0
Friday 18 Sep 2015 14:37

کوئٹہ، پاک چین اقتصادی راہداری کیخلاف سیمینار کا انعقاد

کوئٹہ، پاک چین اقتصادی راہداری کیخلاف سیمینار کا انعقاد
ترتیب و تنظیم: این ایچ حیدری

کوئٹہ میں پشتونخوا اولسی تحریک کے زیراہتمام "گوادر کاشغر اقتصادی راہداری کی مبینہ تبدیلی" سے متعلق پریس کلب میں سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ اس موقع پر صوبے کی مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کے سربراہوں، پاکستان پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنماء بسم اللہ خان کاکڑ، عوامی نیشنل پارٹی (ولی) کے مرکزی سیکرٹری جنرل اورنگزیب کاسی، بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل، جماعت اسلامی کے صوبائی امیر عبدالمتین اخوندزادہ، بلوچستان ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر ساجد ترین ایڈووکیٹ، مرکزی انجمن تاجران کے سیکرٹری اطلاعات اللہ داد ترین اور مقامی صحافی امین اللہ فطرت کو خصوصی طور پر دعوت دی گئی تھی۔ سیمینار کے آغاز کے موقع پر پشتونخوا اولسی تحریک کے صدر ڈاکٹر عالم محسود نے وفاقی حکومت کی جانب سے گوادر کاشغر روٹ کی تبدیلی کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی۔ بعدازاں سیمینار کا باقاعدہ آغاز کردیا گیا۔ سیمینار میں پاکستان پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنماء بسم اللہ خان کاکڑ نے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب تک بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے ساحل وسائل پر اختیارات نہیں دیئے جاتے، اس وقت تک کبھی بھی ملک مضبوط و مستحکم نہیں رہے گا۔ افسوس ہے کہ جب سویت یونین گرم پانی کیلئے گوادر تک پہنچنے کیلئے روٹ چاہتے تھے تو یہاں کے حکمرانوں نے انکار کیا۔ اب وہی سویت یونین سے تعلق رکھنے والے کمیونسٹ کو راستہ دینے کیلئے ہمارے حکمران بھاگ دوڑ کر رہے ہیں۔ پشتو عالمی کانفرنس میں ایک پشتون قوم پرست رہنماء نے اس لئے کانفرنس میں شرکت کی، کہ وہ صرف واضح کرنا چاہتے تھے کہ وہ ڈیورنڈ لائن کے حق میں نہیں ہیں بلکہ اس کی مخالفت کرتے رہیں گے۔ گوادر کاشغر روٹ کی تبدیلی کی اجازت کسی کو نہیں دیں گے۔ بلوچستان کے ساحل وسائل پر اختیار دئیے بغیر کوئی بھی منصوبہ کامیاب نہیں ہوگا۔

عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی جنرل سیکرٹری حاجی نظام الدین کاکڑ نے کہا ہے کہ اے این پی اس منصوبے کی اسی طرح مخالفت کرتی رہے گی، جس طرح کالا باغ ڈیم کی مخالفت کی تھی۔ ہمارے اکابرین نے حکمرانوں پر واضح کیا تھا کہ پاکستان اور کالا باغ ڈیم میں ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔ پاکستان کے حکمران 67 سالوں سے محکوم اقوام کے وسائل لوٹتے رہے ہیں اور ہمیشہ سے چھوٹے صوبوں کے حقوق پر قبضہ جمائے رکھا۔ اب بھی پرانی روایت کو برقرار رکھا گیا ہے۔ ہمارے حکمران ملک میں صرف پنجاب کے مفادات کا خیال رکھتے ہیں۔ ہمیں ان سے کوئی توقع نہیں ہے۔ جمہوریت کی بحالی اور پارلیمنٹ کی بالادستی کیلئے اے این پی نے ہمیشہ ہراول دستے کا کردار ادا کیا ہے۔ اس ملک میں وسائل چھوٹے صوبوں کا ہے مگر مزے مرکز یا پنجاب کررہے ہیں۔ گوادر کاشغر روٹ کے منصوبے کے لئے عوامی نیشنل پارٹی نے ہمیشہ آواز بلند کی۔ اس منصوبے کی مخالفت کرتے رہیں گے۔ ہمارے حکمرانوں نے ہمیشہ بلوچوں، پشتونوں اور سندھیوں کا استحصال کیا ہے۔ اس منصوبے کو بلوچستان اور خیبر پختونخوا سے گزارنے کیلئے مل کر جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔

سیمینار کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے عوامی نیشنل پارٹی (ولی) کے مرکزی سیکرٹری جنرل اورنگزیب کاسی نے کہا کہ پنجاب کبھی بھی محکوم اقوام کی بالادستی نہیں کرے گا اور وہ اپنے مفاد کی خاطر ملک کو ڈبو سکتا ہے مگر کسی کو ان کے ساحل وسائل پر اختیار نہیں دیتے۔ گوادر کاشغر روٹ کے منصوبے کو تبدیل کیا گیا تو یہ انتہائی خطرناک اور بھیانک صورتحال اختیار کریگا۔ چین کی کوشش ہے کہ وہ اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچا کر بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں علیحدگی پسند تحریکوں کو ختم کرسکے مگر پاکستان کی کوشش ہے کہ وہ اس منصوبے کو تبدیل کرکے علیحدگی پسند تحریکوں کو مزید مضبوط اور مستحکم بنادے تاکہ وہ آپس میں لڑیں اور پنجاب اپنے مفادات حاصل کرے۔ جس طرح کالا باغ ڈیم کیلئے ایک تحریک چلائی گئی، اسی طرح منصوبے کیلئے بھی ایک طوفانی تحریک کی ضرورت ہے۔ جب تک ہم اپنے حقوق کیلئے نہیں نکلیں گے، اس وقت تک ہم کبھی بھی کامیاب نہیں ہونگے۔

سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے جمعیت علماء اسلام نظریاتی کے مرکزی سینئر نائب امیر مولانا محمد حنیف نے کہا کہ ملک میں 67 سالوں سے محکوم اقوام کے ساتھ جو زیادتیاں ہوئی ہے، اس پر ہمیشہ اپوزیشن میں رہنے والی جماعتوں نے احتجاج اور دھرنے دئیے ہیں مگر جب وہ اقتدار تک جاتے ہیں تو وہ محکوم اقوام کے حقوق پر مجرمانہ خاموشی اختیار کرلیتے ہیں۔ کاشغر کیلئے روٹ بلوچستان اور خیبر پختونخوا سے ہوتا ہوا گوادر تک جاتا ہے مگر گوادر کے عوام سے یہ پوچھا جائے کہ وہ ان کے حق حاکمیت کو تسلیم کرتے ہیں یا نہیں۔ ملک ہمیشہ اس لئے بحرانوں کا شکار رہا ہے کہ لوگوں کو ان کے حقوق نہیں دئیے گئے۔ عالمی سطح پر امریکہ اور پاکستان میں پنجاب بالادست قوت رہا ہے۔ حکومت میں شامل جماعتیں نیشنل پارٹی اور پشتونخوامیپ اب بلوچوں اور پشتونوں کے حقوق کیلئے کیوں وفاق سے نہیں لڑتیں کیونکہ ان کو عوام کی مفادات کی بجائے اپنے مفادات عزیز ہیں۔ جمعیت نظریاتی عوام کے حقوق کیلئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرے گی اور نہ ہی اب ملک میں سودا گری چلے گی۔ ہمارے حکمرانوں نے بلوچستان کو تجربہ گاہ بنا دیا ہے۔

سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے صوبائی امیر عبدالمتین اخوندزادہ نے کہا کہ گوادر کاشغر روٹ کا منصوبہ بلوچستان سے نہیں گزارا تو اس ملک میں بڑا سیلاب آئے گا۔ جس کے تمام تر ذمہ دار موجودہ حکمران ہونگے۔ ہمیں افسوس ہے کہ حکومت میں شامل جماعتیں گوادر کاشغر روٹ پر خاموش کیوں ہیں اور وہ وفاق سے اس مسئلے پر کیوں احتجاج نہیں کرتی۔ افسوس ہے کہ اس اہم سیمینار میں حکومتی پارٹیاں اور اپوزیشن لیڈر تک نہیں ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جائے کہ ہم اپنے حقوق کیلئے کتنے مخلص ہیں۔ اگر ہم نے اب بھی ماضی سے سبق نہیں سیکھا تو آئندہ آنے والی نسلیں ہمیں کبھی بھی معاف نہیں کریگی۔

سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل کا کہنا تھا کہ جب تک بلوچستان کے ساحل وسائل کا اختیار صوبائی حکومت یا عوام کو نہیں دیا جاتا، ہم ایسے کسی بھی منصوبے کی حمایت نہیں کریں گے، جس سے بلوچستان کے عوام اقلیت میں تبدیل ہو جائیں۔ وفاقی حکومت نے بلوچوں اور پشتونوں کو گوادر کاشغر روٹ کے منصوبے کے حوالے سے ایک بار پھر ماموں بنا دیا۔ ترقی کے نام پر استحصال بند کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اس مسئلے کو پشتونخوا اولسی تحریک نے اہمیت دی اور یہاں آکر اس منصوبے پر بلوچستان کی سیاسی و مذہبی جماعتوں کو اعتماد میں لیا، اس پر وہ مبارکباد کے مستحق ہیں مگر بدقسمتی سے بلوچستان میں رہنے والے صاحب اقتدار اس سنگینی سے ناواقف ہیں۔ میاں محمد نواز شریف کی دوسری حکومت میں اس منصوبے کی منصوبہ بندی کی گئی، ہمیں چھوٹے مسائل میں جکڑ کر وہ ہمارے ساحل وسائل کو لوٹ رہے ہیں۔ یہ منصوبہ اس وقت بنایا گیا، جب وہ مری کے جیل میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کررہے تھے مگر ہمیں اس کا علم نہیں تھا۔ یہاں جن خدشات کا اظہار کیا گیا وہ قابل افسوس ہیں۔ نیتوں سے پتہ چلتا ہے کہ معاملہ گڑبڑ ہے۔ تمام سڑکیں اور شاہراہیں ایک سازش کے تحت لاہور کی جانب موڑ دی گئیں۔ ترقی کیلئے سب سے بڑی ترجیح امن و امان کی ہوتی ہے مگر افسوس کہ گوادر کی بجائے کوئٹہ میں شام ہوتے ہی بلوچی لباس اور پشتو دستار میں لوگ گھروں سے نہیں نکل سکتے۔ ہمارے نوجوان جب گھر سے تعلیمی اداروں کیلئے نکلتے ہیں تو ہماری مائیں اور بہنیں ان کیلئے دعائیں کرتی ہیں۔ بلوچستان میں امن و امان 100 فیصد بہتر ہے، اس لئے ہمارے حکمرانوں نے بلوچستان اکنامک فورم سیمینار بلوچستان کی بجائے اسلام آباد میں منعقد کیا۔ حکمرانوں کو ان لوگوں نے یہ پیغام دیا کہ بلوچستان میں حالات اب تک بہترنہیں ہیں۔

سردار اختر جان مینگل کا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان میں ترقیاتی منصوبے سیٹلائٹ کے ذریعے دیکھے جا رہے ہیں۔ پنجاب کے حکمرانوں نے ہمیں ہر وقت مراعات اور اقتدار کیلئے ماموں بنایا۔ اسی طرح حکومتی اے پی سی میں پنجاب کے حکمرانوں نے بلوچوں کی بجائے پشتونوں کو ماموں بنایا۔ بھیک مانگنے نہیں آئے، حق حاکمیت تسلیم کیا جائے۔ ہمارے ہاں اسلامی، بلوچی اور پشتون روایات کبھی بھی کسی کی زمین پر زبردستی قبضہ کرنے کی اجازت نہیں دیتیں اور نہ ہی ہم اپنے حقوق اور ساحل وسائل پر کسی کو زبردستی قبضہ کرنے کی اجازت دیں گے۔ بلوچستان کیلئے ہمارے آباؤ اجداد نے قربانیاں دی ہے اور ہمیں تنگ نظر سیاست سے نکلنا ہوگا۔ کالا باغ ڈیم کی مخالفت سب سے پہلے میں نے کی اور بلوچستان اسمبلی میں بحیثیت وزیراعلٰی کالا باغ ڈیم سے متعلق قرارداد پیش کی۔ اس وقت کے وزیراعظم کے سامنے ہم نے کالا باغ ڈیم بنانے کی مخالفت کی۔ سندھ اور اس وقت کے خیبر پختونخوا یعنی این ڈبلیو ایف پی کے وزیراعلٰی نے کالا باغ ڈیم بنانے کی حمایت کی تھی۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہاں کے حکمرانوں نے اپنی مفادات کیلئے بنگالیوں کو الگ کیا۔ اب باری باری بلوچوں اور پشتونوں کو بھی الگ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ بنگالی جو پشتونوں اور بلوچوں سے ہر لحاظ سے طاقتور تھے، وہ صرف اپنے حق حاکمیت کیلئے لڑتے تھے۔ ہمارے حکمرانوں نے ان کو الگ کیا تاکہ وہ بالادست طبقہ نہ رہے۔ اب ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنے مفادات کی خاطر اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے ہر حد تک جا سکتے ہیں، اگر حکمران واقعی بلوچستان کی ترقی چاہتے ہیں مگر افسوس کہ آج بھی گوادر میں پاکستان کی بجائے ایران کی بجلی وہاں کے لوگوں کو فراہم کی جارہی ہے۔ گوادر میں تعلیمی ادارے اور ہسپتال نہ ہونے کے برابر ہے۔ ترقی کے نام پر ہمارا استحصال بند کیا جائے اور بلوچوں کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

سیمینار کے آخر میں‌ بلوچستان ہائی کورٹ بارایسوسی ایشن کے صدر ساجد ترین ایڈووکیٹ، مرکزی انجمن تاجران کے سیکرٹری اطلاعات اللہ داد ترین اور مقامی صحافی امین اللہ فطرت نے بھی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گوادر کاشغر روٹ کی تبدیلی کسی صورت تسلیم نہیں کریں گے اور اس سے بلوچستان کے تاجروں پر برے اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ منصوبہ بلوچوں اور پشتونوں کے تشخص کے خاتمہ کا منصوبہ ہے۔ جس طرح کراچی میں سندھیوں کو اقلیت میں تبدیل کیا گیا، اسی طرح گوادر میں بھی بلوچوں کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
خبر کا کوڈ : 486233
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش