0
Friday 9 Oct 2015 18:30

مرگ بر ضد ولایت علی ؑ

مرگ بر ضد ولایت علی ؑ
تحریر: عرفان علی

آج پاکستان میں عید مباہلہ کی سالگرہ کا دن ہے اور بندہ عید غدیر والی ولایت پر تحریر لکھنا چاہتا ہے۔ گو کہ یہ کام علمائے کرام کے ذمے تھا کہ وہ اس موضوع پر کھل کر اظہار فرماتے اور بعض علمائے دین نے اپنی مجالس و محافل میں اس پر منحرفین کو دندان شکن منطقی جواب بھی دیا لیکن میں اپنے نام کی وجہ سے مجبور ہوں کہ ان اپنوں کی خدمت میں بعض گذارشات پیش کروں, جو تشہد میں ولایت امیرالمومنین کی گواہی پر ایک عجیب و غریب نظریہ قائم کرچکے ہیں۔ ان کا نظریہ سن چکا ہوں کہ اگر واجب کی نیت سے نہ پڑھا جائے یعنی کسی اور نیت سے پڑھا جائے تو کوئی حرج نہیں۔ یہ کوئی اور نیت کیا ہے؟ دوسری نیت مستحب ہوسکتی ہے، لیکن کیا کسی بھی معصوم ؑ نے اسے کسی بھی نیت سے نماز کے دوران پڑھا ہے، جو یہ نظریہ اپنا لیا گیا۔؟ چونکہ اس عنوان پر جنہیں ’’اپنا‘‘ قرار دیا، ان سے مراد تنظیمی علمائے کرام میں سے بعض ہیں، اس لئے اس موضوع پر میں نے غیبت امام زمان عج کے دوران ان کے موجودہ مرکزی نائب ولی فقیہ جہان آیت اللہ العظمٰی امام خامنہ ای کی خدمت میں ایک سوال بھیجا۔ بڑی وضاحت سے سوال میں پوچھا کہ ولایت امیرالمومنین ؑ کی واجب یا مستحب نماز کے تشہد میں گواہی کی حیثیت کیا ہے؟ آیا یہ مستحب ہے؟ کیا نماز جنازہ میں اسے پڑھا جاسکتا ہے؟ جواب آیا کہ کسی بھی نماز کے دوران تشہد سمیت کسی بھی ذکر میں صرف وہ اذکار پڑھے جائیں کہ جو مراجع عظام کے رسالہ عملیہ (توضیح المسائل) میں درج ہیں اور ان میں کسی بھی چیز کا اضافہ نہ کریں، ہرچند کہ وہ اضافہ کلام حق پر مبنی ہو اور صحیح ہی کیوں نہ ہو۔ یہ ہے وہ جواب جو کہ آپ کی خدمت تک پہنچانا مقصود تھا۔

جب اس موضوع پر تحقیق کا مرحلہ طے کر رہا تھا تو بعض دوستوں سے صلاح مشورہ بھی کیا۔ اصل میں ایک تحریکی دوست نے مجھ سے درخواست کی کہ میں اس موضوع پر لکھوں، کیونکہ معاشرے میں یہ غلط چیز پھیلتی جا رہی ہے۔ یہ کہہ کر جان چھڑانے کی کوشش کی کہ حضور آپ تو خود تحریک میں ہیں تو اپنے تحریکی علماء سے کہیں کہ وہ اس پر کھل کر بولیں، ویسے بھی امر بالمعروف و نہی عن المنکر علمائے کرام کا بنیادی فریضہ ہے۔ تحریکی اور تنظیمی،،، یہ دو اصطلاح دو گروہوں کے لئے ہیں، امید ہے کہ سمجھ گئے ہوں گے کہ تنظیمی سے مراد کون ہیں اور تحریکی سے مراد کون؟ لیکن میں مجبور اس لئے ہوا کہ ایک تنظیمی عالم نے فضائل امیرالمومنین کو ایسے انداز سے بیان کرنا شروع کر دیا ہے کہ منحرف ٹولہ اسے اپنے حق میں استعمال کر رہا ہے۔ بندہ اس عالم کا احترام کرتا آیا ہے اور یہ ایک حیران کن انکشاف تھا کہ ان سے مذاقاً ایک تنظیمی بزرگ نے کہا کہ ملتان میں آپ نے جس انداز میں پڑھا تو ممکن ہے کہ اب صرف تشہد ہی میں نہیں بلکہ تکبیرۃ الاحرام میں بھی مولا امیرالمومنین ؑ کا نام لینا شروع کر دیا جائے۔

تنظیمی دوستوں کے توسط سے ان تک یہ پیغام پہنچ جانا چاہیے کہ تونسہ شریف سے منسوب ذاکر میں اور آپ میں کوئی فرق ہونا چاہیئے۔ اب آپ پر لازم ہے کہ اگر فضائل مولا امیر المومنین ؑ پڑھیں تو ہرگز ہرگز ذو معنی جملے استعمال نہ کریں۔ اگر آپ یہ بھی کہیں گے کہ رکوع میں علی ؑ ہے، سجدے میں علی ؑ ہے، تب بھی آپ غلطی پر ہوں گے، پھر یہ کہ تنظیمی دوستوں پر یہ واضح کریں کہ آپ مقلد ہیں یا احتیاط پر عمل کرتے ہیں، کیونکہ امام خامنہ ای کے مقلدین کے لئے تو مسئلہ واضح تھا۔ پھر یہ کہ اگر آپ کو مراجع عظام کے بیان کردہ اذکار نماز پر اعتراض ہے تو کھل کر میدان میں آئیں اور لکھیں کہ میرے دلائل یہ ہیں۔ اگر آپ یہ کہیں گے کہ ان باتوں پر کوئی اعتراض نہیں کرسکتا اور آپ کی اپنی تحقیق ہے، تو پھر اپنی تنظیم سے لفظ ولایت فقیہ کو نکال باہر کریں، دوغلا پن نہ کریں۔ یقیناً آپ یہ کہیں گے کہ میں نے تشہد میں شہادت ولایت امیرالمومنین ؑ کی گواہی کے حق میں کبھی کچھ نہیں کہا، لیکن آپ نے جو کچھ کہا، اس پر فیڈ بیک آپ کو مل چکا ہے، اس پر آپ اگر یہ کہیں کہ امام خمینی کی اپنی تحقیق ہے اور میں بھی عالم ہوں، کتابیں میں نے بھی پڑھی ہیں اور میرا اپنا علم ہے، اور یہ کہ کوئی جعفر یا عرفان جیسا نالائق مجھے ڈکٹیٹ نہیں کرسکتا تو پھر ان نالائقوں کا یہ حق تسلیم کریں کہ وہ آپ سمیت سارے علمائے کرام سے ان کی ہر متنازعہ بات کی دلیل اور اصل کتاب کا نام طلب کریں کہ جن کی بنیاد پر آپ وہ بات کر رہے ہیں۔

آیت اللہ العظمٰی خامنہ سے لے کر آیات عظام سیستانی، وحید خراسانی وغیرہ کسی نے بھی ایسی کوئی بات رسالہ عملیہ میں نہیں لکھی، میں اسے دوستوں کے سامنے چیک کرچکا ہوں۔ فضائل امیرالمومنین ؑ پر ایمان رکھے بغیر کوئی خود کو شیعہ کہہ ہی نہیں سکتا، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اسے جوش خطابت میں نماز میں لے آئیں۔ جب بھی فضائل مولا امیرالمومنین ؑ پڑھے جائیں، بہتر یہ ہے کہ اس کے آخر میں صرف ایک جملہ یہ بھی کہیں کہ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس کی گواہی نماز میں دی جائے۔ کلمہ اور اذان میں ہم اس کی گواہی دے چکے۔ اب ان دوستوں کی خدمت میں عرض کہ جو اس گواہی کے نماز میں قائل ہوچکے ہیں یا نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ بندہ ان سے ایک عقلی و منطقی سوال کرتا ہے۔ اگر نماز میں یہ گواہی دینا ضروری ہوتی تو خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفٰیﷺ اسے حج کی نمازوں کے دوران ہی کسی ذکر میں پڑھ دیتے اور پوری امت کو معلوم ہو جاتا۔ حضور! ولایت امیرالمومنین کی گواہی یا تو غدیر کے میدانوں میں یا پھر اقتدار کے ایوانوں میں دی جاتی ہے۔ یہ سنت رسول اکرم ﷺ ہے کہ نماز سے ہٹ کر عظیم انسانی اجتماع میں خاص اہتمام کے ساتھ غدیر خم میں ولایت امیرالمومنین ؑ کا اعلان کیا۔ کیا رسول خدا ﷺ پر بھی الزام لگاؤ گے؟

میرے پاس ایک اور دلیل بھی ہے کہ نماز میں تو اللہ اور رسول ﷺ کی ولایت کی بھی گواہی نہیں دی جاتی بلکہ اللہ کی توحید اور محمد ﷺ کی رسالت کی گواہی دی جاتی ہے، مولا امیرالمومنین ؑ کی ولایت تو اللہ اور رسول ﷺ کی ولایت کے بعد ہے، نہ کہ ان سے پہلے۔ نماز میں ولایت کی گواہی تو سرے سے ہے ہی نہیں۔ باز آجاؤ دوستو! علامہ حسن ظفر نقوی صاحب نے اس فتنے کی ابتداء میں بعض مجالس میں یہ سوال بھی اٹھایا تھا کہ آپ کے وہ اجداد جنہوں نے نماز میں یہ گواہی نہیں دی اور رحلت فرما چکے، ان کے بارے میں کیا کہو گے۔؟ حضرت عمارؓ، میثم تمار، سلمان ؓ و بوذرؓ، مالک اشترؓ سمیت سبھی نے یہ گواہی عوام الناس کے درمیان بھی دی اور اقتدار کے ایوانوں کو اس اعلان ولایت کے اظہار سے ان کی اوقات بھی بتلا دی۔ ہمت ہے تو وہ کام کرو جو جناب سیدہ سلام اللہ علیہا نے کیا تھا، ولایت کی گواہی ویسے دو۔ سلام ہو ان علمائے دین پر جنہوں نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ وہ انبیاء ؑ کے وارث ہیں۔ شان رسالت و امامت کے گستاخ ذاکروں کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو سلام ہو۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینے والے علمائے مذہب حقہ پر سلام ہو۔ آپ ہو جو جناب سیدہ کی دعائے مادرانہ کے سائے میں زندگی گذار رہے ہو۔

مجھے آج بھی یاد ہے کہ تونسہ شریف کے ایک ذاکر کے فضائل ایک دو نمبر دوست نے بیان کئے تھے۔ یہ بھی موجودہ تنظیمی ہیں اور ایک طلبہ تنظیم کے سابق نامور جوان۔ وہ فرمایا کرتے تھے کہ بہت نیک آدمی ہے، شب بیداری کرتا ہے، قائم اللیل ہے۔ میں نے خود اس ذاکر کی ایک مجلس سنی۔ شروع سے درمیان تک میں بہت خوش تھا کہ فضائل مولا امیرالمومنین ؑ بیان کر رہا ہے اور کتابوں کے حوالے بھی دے رہا ہے۔ آخر میں جب موصوف نے یہ کہا کہ جس علی ؑ کے اتنے فضائل ہیں، اس کا تذکرہ نماز میں کیوں نہ کیا جائے اور یہاں وہ خود معصوم ؑ بن کر اپنی رائے کو چہاردہ معصومین کی رائے پر فوقیت دے رہا تھا۔ میں اپنے اس دوست اور اس کی صحبت میں وقت گذارنے والے نوجوانوں کی خدمت میں عرض کر دوں کہ ہمارے اس دوست کی سیاسی بصیرت کا عالم یہ ہے کہ نواز شریف تاحال وزیراعظم ہے اور اس نے 2014ء کو نواز حکومت کا آخری سال قرار دیا تھا اور مذہبی بصیرت کا حال یہ ہے کہ جس طبقے سے بھی نئی نئی دوستی کرتا ہے تو اس کی خامیاں بھی خوبیاں لگتی ہیں اور جو میرے اس دوست کو اچھا نہیں لگتا اسے دائرہ اسلام سے ہی خارج کرنے پر تل جاتا ہے۔

ان تنظیمی عالم و عہدیدار کے بارے میں بندہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری، علامہ امین شہیدی، علامہ شفقت شیرازی اور علامہ حسن ظفر نقوی سے التماس کروں گا کہ وہ خود درمیان میں آئیں اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیں اور تنظیمی عہدیداران کے بارے میں اس منفی تاثر کا نوٹس لیں، تحقیق کریں کہ یہ منفی رائے کیوں کر پائی جاتی ہے۔ باقی کلی طور پر اس ساری صورتحال میں سارے شیعہ قائدین و علمائے کرام کو ایک زیادہ فعال کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ شرع مقدس اسلام ناب محمدی ﷺ کو قربان کرکے یا اسے پس پشت ڈال کر نہ تو اتحاد بین المسلمین ہوسکتا ہے اور نہ ہی اتحاد بین المومنین، اتحاد اتحاد کی آڑ میں نئے دوست بنانے کے لئے اسلام کے پرانے اور مخلص پیروکاروں کا جلوس نہ نکالیں۔
خبر کا کوڈ : 489841
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش