0
Sunday 4 Oct 2015 15:42

قبلہ اول پر صیہونی حملے، امت مسلمہ کہاں ہے؟

قبلہ اول پر صیہونی حملے، امت مسلمہ کہاں ہے؟
تحریر: صابر کربلائی
(ترجمان فلسطین فائونڈیشن پاکستان)


قبلہ اول یعنی مسجد اقصیٰ، جی ہاں وہی مقام کہ جہاں پیغمبر ختمی مرتبت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو شب معراج کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ لے جایا گیا اور اس مقام پر روایات کے مطابق ستر ہزار انبیاء علیہم السلام کی ارواح مقدسہ نے آپ (ص) کی اقتداء میں نماز ادا کی اور پھر یہاں سے اللہ تعالی نے آپ (ص) کو معراج کا سفر کروایا۔اسی طرح یہ وہی مقام ہے کہ جہاں ایک طویل عرصے تک حضرت محمد (ص) اور امت قبلہ اول کی جانب منہ کر کے نماز ادا کرتی رہی اور جب اللہ کا حکم آیا تو پھر کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز انجام دی جانے لگی، اسی طرح یہ قبلہ اول یا مسجد اقصیٰ وہی مقام ہے کہ جہاں متعدد انبیائے کرام علیہم السلام کی آمد و رفت رہی اور اللہ کا پیغام پہنچتا رہا، اسی طرح روایات میں موجود ہے کہ مہدی موعود کے ظہور کے بعد اسی مقام پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام جو کہ پردہ غیبت میں ہیں تشریف لائیں گے جبکہ حضرت عزیر علیہ السلام کے بارے میں بھی روایات میں موجود ہے، اسی طرح سب کے سب انبیاء و اولیاء و اوصیائے کرام اسی مقام پر جناب مہدی (عج) کی قیادت میں نماز ادا کریں گے۔ عرض کروں کہ ان تمام بیان کردہ حقائق کے علاوہ متعدد ایسی متبرک اور کرامات ہیں جو اسی قبلہ اول سے منسوب ہیں اگر بیان کی جائیں تو شاید پورے ایک کالم سے بھی زیادہ انہی فضائل پر مبنی ہو گا تاہم اس مقام یعنی مسجد اقصیٰ (قبلہ اول) جسے بیت المقدس بھی کہا جاتا ہے کہ کی ایک فضیلت یہ بھی ہے کہ جہاں یہ مسلمانوں کا قبلہ اول رہا ہے وہاں اس مقام کو یہ حیثیت بھی حاصل ہے کہ کعبة اللہ اور روضہ رسول اکرم (ص) کے بعد مسلم امہ کا تیسرا اہم ترین مقدس مقام بھی ہے۔

قبلہ اول گذشتہ کئی دہائیوں سے مظلوم فلسطینیوں کی طرح مظلومیت کی داستان بنا ہوا ہے، سنہ 1967ء میں عرب اسرائیل جنگ کے نتیجے میں جہاں عربوں کو اسرائیل کی صیہونی افواج کے مقابلے میں شکست کا سامنا ہوا اور مصر، شام، لبنان اور اردن کے متعدد علاقوں پر اسرائیل قابض ہوا وہاں قبلہ اول کو بھی صیہونیوں نے اپنے تسلط میں لے لیا تھا، حالانکہ مظلوم فلسطینی عوام تو سنہ1948ء سے ہی غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے انسانیت سوز مظالم کا نشانہ بنتے چلے آ رہے تھے لیکن یہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ صیہونی غاصب ریاست کے مذموم مقاصد کھل کر سامنے آئے اور مسجد اقصیٰ پر تسلط قائم کر لیا گیا اسی طرح ابھی دو برس کا عرصہ بھی نہ بیت پایا تھا کہ ایک صیہونی وحشی نما نے مسجد اقصیٰ میں داخل ہو کر نہ صرف مسجد کا تقدس کا پائمال کیا بلکہ سنہ1969ء میں اسی صیہونی وحشی نما نے مسجد اقصیٰ کو نذر آتش کر دیا اس کی حرکت کے نتیجے میں مسجد کے متعدد اہم ترین اور تاریخی ترین ستون اور مقامات آگ کی زد میں آ کر جل گئے اور کچھ مقامات تو خاکستر ہو گئے۔ یہ ایسا دل خراش واقعہ تھا کہ جہاں نہ صرف فلسطینیوں کے لئے غم و غصے کا باعث بنا وہاں پوری مسلم امہ میں بھی شعلہ بھڑک اٹھا اور ہر طرف سے آواز اٹھنے لگی اور یہی وجہ بنی کہ مسلم ممالک کے سربراہوں نے مل کر اسلامی سربراہی کانفرنس یعنی OIC کا قیام عمل میں لائے اور اس بات کے سر فہرست رکھا گیا کہ دفاع فلسطین و قبلہ اول اس اسلامی کانفرنس کی اولین اور بنیادی ترین ذمہ داری ہو گی تاہم ایسا محسوس ہوتا تھا کہ شاید مسلم امہ اور بالخصوص عربوں کو سوئی ہوئی غیرت وحمیت کہ جس کو انہوں نے اپنی بادشاہتوں اور حکومتوں کو تحفظ دینے کے لئے اسرائیل جیسی صیہونی ریاست کے پاس گروی رکھا تھا یا تو فروخت کر دیا تھا، اب ایک مرتبہ پھر وہی غیرت و حمیت زندہ ہوئی تھی لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ عالمی استعماری قوتوں بالخصوص امریکہ اور اس کی ناجائز اولاد اسرائیل نے اپنی ناپاک سازشوں اور عرب بادشاہوں کے روپ میں موجود اسرائیلی ایجنٹوں کے ہاتھوں نہ صرف اس ادارے کو ناکام کیا بلکہ آج یہ ادارہ نا اہل اور ناکارہ ہو چکا ہے۔

مسجد اقصیٰ پر حملے سنہ1969ء کے بعد بھی ہوتے رہے، ماضی میں جب صیہونی غاصب ریاست کے درندہ صفت وزیر اعظم ایریل شیرون نے اعلان کیا کہ وہ مسجد اقصیٰ میں داخل ہوں گے تو اس موقع پر بھی فلسطینیوں کی جانب سے بھرپور ردعمل سامنے آیا تھا اور تحریک کا آغاز کیا گیا تھا لیکن افسوس پھر وہی ہے کہ عرب مسلم بادشاہتوں کے اندر چھپے ہوئے اسرائیلی مفادات کا تحفظ کرنے والے حکمرانوں نے نہ تو خود فلسطینیوں کی جدوجہد کا ساتھ دیا بلکہ الٹا ہی ان کی جد وجہد کو کچلنے کے لئے متعدد مرتبہ اسرائیل کو فری ہینڈ بھی دیا جس کا ثبوت ماضی قریب میں سنہ2006ء میں لبنان پر اسرائیلی حملہ، سنہ2008 میں غزہ پر، اسی طرح سنہ2012ء میں اکیس روزہ جنگ غزہ اور پھر سنہ 2014ء میں غزہ پر پچاس روزہ جنگ مسلط کی البتہ ان تمام جنگوں میں کہ جن کا آغاز اسرائیل کی جانب سے کیا گیا تھا سب میں غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کو شکست ہوئی۔

قبلہ اول سنہ1967ء سے ہمیشہ کی طرح آج بھی فلسطینیوں کی طرح مظلومیت و غربت کی ایک داستان بن چکا ہے، حالیہ دنوں رواں سال میں قبلہ اول ایک مرتبہ پھر صیہونی دہشت گردوں اور صیہونی افواج کے نشانوں پر ہے، فلسطینی ذرائع کے مطابق اسرائیل نے قبلہ اول کے نیچے زیر زمین کھدائی کر نا شروع کر رکھی ہے جس کا مقصد قبلہ اول کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنا ہے تا کہ اسے منہدم کیا جائے اور اس کی جانب ہیکل سلیمانی کی تعمیر کی جائے، جبکہ ساتھ ساتھ اسرائیل صیہونی دہشت گرد تنظیموں اور صیہونی افواج کے گٹھ جوڑ سے آئے روز مسجد اقصیٰ کی نہ صرف بے حرمتی کی جا رہی ہے بلکہ مسجد اقصیٰ کی طرف جانے والے مظلوم فلسطینیوں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، رواں سال ستمبر کے مہینے میں ایک ہفتے میں کئی مرتبہ صیہونی تنظیموں اور افواج کی ملی بھگت سے مسجداقصیٰ پر چڑھائی کی جاتی رہی اور مسجد کے متعدد مقامات کو گولیوں اور دیگر بھاری ہتھیاروں کا نشانہ بنایا گیا جس کے باعث مسجد اقصیٰ کو شدید نقصان پہنچا ہے اور ساتھ ساتھ درجنوں کی تعداد میں فلسطینی خواتین و مردوں کو زدو کوب کیا گیا اور شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے جبکہ دفاع کرنے والے فلسطینیوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور زخمی ہونے والے فلسطینی خواتین و حضرات میں بچوں کی تعداد بھی شامل ہے کہ جنہیں صیہونی فوجیوں اور دہشت گرد تنظیموں نے اپنے بد ترین مظالم کا نشانہ بنایا ہے۔

حیرت انگیز اور سوچنے کی بات یہ ہے کہ پوری مسلم امہ خواب غفلت میں پڑی ہے کسی کو یہ خیال ہی نہیں کہ گذشتہ 67 برس سے فلسطینیوں کے ساتھ غاصب اسرائیل جو کر رہا ہے اس کا ازالہ ہونا چاہئیے اور اسرائیل کو اس کے کئے گئے گناہوں کی سزا ملنی چاہئیے، ترکی کی بات کی جائے تو وہ شام کی سرحدوں پر اس لئے مصروف ہے کہ شام کی حکومت گرا کر اپنی من پسند حکومت کی حمایت کی جائے اور شام کے مہاجرین کے مسئلہ کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جائے، قطر کی بات کریں تو وہ بھی ترکی سے کسی طور پیچھے نظر نہیں آ رہا ہے، اسی طرح سعودی عرب کی بات کریں تو وہ بھی یمن میں فوجی چڑھائی کرنے میں پوری طرح مصروف عمل نظر آرہا ہے، عراق کی بات کریں تو وہ بھی داعش نامی تکفیری دہشت گرد گروہ کے نشانے پر ہے، لبنان کی مثال بھی ایسی ہی ہے لیکن یہاں البتہ حزب اللہ کی موجودگی نے اسرائیل کو لگام دے رکھی ہے، اسی طرح یمن تو خود آج مظلوم ہے جو فلسطینیوں کی طرح ظلم و ستم برداشت کر رہا ہے، پاکستان کی بات کریں تو یہاں شاید ترجیحات کچھ اور ہیں اور اس کی وجہ بھی صیہونی اور بھارتی گٹھ جوڑ کی وجہ سے پیدا ہونے والے حالات ہیں کیونکہ پاکستان خود بھی صیہونی ایجنٹوں کی دہشت گردی کے نشانے پر ہے اور اب جا کر پاکستان کی افواج نے دہشت گردوں کا قلعہ قمع کرنے کی ٹھان لی ہے تو حالات بہتری کی طرف جا رہے ہیں، لے دے کر ایک ملک ایران ہے کہ جس کی جانب سے مسجد اقصیٰ پر صیہونی حملوں کی نہ صرف شدید مذمت دیکھنے میں آتی بلکہ عملی طور پر بھی فلسطینیوں کی مدد کرنے میں پیچھے نہیں رہا ہے، افغانستان کی صورتحال بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، وسطی ایشیائی ریاستیں بھی تکفیری دہشت گردی کے خطرات سے نمٹ رہی ہیں، انڈونیشیا اور ملیشیا کی بات کریں تو یہاں فلسطینیوں کی حمایت ضرور موجود ہے جس طرح کے پاکستان کی خارجہ پالیسی میں فلسطین کی حمایت بنیادی نکتہ ہے لیکن عملی طور پر بہت سی مجبوریاں اور دوستیاں آڑے آ رہی ہیں۔

خلاصہ یہ ہے کہ پورا ایشیا بشمول غرب ایشیا ایسی صورتحال سے گزر رہاہے کہ جس کو پیدا کرنے میں خود اس خطے کے حکمرانوں کا کردار اور ہاتھ ہے اور اس تمام تر صورتحال سے اگر کسی کو فائدہ پہنچ رہا ہے تو وہ عالمی دہشت گرد اور شیطان بزرگ امریکہ اور اس کی ناجائز اولاد اسرائیل ہے جبکہ مسلمانوں کا قبلہ اول پکار پکار کر امت کو جگانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن کیا کہا جا سکتا ہے کہ امت کے حکمران تو شاید امریکی اور صیہونی کاسہ لیسی کو ہی اپنا مقدس سمجھ بیٹھے ہیں، کیا مسلم دنیا کے حکمرانوں میں اتنی بھی غیرت و حمیت باقی نہیں رہی تھی کہ ماہ ستمبر میں اقوام متحدہ کے ہونیوالے اجلاس میں کم سے کم فلسطین کاز کی بات کرتے اور حالیہ صیہونی حملوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے، علامہ اقبال نے کیا خوب کہا تھا
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے تابہ خاک کاشغر
آج صیہونی ریاست اپنے ناپاک صیہونی عظیم تر اسرائیل کے منصوبے کی تکمیل کی طرف بڑھ رہی ہے اور مسلم عرب حکمران خواب غفلت میں ہیں۔ یہ اقوام متحدہ جس کے ذمے دنیا میں جنگوں کو روکنا قرار دیا گیا تھا وہی عالمی طاقتوں کی کٹھ پتلی بن کر جنگوں کا سبب بن چکی ہے جس طرح سے فلسطین کا مسئلہ صہیونی خوانخواروں کی وجہ سے قلبِ انسانیت کا رستا ہوا ناسور بنا ہے، اسی طرح آج یمن و عراق اسی عالمی دہشت گردانہ فکر کی وجہ سے مظلوم انسانوں کی سسکیوں اور چیخوں سے بھرا ہے، کیا آج بھی مسلمان بیدار مغز مجاہدین اقوام متحدہ کے بے روح لاشے کو کندھے پر اُٹھائے رکھیں گے جو 24 اکتوبر 1945 ء کو بقول علامہ اقبال مرحوم ''عالمی کفن چوروں کی انجمن وجود میں آچکی ہے۔''

عالمی ضمیر سے مطالبہ کرنا کہ اب تو ظلم کا خاتمہ ہونا چاہیے لیکن کیا کیا جائے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نے ظلم پر ظلم کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔ فلسطینی بچے جو اپنی سر زمین کے چھین جانے، مسجد اقصٰی کو نذر آتش کئے جانے اور ان کو اپنے گھروں سے بے دخل کرنے اور آئے دن قبلہ اول پر حملوں کے نہ ختم ہونے والے سلسلے کے خلاف جدید اسرائیلی اسلحے کے مقابلے میں اسرائیلی فوجیوں کو پتھر مارنے کی جس تحریک کو بیس سال سے جاری رکھا ہوا ہے۔ چھوٹے چھوٹے فلسطینی بچے الموت لا امریکا اور الموت لا اسرائیل کے نعرے لگاتے ہوئے دنیا کے ان جھوٹے شیطانوں کے خلاف نبرد آزما ہیں۔ اُدھر اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو نے 16 ستمبر 2015 کو اپنی کابینہ اور سیکیورٹی حکام کو ایک ہنگامی ملاقات میں یہ تجویز پیش کی کہ اسرائیلی فوجیوں اور ان کے ٹینکوں پر سنگ باری کرنے والے بچوں اور نوجوانوں کو سخت سزائیں اور بھاری جرمانے کئے جائیں۔ اس کے باوجود نہ تو فلسطینی بچوں نے اپنی روش چھوڑی اور نہ ہی OIC عرب ممالک کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔'' شرم تم کو مگر نہیں آتی''۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ مسلم عرب حکمران مسلمانوں کے جغرافیہ جات کے لیے دولت کے انبار خرچ کرتے لیکن یہ تو ملتِ مسلمہ کی عزت و آبرو پامال کرنے کے لیے خرچ کرتے ہیں، یہ سب اسرائیل کی بقا، استحکام اور مفادات کی حفاظت کے لیے کیا جاتا ہے۔ کیا مسلمانانِ عالم یہ سوال کرنے میں حق بہ جانب نہیں کہ مسلمانوں کو پائمال، آبروؤں کو خاک میں ملایا جائے، اقتصادی تنصیبات کو نابود کرنے کا براہ راست فائدہ کس کو پہنچے گا ؟؟ فلسطین، غرب اردن، غزہ اسرائیل کے حملوں کی زد پر ہیں اور مسلمان اپنے مسائل اور مفادات کے تحفظ میں مشغول ہیں۔ سلام ہو ہدایت کی پیروی کرنے والوں پر۔
خبر کا کوڈ : 488928
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش