0
Tuesday 22 Sep 2015 13:50

ہوس اور ایثار اکٹھے نہیں ہوسکتے

ہوس اور ایثار اکٹھے نہیں ہوسکتے
تحریر: ثاقب اکبر

عید قربان کی آمد آمد ہے۔ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد حج بیت اللہ کے لئے سرزمین حرم پر موجود ہے۔ جہاں لبیک اللھم لبیک کی صدائیں گونج رہی ہیں۔ کہیں بیت اللہ کے گرد طواف ہے تو کبھی صفاء و مروہ کے درمیان نقشِ پائے ہاجرہ کی تلاش۔ کبھی سرزمین عشق و عرفان میدان عرفات کا وقوف ہے تو کبھی شیطانوں پر حملہ آور ہونے کے لئے کنکریوں کی جمع آوری۔ کبھی رمی جمرات ہے تو کبھی قربانی کا یادگار مرحلہ۔ دنیا کے دیگر ملکوں میں بھی مسلمان اس عید کو منانے کے لئے بے چین ہیں۔ قربانی کے لئے جانوروں کی خریداری کا سلسلہ جاری ہے اور دوسری طرف نئی پوشاک کی تیاری ہے، تاکہ روز عید حضرت ابراہیم خلیل اللہ اور ان کے فرزند گرامی قدر اسماعیل ذبیح اللہ کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے اچھے سے اچھا انداز اختیار کیا جاسکے۔

حضرت ابراہیم خلیل اللہ اپنی بہترین متاع حیات اللہ کے حضور قربان کرنے کے لئے آخری حد سے گزر گئے۔ یہاں تک کہ آسمان سے یہ صدا گونج اٹھی کہ ابراہیم آپ نے اپنا خواب سچ کر دکھایا۔ ابراہیم ایثار اور قربانی کی بہترین علامت ہیں، ایک خالص اور پاکیزہ علامت۔ وہ قربانی و ایثار کا استعارہ بن چکے ہیں۔ ہم چاہے سرزمین حرم سے دور عید قربان پر قربانی کر رہے ہوں یا سرزمین حرم پر، ہر وقت ابراہیم خلیل اللہ ہماری آنکھوں کے سامنے رہتے ہیں۔ ابراہیم نے اسماعیل کی گردن پر چھری نہیں چلائی بلکہ دنیاوی زندگی اور آرزو کی ہر شکل کو ذبح کر دیا۔ ابراہیم اسی لئے ابراہیم ہیں۔ ابراہیم کی یاد اسی لئے منانا ضروری ہے۔ مادی ہوس اور آرزو کو ذبح کرکے اللہ کی قربت کا مقام حاصل کرنے کا سبق واقعاً ابراہیم سے سیکھنا چاہیے۔ عید قربان سب کچھ اللہ کے لئے قربان کرکے اس کی قربت کی تمنا کے عملی مظاہرے کا دوسرا نام ہے۔

جو کچھ ہم نے سطور بالا میں کہا ہے یہ سب اگر سچ ہے تو پھر یہ بھی سچ ہے کہ ہوس اور ایثار اکٹھے نہیں ہوسکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایثار تو ہے ہی ہوس کی گردن پر چھری پھیر دینے کا نام۔ ایسے میں اگر ہم اپنی ذات میں جھانک کر دیکھیں تو ایسی کئی قربانی کی عیدیں ہماری زندگی میں گزر گئی ہیں، لیکن ہوس کا گھوڑا ہے کہ زیادہ منہ زور ہوتا چلا جا رہا ہے۔ کون ہے جو اپنے گریبان میں جھانک کر عید کی شام کو یہ اعلان کرسکے کہ آج میں نے اپنی کسی ہوس پر کسی دوسرے کو قربان نہیں کیا، بلکہ اپنی ہوس کو اللہ کی رضا کے لئے کسی بندے کی خاطر قربان کر دیا ہے۔ اے کاش ایسا ہوسکے۔ جس خوش نصیب کا ضمیر عید کی شام یہ گواہی دے سکے، وہ جذبۂ شکر و تشکر کے ساتھ اللہ کی بارگاہ میں جھک جائے کہ اسے واقعاً عید قربان میسر آگئی ہے۔ اس نے واقعاً ’’بڑی عید‘‘ کو پا لیا ہے۔

کیا مسلمان عوام کے ساتھ ساتھ مسلمان حکمران بھی غور کریں گے کہ وہ کس حالت میں اور کس روحانی و نفسانی کیفیت میں عید قربان منانے جا رہے ہیں۔ کیا انھوں نے بھی اپنی کسی ہوس کو قربان کرنے کا فیصلہ کیا ہے، یا انھوں نے اپنے عوام یا پھر دیگر مسلمان قوموں کو اپنی ہوس پر قربان کرنے کے لئے عید قربان کو بھی استعمال کرنے کا فیصلہ کر رکھا ہے۔ سب سے پہلے یہ سوال حرمین شریفین کے ’’خدمت گزاروں‘‘ ہی کے سامنے آنا چاہیے۔ انہی کو سب سے پہلے یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ وہ دیگر مسلمان ملکوں میں سے جس جس ملک میں ان کی فوجیں موجود ہیں، انھیں واپس بلا لیں گے اور کسی مسلمان قوم کی آزادی کو اپنے توسیع اقتدار کی ہوس پر قربان نہیں کریں گے۔ انھیں اپنے مظلوم ہمسایہ ملک یمن پر تباہ کن بمباری کا سلسلہ ختم کرکے اس قوم کے زخموں پر مرہم رکھنے کا فیصلہ کرنا چاہیے۔ اسی طرح دیگر مسلمان حکمرانوں کو اپنے اپنے مقام پر یہ غور و فکر کرنا چاہیے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ دوسری مسلمان قوموں کے حقوق کو اپنی کسی ہوس کی بھینٹ چڑھا رہے ہیں۔

مسلمان حکمرانوں کو اپنے عوام پر بھی رحم کرنے کا فیصلہ کرنا چاہیے۔ وہ مسلمان حکمران جن کے عوام مفلوک الحال ہیں اور ان کے زیراقتدار انسانوں کی ایک بڑی تعداد نان شبینہ کی بھی محتاج ہے، انھیں عید قربان پر یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ وہ آئندہ عوام کی تمناؤں کا خون کرنے کے بجائے ان کے حقیقی خدمت گزار بنیں گے۔ اگر وہ یہ فیصلہ کرسکیں تو واقعاً انھوں نے عید قربان کو پا لیا ہے۔ ایسے حکمران جن کے دل اپنے عوام کے ساتھ دھڑکتے ہیں، وہی دراصل ابراہیم خلیل اللہ کے وارث ہیں۔ جو اپنے آرام، سکھ اور چین کو اپنے عوام پر تج کر دیتے ہیں۔ وہ ابراہیمی عید منانے کا حق رکھتے ہیں۔

جس روز مسلمانوں کے امراء ایثار و قربانی کا راستہ اختیار کرلیں گے اور جس روز مسلمانوں کے فقراء اپنے امراء کو دل سے دعائیں دیں گے، وہ دن ایک حقیقی عید بن کر طلوع ہوگا۔ جس روز حج اپنے حقیقی معنی میں برپا ہوجائے گا، اس روز اسلام حقیقی کا ڈنکا پوری دنیا میں نئی قوت سے بجنے لگے گا۔ ورنہ طواف و سعی کے لاحاصل سلسلے جاری رہیں گے۔ قربانی ہوگی لیکن امراء کی شان و شوکت کے اظہار کے لئے یا دوسروں پر اپنی دھاک بٹھانے کے لئے۔ حج ہوگا مگر بے روح۔ عرفات کا وقوف ہوگا لیکن عرفان و آگہی کی کرن سینے پر نازل نہ ہوگی۔ شیطانوں کو پتھر مارے جائیں گے، لیکن دنیا پر شیطانوں کی حکمرانی اسی طرح جاری رہے گی۔

توحید پرستی کا علم پوری دنیا پر اس وقت تک نہیں لہرا سکتا، جب تک خدا کے بندے ہر غیر خدا کے سامنے سجدہ ریز ہونے سے انکار نہیں کر دیتے۔ افسوس جن کے ہاں توحید پرستی کا سب سے زیادہ غلغلہ ہے، وہ بیت اللہ پر ہر سال ایک ایسی چادر چڑھاتے ہیں، جس پر سونے کی تاروں سے بادشاہ کا نام لکھا جاتا ہے۔ کیا یہ بادشاہ کے سینے میں پلنے والی اس آرزو کا اظہار تو نہیں کہ لوگ خانۂ خدا کا طواف کرتے کرتے اس کے نام کے گرد بھی چکر لگاتے رہیں۔ عوام کی دولت سے تیار کئے گئے اس غلاف کو حرم الٰہی کی پوشاک بنا کر اپنے نام کے گرد چکر لگوانا توحید پرستی نہیں بلکہ توحید پرستی کے نام پر ایک چکر ہے۔ جب تک ہم اس دوگانہ پرستی سے نجات حاصل نہیں کر لیتے، ہمیں توحید پرستی کا ادعا زیب نہیں دیتا۔ ابراہیمی حج خالص توحید پرستی کا حج ہے۔ ابراہیم نے سکھایا ہے کہ قربانی صرف اللہ کے لئے ہے اور ایک مومن کو اپنی عظیم ترین متاع حیات بھی حضور حق میں قربان کرنے کے لءے ہمہ وقت آمادہ رہنا چاہیے۔
خبر کا کوڈ : 486897
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش