0
Saturday 8 Jan 2011 16:59

عسکری، مغربی میڈیا کا درد سر

عسکری، مغربی میڈیا کا درد سر

تحریر: ایس این حسینی
اسلام ٹائمز- جناب علی رضا عسکری یکم نومبر 1952ء کو اصفہان کے ایک نواحی قصبے اردستان میں پیدا ہوئے۔ اسلامی انقلاب سے قبل وہ جنوبی تہران کے سرگرم انقلابی طلباء میں شمار ہوتے تھے۔ انقلاب کی کامیابی کے بعد 1980ء میں سپاہ پاسداران میں باقاعدہ شمولیت کے ذریعے انہوں نے اپنی پوری زندگی انقلاب اسلامی کی خدمت کیلئے وقف کر دی۔ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر مقررہ وقت سے قبل ہی بریگیڈئر جنرل کے اعلی فوجی منصب پر فائز ہو گئے۔ موصوف انقلاب مخالفوں کی سرکوبی کیلئے کافی شہرت کے حامل ہیں، چنانچہ انہوں نے ہی ملک کے مختلف حصوں جیسے کردستان اور جنوبی ایران کے دیگر علاقوں میں انقلاب مخالف بغاوتوں کو کچل دیا اور ان شہروں کو دشمنان انقلاب کی سرگرمیوں سے مکمل طور پر صاف کر دیا۔
90ء عشرے کی ابتداء میں لبنان چلے گئے اور کافی عرصہ حزب اللہ کی فکری اور اخلاقی تربیت کر کے انہیں حقیقی معنوں میں اسلامی اور انقلابی افکار سے روشناس کرایا۔ اسی زمانے میں حزب اللہ نے ایک اسرائیلی پائلٹ ران آئریڈ کو اغوا کر لیا جسکا آج تک کوئی اتہ پتہ نہیں۔ تاہم صہیونی حکومت کا خیال ہے کہ اس کے اغوا میں بھی عسکری کا ہاتھ ہے اور انکا یہ بھی خیال ہے کہ جنرل عسکری کے توسط سے مذکورہ پائلٹ لبنان سے ایران منتقل ہو چکا ہے۔
لبنان میں اپنے فرائض بخوبی سرانجام دینے کے بعد جنرل عسکری ایران لوٹ گئے اور جمہوری اسلامی کے مشترکہ افواج کے ھیڈکوارٹرز میں دوبارہ اپنی خدمات کو جاری رکھا۔ سپاہ میں وہ القدس فورس کے ساتھ وابستہ تھے۔ اپنی سروس کے آخری ایام میں وہ صدر مملکت جناب سید محمد خاتمی کے ساتھ نائب وزیر دفاع کے عہدے پر فائز رہے اور نوکری کی مدت پوری کرنے کے بعد بالآخر سپاہ پاسداران سے ریٹائر ہو گئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے تجارت کا پیشہ اختیار کیا اور زیتون اور زیتون کے تیل کا کاروبار شروع کیا۔ چونکہ زندگی کا کافی عرصہ شام اور لبنان میں گزار چکے تھے اور ان بازاروں کی تیزی اور مندی اور اشیاء کی قدر و قیمت سے آگاہی رکھتے تھے، لہذا اس سلسلے میں وہ شام، لبنان اور ترکی جایا کرتے تھے۔ جبکہ مغربی میڈیا کا خیال ہے کہ وہ ترکی میں یورپی کمپنیوں کے ساتھ اسلحہ کی ڈیلنگ میں بھی مصروف تھے۔
آخری بار فروری 2007ء میں تجارت کی غرض سے شام چلے گئے اور شام سے ترکی گئے جہاں سے ایران آنے کا ارادہ تھا۔ لیکن 7 فروری کو ترکی ہی میں امریکہ اور اسرائیل کے مشترکہ کمانڈوز کے آپریشن میں اغوا ہو کر ترکی میں موجود امریکی فوجی اڈے کی طرف منتقل کئے گئے۔ اغوا کے بعد امریکی اور اسرائیلی وائرلیس سسٹم اور ذرائع ابلاغ سے متضاد قسم کی گمراہ کن خبریں نشر ہوتی رہیں۔ ہر گھنٹے میں انکا بیان بدلتا رہا۔ آخرکار انہوں نے یہ اعلان کیا کہ عسکری نے ایران سے فرار اختیار کر کے مغرب کے پاس پناہ لی ہے۔ اسکے بعد ایک خبر یہ نشر ہوئی کہ عسکری خصوصی فوجی طیارے کے ذریعے امریکہ کے ایک فوجی سیکیورٹی بیس کی طرف منتقل ہو گئے۔
انہی ایام میں انقلاب اسلامی کے مخالفین کے زیر ادارت، امریکہ کی ایک کٹھ پتلی فارسی میڈیا سروس نے اعلان کیا کہ جنرل عسکری بہت جلد ٹیلی ویژن پر ظاہر ہونے والے ہیں جو ایران کے ایٹمی نظام کے تمام اسرار و رموز سے پردہ ھٹائیں گے۔ ان ذرائع نے یہ اعلان بھی کیا کہ عسکری نے انقلاب سے ناطہ توڑ دیا ہے اور وہ ضد انقلاب بن چکے ہیں۔ لیکن عسکری کو ٹی وی کے سامنے لانے کا انکا وعدہ اور دعویٰ ابھی تک پورا نہ ہو سکا۔
عسکری پوری دنیا خصوصا یورپی ممالک کیلئے ایک درد سر ثابت ہوئے ہیں، متضاد خبریں باربار نشر کر کے بھی انکو شرم محسوس نہیں ہوئی۔ لوگوں کو گمراہ کرنے کی غرض سے مختلف اور متضاد خبریں نشر کرنا اب بھی انکا معمول ہے۔ حتی کہ ایک دفعہ امریکی اور برطانوی سیکیورٹی مراکز نے کچھ اور ہرزہ سرائی کی۔ وہ یوں کہ عسکری ایران کے بہترین فوجیوں میں سے ہیں اور وہ امریکہ کو غلط خبریں فراہم کر کے انکے انٹیلی جنس سسٹم میں خلل ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔
کچھ عرصہ بعد انہی ذرائع نے ایک اور اعلان کیا کہ اسکو امریکہ نے اسرائیل کےحوالے کر دیا ہے۔ لیکن عسکری بھرپور آھنی توانائیوں کا حامل تھا۔ مختلف قسم کی جسمانی اور اعصابی اذیتوں کے باوجود دشمنوں کے مقاصد پورے نہ ہوئے تو عسکری کے متعلق متضاد خبریں شائع کرنا شروع کیں۔
انجام کار پیر 27 دسمبر کو تہران میں ایک اسرائیلی جاسوس کو سزائے موت دینے کے ساتھ ہی اسرائیل کے اخباروں نے ایک من گھڑت خبر شائع کی، اس ضمن میں Tikun Olam blog نے وزیر دفاع ایہود باراک کے قریبی ذرائع سے لکھا کہ عسکری نے دو ھفتے قبل جیل میں خود کشی کر لی ہے۔ حالانکہ اسرائیلی جیلوں میں قیدیوں کیلئے ایسے حفاظتی اقدامات کئے جاتے ہیں کہ اس میں خود کشی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم اس اسرائیلی خبر کے دو پہلو ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ سچ کہتے ہیں اور عسکری اب شہید ہو چکے ہیں۔ چنانچہ اسرائیل کو چاہئے کہ کم از کم انسانیت کا مظاہرہ کر کے اس کے جسد خاکی کو انکے اہلخانہ کے حوالے کر دے تاکہ انہیں دفنا دیا جائے۔
مزید برآں اس سے یہ نتیجہ بھی اخذ ہوتا ہے کہ اس سے پہلے اسرائیل سمیت امریکہ اور برطانیہ سب جھوٹ بول رہے تھے کہ اس نے پناہ لی ہے، کبھی اس کے متعلق لاعلمی کا اظہار کرتے، کبھی کچھ اور کبھی کچھ کہا کرتے تھے۔ اسکے علاوہ ایک قیدی کو مار کر اسرائیل نے انسانی حقوق کی پامالی کی لسٹ اور اپنی روایات میں ایک اور جرم کا اضافہ کر دیا ہے۔
جبکہ دوسرا پہلو یہ بنتا ہے کہ اس نے ایک اور بڑا جھوٹ بولا ہے۔ جس سے انکی منافقت ثابت ہوتی ہے۔ تاہم اغوا کے مرتکبین ان بڑے مجرمین کا پھر بھی یہ فریضہ بنتا ہے کہ جتنا ظلم وہ کر سکے وہ تو کر چکے اب اسے ایرانی حکومت کے حوالے کر دے۔ نیز عسکری زندہ ہوں یا مردہ دونوں صورتوں میں امریکہ اور اسرائیل اغوا کے مرتکب ہو کر عالمی معاشرے میں اپنی پوزیشن کو مزید پست کر چکے ہیں۔
باقی رہی بات اسلامی جمہوریہ ایران کے موقف کی تو اس معاملے کیلئے ایران تین حکومتوں امریکہ، اسرائیل اور ترکی کو مجرم تصور کرتا ہے اور اس سلسلے میں ان سب سے جواب طلبی بھی کی جا چکی ہے۔ خصوصا ترکی جو ایک اسلامی اور ہمسایہ ملک ہے اور ایران کے ساتھ جسکے برادرانہ تعلقات ہیں۔ دشمن اسکی زمین کو استعمال کر کے اسکے ہمسایہ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں جسکی زمین ترکی کے مفادات کے خلاف ابھی تک استعمال نہیں ہوئی ہے۔
جنرل عسکری کے متعلق مغربی میڈیا کا جو پراپیگنڈہ ہے حقائق سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ کیونکہ جنرل عسکری کی زوجہ محترمہ ان تمام واقعات کی زندہ دلیل ہیں۔ انہوں نے کئی مرتبہ میڈیا کےسامنے عسکری کی پوزیشن واضح کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عسکری کو بار بار یہی کلمات دہراتے سن چکی ہوں کہ سانس کی آخری گھڑی تک اسلامی انقلاب کے ساتھ ایک ادنیٰ سپاہی کی حیثیت سے وابستہ رہوں گا۔ وہ دعا کیا کرتے تھے کہ خدایا مجھے انقلاب اسلامی ایران اور امام مھدی ع کے عالمی انقلاب کے ادنی سپاہیوں میں قرار دے۔

خبر کا کوڈ : 49085
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش