0
Friday 11 Sep 2015 00:29

آہ وہ گل لالہ!!

آہ وہ گل لالہ!!
تحریر: شاہد رضا

خداوند متعال نے کائنات کے رشد و کمال کے لئے ایک نظام مرتب کیا ہے، جہاں ایک طرف ظالمین اس جہان میں بسنے والے محروم طبقات پر ظلم و جور کی داستانیں رقم کرتے ہیں، وہاں دوسری طرف اذن قدرت سے کچھ ہستیاں ان محروم و پسے ہوئے طبقوں کے لئے امید کی شمع بن کر آتی ہیں۔ تاریخ میں جب بھی کسی معاشرے میں موجود مظلوم اقوام کے ساتھ  ظلم و ناانصافی کا بازار گرم کیا گیا ہے، خدا نے اسی معاشرے میں سے ایک مسیحا خلق کیا ہے، جس نے ان مظلوموں کو راہ نجات بتائی ہے۔ مسلمانان برصغیر کہ جو جنگ آزادی کے بعد مسلسل حکمران طبقے کے ظلم و جور کا شکار تھے اور ان کلمہ گوؤں کے ساتھ بہت ناروا سلوک کیا جا رہا تھا۔ اس ظلم و جور کو ختم کرنے اور برصغیر کے مظلوم مسلمانوں کو ان کے حقوق دلانے کے لئے خداوند متعال نے قائد اعظم محمد علی جناح کی شکل میں ایک مسیحا خلق فرمایا۔ وہ تمام پسے ہوئے طبقات کے لئے اللہ تعالٰی کی طرف سے ایک نعمت عظمٰی تھے، کیونکہ وہ انگریزوں سے آزادی کے خواب کہ جو مغلیہ خاندان کی حکومت سے دیکھے جا رہے تھے، ان کو عملی جامہ پہنانے والی شخصیت ہیں۔

علامہ اقبال نے جس امید نجات کا برصغیر کے مسلمانوں کو احساس دلایا، اس امید نجات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں بنیادی کردار قائد اعظم کا تھا۔ علامہ اقبال نے اپنی شاعری کے اندر بارہا جس گل لالہ کا تذکرہ کیا، وہ گل لالہ کہ جس کے نکھرنے سے امید کی شمع روشن ہوتی ہے، وہ گل لالہ قائد اعظم محمد علی جناح تھے، کیونکہ معاشرے میں جب بھی مظلوم و مضتضعف طبقات کا پاک و طاہر خون اس ارض پر بہایا جاتا ہے۔ تو یہ ارض جہانی اس خون سے ایک گل لالہ پیدا کرتی ہے، وہ پھول کہ جو امید نجات ہوتی ہے، ان تمام محروم طبقات کے لئے کہ جو سالہا سال سے پسے چلے آرہے ہوتے ہیں۔ دراصل برصغیر کے مظلوم مسلمانوں کے لئے گل لالہ محمد علی جناح تھے کہ جنہوں نے سب سے پہلےتمام پسے ہوئے طبقات کو اپنے گرد مسلم لیگ کی شکل میں اکٹھا کیا اور پھر انہیں نجات کا راستہ دکھایا۔ گل لالہ کا جو پھول ہوتا ہے، اس کی بھی خاصیت یہ ہے کہ وہ لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے اور پھر اپنی خوشنمائی سے ان کے دلوں کو لبھاتا ہے۔ پس قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی یہی کام کیا کہ پہلے لوگوں کو اپنی متوجہ کیا اور پھر انہیں اپنے مقصد کی طرف متوجہ کرتے  ہوئے تحریک کا آغاز کر دیا، جو کہ اللہ تعالٰی کے فضل و کرم سے بہت ہی قلیل وقت میں اپنی منزل کو جاپہنچی، اور الحمدللہ بغیر کسی عسکری راستہ اپنائے مسلمانان برصغیر کو اس گل لالہ کی بدولت پاکستان جیسی نعمت مل گئی۔

قائد اعظم محمد علی جناح میں ایسی کیا خاص بات تھی کہ خداوند متعال کی ذات نے یہ کامیابی ان کے نام کر دی، جبکہ ان سے پہلے بھی بہت سے لوگ اس تحریک کو چلانے کی کوششیں کر رہے تھے۔ جن میں کافی ساری تحریکیں زیر بحث آسکتی ہیں، لیکن صرف قائد اعظم ہی کیوں منتخب ہوئے، اس عظیم سلطنت کے حصول کے خواب کو عملی جامہ پہنانے میں۔ شاید وہ قائد اعظم کا اللہ تعالٰی سے عشق و محبت اور یقین محکم تھا، جس کی وجہ سے اللہ تعالٰی نے انہیں اتنی بڑی ذمہ داری میں کامیاب کیا۔ شاید محمد علی جناح کا خلوت میں اپنے رب سے کیا گیا راز و نیاز اور گریہ و زاری کی وجہ سے شاید یہ منصب نصیب ہوا۔ جب ہم تاریخ کے اوراق اٹھا کر دیکھتے ہیں اور مختلف تحریکوں کی کامیابی کی وجوہات پر نظر ڈالتے ہیں تو سب تحریکوں میں جو چیز مشترک نظر آتی ہے، وہ ہے اس تحریک کے قائدین کا اپنے رب سے عشق اور یقین محکم۔ یہی وہ بنیادی اساسیں ہیں کہ جس کے ذریعے الہی کاموں کو پایہ تکمیل تک پہچایا جا سکتا ہے۔

قائد اعظم کی مظلومیت
وفات قائد اعظم کے مناسبت سے جہاں اور بہت سی باتیں کی جاسکتی ہیں، وہاں قائد اعظم محمد علی جناح کی مظلومیت کی بات بھی ہونی چاہیے۔ قائد کی مظلومیت ان کے زندگی سے لے کر تاحال موجود ہے۔ تحریک کے عروج کے دنوں میں تحریک پاکستان کی مخالفت کرنے والے مولوی قائد اعظم کو کافر اعظم کہتے رہے اور اس عظیم ہستی کو فرقہ بازی کی بنیادوں پہ تولنے کی کوشش کرتے رہے، جبکہ قائد اعظم ان فرقہ بندی کے جھنجھٹوں سے بہت اوپر کی سطح کی شخصیت تھے، جن کا وژن صرف اور صرف مظلوم مسلمانان برصغیر کی آزادی تھا۔ وہ کبھی بھی مسلمانوں کو طبقات میں شمار نہیں کرتے تھے بلکہ ہمیشہ امت واحدہ شمار کرتے تھے۔ پس قائد کی یہ مظلومیت اول دن سے آج تک موجود ہے۔ اگر آج ہم دیکھیں تو اس سے بڑی ان کی مظلومیت اور کیا ہوسکتی ہے کہ جو کوئی نام نہاد صحافی اٹھتا ہے وہ کبھی انہیں سیکولر اور کبھی مخالف اسلام کہہ دیتا ہے۔ کیا بابائے قوم کی عزت و حیثیت اتنی بھی نہیں ہے کہ ان جیسے لوگوں کو لگام ڈالی جائے۔ کیا قومیں اپنے محسنوں کے ساتھ یہ سلوک کرتی ہیں۔ کیا ایرانی قوم نے امام خمینی کے ساتھ یہ سلوک کیا ہے کہ ان کی شخصیت کشی کی جسارت کریں۔ کیا افریقین قوم نے نیلسن منڈیلا کے ساتھ یہی سلوک کیا ہے کہ انہیں اپنی قوم کا مخالف ظاہر کریں۔ پس قوموں کی تاریخ میں کہیں بھی نہیں ملتا کہ انہوں نے اپنے قائدین کی شخصیت کشی کی ہو اور ان کے ساتھ ان باتوں کو منصوب کیا ہو کہ جو وہم و گمان میں بھی نہ ہوں۔ آج میڈیا پر بیٹھے ہوئے نام نہاد صحافی حضرات کی قائد اعظم کے بارے گفتگو سے یوں لگتا ہے کہ جیسے شاید قائد اعظم اس دور کی سب سے مظلوم شخصیت ہیں کہ جن کا دفاع کرنے والا بھی کوئی موجود نہیں ہے۔

قائد کا خواب
قائد اعظم محمد علی جناح کا خواب تھا کہ پاکستان ایک ایسی ریاست بنے جہاں ہر طبقے کو اپنی اپنی مذہبی آزادی حاصل ہو۔ جو اپنے عقیدے کے مطابق جیسے عبادت کرنا چاہے اور مذہبی رسومات ادا کرنا چاہے، اسے پورا حق حاصل ہو اور ریاست اس کی مدد کرے۔ لیکن بد قسمتی سے آج کا پاکستان کچھ اور ہی نقشہ پیش کر رہا ہے۔ آج تکفیریت نے وطن عزیز کی جڑیں کھوکھلی کرکے رکھ دی ہیں۔ مذہب کے نام پر سب سے زیادہ قتال ہو رہا ہے اور رہی سہی کسر کرپٹ حکمرانوں نے پوری کر دی ہے۔ کیا یہی ہے اقبال اور قائد کا پاکستان۔؟
خبر کا کوڈ : 485294
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش