0
Sunday 20 Sep 2015 19:35

عراق میں ترکی کے اہداف

عراق میں ترکی کے اہداف
تحریر: ڈاکٹر مسعود رضائی

سلطنت عثمانیہ کے زوال کے بعد ترکی اور عراق کے درمیان تعلقات بہت زیادہ نشیب و فراز کا شکار رہے۔ 1932ء سے 1958ء کے درمیانے سالوں میں ترکی اور عراق میں باہمی تعاون اپنے عروج پر پہنچ چکا تھا لیکن 1958ء سے 1990ء کے دوران دونوں ممالک کے تعلقات پیچیدگیوں کا شکار ہوتے چلے گئے، کیونکہ دونوں ممالک کی خارجہ پالیسیاں بہت حد تک تبدیل ہوچکی تھیں۔ اس دوران عراق اور ترکی کے درمیان پائے جانے والے تعلقات کا زیادہ تر حصہ تیل اور پانی کے مسائل سے مربوط تھا۔ دونوں ممالک میں خام تیل کی تجارت کے بارے میں اتفاق نظر پایا جاتا تھا، لیکن پانی کے مشترکہ ذخائر کی مدیریت سے متعلق دونوں ممالک میں شدید اختلافات پائے جاتے تھے۔ عراق کے صدر صدام حسین کے دورہ صدارت میں عراق ایران جنگ (1980ء سے 1988ء) کے دوران بھی عراق اور ترکی کے درمیان تعلقات قدرے بہتر ہوگئے۔ اگرچہ ترکی نے ایران عراق جنگ کے دوران رسمی طور پر بے طرفی کا موقف اپنا رکھا تھا، لیکن خفیہ طور پر عراق کی حمایت کرنے اور اسے مالی امداد فراہم کرنے میں مصروف تھا۔

لیکن جب عراق نے کویت پر حملہ کیا اور اس کے بعد پہلی خلیجی جنگ کا آغاز ہوگیا تو دونوں ممالک کے تعلقات دوبارہ خراب ہوگئے۔ ترکی نے نیٹو کا رکن ملک ہونے کے ناطے اتحادی ممالک کو عراق کے خلاف اپنے فوجی اڈے استعمال کرنے کی اجازت دے دی۔ اسی طرح عراق کے شمالی حصوں میں کرد تنظیم پی کے کے کی تشکیل کے بعد بھی عراق اور ترکی کے تعلقات میں پچیدگیاں پیدا ہوگئیں۔ پہلی خلیجی جنگ کے بعد عراق اور ترکی دونوں نے کردستان کو ایک خود مختار ریاست میں تبدیل ہو جانے سے روکنے کی کوشش شروع کر دی اور پی کے کے تنظیم کے خاتمے کیلئے مشترکہ کوششوں کا آغاز کر دیا۔ ترکی نے 2003ء میں عراق کے خلاف فوجی آپریشن میں شرکت سے گریز کیا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ پہلی بار تھی جب ترکی نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا ساتھ دینے سے گریز کیا تھا۔ دوسری طرف امریکہ نے بھی ترکی کو عراق کے شمالی حصے میں پی کے کے تنظیم کے خلاف فوجی آپریشن انجام دینے سے روک دیا۔ یہ آپریشن 2007ء تک رکا رہا اور جب امریکہ اور ترکی میں باہمی تعاون کا نیا سلسلہ شروع ہوا تو ترکی کو شمالی عراق میں علیحدگی پسند کرد تنظیم "پی کے کے" کے خلاف فوجی آپریشن کا موقع میسر آگیا۔

ترکی نے پی کے کے کا موثر انداز میں مقابلہ کرنے کیلئے کردستان کی حکومت سے تعاون کرنا شروع کر دیا۔ کردستان کی حکومت بھی اس حقیقت سے آگاہ تھی کہ امریکہ بالآخر عراق سے نکل جائے گا اور اسے اپنی طاقت اور حکومت باقی رکھنے کیلئے ایک اہم سیاسی حامی کی ضرورت پڑے گی، لہذا اس نے ترکی کو خطے کے ایک اہم سیاسی کھلاڑی کے طور پر اپنے حامی کے طور پر منتخب کر لیا۔ دوسری طرف ترکی کو بھی پی کے کے تنظیم کے جنگجووں کو عام کرد عوام کی حمایت سے محروم کرنے اور ان سے علیحدہ کرنے کیلئے کردستان حکومت کی مدد درکار تھی۔ ترکی اور کردستان حکومت کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات کے خلاف ترکی میں اعتراضات شروع ہوگئے، جس کی وجہ سے ترک حکومت نے کرد عوام کے بارے میں دوغلی پالیسی اپنانا شروع کر دی اور ایک طرف ان پر فوجی دباو ڈالنا شروع کر دیا اور دوسری طرف ان کی اقتصادی اور سیاسی مدد کے ذریعے پی کے کے کے خلاف اپنی فوجی کارروائیوں کی راہ ہموار کرنا شروع کر دی۔

عراق کے شمالی حصوں میں ترکی کی کارروائیوں کے باوجود دونوں ممالک کے تعلقات پر برا اثر نہ پڑا اور ترکی نے 2010ء تک عراقی حکومت کے ساتھ اچھے تعلقات استوار رکھے۔ اس مدت کے دوران صدر صدام حسین کی سرنگونی کے بعد ترک حکومت نے عراق کی سماجی صورتحال کا سہارا لیتے ہوئے خود کو کردوں اور اہلسنت آبادی سے نزدیک کیا اور عراق میں اپنے اثرورسوخ کو بڑھایا۔ ترکی نے صدر صدام حسین کی سرنگونی کے بعد عراق میں وسیع تر قومی حکومت کی تشکیل پر زور دیا اور شیعہ مسلمانوں پر مشتمل اکثریت آبادی کو برسراقتدار آنے سے روکتا رہا۔ اگرچہ 2008ء میں عراق کے شیعہ وزیراعظم نوری المالکی اور ترک حکومت کے درمیان "اعلٰی سطحی اسٹریٹجک تعاون کونسل" تشکیل پائی اور دونوں حکومتوں نے سیاسی ایشوز پر بات چیت کرنے اور تجارت کی مقدار کو بڑھانے پر اتفاق کر لیا، لیکن اس کے باوجود 2010ء میں پیش آنے والی مشکلات اور عراق کے پارلیمانی انتخابات کے انعقاد کے بعد دونوں ممالک میں تناو پیدا ہوگیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ان واقعات نے ایران اور ترکی کے درمیان تعلقات کو بھی شدید متاثر کیا اور ترک حکومت نے اس کے بعد 2011ء میں شام کے بحران میں مداخلت کرنا شروع کر دی، جو درحقیقت عراق کے سیاسی میدان میں شکست کا ردعمل تھا۔

عراق کے پارلیمانی انتخابات میں ترک حکومت نے ایاد علاوی کی سربراہی میں "العراقیہ فرنٹ" کی حمایت کی، جبکہ دوسری طرف ایران نوری المالکی کی سربراہی میں بننے والے انتخاباتی اتحاد "حکومت قانون فرنٹ" کی حمایت کر رہا تھا۔ جب عراق کے پارلیمانی انتخابات کے نتائج کا اعلان ہوا اور العراقیہ فرنٹ کی کامیابی کا اعلان کیا گیا تو نوری المالکی نے اس پر اعتراض کیا اور بغداد اور موصل میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا مطالبہ کر دیا۔ عراق کے الیکشن کمیشن کی فائنل رپورٹ کے مطابق ایاد علاوی کے اتحاد کو 91 کرسیاں جبکہ نوری المالکی کے اتحاد کو 89 کرسیاں حاصل ہوئیں۔ لیکن عراق کی سپریم کورٹ نے جسے قوانین کی تدوین پر نظارت اور ملکی آئین کی حفاظت کی ذمہ داری حاصل ہے، نے اعلان کیا کہ ضروری نہیں آنے والی حکومت صرف انتخابات میں جیتنے والے اتحاد پر ہی مشتمل ہو۔ اس سے پہلے بھی ایسا نظریہ پیش کیا گیا تھا کہ نئی حکومت کی تشکیل کا حق صرف اس پارٹی یا سیاسی اتحاد کو حاصل ہوگا جس کے پاس پارلیمنٹ میں سب سے زیادہ کرسیاں ہوں گی۔ لہذا اس مسئلے نے عراق اور ترکی بلکہ ایران اور ترکی کے درمیان ایک نیا تنازعہ کھڑا کر دیا۔ نوری المالکی کے دوسری بار عراق کا وزیراعظم بننے کے بعد انقرہ اور بغداد کے درمیان تعلقات انتہائی کشیدگی کا شکار ہوگئے۔ 2011ء کے آخر میں عراق سے امریکہ کی مسلح افواج کے انخلاء کے بعد بغداد میں صدام دور کی بعث پارٹی سے وابستہ عناصر کی صفائی کا عمل زیادہ شدت سے شروع ہوگیا، طارق الہاشمی، صالح المطلق اور رفیع العیسوی اور دوسرے ترکی اور امریکہ سے قریبی تعلقات رکھنے والے افراد سیاست سے باہر نکال دیئے گئے۔ عراقی حکومت کے جانب سے طارق الہاشمی پر دہشت گردانہ اقدامات میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا گیا۔ طارق ہاشمی پر عراقی پارلیمنٹ کے سامنے دہشت گردانہ بم دھماکے اور بغداد میں ہونے والے خودکش حملوں میں ملوث ہونے کا الزام تھا۔ وہ اربیل پھر قطر اور اس کے بعد ترکی فرار ہوگیا۔ اس دوران ترکی عراق میں اثرورسوخ بڑھانے کے تقریباً تمام ہتھکنڈوں سے محروم ہوچکا تھا۔

لیکن تکفیری دہشت گرد گروہ "دولت اسلامیہ فی عراق و شام" یا "داعش" کے منظر عام پر آنے اور 9 جون 2014ء کو غیرمتوقع طور پر عراق کے شہر موصل پر حملہ ور ہو کر قابض ہو جانے کے بعد ترکی کی جانب سے اس گروہ کو مالی اور فوجی امداد فراہم کئے جانے کے بارے میں قیاس آرائیاں ہونا شروع ہو گئیں۔ داعش کا ایشو بین الاقوامی سطح تک پھیل جانے اور امریکہ کی سربراہی میں ایران مخالف اتحاد کی تشکیل کے بعد ترکی نے دوسری جنگ عظیم کے بعد دوسری بار امریکہ کی جانب سے اپنے اتحاد میں شامل ہونے کی درخواست کو مسترد کر دیا۔ یہ فیصلہ ترکی کی قومی سلامتی کونسل کے اجلاس میں وزیراعظم داود اوگلو، انٹیلی جنس چیف حاقان ویدان اور اعلی سطحی فوجی کمانڈرز کی موجودگی میں کیا گیا۔ اس اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ترک حکومت داعش کے خلاف کسی بھی زمینی یا ہوائی فوجی کاروائی میں حصہ نہیں لے گی اور داعش مخالف اتحاد کی صرف انسان دوستانہ مدد کرے گی۔ داعش کے ساتھ ترکی کے تعلقات کے بارے میں عالمی رائے عامہ میں مختلف قسم کے سوالات پائے جاتے ہیں جیسے:
1)۔ "غازی عنتاب" کے علاقے میں دنیا بھر سے تکفیری عناصر کی فوجی تربیت کیلئے ایک فوجی مرکز بنایا گیا ہے۔ اس مرکز کا کیا مقصد ہے؟ اور اس مرکز میں تربیت پانے والے افراد کو بغیر کسی روک ٹوک کے ترکی کی سرحد عبور کرکے شام جانے کی اجازت کیوں دی گئی ہے۔
2)۔
ترک حکومت نے استنبول کے علاقے "محمد الفاتح" میں کیونکر ایسے مراکز کھولے جانے کی اجازت دی ہے، جن کا کام داعش سے وابستہ سرگرم دہشت گردوں کی ضروریات پوری کرنا ہے اور زخمی تکفیری دہشت گردوں کا علاج ترکی کے اسپتالوں میں کیوں ہو رہا ہے۔؟

اسی قسم کے اور بھی کئی سوالات بغداد کو بھی درپیش تھے اور اب بھی ایسے ہی بہت سے سوالات موجود ہیں۔ اسی دوران کردستان کی خودمختار حکومت اور ترکی کے درمیان بھی اختلافات کھل کر سامنے آنا شروع ہو گئے اور کردستان عراق کے وزیراعظم نیچروان بارزانی نے اپنی تقریر کے دوران کہا: "داعش کے خلاف جنگ میں ترکی نے ہماری توقعات کے مطابق ہماری مدد نہیں کی اور ہم نے ابھی تک ترکی کی جانب سے کردستان کے دفاع میں داعش کے خلاف کوئی موثر اقدام ہوتا نہیں دیکھا"۔ اسی طرح کردستان عراق کے صدر کے سیکرٹری فواد حسین نے ترکی کے روزنامے "ملیت" سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: "کردستان عراق کی حکومت ترک حکومت کے موقف سے انتہائی متعجب ہوئی ہے"۔ یہ بیانات عراق سے متعلق ترکی کی دوغلی پالیسیوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ درحقیقت تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے منظرعام پر آنے سے پہلے ترکی نرم طاقت جیسے ہتھکنڈوں کے ذریعے اپنے سیاسی اہداف کے حصول میں کوشاں تھا لیکن داعش کی پیدائش کے بعد اس نے انتہائی غلط اسٹریٹجی اپناتے ہوئے خود کو اس دہشت گرد گروہ کے ساتھ نتھی کر لیا ہے جس کا اسے انتہائی شدید سیاسی نقصان ہوا ہے۔

عراق کے بعض سنی فوجی کمانڈروں اور گروہوں کی جانب سے تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کی حمایت کے نتیجے میں یہ ملک انتہائی شدید بحران کا شکار ہو گیا لہذا ایران نے اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے ستمبر 2014ء میں عراقی وزیراعظم نوری المالکی کو اپنا منصب چھوڑنے کا کہا جو انہوں نے قبول کر لیا اور ان کی جگہ حیدر العبادی عراق کے نئے وزیراعظم کے طور پر سامنے آئے۔ ایران نے نئے عراقی وزیراعظم پر زور دیا کہ وہ اہلسنت اور دیگر اقلیتوں کو بھی اقتدار میں شریک کریں۔ ایران کا یہ موقف ایک حد تک ترکی کیلئے بھی قابل قبول تھا جس کی وجہ سے بغداد میں برسراقتدار آنے والی نئی حکومت کے مینڈیٹ میں اضافہ ہو گیا۔ عراق میں نئی حکومت کے برسراقتدار آنے کے تقریبا تین ماہ بعد ترک وزیراعظم داود اوگلو نے عراق کا دورہ کیا اور اپنے دو روزہ دورے کے دوران عراق کے صدر فواد معصوم، وزیراعظم حیدر العبادی، قومی اسمبلی کے اسپیکر سلیم الجبوری اور کردستان خودمختار علاقے کے سربراہ مسعود بارزانی سے بھی ملاقاتیں کیں۔ ترکی عراق میں حیدر العبادی کے بطور وزیراعظم انتخاب کو اپنے لئے نیک شگون قرار دیتا ہے اور اسے امید ہے کہ وہ عراقی عوام اور حکومت میں اپنا ماضی کا اثرورسوخ دوبارہ حاصل کر سکے گا۔ داود اوگلو کا دورہ عراق، بغداد اور انقرہ میں نئی حکومتوں کی تشکیل کے بعد دونوں کے درمیان پہلا اعلی سطحی رابطہ تھا۔ داود اوگلو کا دو روزہ عراق کا دورہ گذشتہ چند سالوں سے دونوں ممالک کے درمیان تناو کا شکار تعلقات کو بہتر بنانے میں انتہائی اہم تصور کیا جا رہا ہے۔ درحقیقت یہ دورہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ترک حکومت نے عراق کی نئی حکومت کو قبول کر لیا ہے اور وہ عراق میں حیدرالعابدی کی حکومت سے راضی ہے۔

اگرچہ ترکی کم از کم کردوں کے ساتھ تناو کی شدت کو کم کرنے کیلئے بغداد کے ساتھ تعاون کی صورت میں خطے کی بحرانی صورتحال کو ختم کرنے میں انتہائی تعمیری اور مثبت کردار ادا کر سکتا ہے لیکن گذشتہ چند سالوں کے دوران اپنائی گئی پالیسیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ترک حکومت عراق میں متضاد اہداف کے حصول کیلئے کوشاں ہے۔ مثال کے طور پر ترکی عراق کی مرکزی حکومت کی اجازت کے بغیر ہی کردستان حکومت سے خام تیل خریدنے میں مصروف ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے ترکی عراق میں طولانی مدت اہداف حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ترکی اپنی ڈاکٹرائن کی رو سے عراق کے شمالی حصے سے لے کر موصل تک کے علاقے کو اپنی سرزمین کا حصہ سمجھتا ہے اور داود اوگلو کی نظر میں بھی عراق کا شمالی حصہ مشرق وسطی میں داخل ہونے کیلئے ترکی کیلئے اسٹریٹجک اہمیت کا حامل خطہ ہے۔ یہ مسئلہ ایک لمبی تاریخ کا حامل ہے۔ ترکی نے پہلی بار 1926ء میں اعلانیہ طور پر عراق کے شمالی حصے پر اپنی ملکیت کا دعوی کیا تھا۔ 1958ء، 1983ء، 1991ء اور بیسویں صدی کے آخر میں 1995ء میں بھی ترکی کے اس وقت کے صدر سلیمان دیمرل کی جانب سے اس دعوی پر مزید تاکید کی گئی تھی۔ سلیمان دیمرل نے دہشت گردانہ اقدامات کا مقابلہ کرنے کیلئے عراق کے شمالی حصے کو ترکی میں ضم کر دینے کا منصوبہ بنایا تھا۔ اسی طرح موصل بھی ان کی توجہ کا مرکز رہا اور وہ 1923ء میں انجام پانے والے "لوزان معاہدے" کی رو سے یہ خطہ عراق کو دینے پر رضامند نہ تھے۔ دوسری طرف ترکی 1980ء کے عشرے میں جب عراق اور ایران میں جنگ جاری تھی، عراقی حکومت کو اپنے ساتھ تجارت سمیت تمام شعبوں میں مکمل تعاون کی ترغیب دلاتا رہا۔

اس طرح ترکی بغداد کے اصلی خریداروں میں شامل ہو گیا اور اس کی ضرورت کا 60 فیصد خام تیل کرکوک سے درآمد ہونے لگا۔ جب ایران عراق جنگ کے آخر میں ایران نے اہم کامیابیاں حاصل کرنا شروع کر دیں اور کافی حد تک پیش قدمی کرنے لگا تو ترکی کے اس وقت کے قوم پرست وزیر خارجہ کامران اینان نے اعلانیہ طور پر اس بات کا اعتراف کیا کہ ترکی میں درآمد ہونے والے خام تیل کا 40 فیصد حصہ کرکوک سے آتا ہے اور عراق کے شمالی حصے میں کم از کم 15 لاکھ ترک مقیم ہیں۔ لہذا انہوں نے اس موقف کا اظہار کیا کہ اگر ایران کی بڑھتی ہوئی پیش قدمی کا نتیجہ عراق کے ٹوٹنے کی صورت میں ظاہر ہوا تو ترکی بھی عراق کے شمالی حصے پر قبضہ کرنا اپنا حق سمجھتا ہے۔ آج بھی عراق میں سیاسی اثرورسوخ بڑھانے میں ترکی ایران کو اپنا حلیف تصور کرتا ہے اور ترکی نے عراق کے شمالی حصے پر اپنی نظریں جما رکھی ہیں۔ لیکن جب بغداد میں شیعہ قوتیں برسراقتدار ہوں تو کردستان خطے کی خودمختاری سے ترکی کا مقصد اس علاقے کو اپنی سرزمین میں ضم کرنا نہیں بلکہ عراق میں اپنا روایتی اثرورسوخ دوبارہ حاصل کرنا ہو گا اور ترکی میں حکمفرما انصاف و ترقی پارٹی اسی ہدف کے حصول کیلئے کوشاں ہے۔ لہذا ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ترکی "موصل" اور "اربیل" کو دو خودمختار ریاستیں بنانے کیلئے کوشاں ہے کیونکہ موصل اسٹریٹجک اہمیت کا حامل خطہ جبکہ اربیل خام تیل کے قدرتی ذخائر سے مالامال خطہ ہے۔

لیکن ترکی اس حقیقت سے غافل ہے کہ اگر مستقبل میں شمالی عراق ایک آزاد اور خودمختار ریاست میں تبدیل ہو جاتا ہے تو اس کیلئے اپنی مخالف کرد تنظیم پی کے کے سے مقابلہ کرنا انتہائی مشکل ہو جائے گا۔ پی کے کے کو ایسی صورت میں زیادہ قدرتی وسائل مل جائیں گے اور وہ زیادہ مضبوط ہو جائے گی۔ دوسری طرف ترکی کے کرد نشین علاقوں میں بھی علیحدگی پسندانہ تحریکیں زور پکڑ لیں گی اور وہ بھی اپنے لئے ایک آزاد اور خودمختار ریاست کے قیام کا مطالبہ کریں گے۔ درحقیقت انقرہ سمجھتا ہے کہ وہ مشرق وسطی میں ایک طولانی مدت کردار ادا کرنے میں مصروف ہے۔ لہذا اگر چند سال اسے سیاسی ناکامیوں کا سامنا بھی کرنا پڑ جائے تو کوئی حرج نہیں اور اسے یقین ہے کہ اس نے درست موقف اپنا رکھا ہے اور خطے میں پیدا ہونے والی بدامنی اس کے فائدے میں ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ عراق کی سیاست صورتحال پر اثرانداز ہونے کیلئے ترکی کے پاس کافی حد تک وسائل موجود نہیں۔ لہذا ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ترکی عراق میں موجود مختلف سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرے گا اور ان کے ذریعے اپنے سیاسی اہداف کے حصول کو ممکن بنائے گا۔ ترکی کا فائدہ اسی میں ہے کہ وہ بغداد کی مرکزی حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات میں بہتری لائے اور عراق کی سکیورٹی بہتر بنانے اور اسے ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں اس کے ساتھ ہر ممکنہ تعاون کرے۔ 
خبر کا کوڈ : 486576
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش