صبح کے نو بجے یہ افسوسناک خبر پورے ملک میں پہنچ چکی تھی، اور تمام لوگ گامے شاہ میں جمع ہونے لگے تھے۔ آپ کی پہلی نماز جنازہ امامیہ مسجد خیالی دروازہ گوجرانوالہ میں ادا کی گئی، جس کی امامت مولانا صفدر حسین نجفی نے کی۔ آپ کے آخری دیدار کے لئے آپ کی میت کو کچھ دیر آپ کے گھر میں رکھا گیا، پھر لاہور روانہ کر دیا گیا۔ اس وقت کے گورنر جنرل ایف ایس لودھی اور دوسرے اہم حکومتی حکام گامے شاہ لاہور میں موجود تھے، جب آپ کا جنازہ لاہور میں پہنچا، تو دوبارہ نماز جنازہ کا اعلان کیا گیا۔ جس میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی۔ دوسری بار نماز جنازہ کی امامت مولانا محمد یار شاہ نے کروائی اور ساتھ مصائب امام حسین (ع) بیان فرمائے۔ لوگوں کا جذبات پر قابو نہ رہا، لوگ دھاڑیں مار کر رو رہے تھے اور اپنے عظیم راہنما کو آنسوؤں کے نذرانے دیتے ہوئے رخصت کر رہے تھے۔ آپ کو آپ کی وصیت کے مطابق گامے شاہ میں دفن کیا گیا۔ آپ کی قبر سادہ سی مگر پکی ہے۔ جس پر سنگ مرمر کا کتبہ لگا ہے۔ اپنی ملت کے حقوق کی خاطر سینہ سپر ہو کر لڑنے والا یہ سپاہی یہاں ابدی نیند سو رہا ہے۔
خدا رحمت کنیداین عاشقان پاک طینت را
خدا تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے ۔
خبر کا کوڈ : 482581
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش