1
0
Saturday 3 Oct 2015 16:53

روس کا قضیہ شام میں ورود

روس کا قضیہ شام میں ورود
تحریر: سید اسد عباس

ہم دہشت گردوں کو نہیں چھوڑیں گے، دہشت گردی کے خلاف جنگ اپنے منطقی انجام تک جاری رہے گی، دہشت گرد دنیا کے کسی کونے میں نہیں چھپ سکتے، یہ نعرے ہم بہت عرصے سے سن رہے ہیں اور نعرے لگانے والا گروہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ لیکن اس نعرے بازی اور عملی اقدامات کے باوجود دہشت گرد کم ہونے میں نہیں آتے۔ افغانستان سے نکلے تو مصر پہنچ گئے، وہاں سے نکلے تو لیبیا پہنچ گئے۔ لیبیا سے نکالے تو انھوں نے شام، یمن، بحرین، عمان اور عراق کا رخ کر لیا۔ ایسا لگتا ہے ایک مارتے ہیں تو دس مزید پیدا ہو جاتے ہیں۔ ریاستیں اور ان کے عظیم لاؤ لشکر ان مٹھی بھر دہشت گردوں کو ختم کرنے سے قاصر ہیں۔ اس کی دو ہی وجوہات ہوسکتی ہیں یا تو دہشتگردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ کی حکمت عملی درست نہیں یا پھر پس پردہ کوئی اور سلسلہ چل رہا ہے۔

روس بہت عرصے سے اس سارے کھیل کا خاموش تماشا کر رہا تھا۔ افغانستان میں شکست کھانے کے بعد اس نے ایسے معاملات سے ہاتھ کھینچ لئے اور ناک کی سیدھ میں اپنے ملک کی ترقی پر توجہ مرکوز کر لی۔ عالمی سیاست سے آگاہی رکھنے والے لوگ اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ ناک کی سیدھ میں ترقی آج ممکن نہیں ہے۔ آپ کی معیشت، اقتصادیات، قومی تحفظ سب کچھ عالمی حالات سے جڑا ہوا ہے۔ آپ چاہتے ہیں کہ خاموش رہیں اور اپنی اقتصادی و معاشی ترقی پر توجہ مرکوز رکھیں، لیکن دنیا میں حالات کی تبدیلی نہ چاہتے ہوئے آپ کی اس خواہش پر اثر انداز ہوتی ہے۔ روس یورپ کے ایک بڑے حصے کو تیل اور گیس مہیا کرتا ہے۔ تیل اور گیس کی فروخت اس کی آمدن کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ اب تیل اور گیس اگر مشرق وسطٰی سے آنے لگے اور وہ بھی انتہائی ارزاں نرخوں پر تو کسی کو کیا ضرورت پڑی ہے روس کا مہنگا تیل خرید کر فیکٹریاں چلانے کی۔ لیں جی روس بہادر کی معیشت اور اقتصادی ترقی کا خواب چکنا چور ہوگیا۔ تیل اور گیس داعش نے بلیک مارکیٹ میں بیچنا شروع کر دیا ہے۔

پیوٹن کہتے ہیں کہ مجھے معلوم ہے کہ داعش غیب سے وجود میں نہیں آئے، انہیں کسی نے اسلحہ مہیا کیا ہے، کوئی ان کو تنخواہیں دیتا ہے، کوئی ان کو تربیت دے رہا ہے، تاکہ یہ گروہ تیل سے مالا مال خطوں پر قبضہ کرے اور پھر وہاں سے تیل نکال کر عالمی منڈی میں سستے نرخوں پر فروخت کرے۔ پیوٹن یہ بھی کہتے ہیں کہ جب امریکا کے اتحادی داعش کا نکالا ہوا تیل خریدتے ہیں، جب داعش تک مالی امداد پہنچتی ہے تو اس وقت امریکی پابندیاں کہاں ہوتی ہیں۔ ان کی باتوں سے ایسا لگتا ہے کہ انہیں اب یہ احساس ہو چلا ہے کہ داعش اور اس طرح کے گروہ تیل پر قبضے کے لئے وجود میں لائے گئے ہیں اور اس کا مقصد تیل کی عالمی قیمتوں کو گرانا نیز تیل پیدا کرنے والے ممالک جن میں روس بھی شامل ہے، کو اقتصادی اور معاشی طور پر کمزور کرناہے۔ روسی صدر پیوٹن کہتے ہیں کہ میں بہت عرصے سے یہ سارا کھیل دیکھ رہا ہوں، لیکن اب مزید خاموش نہیں رہ سکتا۔

ان کے مطابق دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں ہم بھی لڑیں گے، لیکن کسی کے ساتھ مل کر نہیں بلکہ اپنے پلیٹ فارم سے۔ ہم ان دہشت گردوں کو ختم کریں گے۔ پس شام کے کہنے پر روس نے دہشت گردوں پر فضائی حملے شروع کر دیئے ہیں۔ امریکا اور اس کے اتحادی اب مسلسل واویلا کر رہے ہیں کہ یہ حملے دہشت گردوں پر نہیں بلکہ عام شہریوں پر ہو رہے ہیں، لیکن پیوٹن اس کے لئے بھی تیار تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ مجھے اس پراپیگنڈہ وار کی توقع تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ عام شہری روس کے حملوں سے بہت پہلے سے قتل ہو رہے ہیں۔ روس روز حملے کرتا ہے اور امریکا نیز دیگر اتحادی ممالک کے عہدیدار روز بیان دیتے ہیں۔ کبھی اوباما، کبھی ترکی اور کبھی سعودیہ۔ ایسا لگتا ہے جیسے داعش پر نہیں بلکہ ان ممالک پر حملے شروع ہوچکے ہیں۔

مسئلہ تو یہ ہے کہ اب روس کو اسی کام سے کیسا روکا جائے جو یہ ممالک خود ایک دہائی سے کر رہے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ اکیلے مت کرو، کوئی کہتا ہے کہ سکیورٹی کونسل سے پوچھ لو اور نہ جانے کیا کیا۔ انھیں شاید اندازہ نہیں ہے کہ روس کے لئے اب یہ زندگی و موت کا مسئلہ بن چکا ہے۔ گذشتہ سال سے تیل کی قیمتوں میں کمی کے باعث روس کا جی ڈی پی 2100 یو ایس بلین ڈالر سے تقریباً 1800 یو ایس بلین ڈالر تک آچکا ہے۔ کسی بھی ترقی کی خواہش رکھنے والے ملک کے لئے یہ تنزلی واقعی فکر کا باعث ہے۔ اس مسئلے کا مرکز یقیناً شام و عراق میں ہے، جہاں سے تیل نکال کر یورپ و امریکا میں سستے داموں فروخت کیا جا رہا ہے۔ روس کے پاس اب دو ہی راستے ہیں یا تو وہ خاموشی سے بیٹھ کر مزید کچھ عرصہ اس منظر کا مشاہدہ کرے اور اپنی معیشت کو گرتا دیکھے یا پھر اس جنگ میں خود کودے اور مسئلہ کو مروجہ اصطلاحات دہشت گردی کے خلاف جنگ، داعش کا توڑ وغیرہ وغیرہ کے مطابق ختم کرے۔

منطقی سی بات ہے خاموشی سے بیٹھ کر تماشا دیکھنا کوئی راہ حل نہیں ہے۔ شام میں جاری جنگ کا دوسرا اہم مقصد اسرائیل کے اردگرد جارحین کا خاتمہ ہے۔ روس کے حملوں کے بعد سے آپ کو اس حوالے سے بے چینی وہاں بھی دکھائی دے گی۔ اسرائیلیوں کو پریشانی لاحق ہے کہ چلو فضائی حملے تو ٹھیک ہیں، لیکن فضا سے فضا میں مارک کرنے والے میزائیل، فضائی دفاع کا جدید ترین نظام، فضا سے زمین پر مارک کرنے والے میزائلوں کی بھلا شام میں کیا ضرورت ہے، اگر یہ جنگ واقعی داعش کے خلاف ہے تو ان کے پاس تو ایسی کوئی ٹیکنالوجی نہیں ہے، جس کے لئے اتنا جدید ترین نظام شام میں لگایا جا رہا ہے۔ بات تو واقعی پریشانی کی ہے۔ اسرائیلی کہتے ہیں کہ یہ دفاعی نظام کسی اور مقصد کے لئے لگایا گیا ہے۔

شام کا قضیہ بہت گھمبیر شکل اختیار کرچکا ہے۔ روس کی اس قضیہ میں براہ راست اور نہایت مدبرانہ مداخلت نے حالات کو یکسر بدل دیا ہے۔ امریکا اور اس کے اتحادی بھی یقیناً اتنی آسانی سے پیچھے نہیں ہٹیں گے، کیونکہ جیسے یہ جنگ روس کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے، اسی طرح ان کے لئے بھی اس میں بہت سے معاشی و سیاسی مفادات ہیں۔ بہرحال ان کی اسی کی دہائی سے جاری محنت اور رنگ میں روس نے کود کر بھنگ ڈال دی ہے۔ اب کے روس تنہا نہیں ہے اور نہ ہی اس نے کسی اسلامی ملک پر قبضہ کر رکھا ہے۔ برفانی ریچھ انہی نعروں کے ساتھ وارد میدان ہوا ہے جو گذشتہ ایک دہائی سے سنے جا رہے تھے اور جن کو حق ثابت کرنے کے لئے زمین و آسمان کے قلابے ملائے گئے۔ اب جبکہ یہ قلابے مل چکے ہیں تو روس نے جا کرکے میدان کا رنگ بدل دیا ہے۔ اللہ کریم مسلمانوں کے حال پر رحم کرے۔ (آمین)
خبر کا کوڈ : 488785
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Anwar Abbas Anwar
Pakistan
Bahut achi site hi
ہماری پیشکش