1
0
Wednesday 30 Sep 2015 23:52

شام میں داعش کیخلاف جنگ فیصلہ کن مرحلے میں!

شام میں داعش کیخلاف جنگ فیصلہ کن مرحلے میں!
تحریر: طاہر یاسین طاہر

جنگیں تباہی کے سوا کچھ نہیں ہوتیں۔ تاریخ اس امر پر شاہد ہے کہ جنگوں کی خوراک انسانی لہو ہی رہا۔ انسان اپنے جیسے انسانوں کو کیوں قتل کرتا ہے؟ فکری مغالطے انسانی رویوں میں اچھی بری تبدیلیاں لاتے ہیں۔ انسان جب مولوی کے ذہن سے سوچتا ہے تو اسے اپنے سوا ہر کوئی مرتد، بے دین، بدعتی، کافر اور پتہ نہیں کیا کیا نظر آتا ہے۔ حالانکہ سادہ بات یہی ہے کہ ہر انسان سے صرف اسی کے اعمال کے بارے پوچھا جائے گا۔ کیا جنگیں لڑنے والوں میں معتدل مزاج جنگجو بھی ہوا کرتے ہیں؟ ہر جنگجو کا اولین مقصد اپنے حریف کا گلا کاٹنا ہوتا ہے۔ اگر وہ یہ نہ کرسکے تو پھر اسے اپنے گلے کی قربانی دینا پڑتی ہے۔ ہلاکوں خان کو جدید نسل شاید کم کم جانتی ہے، کیونکہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی دنیا نے سیلفیاں متعارف کروا کر انسان کا رشتہ تاریخ کے باب سے جدا کر دیا ہے، اگرچہ پوری طرح نہیں۔ لیکن آج کا نوجوان اسلامی و انسانی تاریخ سے آگاہی حاصل کرنے کو شعوری طور پر تیار ہی نہیں۔ خیال رہے کہ انسانی اور اسلامی تاریخ دو الگ چیزیں ہیں۔ جسم کے ساتھ ذہن بھی بہت تھکا ہوا ہے۔ ورنہ اس پر سیر حاصل بات کرتا۔

اس امر میں کلام نہیں کہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے پوری دنیا کے انسانوں کو ایک کمرے میں بند کرکے ایک دوسرے سے شناسا کر دیا۔ انٹرنیٹ کے مثبت فوائد گنوائے جائیں تو اس کے لئے دفتر درکار ہے۔ ہمارا المیہ مگر وہی کہ ہم نفسیاتی ہیجان کے مارے ماضی کے اوراق سے مسلمانوں کی فتح کے حاشیے تلاش کرتے ہیں یا پھر غیر اخلاقی ویب سائٹس سے اپنے کمپیوٹر کی سکرین کو آلودہ کرتے رہتے ہیں۔ دلیل اس کی یہ کہ پی ٹی اے نے یو ٹیوب سمیت ہر وہ ویب سائٹ پاکستان میں بند کی ہوئی ہے، جو بے راہ روی کا راستہ دکھاتی ہے۔ یو ٹیوب کی بندش کی اگرچہ وجوہات کچھ اور بھی ہیں۔ کالم کا مقصد جدید و قدیم تاریخ یا جدید و قدیم علوم کا موازنہ ہرگز نہیں، بلکہ مقصود یہی ہے کہ ہم میں 80فی صد سے زائد پاکستانی بالخصوص دنیا میں لمحہ بہ لمحہ ہونے والی تبدیلیوں سے بے خبر ہیں، اور ان کی یہ بے خبری شعوری ہے۔ ہمارا میڈیا بھی عالمی سطح پر ہونے والی سیاسی و سماجی تبدیلیوں کی خبروں اور تجزیوں کو عالمی میڈیا سے مستعار لے کر اپنے صفحات سیاہ کر رہا ہے۔

امریکہ میں آئے روز نسلی فسادات ہوتے ہیں۔ ہمارے اردو اخبارات بالخصوص ایسی خبروں کو اندر کے کسی صفحے پر ایک کالمی جگہ دیتے ہیں، جبکہ پاکستان میں اگر قصور ایسا واقعہ ہو جائے تو نہ صرف ہمارا میڈیا جاگ جاتا ہے بلکہ عالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں اور مغربی میڈیا بھی ایسے واقعات کو خاص زاویہ سے جگہ دیتے ہیں۔ بے شک پروپیگنڈا ایک ہتھیار ہے جو مغربی میڈیا بڑی ہنر مندی سے استعمال کر رہا ہے۔ مگر یہ بھی یاد رکھا جائے کہ جب ہم پروپیگنڈا کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس کا قطعی مطلب یہ نہیں ہوتا کہ ہمارے ہاں قصور ایسے واقعات رونما نہیں ہوتے یا ہمارے ہاں دہشت گردوں کے سہولت کار موجود نہیں ہیں۔ بے شک یہ سب ہے، پروپیگنڈا مگر ایک خاص زاویہ سے کیا جاتا ہے۔ اس پر کسی اور نشست میں بات کریں گے۔ ہماری بے خبری کا عالم تو یہ ہے کہ ہمیں پتہ ہی نہیں کہ اب تک کتنے شامی، عراقی، پاکستانی اور افغانی پناہ گزین یورپ بالخصوص جرمنی میں پناہ کی درخواستیں دے چکے ہیں۔ ہمیں تو یہ بھی پتہ نہیں کہ قندوز میں لڑنے والے طالبان اشرف غنی سے کیا چاہتے ہیں اور اشرف غنی بھارت سے مل کر پاکستان سے کیا چاہتا ہے؟

ہمیں تو یہ بھی علم نہیں کہ ترکی جو پاکستان میں میٹرو بسیں چلانے کے لئے بہت متحرک ہے، اس سے کہیں زیادہ متحرک وہ داعش کی تخلیق اور ازاں بعد اس میں شامل ہونے والے یورپین جنگجوؤں کی مدد کرنے میں ہے۔ عمان اور قطر، بحرین و کویت مشرقِ وسطٰی میں ہونے والی سماجی و سیاسی تبدیلیوں میں کیا کردار ادا کر رہے ہیں؟ ہم نے اس پر بھی کبھی اپنی دلچسپی کا اظہار نہیں کیا۔ ہمیں تو اس بات کی بھی خبر نہیں کہ سعودی عرب اور یمن کا تنازع ایک علاقائی سیاسی تنازع ہے نہ کہ مذہبی جنگ۔ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ اسرائیل نے اب تک کتنے فلسطینیوں کو بے گھر کیا؟ کتنوں کو شہید کیا؟ اور سعودی عرب سمیت عربوں نے اسرائیل کے دستِ ستم کو کب اور کتنی بار مروڑا؟ ہم مگر مولوی کے دماغ سے سوچتے ہیں اور اسی کے مفاد پر قربان ہوتے ہیں۔ القاعدہ بنا کر جدید دہشت گردی کی ایسی بنیاد رکھی گئی کہ رہے نام اللہ کا۔ القاعدہ نے باقاعدہ طالبان، النصرہ فرنٹ، سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی، الشباب، بوکوحرام اور سب سے خطرناک داعش کو جنم دیا۔

داعش کے مظالم اتنے بھیانک اور درد آور ہیں کہ قلم بھی لکھنے سے عاجز آجاتا ہے۔ ہر ظالم کا انجام مگر عبرت ناک ہی ہوا کرتا ہے۔ اس بات میں کلام نہیں کہ داعش نے عراق و شام کے کچھ حصے پر قبضہ جما کر اپنی نام نہاد خلافت کا اعلان بھی کر دیا، اپنا سکہ جمانے کے لئے اپنا سکہ جاری کیا۔ اس کے حق میں جہاد النکاح کا شرمناک فتویٰ بھی آیا اور جب داعش نے فتویٰ گروں کے طرف ایک دو گولے داغے تو داعش کے خلاف فتویٰ بھی آگیا۔ یہ فکری مغالطے انسانی رویوں پر بری طرح اثر انداز ہو رہے ہیں۔ القصہ کہ عالمی سامراجی طاقتیں مشرقِ وسطٰی کا نقشہ تبدیل کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ اس میں انھیں کسی حد تک کامیابی بھی حاصل ہوئی۔ عراق کی مثال ہمارے سامنے ہے جبکہ لیبیا کے بھی حصے بخرے کئے جا رہے ہیں۔ ترکی اور آلِ سعود اس کھیل کے بڑے کھلاڑیوں میں سے ہیں۔ تیونس سے اٹھنے والی لہر کو عالمی سامرجی طاقتوں نے بڑی مہارت سے کے ساتھ اپنے حق میں تبدیل کر لیا۔

2011ء سے شام میں بشار الاسد کی حکومت گرانے کے لئے عرب بہار کے نعرے کو بلند آہنگ کرکے امریکہ کو دعوت دی گئی کہ شام پر حملہ کرو، اس کا سارا خرچہ ہم اٹھائیں گے، امریکہ بہادر تیار بھی ہوگیا تھا مگر روس آڑے آگیا۔ بے شک داعش نے اپنی ظالمانہ کارروائیوں سے دنیا کو اپنی طرف متوجہ کیا، حتی کہ ترکی جو داعش کی تخلیق اور اس کے جنگجوؤں کو پناہ دینے میں پیش پیش تھا، وہ بھی نہ صرف داعش مخالف بیان دینے لگا بلکہ داعش کی طرف سے ترکی کے اندر خودکش حملہ کے بعد ترکی نے داعش کے ٹھکانوں پر فضائی حملے بھی کئے، مگر بعض تجزیہ کار یہ کہتے ہیں کہ ترکی داعش کی آڑ میں کردوں کے خلاف کارروائی کرنے کا خواہش مند ہے۔ امریکہ نے بھی ایک اتحاد تشکیل دیا ہوا ہے، جو عراق میں داعش کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کرتا ہے۔ عراقی حکومت کو مگر شکایت ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی یہ کارروائیاں دکھلاوے کے لئے کرتے ہیں۔ اگر واقعی امریکہ اور اس کے اتحادی داعش کے خلاف کارروائی کریں تو داعش کو عراق سے بے دخل کیا جاسکتا ہے۔

سوال مگر یہ ہے کہ داعش عراق سے بے دخل ہو کر کہاں جائے گی؟ روس کی پارلیمنٹ نے مگر شام کے صدر بشارالاسد کی درخواست کو منظور کر لیا ہے اور روسی پارلیمنٹ نے اپنے صدر کو ملک سے باہر فوجیں بھیجنے کا اختیار دے دیا ہے۔ اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ بشار الاسد کا سفارتی اتحادی اب کھل کر اس کا عسکری اتحادی بھی بن چکا ہے، روس کے جنگی طیاروں نے شام میں داعش کے ٹھکانوں پر بمباری شروع کر دی ہے۔ روس کی طرف سے یہ کارروائی اس امر کا اشارہ ہے کہ شام میں داعش کے خلاف جنگ فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔ جہاں القاعدہ، النصرہ اور داعش کے تکفیری دہشت گرد ایک بھیانک شکست کھا کر ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑیں گے۔ داعش کا خطے میں کم و بیش تیس سے چالیس سال تک کسی نہ کسی شکل میں وجود، موجود رہے گا، مگر اس کی قوت اب ختم کر دی جائے گی۔ متبادل کیا سامنے لایا جائے گا؟ نئے دہشت گرد جنھیں معتدل دہشت گرد کہا جائے گا۔ کام ان کا بھی وہی ہوگا، جو سارے دہشت گردوں کا ہوا کرتا ہے، مگر ان کا نام اب کی بار تبدیل کر دیا جائے گا، کیونکہ عالمی سامراج دنیا کے نقشے پر ایک نئے مشرقِ وسطٰی کو دیکھنا چاہتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 488374
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
احسنت
ہماری پیشکش