1
0
Thursday 8 Oct 2015 12:48

جب خون تلوار پر غالب آیا

جب خون تلوار پر غالب آیا
تحریر: ثاقب اکبر

محرم الحرام کا چاند جبین فلک پر نمودار ہونے کو بے قرار ہے۔ یہی وہ مہینہ ہے جس میں فتح و شکست کے پیمانے بدل گئے، جس میں قاتل شکست کھا گئے اور مقتول فتح سے ہمکنار ہوئے۔ یہی وہ مہینہ ہے جس میں خون تلوار پر غالب آگیا۔ جب مغرور گردنیں حیرت سے تنی کی تنی رہ گئیں اور کٹی گردنیں نیزوں پر بلند ہوکر سکانِ سماوات کے زمزمے سننے لگیں۔ جن کے دوش پر سر تھے انھوں نے سر بریدہ سے تلاوت قرآن کے نغمے سنے۔ جب حق آشکار ہوگیا اور باطل ذلیل و خوار ہوگیا۔ ہاں یہ سب کچھ 10 محرم الحرام 61ھ کی شام نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور آنے والے روز و شب کو یہ داستان منتقل کر دی اور پھر یہ داستان نسلوں نے نسلوں کے نام کی۔

زمانہ سیدالشہداء کی جرأت و شہامت، حق و صداقت اور حضورِ حق میں تسلیم و رضا کا شاہد ہے اور زمانے کی شہادت نہیں جھٹلائی جاسکتی کہ آئندہ کی تاریخ اسی کے سہارے آگے بڑھتی ہے۔ یہی شہادت شب ہائے ظلمانی میں لَو دیتی ہے اور مسافروں کو آگے بڑھنے کے لئے راستہ دکھاتی ہے۔ کربلا کی 10محرم 61ھ کی شام کی شہادت ہر دوسری شہادتِ حق کی موّید ہے اور تمام تر شہادتوں اور صداقتوں کی امین ہے۔ کربلا کی عصر ہر عصر و مصر کے سامنے یہ اعلان کرتی رہے گی کہ ایمان اور عمل صالح کو شکست نہیں دی جاسکتی۔ قرآن تو پہلے ہی شہادت دے چکا ہے:
وَالْعَصْرِ O اِِنَّ الْاِِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ O اِِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ۔۔۔
خسران یزید کے تکبر و غرور کا مقدر ٹھہرا اور کامیابی حسینؑ اور ان کے ساتھیوں کے ایمان و عمل صالح پر ناز کرتی رہی۔

امام حسینؑ کی کامیابی اور یزید کی ناکامی اس تیز رفتاری سے واضح ہوئی کہ تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ اقتدار سے یزید اور اس کی نسل کا حصہ تمام ہوا اور دلوں کو فتح کر لینے والا حسین ؑ آج بھی زندہ ہے اور قوت حسینی سے حق بھی پائیدار اور مستحکم ہے۔ بقول اقبال ؒ :
زندہ حق از قوت شبیری است
باطل آخر داغ حسرت میری است

ایک وہ دن تھا جب مؤرخ مسعودی کے بقول یزید اقتدار و شراب کے نشے میں چُور اپنے دائیں پہلو میں ابن زیاد کو بٹھائے اپنی کامیابی کے گیت یوں گنگنا رہا تھا:
اَسْقِنِیْ شُرْبَۃً تَرْوِیْ مَشَاشِیْ
ثُمَّ مِلْ فَاسْقِ مِثْلَھَا ابْنَ زِیَادٖ
صَاحِبَ السِّرِّ وَالْاَمَانَۃِ عِنْدِیْ
وَلِتَسْدِیْدِ مَغْنَمِیْ وَجَھَادِیْ
اے ساقی مجھے ایسا جام شراب پلا جو میری طبیعت کو سیراب کر دے،
پھر ایسا ہی ایک جام ابن زیاد کو دے،
جو میرا ہمراز اور معتمد ہے
اور جو میری کامیابیوں اور کوششوں کو مستحکم کرتا ہے۔

لیکن جلد ہی وہ دن آیا جب اس کے تخت کے سامنے کھڑے ہو کر اس کے بیٹے معاویہ ابن یزید نے اپنے باپ سے اپنی بیزاری کا اظہار اور امام حسینؑ کی صداقت کا اعلان مؤرخ ابو زید احمد بن سھیل بلخی کی نقل کے مطابق ان الفاظ میں کیا:
"بے شک میرے دادا معاویہ نے اُس شخص سے حکومت کے معاملے میں تنازع کیا، جو اس سے زیادہ اس کا اہل اور زیادہ مستحق تھا۔ اس شخص کے بارے میں ان جرائم کا ارتکاب کیا جو تمھیں معلوم ہی ہیں، حتیٰ کہ اپنے اعمال کے ساتھ دُنیا سے رخصت ہوگیا۔ پھر میرے باپ نے حکومت سنبھالی، حالانکہ وہ بھی اس کے لائق نہ تھا۔ وہ اس سے لت پت ہُوا اور بڑی خطاؤں کا مرتکب ہوا۔ میں نہیں چاہتا کہ تمھاری ذمہ داریوں کے بوجھ کے ساتھ اﷲ تعالٰی سے ملاقات کروں۔ سو تم جانو اور تمھاری حکومت، جسے چاہو اس کے حوالے کر دو۔ ﷲ کی قسم! اگر خلافت مال غنیمت ہے تو ہم اس سے فائدہ اُٹھا چکے ہیں۔ اگر یہ شر ہے تو ابوسفیان کی اولاد اس سے جو کچھ لے چکی ہے وہی بس کرتا ہے۔"


شاعر نے اس صورت حال کو ان دو مصرعوں میں بیان کیا ہے:
حق آشکار ہوگیا خون شہید سے
بیزار ہے یزید کا بیٹا یزید سے
حسینؑ کی کامیابیوں اور کامرانیوں کے ڈنکے پورے عالم میں گونج رہے ہیں اور خراج عقیدت پیش کرنے والے اس مضمون کو طرح طرح سے باندھ رہے ہیں:
دلوں پہ نقش ہوئیں حکمرانیاں تیری
تاریخ، کربلا سے نکلنے والے خون کے دھارے کے سہارے قدم آگے کی طرف بڑھا رہی ہے۔ دن بدن نفاق کا کریہہ اور سیاہ چہرہ آشکار ہوتا چلا جارہا ہے۔ حسینؑ کے نانے کا دین آخر کار تائید فطرت کے ساتھ غالب ہوکے رہے گا۔ اس لئے کہ اللہ کا وعدہ ہے:
وَ نُرِیْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی الْاَرْضِ وَ نَجْعَلَھُمْ اَءِمَّۃً وَّ نَجْعَلَھُمُ الْوٰرِثِیْنَ O
اور ہمارا ارادہ ہے کہ ہم ان لوگوں پر احسان کریں، جنھیں زمین میں کمزور کر دیا گیا ہے اور انھیں منصب امامت عطا کریں اور انہی کو وارث قرار دیں۔
خبر کا کوڈ : 489619
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

حیدر
Pakistan
ماشاء الله
ہماری پیشکش