2
Friday 2 Oct 2015 13:54

قندوز کا سقوط اور داعش و طالبان کی بحث

قندوز کا سقوط اور داعش و طالبان کی بحث
تحریر: عرفان علی

کابل اسٹیشن سے واشنگٹن پوسٹ کے ٹم کریگ اور سید صلاح الدین کی مشترکہ رپورٹ اس اخبار کی ویب سائٹ پر آئی کہ پیر 28 ستمبر کو قندوز شہر پر طالبان نے قبضہ کر لیا۔ یہ وہی شہر ہے جس کے بارے میں مشہور ہوا تھا کہ نائن الیون 2001ء کے بعد کی امریکی جنگ میں یہاں سے خاص طیاروں میں بیٹھ کر طالبان کے حامی فوجی فرار ہوئے تھے۔ یہ شہر تاجکستان کی سرحد سے نزدیک واقع ہے۔ تاجکستان کے ایک طرف چین ہے اور اسی علاقے سے نزدیک پاکستانی علاقے اور تاجکستان کے درمیان ایک پٹی نما علاقہ واقع ہے۔ افغانی صوبہ بدخشاں چترال اور لشت نامی پاکستانی علاقے سے بہت نزدیک ہے، یعنی قندوز شہر بھی کوئی بہت زیادہ دور واقع نہیں ہے۔ پہلے بھی عرض کرچکا ہوں کہ تکفیری دہشت گردوں کے بارے میں امریکی و یورپی ذرائع ابلاغ کی معلومات اس خطے کے صحافیوں اور حتٰی کہ انٹیلی جنس اداروں سے بھی زیادہ ہوتی ہیں۔ قندوز شہر کے بارے میں بھی واشنگٹن پوسٹ کے سدرسن راگھوان نے 22 جون 2015ء کو رپورٹ دی تھی کہ شمالی افغانستان کا اہم شہر 2001ء کے بعد پہلی مرتبہ طالبان کی گرفت میں ہے۔ کہاں 22 جون اور کہاں 28 ستمبر یعنی تین ماہ کا درمیانی عرصہ۔ خبر کی دنیا میں اگر چند سیکنڈ پہلے بھی کوئی نیوز چینل یا اخبار خبر جاری کر دے تو اس کا ڈھنڈورا پیٹیتا ہے کہ سب سے پہلے ہم نے یہ خبر جاری کی۔ اسے بریکنگ نیوز قرار دیا جاتا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ نے تو تین ماہ اور ایک ہفتہ قبل یہ خبر دے دی تھی۔ انہیں کہاں سے معلوم ہوگیا تھا۔؟

14 اپریل 2015ء کو کابل سے اسی رپورٹر سدرسن راگھوان کی رپورٹ واشنگٹن پوسٹ میں آئی تھی کہ پاکستان میں ہونے والے آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں غیر ملکی فائٹرز افغانستان میں گھس آئے ہیں اور وہ طالبان کی مدد کر رہے ہیں اور یہ بات انہیں افغان حکومتی عہدیداروں اور تجزیہ نگاروں نے بتائی۔ یعنی ملبہ پاکستان پر ہی گرنا تھا۔ ماضی کا یہ الزام آج بھی اسی طرح تر و تازہ ہے کہ پاکستان افغانستان کی طالبان کی پناہگاہ بن چکا ہے، خواہ وہ طالبان کی کوئٹہ شوریٰ ہو یا جلال الدین حقانی کا فاٹا میں موجود نیٹ ورک۔ اسی طرح افغانستان پر پاکستانی طالبان کا محفوظ ٹھکانہ ہونے کا الزام لگتا آیا ہے۔ افغان حکومت کے ساتھ افغان طالبان کے مذاکرات مری میں پاکستان کی میزبانی میں ہوئے تو پوری دنیا پر یہ حقیقت ثابت ہوگئی کہ افغان طالبان کے کسی نہ کسی گروہ کے بارے میں پاکستان کے مقتدر ادارے کی سرپرستی کا الزام غلط نہیں تھا! ملا عمر کی رحلت کے باوجود افغان طالبان کے پاکستانی ہیئت مقتدرہ سے روابط تھے اور تاحال برقرار ہیں۔

طالبان ہی کے بہت سے افراد نے اب داعش کی نقاب اوڑھ لی ہے۔ نئے نام سے وہی پرانے کھلاڑی پہلے کی طرح سرگرم عمل ہوچکے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ پچھلے سال تک ہم جیسے لوگ ایسا کہتے تھے اور اب اقوام متحدہ بھی اعتراف کر رہی ہے۔ افغانستان کے صوبہ نیمروز کے گورنر امیر محمد اخوندزادہ نے بھی کہا ہے کہ افغان گروہوں کی یہ پرانی روایت ہے کہ وہ نئے نئے نام رکھ کر کارروائیاں کرتے رہے ہیں۔ ماضی میں ہم بیان کرچکے کہ داعش کا اصل بانی القاعدہ ان عراق کا سرغنہ ابو مصعب ال زرقاوی تھا اور وہ اردن سے افغانستان آیا اور یہاں اسامہ بن لادن کے ساتھ اس کی قربت رہی اور یہیں سے اسے عراق منتقل کیا گیا۔ افغانستان نے اس تکفیری دہشت گردی کو جنم دیا، جو آج پوری دنیا کو اپنی زد میں لے چکی ہے۔ پاکستانی صحافی عقیل یوسف زئی نے اپنی کتاب ’’طالبانائزیشن‘‘ میں لکھا تھا کہ باجوڑ ایجنسی فاٹا (پاکستان) میں ایک طالبان گروہ کا نام زرقاوی گروپ تھا۔ جس افغان گورنر امیر محمد اخوندزادہ کی بات ہوئی، وہ خود ملا عبدالرؤف کے رشتے دار ہیں۔ ملا عبدالرؤف، سابق طالبان کمانڈر بلکہ ملا عمر کے دور حکومت میں کور کمانڈر جیسے عہدہ پر فائز تھا۔ یہ گوانتانامو بے کیمپ ایکسرے کی امریکی جیل میں قید کاٹ کر آیا تھا اور اس نے داعش کے لئے بھرتیاں شروع کیں۔ گورنر امیر محمد کا کہنا تھا کہ اس نے بھی اس کو طویل عرصے سے نہیں دیکھا تھا اور پھر اطلاع آئی کہ امریکا ہی نے اسے ڈرون حملے میں مار دیا۔

27 ستمبر 2015ء کو کابل سے رپورٹ آئی کہ داعش نے افغان پولیس کے تین اہلکاروں کو قتل کر دیا۔ یہ واقعہ ننگرہار صوبے میں پیش آیا اور یہ بھی پاکستان کی سرحد پر واقع ہے۔ یعنی یہ داعش نامی بیماری بھی پاکستان کے نزدیک ہی ہے۔ ماضی میں بھی پاکستان کے کئی مقامات سے تکفیری دہشت گردوں کو پکڑا گیا تو رپورٹس آئی تھیں کہ وہ داعش کے حق میں دیواروں پر نعرے لکھ رہے تھے، یا ان کے لئے کام کر رہے تھے۔ کبھی صوبہ بلوچستان سے تو کبھی صوبہ پنجاب سے کئی دہشت گرد داعش کے ایجنٹ ہونے کے الزام میں پکڑے گئے تھے، لیکن اب ریاستی اداروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں داعش کی موجودگی ثابت نہیں ہوئی، حالانکہ ایک انگریزی روزنامہ ایکسپریس ٹریبیون میں 28 جنوری 2015ء کو اسلام آباد سے رپورٹ آئی کہ پاکستان میں داعش کے کمانڈر یوسف ال سلفی نے امریکیوں سے پیسے لینے کا بھی اعتراف کرلیا تھا۔ اسے دو ساتھیوں سمیت دسمبر میں پکڑا گیا لیکن گرفتاری 22 جنوری کو ظاہر کی گئی۔ اسے شام میں دہشت گردی کے لئے پاکستان سے تکفیریوں کی بھرتیوں کے لئے پکڑا گیا تھا۔ شاید یہی وجہ ہو کہ داعش اور امریکا کے روابط کو خفیہ رکھنے کی نیت سے بعد میں ان خبروں کو جھٹلایا گیا ہو۔

داعش کے عروج میں اوبامہ حکومت کا کردار تو امریکی انٹیلی جنس ایجنسی سی آئی اے کے سابق سربراہ جنرل فلائن نے بھی الجزیرہ کو انٹرویو میں خود بتایا تھا۔ افغان طالبان کے ملا عبدالغنی برادر کو سی آئی اے نے کتنے ڈالر ادا کئے اور پاکستان کے کس نام ور انٹیلی جنس ادارے نے اس کی تصدیق کی، یہ داستان احمد رشید نے بھی اپنی کتاب میں بیان کی ہے۔ داعش کی پاکستان میں موجودگی کی تصدیق نہ بھی کی جائے، تب بھی مقامی تکفیری ہی کیا کم ہیں۔ افغانستان کی طرح انہوں نے بھی صرف نام ہی تبدیل کرنا ہے، باقی کام تو سبھی کا ایک ہی جیسا ہے۔ افغان فوج کے ایک جنرل علی مراد نے فروری 2015ء میں کہا تھا کہ زابل اور ہلمند نامی صوبوں میں کہ جہاں طالبان کا کنٹرول ہے، وہاں داعش کے عناصر اپنے جھنڈے لہرا چکے ہیں اور اب وہ شمال کی طرف پیش قدمی کرنا چاہتے ہیں۔ پھر 14 اپریل 2015ء کو کابل سے اور 22 جون کو قندوز سے سدرسن راگھوان کی رپورٹ نے ثابت کر دیا کہ امریکا کے اتحادی خواہ وہ حکومت کی صفوں میں ہوں یا نان اسٹیٹ ایکٹرز کی نقاب پہنے ہوئے ہوں، دونوں اچھی طرح جانتے ہیں کہ کرنا کیا ہے اور کہنا کیا ہے۔؟ افغان جنرل علی مراد نے اسی طالبان کو داعش کے نام سے یاد کیا کہ وہ شمال کی طرف پیش قدمی کرنا چاہتے ہیں۔

روس کے فیڈرل ڈرگ کنٹرول سروس کے سربراہ وکٹر ایوانوف کا کہنا تھا کہ داعش منشیات کے کاروبار سے سالانہ ایک بلین ڈالر کما رہی ہے۔ افغان جہاد کے دوران بھی منشیات امریکی و برطانوی سرپرستی ہی میں کاشت کی گئی تھی اور اب بھی داعش ان علاقوں میں ہے، جہاں طالبان کا کنٹرول ہے اور طالبان خود بھی غیر ملکی آقاؤں کی تخلیق تھی۔ اشرف غنی کی صدارت کے دور میں داعش کا شوشہ دنیا بھر میں اس لئے شہرت پاچکا تھا کہ طالبان پر سے توجہ ہٹائی جاسکے، لیکن ہم شروع سے بیان کرتے آئے کہ نام نئے آسکتے ہیں، لیکن یہی لوگ یہی کام انجام دیتے رہیں گے۔ سبھی یہ حقیقت پچھلے سال سے جان چکے ہیں کہ شام اور عراق میں بھی داعش میں وہ لوگ شامل ہوئے، جو امریکا نے گوانتانامو بے سے آزاد کئے اور جو ترکی کے راستے وہاں داخل کئے گئے۔ حتٰی کہ جون 2015ء میں میڈرڈ اسپین میں پولیس نے جن دہشت گردوں کو پکڑا، وہ بھی گوانتانامو جیل میں امریکا کے مہمان رہ چکے تھے۔ اکتوبر 2014ء میں امریکی وزیر دفاع ہیگل کا بیان آیا کہ انہیں علم ہے کہ داعش میں گوانتانامو جیل سے آزادہ کردہ افراد شامل ہو رہے تھے۔ اشرف غنی خود امریکی لابی سے تعلق رکھتے ہیں اور امریکا ہی کے خاص آدمی ہیں۔

یمن پر سعودی جارحیت کے بعد آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل احسان الحق نے سلیم صافی کے پروگرام جرگہ میں انٹرویو میں امریکا کو دوست قرار دیا تھا۔ امریکی جنرل مائیکل مولن اور سی آئی اے کے ڈائریکٹر لیون پنیٹا نے بھی پاکستان جیسے دوست اور جنرل احسان کے ادارے کے بارے میں جو ہرزہ سرائی کی، وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ امریکی حکمت عملی وہی ہے جو مائیکل مولن نے بیان کی تھی کہ ہم افغان بغاوت کو کم کر دیں گے، تاکہ افغانستان کی حکومت اور سکیورٹی فورسز اس خوف سے نمٹتی رہے۔ امریکی ہدف تھا کہ کوئی گروہ افغانستان کی سرزمین استعمال کرکے ان پر یا یورپی اتحادیوں پر حملہ نہ کرسکے۔ اب امریکی قندوز کو دوبارہ فتح کرکے ثابت کر رہے ہوں گے کہ دیکھا افغانستان کو آج بھی ہماری ضرورت ہے، ورنہ طالبان آجائیں گے، لیکن پاکستانی سابق جرنیل کی نظر میں تو امریکا بھی دوست ملک ہی ہے!
خبر کا کوڈ : 488616
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش