0
Monday 31 Aug 2015 17:42

داعش اور کالعدم تحریک طالبان خراسانی گروپ کیجانب سے صحافیوں کو دھمکیاں!

داعش اور کالعدم تحریک طالبان خراسانی گروپ کیجانب سے صحافیوں کو دھمکیاں!
تحریر: طاہر یاسین طاہر

انسان خواہشوں کا مارا ہے۔ ہم مگر المیوں کے مارے ہیں۔ بے صبرے لوگ۔ دین کی تعلیمات بڑی واضح ہیں۔ اللہ کے اس فرمان کو کئی ایک بار دہرایا جس کا مفہوم یہی ہے کہ جس نے کسی ایک بے گناہ انسان کو قتل کیا، گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا اور جس نے کسی ایک بے گناہ انسان کی جان بچائی گویا اس نے ساری انسانیت کی جان بچائی، یہ مگر کون ہیں جو بے گناہوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگ رہے ہیں؟ طالبان کے سارے گروپ البتہ وحشتوں کے سفیر ہیں۔ ان میں تخصیص نہیں۔ کالعدم تحریک، طالبان پاکستان ہو یا ملا نذیر گروپ۔ عمر خالد خراسانی گروپ ہو یا احرار الہند گروپ۔ افغانی طالبان ہوں یا پاکستانی، داعش ہو یا لشکر جھنگوی۔ الیاس کاشمیری ہو یا حقانی گروپ، الغرض لال مسجد والے ہی کیوں نہ ہوں! سب کا مشترکہ المیہ ایک ہی ہے۔ دلیل کو نہیں ماننا، ظواہر پرست لوگ۔ مجھے اعتراف ہے کہ کالعدم دہشت گرد تنظیموں کی میں نے جو فہرست لکھی یہ مکمل نہیں۔ البتہ مجھے اس بات کا رنج ضرور ہے کہ سب دہشت گردوں نے میرے اسلام کا چہرہ مسخ کیا، اسلامی تعلیمات کا دنیا جہان میں مذاق اڑایا اور حتی کہ جہاد النکاح ایسا شرمناک فتویٰ بھی دہشت گردوں کے حق میں جاری کیا گیا۔

تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ فسادِ افغانستان کہ جسے جہاد افغانستان بھی کہا جاتا ہے، اس کے بعد ہمارے معاشرے میں وحشتناکیوں نے ڈیرے ڈال لئے۔ تمام دہشت گردوں کا مشترکہ ہدف ایک نام نہاد خلافت کا قیام اور غزوہ ہند میں شرکت ہے۔ البتہ اس حوالے سے علم الرجال کے ماہرین کو سامنے آکر غزوہ ہند کے حوالے سے بیان کردہ احادیث کی صحت اور اس کے دیگر پہلوؤں پر روشنی ڈالنی چاہیے۔ یہ بتایا جانا بھی ضروری ہے کہ کیا جہاد گروہی مفادات اور مسلکی تعصبات کی بنا پر ہی واجب ہے یا اس کے لئے ایک مسلم ریاست باقاعدہ اعلان کرتی ہے؟ ایک حدیث ہے کہ بدعت جب عام ہو رہی ہو تو علماء کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اس حوالے سے کئی ایک کالم لکھے، علماء مگر ایسے خاموش کہ رہے نام اللہ کا، سوائے چند ایک کے جن کی جراتوں کو سلام۔ ہر فسادی انسان، گروہ اور قبیلے کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے قبیلے اور اس کی ذاتی امارت کی توصیف تو کی جائے، مگر اس کے مظالم پہ بات نہ کی جائے۔ تاریخ انسانیت ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔

تازہ المیہ طالبان کے مختلف گروپ اور داعش نامی دہشت گرد تنظیم ہے، جو اب پاکستان میں بھی کالعدم قرار دی جا چکی ہے۔ اس کالعدمی کا سادہ مطلب یہی ہے کہ داعش کے حامی اور اس کے پروپیگنڈہ سے متاثر ہونے والے دہشت گرد پاکستان میں طالبان کی شکست کے بعد داعش کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ چنانچہ مشترکہ طور پر داعش کے حمایت کاروں اور طالبان نے ان صحافیوں کو نشانے پر رکھ لیا جو ان کی دہشت گردی اور ان کے مذموم مقاصد کو نہ صرف منظرِ عام پر لاتے ہیں بلکہ اس حوالے سے تحقیقی کام بھی کر رہے ہیں۔ مجھ سمیت میرے کئی ایک صحافی دوستوں کو طالبان اور داعش کی طرف سے سنگین دھکیوں کا سامنا ہے۔ اپنی بات بعد میں کروں گا۔ ایک خط مجھے آل پاکستان جرنلسٹ کونسل کے مرکزی چیئرمین شبیر حسین طوری نے میل کیا اور سوشل میڈیا پر بھی شیئر کیا۔ اس خط کو کئی ایک صحافی دوستوں نے (face book) پہ شیئر کیا اور عدل پسند انسانوں نے اس کی مذمت کی۔ خط کیا ہے؟ من و عن شائع کرتا ہوں، تاکہ قارئین درست اندازہ کرسکیں۔

کالعدم تحریک طالبان، عمر خالد خراسانی گروپ کی جانب سے صحافیوں کو قتل کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ طالبان کی جانب سے آل پاکستان جرنلسٹس کونسل کے مرکزی چیئرمین شبیر حسین طوری، کرم ایجنسی کے معروف صحافی محمد سلیم خان، وانا پریس کلب کے جنرل سیکرٹری دین محمد وزیر سمیت لاہور کے متعدد صحافیوں کو تحریری دھمکیاں ملی ہیں، جن میں کہا گیا ہے کہ وہ ملک چھوڑ دیں، ورنہ اپنی موت کا انتظار کریں۔ صحافیوں نے طالبان کے ان دھمکی آمیز خطوط پر متعلقہ حکومتوں سے رابطہ کیا ہے اور اپنے تحفظ کیلئے انتظامیہ سے درخواست کی ہے۔ لاہور کے صحافیوں نے مسلسل دھمکیوں کے خلاف سی سی پی او لاہور کو قانونی تحفظ و اندراج مقدمہ کیلئے درخواست دی، جس پر فوری کارروائی کرتے ہوئے پنجاب پولیس نے کالعدم تحریک طالبان عمر خالد خراسانی گروپ کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔ آل پاکستان جرنلسٹس کونسل کے مطابق نامزد ملزمان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے اور لاہور سمیت دیگر علاقوں میں خدمات سرانجام دینے والے صحافیوں کے تحفظ کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ آل پاکستان جرنلسٹس کونسل کے چیئرمین شبیر حسین طوری نے سانحہ پشاور سمیت کالعدم تحریک طالبان کے خلاف مختلف ادوار میں متعدد مضمون لکھے تھے، جس کی بنا پر کالعدم تحریک طالبان ان کی دشمن بن گئی ہے اور کئی ماہ سے دھمکیوں کا سلسلہ جاری رہنے کی وجہ سے مذکورہ تمام صحافیوں نے پیشہ ورانہ ذمہ داری سے کنارہ کشی اختیار کر رکھی ہے۔ ملک بھر میں صحافیوں کے حقوق کے تحفظ اور ان کی فلاح و بہبود کیلئے خدمات سرانجام دینے والی تنظیموں کی جانب سے تاحال مذکورہ صحافیوں سے اظہار یکجہتی کا مظاہرہ نہ ہوسکا، جبکہ بین اقوامی صحافتی تنظیموں کی جانب سے حکومت سے صحافیوں کو تحفظ دینے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔ آل پاکستان جرنلسٹس کونسل کے تمام عہدیداروں کا بھی اہم اجلاس جلد ہی طلب کرکے آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ پریس کلب وانا کے جنرل سیکرٹری دین محمد وزیر کے خاندان کے چار افراد طالبان نے 2007ء میں قتل کر دیئے تھے۔

اگرچہ ہمارے ہاں صحافتی سیاست کے کئی ایک دھڑے ہیں، مگر دیکھا جائے تو اصل ہم سب کی ایک ہی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ملک بھر کی نمائندہ صحافتی تنظیموں کو لاہور کے صحافیوں کو ملنے والی دھمکیوں کے خلاف ایک بھرپور احتجاج کرنا چاہیے اور یہ احتجاج اس وقت تک جاری رہنا چاہیے، جب تک وفاقی و صوبائی حکومت اس امر کا اعلان نہ کر دے کہ وہ صحافیوں کو ہر حال میں دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں سے تحفظ فراہم کرے گی۔ عمر خراسانی کا خط تو کچھ دنوں کی بات ہے، میں (طاہر یاسین طاہر) نے جب اسلام ٹائمز پر اکتوبر 2014ء کو ایک کالم بنام داعش کے حق میں وال چاکنگ؟ لکھا تو اسے ایک مقامی اخبار نے (lift k) کرکے شائع کیا تو مجھے اگلے ہی دن یعنی 3 نومبر 2014ء کو جو پہلی دھمکی آمیز کال موصول ہوئی، وہ کلر سیداں سے تھی۔ اس کے بعد دوسری کال لاہور، پھر اگلے دن تیسری کال کلر سیداں اور پھر کالوں اور دھمکیوں کا سلسلہ دراز ہوتا گیا۔ حتی کہ یکم جولائی کو مجھے فیس بک پر بھی دھمکیاں دی گئیں اس حولے سے میں ایک درخواست سائبر کرائم سیل میں دے چکا ہوں۔ میرے کالم کے کچھ عرصہ بعد سینیٹ میں قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے چیئرمین سابق وفاقی وفاقی وزیر داخلہ جناب رحمان ملک صاحب نے قائمہ کمیٹی کی میٹنگ میں کہا کہ جنوبی پنجاب، بہارہ کہو اور کلر سیداں داعش کے دہشت گردوں کے سہولت کاروں کے گڑھ ہیں۔ اس پر میں نے ایک اور کالم لکھا تھا کہ موجودہ وفاقی وزیر دا خلہ کا حلقہ انتخاب بھی کلر سیداں ہی ہے، سابق وفاقی وزیر داخلہ کے بیان کی روشنی میں اس معاملے کی تحقیقات ہونی چاہیے۔

غالباً میرا ایک کالم 28 مئی 2015ء کو بعنوان پنجاب کے مدارس سے مشکوک افراد کی گرفتاری! شائع ہوا تو اس سے اگلے ہی دن مجھے کالعدم سپاہِ صحابہ کے ایک ذمہ دار کا فون آگیا، جس نے مجھے 15 منت تک سمجھایا کہ اس کی ذمہ داریاں کیا ہیں۔ خیال رہے کہ جب مجھے نومبر 2014ء میں دھمکیاں ملنا شروع ہوئی تو دھمکی دینے والوں نے اپنے ایک پولیس انسپکٹر دوست جو کہ C T D میں ملازم ہے، اس کے ذریعے ہراساں کرنے کی بھی کوشش کی۔ جس پر میں نے ایک درخواست بنام صدر آر آئی یو جے اسلام آباد اور ایک درخواست بنام صدر آل پاکستان جرنلسٹ کونسل اسلام آباد لکھی جبکہ قومی سلامتی کے انتہائی ذمہ دار افسران سے مل کر انھیں ساری صورتحال سے بھی آگاہ کیا۔ القصہ کوتہ، طالبان ہوں یا داعش والے، یا کسی بھی نوع کے دہشت گرد اور ان کے سہولت کار۔ ہم ان سب کو اپنے قلم کی زد میں رکھیں گے اور انشاءاللہ ضربِ عضب کے حقیقی ثمرات پاکستانی عوام تک پہنچانے میں قلمی کردار ادا کرتے رہیں گے۔ طالبانی اور داعشی دہشت گرد اور ان کے سہولت کار جان لیں کہ ہم دھمکیوں سے ڈرنے والے نہیں، ہم شعوری طور پر ریاست کو زخم زخم کرنے والوں کے خلاف میدانِ جنگ میں ہیں اور انشاءاللہ وطنِ عزیز میں تکفیری دہشت گردوں کا خاتمہ کرنے میں پاک فوج کے شانہ بشانہ رہیں گے۔
خبر کا کوڈ : 483202
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش