QR CodeQR Code

ایران ایٹم بم کا مالک ہے

31 Dec 2010 10:29

سلام ٹائمز: ڈاکٹر الیگزینڈر پروخانوف معروف روسی اخبار "زاوترا" کے چیف ایڈیٹر ہیں اور حال ہی میں ایران سے واپس آئے ہیں، انہوں نے ایران کے بارے میں انتہائی دلچسپ مضمون لکھا ہے جو پڑھنے کے قابل ہے۔


تحریر: ڈاکٹر الیگزینڈر پروخانوف
اسلام ٹائمز- حال ہی میں ایران سے واپس آیا ہوں، بہترین سڑکوں اور ٹریفک کے سیلاب پر مشتمل جدید شہر، گنجان آباد چوکوں پر واقع آسمان سے باتیں کرتی عمارتیں، آیت اللہ خمینی، ایران کے عظیم رہبر، کا سادہ اور چھوٹا سا مکان جہاں وہ رہائش پذیر تھے، جنہوں نے دنیا میں بے مثال روحانی انقلاب برپا کیا اور ایران کو عالمی تہذیب و تمدن کے مرکز میں لا کھڑا کیا۔ موتی کی مانند چمکتی دمکتی اور نیلے آسمان کی جانب اپنے سنہری گنبدوں کو بلند کئے ہوئے حیران کن مسجدیں اور مزار۔
قم کا مقدس شہر جو ایران کی روحانی طاقت کا مرکز ہے اور جہاں بے شمار اسلامی یونیورسٹیاں اور مدارس موجود ہیں جن میں قرآن پاک کی آیات اور سورتوں کا مطالعہ اور انکی تفسیر کی جاتی ہے۔ ملک کے معروف اخباروں کے چیف ایڈیٹرز، حکومتی وزراء، روشن فکر حضرات اور عہدیداروں کے ساتھ ملاقات بھی انجام پائی۔ مجتہدین کے ساتھ بھی گفتگو کا شرف حاصل ہوا۔
قم میں موجود اسلامک کمپیوٹر سینٹر کا دورہ بھی کیا جہاں بہترین ساز و سامان سے لیس لیبارٹریز اور ہالز میں کمپیوٹر سافٹ ویئرز ڈیزائن کئے جاتے ہیں۔ ان سافٹ ویئرز کی مدد سے قرآن پاک کی مختلف تفاسیر کا مطالعہ بھی کیا جاتا ہے۔ وہاں پر کچھ ٹیکنوکریٹس اور محققین سے ایران کی ماڈرنائزیشن اور اسکے جوہری پروگرام کے بارے میں گفتگو کا موقع بھی ملا۔ اسی طرح میں نے عاشورا کی مذہبی رسومات میں بھی شرکت کی۔ ان رسومات کے دوران ہزاروں مسلمان رات کے وقت سڑکوں پر آتے ہیں اور امام حسین کی سوگواری میں شرکت کرتے ہیں۔
میں ان لاکھوں ایرانی مسلمانوں کے درمیان جو گریہ و زاری کر رہے تھے اور شترمرغ کے پروں سے سجے ہوئے بھاری تعزیوں کے درمیان چل رہا تھا۔ میرے آس پاس جوان، بچے، بوڑھے اور سفید داڑھیوں والے چل رہے تھے اور علامتی طور پر زنجیریں مار رہے تھے تاکہ نہ صرف امام شہید بلکہ دنیا کے تمام غم زدہ اور دکھی انسانوں اور ایسے افراد جنکے حقوق غیرعادلانہ انداز میں پامال ہو چکے ہیں، کے ساتھ اظہار ہمدردی کر سکیں۔
میں نے اپنے اندر ہی یہ نتیجہ گیری کی کہ جدید ایران ایٹم بم کا مالک ہے۔ یہ بم دراصل اسکا وہی معاشرتی پہلو اور اجتماعی و معنوی نظام ہے جسکو لے کر ایران، اسلامی انقلاب کے بعد عالمی میدان میں داخل ہوا اور تمام عالمی سامراجی قوتوں کو چیلنج کیا۔
اس نظام اور معاشرے نے انسانی زندگی کے اندر معنوی ترقی و بصیرت اور الہی عدالت کا احساس پیدا کیا اور اس اصول کو ایک عالمی مفہوم میں تبدیل کر دیا۔ اسی طرح انہوں نے دنیوی زندگی، انسانی سوچ، اقتصاد، انسانی سرگرمیوں، مشاغل، علوم اور دنیوی کردار کو آسمانی اقدار سے پرکھا اور دین و الہی نیت میں انکے معانی کو حاصل کیا۔
انسان اپنی زندگی سے مخصوص توانائیاں بے معنی اور ہمیشگی خواہشات، ضروریات کو پورا کرنے اور ہوس پرستی کی نذر نہیں کرتا بلکہ کمال، خلاقیت، حقیقت کی تلاش اور دنیوی زندگی کو نامتناہی آسمانی زندگی سے منطبق کرنے میں صرف کرتا ہے۔
ایران نائٹ کلبز، رکری ایشن سنٹرز، عظیم ریسٹورینٹس، بارز اور جنسی لذت کے مراکز کا ملک نہیں۔ ایران میں اس بہت جلد ختم ہو جانے والی زندگی پر بے حد تکیہ نظر نہیں آتا جسکے تحت زیادہ سے زیادہ لذتیں حاصل کرنے، انہیں خریدنے اور جمع کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بلکہ ایران یونیورسٹیز اور بہت سے مدارس، لائبریریز، مبلغین، شراب سے دور خوش بین جوان قوم کا ملک ہے۔ ایران ایک ایسا ملک ہے جسکی جوان قوم کا ذہن شراب کے ہذیان اور منشیات کی دھند سے دھندلا نہیں ہوا۔ ایران کے فلسفے اور آرٹ نے ایکدوسرے، نیچر اور پوری مادی و معنوی دنیا کے ساتھ اچھا رویہ اپنانا سکھایا ہے، انسان کے اندر موجود حیوان کو رام کیا ہے اور انسان کے اندر باطنی الہی فطرت کو بیدار کیا ہے۔
عدالت ایران کے دینی اور ملکی فلسفے کا محوری نقطہ ہے۔ یہی عدالت ہے جس نے ایران میں جمہوریت کی ایک مخصوص قسم کو جنم دیا ہے۔ الیکشن کا قانون ایران کے ضروری اور ناقابل تبدیل قوانین میں سے ایک ہے جس میں پارلیمنٹ، سیاسی جماعتیں، صدر اور دینی و روحانی قوت سب شامل ہیں۔ آیت اللہ جو قائد ہیں اور روحانی و دینی طاقت کے حامل ہیں، لوگوں کیلئے آسمان سے نازل نہیں ہوئے بلکہ روحانی ماحول میں برگزار ہونے والے انتخابات کا نتیجہ ہیں۔ ایران کی حکومت شخصی اور خودسر فیصلوں سے مبرا ہے۔ حکومت ایران بے شمار سمجھوتوں اور دوطرفہ تعاون کا نام ہے جو طاقت کے کئی مراکز کے درمیان انجام پاتے ہیں۔ یہی تعاون اور سمجھوتے باعث بنے ہیں کہ ایران میں سیاسی عمل تھوڑا سست پڑ جائے لیکن دوسری طرف سیاسی عمل کے مناسب اور ہم آہنگ ہونے اور تیز نشیب و فراز سے بچنے کا باعث بھی بنے ہیں۔
ایران صرف فعال اور متحرک جوانوں کا ملک ہی نہیں بلکہ جوان خواتین کا ملک بھی ہے جو مکمل طور پر آزادی کا احساس کرتی ہیں۔ ایرانی خواتین بنیادی حقوق سے محروم، گھر میں قیدی اور ڈپریشن کا شکار نہیں ہیں۔ ایرانی خاتون ایرانی معاشرے کا زندہ اور متحرک عضو ہے جو مردوں کے شانہ بشانہ سیاست، علم اور ثقافت کے میدان میں سرگرم عمل ہے۔ ایرانی خاتون سیاسی اور ثقافتی اداروں، انٹرنیٹ اور آزاد پبلیکیشنز کے ذریعے ایرانی معاشرے سے رابطے میں ہے اور اس معاشرے میں مردوں کے ہمراہ اہم اور واضح کردار ادا کر رہی ہے۔
میں نے ایران کی یونیورسٹی کلاسز، علمی لیبارٹریز، دینی مدارس اور شہروں کی گلیوں میں جا کر ہمیشہ اس جوان اور شعلہ ور توانائی کا احساس کیا جس نے ان تمام جگہوں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ یہ توانائی وہی ایٹمی پلازما کی حرارت ہے جس کی ملکی انتظامیہ نے شناسائی کی ہے اور اسے اپنے کام میں لیا ہے۔ یہ توانائی علمی اور فکری ترقی، فوجی کارناموں اور الہی بصیرت کے میدانوں میں معجزے رونما کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
آیت اللہ العظمی خمینی نے اس توانائی کو زندہ کیا۔ وہ ایسے صالح فرد تھے جو جلاوطنی کے بعد تہران آئے اور ایسے کروڑوں مومن اور حقیقت جو ایرانی عوام کی جو شاہ کی توپوں اور مشین گنوں کو شکست دے چکے تھے انقلاب کی طرف راہنمائی کی۔
ایران سے امریکہ کی نفرت کی وجہ ایران کے تیل کے ذخائر پر قبضہ کرنے کی امریکی خواہش نہیں ہے، نہ ہی ایرانی فوجیوں کے ہاتھوں میں ایٹم بم کی موجودگی کا خوف ہے اور نہ ہی مشرق وسطی کے اس انتہائی حساس علاقے پر قبضہ جمانے کی خواہش ہے۔ مغربی دنیا کے ایران سے خوف اور نفرت کی وجہ یہ ہے کہ ایران نے اپنے حکومتی اور معاشرتی نظام کے ذریعے تمام مغربی دنیا کو جو ایک بوسیدہ، متکبر، جارح اور نابودی کی جانب گامزن دنیا ہے، چیلنج کیا ہے۔
مغربی دنیا جس نے اپنے اقتدار کی بنیاد ثروت، پیسہ، شیئرز کے بازار اور دیوانہ وار اخراجات کو قرار دیا ہے انسانی توانائیوں کے ضیاع کا باعث بنی ہے اور آج ناکامی کا شکار ہو چکی ہے۔
ایران نے ایک نئے اجتماعی ماڈل کو روشناس کروایا ہے جو زمین اور آسمان، مشین اور انسان، روح اور مادہ جیسے مفاہیم پر استوار ہے۔ وہ تصور جو ایران نے دنیا والوں کے سامنے پیش کیا ہے انتہائی جذاب ہے۔ شاید یہیں ایران میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد جو عدالت کے مفہوم کو تحقق نہ بخش سکا، عالم بشریت کی آئیڈیل اور عادلانہ معاشرہ قائم کرنے کی آرزو پوری ہو جائے۔
ایران کے دشمنوں کی تعداد کم نہیں۔ انہوں نے ایران کا محاصرہ کر رکھا ہے اور اس پر اقتصادی اور فوجی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ ایران کے جوہری سائنسدانوں کو قتل کروایا ہے اور ایران کو رائے عامہ کے سامنے ایک وحشتناک دیو بنا کر پیش کرتے ہیں۔
انتہائی افسوس کی بات ہے کہ روس اس خیر اور شر کی جنگ میں ایران کے دشمنوں سے جا ملا ہے اور شر کی حمایت میں مصروف ہے۔ روس نے خود کو ایسی بوسیدہ دنیا کا حصہ بنایا ہے جو موت اور نابودی کی طرف گامزن ہے اور اپنی تاریخی دولت یعنی عدالت کے مفہوم سے کنارہ کشی اختیار کی ہے۔ روس نے بیسویں صدی اسی مفہوم کے تحقق کی جدوجہد میں گزاری ہے۔
میں رات کو تہران کے لوگوں کے عظیم اجتماع میں چل رہا تھا۔ میرے کانوں میں بینڈ کی آوازیں پڑ رہی تھیں۔ شترمرغ کے پر میرے اوپر لہرا رہے تھے۔ آگ کے شعلوں کے درمیان آیت الہ خمینی کا چہرہ مجھے گھور رہا تھا۔ کروڑوں افراد جو سڑکوں پر نکلے ہوئے تھے ایکدوسرے کے ساتھ سانس لے رہے تھے اور ایک ساتھ اپنے سینوں پر ہاتھ مار رہے تھے۔ یہ تمام آوازیں، کروڑوں لوگوں کے دل کی دھڑکن اور سینے پر ہاتھوں کا لگنا ایک مخصوص ارتعاش کا باعث بن رہے تھے اور شہر کے اطراف موجود پہاڑوں اور ستاروں کو لرزا رہے تھے۔ سمندروں کا پانی ایران کے اردگرد موجیں مار رہا تھا اور ہمسایہ ممالک اور قومیں اسے سن رہی تھیں۔ مجھے ایسا لگا جیسے اس ارتعاش نے دنیا کو دگرگون کر دیا ہے۔ مجھے بھی یہ سعادت حاصل تھی کہ میں اس دگرگون شدہ دنیا کا حصہ تھا۔
میں مسلمانوں کے اس عظیم اجتماع میں چل رہا تھا اور اسی حالت میں اپنے ارتھوڈوکس خدا سے راز و نیاز میں بھی مصروف تھا اور اپنے ملک عزیز روس کیلئے دعا کر رہا تھا۔


خبر کا کوڈ: 48610

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/48610/ایران-ایٹم-بم-کا-مالک-ہے

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org