1
0
Friday 16 Oct 2015 00:26

عالم اسلام سے متعلق امریکہ کی شیطانی پالیسیاں

عالم اسلام سے متعلق امریکہ کی شیطانی پالیسیاں
تحریر: یوسف سیفی

سیاسی و تاریخی ماہرین نے ہمیشہ سے ماضی سے مختلف نئی دنیا میں داخل ہونے کے کوریڈور کے طور پر دوسری جنگ عظیم کا مطالعہ انجام دیا ہے۔ ایسا دورانیہ جو جاپان اور جرمنی میں وسیع قتل و غارت سے شروع ہوا اور سابق سوویت یونین کے خاتمے کے بعد اپنے نقطہ عروج تک جا پہنچا۔ اس نئے دورانیے کا اہم ترین واقعہ یو ایس اے کا ایک بڑی عالمی طاقت کے طور پر ابھر کر سامنے آنا تھا۔ ایسی طاقت جس نے اپنی نشوونما اور ترقی کے دوران نئے عالمی نظام کی بنیادیں فراہم کیں اور کمیونزم سے عاری دنیا کو اپنا اصلی ترین ہدف قرار دیا۔ امریکہ جیسی عالمی طاقت کا عروج کی جانب سفر 1991ء میں اپنے بلندترین نقطے تک جا پہنچا اور اس نے دنیا والوں کو ایسی دنیا کی نوید دلائی جو امریکی صدی کے نام سے معروف ہے۔ امریکہ اس کے بعد دنیا کے مختلف حصوں میں اپنا سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی اثرورسوخ بڑھانے میں کامیاب رہا اور روز بروز دنیا میں اپنے مفادات کا دائرہ وسیع سے وسیع تر کرتا چلا گیا۔ امریکہ تقریبا پوری دنیا میں انسانی معاشرے کے لیڈر کے طور پر اکیسویں صدی میں داخل ہوا۔ البتہ دنیا کے بعض حصے ایسے بھی تھے جو امریکی اثرورسوخ سے عاری تھے۔

سابق سوویت یونین کے خاتمے سے تقریبا دس برس قبل جب مشرقی اور مغربی بلاکس کے درمیان طاقت کی رساکشی اپنے عروج پر تھی، مشرق وسطی کے خطے سے ایک عظیم امریکہ مخالف آواز سنائی دی۔ ایران جو عنقریب ہی امریکہ کے زیر سرپرستی خطے کی ایک بڑی طاقت بننے والا تھا، نے اپنا راستہ اچانک تبدیل کر لیا اور علاقائی اور عالمی سطح پر ایسی تبدیلیوں کا منشا بن گیا جن کے باعث امریکی صدی میں سرمایہ دارانہ نظام کے تمام اہداف کا مستقبل تاریکی میں ڈوب کر رہ گیا۔ دنیا سے متعلق ایک نئی اور مختلف نگاہ پیش ہوئی اور حتی سابق سوویت یونین کی موجودگی میں ہی ایران نے دنیا پر امریکی سربراہی کے خلاف آواز اٹھائی اور امریکہ کی جانب سے دنیا پر سرمایہ دارانہ نظام مسلط کرنے کے خلاف صف آرا ہو گیا۔

1979ء میں ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی نے بنی نوع انسان کی اجتماعی زندگی میں دین کو نئی زندگی عطا کر دی اور جدید دنیا کو نیا افق دے دیا۔ ایک ایسا افق جو کمیونزم کے خاتمے کے بعد لبرل سرمایہ دارانہ نظام کے اہم ترین حریف کے طور پر جانا جانے لگا۔ اس عظیم اسلامی انقلاب نے عالمی سطح پر اسلام پسندی کو ایک حقیقت کے طور پر دنیا والوں کو متعارف کروایا اور عالمی نظام سے متعلق جدید نظریات کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ مشرق وسطی میں تشکیل پانے والی جدید فضا نے اس خطے کو اکیسویں صدی کے آغاز پر امریکہ کی عالمی پالیسیوں کا محور بنا دیا۔ آج یہ خطہ عالمی سطح پر امریکی موجودگی کو سمجھنے کیلئے بہترین جغرافیائی فریم ورک محسوب ہوتا ہے۔ ایسا فریم ورک جو امریکہ کیلئے مکمل سکیورٹی کے حصول کیلئے اتخاذ کی جانے والی حکمت عملی کی تشکیل میں اہم کردار کا حامل ہے۔ امریکہ نے اس خطے میں اپنے سیاسی مفادات کے حصول کیلئے 2001ء کے آغاز سے ہی بعض اقدامات کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جن میں عراق کے خلاف دو جنگیں اور افغانستان کے خلاف جنگ شامل ہیں۔ اکیسویں صدر کے آغاز میں انجام پانے والے یہ اقدامات اس بڑے شیطانی منصوبے کا حصہ ہیں جو "گریٹر مڈل ایسٹ" (Greater Middle East) کے نام سے جانا جاتا ہے۔

اگرچہ اس منصوبے کے بارے میں امریکہ کی اعلان کردہ پالیسیوں میں کسی قسم کی وضاحت بیان نہیں کی گئی ہے لیکن امریکی حکام کے غیررسمی بیانات کی روشنی میں ظاہر ہوتا ہے کہ یہ منصوبہ خطے کے ممالک کو توڑ کر نئی چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تبدیل کرنے پر مشتمل ہے۔ یہ وہ ہتھکنڈہ ہے جو امریکہ اپنی خارجہ سیاست میں بارہا استعمال کر چکا ہے اور آج کے دور میں خطے میں بڑھتی ہوئی اسلام پسندی کو روکنے کیلئے ایک اہم امریکی اسٹریٹجی کے طور پر جانا جاتا ہے۔ تحریر حاضر میں اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ امریکی حکام کس حد تک خطے کے ممالک کی تقسیم کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں اور آج یہ پالیسی کیوں ان کیلئے اس قدر اہمیت اختیار کر چکی ہے؟ ان سوالات کا جواب دینے کیلئے ابتدا میں مشرق وسطی اور شمالی افریقہ سے متعلق امریکہ کی مین پالیسیوں کی وضاحت ضروری ہے۔

مشرق وسطی اور شمالی افریقہ سے متعلق امریکہ کی خارجہ پالیسیاں:
1991ء میں کمیونزم کے سیاسی اور ثقافتی جغرافیا کے خاتمے کے بعد بین الاقوامی سطح پر آنے والی تبدیلیاں مشرق وسطی اور شمالی افریقہ سے متعلق امریکی خارجہ پالیسیوں پر نظرثانی کا پیش خیمہ ثابت ہوئیں۔ ان تبدیلیوں کے نتیجے میں یورپ میں سیاسی اور اقتصادی اتحاد پیدا ہوا اور یہ خطہ مکمل طور پر عالمی اقتصادی نظام اور لبرل ازم پر مبنی اقدار کے نظام سے وابستہ ہو گیا۔ اس خطے سے متعلق امریکی پریشانیوں کے خاتمے کے بعد جو دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکی خارجہ پالیسیوں کا مرکز و محور بن چکی تھیں، امریکی حکام نے مشرق وسطی اور شمالی افریقہ کے خطوں کی طرف توجہ دینا شروع کر دی۔ لیکن ان حقائق اور امریکہ کی جانب سے "ٹوٹل سکیورٹی اسٹریٹجی" کے اتخاذ کے باوجود مشرق وسطی سے متعلق وائٹ ہاوس کی پالیسیوں میں تبدیلی ایک عشرے تک تاخیر سے روبرو ہوئی۔ مشرق وسطی کے خطے میں اسلام پسندی پر مبنی رجحانات کی موجودگی جن کی بنیاد تہذیبوں کے ٹکراو پر استوار ہے اور وہ امریکہ کے لبرل سرمایہ دارانہ نظام کیلئے حقیقی خطرہ تصور کئے جاتے ہیں، ان اہم ترین وجوہات میں سے ہیں جن کے باعث 1990ء کے عشرے میں امریکہ نے اس خطے میں کسی قسم کی تبدیلی ایجاد نہ کرنے کی پالیسیوں کو جاری رکھا۔ ان پالیسیوں کے تحت امریکہ نے اپنی خارجہ پالیسی میں کمیونزم کی جگہ اسلام پسندی کو نیا دشمن اور خطرہ قرار دے کر اس کے مکمل خاتمے کیلئے عملی کوششوں کا آغاز کر دیا۔ اسی حکمت عملی کے تحت امریکہ نے 1990ء کی دہائی میں مشرق وسطی امن پروسس کو آگے بڑھانے، اسلام پسند تحریکوں کو کچلنے اور خطے سے خام تیل کی ترسیل کو یقینی بنانے کو اپنی خارجہ سیاست کی ترجیحات میں شامل کئے رکھا۔

صدر جارج ڈبلیو بش کی ڈاکٹرائن:
امریکہ میں جرج بش کی صدارت سنبھالنے کے 8 ماہ بعد عالمی تاریخ کا انوکھا واقعہ پیش آیا جس کے نتیجے میں امریکی خارجہ پالیسی میں سابق سوویت یونین کی جگہ نئے دشمن کو دنیا والوں کے سامنے متعارف کروایا گیا۔ 11 ستمبر 2001ء کو نیویارک میں واقع ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے جڑواں ٹاورز پر دہشت گردانہ حملے انجام پائے اور مغربی میڈیا پر ان حملوں کو انتہائی بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا اور دنیا والوں پر یہ تاثر ڈالنے کی کوشش کی گئی کہ "عالمی دہشت گردی" امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے مقابلے میں ایک سپر پاور جیسا بڑا خطرہ ثابت ہو سکتا ہے لہذا اب امریکہ کو اپنی خارجہ سیاست میں "دہشت گردی" نامی ایک نئے دشمن کا سامنا ہے جس سے مقابلہ کرنے کیلئے اسے بین الاقوامی سطح پر سرگرمیاں انجام دینا ہوں گی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ نائن الیون کے واقعات نے امریکہ کو جدید نظریاتی اہداف عطا کئے جن کی بنیاد پر صدر جرج بش کی ٹیم نے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی غرض سے مشرق وسطی کو باہر سے جمہوری کرنے اور اس کے اندر لبرل ڈیموکریٹک اور لبرل سرمایہ دارانہ اقدار حکمفرما کرنے کو اپنی اصلی اسٹریٹجی کے طور پر اپنا لیا۔ لہذا امریکہ کیلئے انٹی دہشت گردانہ محاذ کا تشخص نائن الیون کی بدولت ہے اور یہ نقطہ نظر بین الاقوامی نظام کے طاقتور کھلاڑیوں کی طرف سے قبول کیا گیا ہے۔

نئی صدی کے آغاز سے ٹوٹل سکیورٹی اسٹریٹجی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کا مرکز و محور مشرق وسطی کا خطہ قرار پایا ہے۔ امریکی حکام نے اس خطے میں اپنی موجودگی کا اصل مقصد اپنے بقول اسلامی شدت پسندی کے خاتمے کو قرار دیا ہے۔ 2001ء اور 2003ء میں افغانستان اور عراق پر امریکی فوجی چڑھائی اور اس کے بعد ان ممالک میں امریکہ کی فوجی موجودگی سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی خارجہ پالیسی اور مشرق وسطی میں اپنے سیاسی مفادات کے حصول میں فوجی طاقت کو کس قدر اہمیت حاصل تھی۔ لیکن جرج ڈبلیو بش کے دوسرے دورہ صدارت میں امریکی سیاست دانوں اور عوام کی جانب سے اس اہمیت پر بہت سے سوالات اٹھائے گئے جن کے نتیجے میں امریکی حکام کو اپنی یکطرفہ پالیسیوں اور pre-emptive wars پر مبنی حکمت عملی پر نظرثانی کرنی پڑی اور آخرکار براک اوباما کے برسراقتدار آنے کے بعد امریکی خارجہ پالیسی میں بڑی تبدیلی رونما ہوئی۔

صدر براک اوباما کی ڈاکٹرائن:
2008ء میں امریکہ میں صدر براک اوباما کے برسراقتدار آنے سے فوجی طاقت کے کھلے استعمال اور یکہ تازانہ پالیسیوں سے متعلق امریکی خارجہ پالیسی میں واضح تبدیلی ظاہر ہونا شروع ہو گئی۔ براک اوباما کی جانب سے اپنی صدارتی مہم کے دوران مسلمانوں میں امریکہ کے بارے میں پائے جانے والے تاثرات کو بہتر بنانے کی کافی کوشش کی گئی اور انہیں کوششوں کے نتیجے میں براک اوباما انتخابات میں جیت سے ہمکنار ہوئے۔ انہوں نے برسراقتدار آنے کے بعد ایک حد تک اپنی اس پالیسی کو کئی چیلنجز درپیش ہونے کے باوجود جاری رکھا۔ یہ پالیسی درحقیقت امریکہ کی جانب سے اپنائی جانے والی "لبرل عالمگیریت" پر مبنی اسٹریٹجی کا حصہ تھی۔ یہ اسٹریٹجی ایک طرف تو ماضی کی نسبت اصلاحی سوچ پر استوار ہے اور دوسری طرف ورلڈ آرڈر کے نئے نظام کی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش پر مشتمل ہے۔ اس نئی اسٹریٹجی کی بنیاد پر امریکہ کی قومی سلامتی کی ڈاکٹرائن صدر اوباما کی حکومت کے تناظر میں "یکہ تازی سے پرہیز، پری امپٹیو وار سے دوری، فوجی طاقت پر تکیہ کرنے سے گریز، اقتصاد پر تاکید کرنے اور خطے کی صلاحیتوں سے استفادہ کرنے" پر استوار ہے۔

صدر براک اوباما کی ڈاکٹرائن کے مطابق اسلامی شدت پسندی جیسے خطرات سے نمٹنا ایجنڈے کا حصہ قرار پایا ہے لیکن سابق امریکی صدر جرج بش کے دور میں پری امپٹیو وار اور یکہ تازیوں کے ذریعے انجام پانے والے اقدامات میں بری طرح ناکامیوں کا سامنا کرنے کے ناطے وائٹ ہاوس نے خطے سے متعلق اپنی پالیسیوں میں نظرثانی انجام دی ہے۔ واضح ہے کہ اس وقت امریکہ کے سیاسی مفادات کا دائرہ نہ صرف خطے کی حد تک محدود نہیں رہے بلکہ موجودہ امریکی حکومت کی جانب سے گذشتہ حکومت کی کامیابیوں کو محفوظ بنانے کے دعوے کے باعث مزید وسیع ہو گیا ہے۔ لہذا امریکہ گذشتہ 12 برس سے مشرق وسطی اور شمالی افریقہ کے خطے میں ایک طاقتور حریف سے روبرو ہے جو ان خطوں میں اسلام پسندی اور اسلامی رجحانات کی شکل میں موجود ہے۔ امریکی حکومت نے مختلف ادوار میں مختلف حکمت عملی اپنا کر اپنے اس دشمن کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی ہے۔

امریکہ کی عملی حکمت عملی:

امریکہ نے موجودہ صدی کے آغاز سے ہی مشرق وسطی اور شمالی افریقہ کے خطے میں اپنی موثر موجودگی بڑھا دی ہے اور مختلف طریقوں سے اپنے سیاسی مفادات کے حصول میں کوشاں رہا ہے۔ ان خطوں میں امریکہ کی بڑے پیمانے پر عظیم اخراجات کے ساتھ موجودگی اگرچہ بعض حد تک کامیابیوں سے ہمکنار رہی ہے لیکن سیاسی ماہرین کی نظر میں امریکہ کو درپیش خطرات کے باقی رہنے کے ناطے اس کی خارجہ پالیسی کو کامیاب قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اب ہم خطے کے مختلف اہم ایشوز کے بارے میں امریکی حکمت عملی کا جائزہ لیتے ہیں۔

افغانستان اور عراق:
جارج ڈبلیو بش نے اپنے پہلے دورہ صدارت میں خطے میں دو بڑی جنگوں کا آغاز کیا۔ یہ دو جنگیں امریکی حکام کے بقول دہشت گردی اور بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں (Weapons of Mass Destruction) کے خاتمے کیلئے انجام پائیں۔ معروف سیاسی ماہر جیمز کارٹ کے مطابق اس دوران امریکی حکمت عملی تین بنیادی عناصر پری امپٹیو وارز، یکطرفہ اقدامات اور جمہوریت کے فروغ پر مبنی تھی۔ ایسی حکمت عملی جو نہ فقط مطلوبہ اہداف کے حصول میں ناکام رہی بلکہ اس نے خطرات سے نمٹنے کے اخراجات کو بھی بڑھاوا دے دیا۔ اس سیاسی ماہر کے بقول: "اسی دورانیے میں شمالی کوریا ایک جوہری خطرہ ہونے کے ناطے اپنے جوہری تجربات کو جاری رکھنے میں کامیاب رہا اور ایران نے ایٹمی توانائی کے حصول کے علاوہ دہشت گردی (حزب اللہ لبنان اور فلسطین کی جہادی تنظیمیں) کی حمایت بھی جاری رکھی اور اس کی وجہ عراق میں امریکہ کی فوجی کاروائی تھی۔ جبکہ حقیقت یہ تھی کہ صدام حسین کے پاس نہ تو جوہری ہتھیار تھے اور نہ ہی دہشت گردی کے عالمی نیٹ ورک کے ساتھ اس کے تعلقات کا کوئی ٹھوس ثبوت موجود تھا۔ اس طرح تین سال بعد یہ حکمت عملی ایک مردہ اسٹریٹجی میں تبدیل ہو گئی۔"

حزب اللہ اور حماس:
لبنان میں حزب اللہ اور فلسطین میں حماس خطے میں ایسی دو اسلامی تحریکیں ہیں جو اسرائیل کے خلاف موجود اسلامی مزاحمتی بلاک کا مرکز و محور تصور کی جاتی ہیں۔ اگرچہ یہ تنظیمیں انتہائی درجہ کی عوامی مقبولیت کی حامل ہیں اور رسمی طور پر اپنے اپنے ملک میں سیاسی سرگرمیاں بھی انجام دے رہی ہیں، لیکن امریکہ نے انہیں "دہشت گرد" تنظیمیں قرار دے رکھا ہے اور انہیں اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم اور عرب حکام کے درمیان جاری امن مذاکرات میں بڑی رکاوٹ سمجھتا ہے۔ اسرائیل نے گذشتہ عشرے کے دوران دو فیصلہ کن جنگوں کے ذریعے ان دو اسلامی تحریکوں کو نابود کرنے کی کوشش بھی کی لیکن اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ حزب اللہ لبنان کے خلاف 33 روزہ اور حماس کے خلاف 22 روزہ جنگ انجام دی۔ یہ دو جنگیں خاص طور پر 33 روزہ جنگ مختلف ذرائع ابلاغ میں پراکسی وار کے طور پر معروف ہوئیں جس کی وجہ ان جنگوں کے آغاز میں امریکہ کا گہرا کردار تھا۔ سابق امریکی وزیر خارجہ کینڈولیزا رائس نے حزب اللہ لبنان کے خلاف اسرائیل کی 33 روزہ جنگ کو جدید مشرق وسطی کی پیدائش کا درد زہ قرار دیا تھا۔ لیکن یہ خونی جنگیں جو بھاری مالی و جانی نقصانات کے ہمراہ تھیں، نہ فقط خطے سے اسلامی مزاحمت کو ختم کرنے میں ناکام رہیں بلکہ برعکس ان اسلامی جہادی تنظیموں کا اثرورسوخ مزید بڑھ گیا۔ مختلف سیاسی تجزیہ نگاران نے اپنی تحریروں میں اس حقیقت پر روشنی ڈالی ہے کہ حزب اللہ لبنان کے خلاف اسرائیلی جارحیت کس طرح اس گروہ کی مضبوطی اور لبنان میں اس تنظیم کے کردار میں اضافے کا باعث بنی۔

ایران کا جوہری پروگرام:
ایران کے ایٹمی پروگرام، جو خطے میں امریکہ کیلئے ایک انتہائی پریشان کن مسئلہ رہا ہے، سے متعلق امریکی پالیسی ایک جیسی نہیں رہی بلکہ بدلتی رہی ہے۔ امریکی حکام نے ایران کے جوہری پروگرام کو مکمل طور پر روکنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا لیا لیکن کامیاب نہ ہو سکا۔ واشنگٹن نے آغاز میں ایران اور یورپی ممالک کے درمیان شروع ہونے والے مذاکرات کے بارے میں منفی موقف اپنایا اور ان کے ثمر بخش ہونے کے بارے میں شک و تردید کا اظہار کیا۔ اسی طرح امریکہ نے ہمیشہ سے ایران کے خلاف شدید اقتصادی پابندیوں پر زور دیا ہے اور اس سلسلے میں کسی اقدام سے دریغ نہیں کیا۔ اگرچہ امریکہ آخرکار ایران اور یورپی ممالک کے درمیان جاری جوہری مذاکرات میں شامل ہونے پر مجبور ہو گیا لیکن اس کے باوجود ایران کے جوہری پروگرام کے مکمل خاتمے کی کوششوں سے گریز نہیں کیا۔ امریکہ نے ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد سے اس ملک میں سیاسی تبدیلی لانے کی حکمت عملی اپنا رکھی ہے لیکن یہ حکمت عملی نہ صرف مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں شکست کا شکار رہی بلکہ خطے میں ایران کا اثرورسوخ روز بروز بڑھتا چلا گیا۔

اسلامی بیداری کی تحریک:
امریکہ نے مشرق وسطی اور شمالی افریقہ میں سیاسی استحکام پر مبنی روایتی پالیسی اختیار کر رکھی ہے جس کی وجہ سے اس خطے میں موجود اکثر آمرانہ حکومتی نظاموں کے ساتھ اس کے گہرے تعلقات استوار رہے ہیں۔ امریکہ نے سابق سوویت یونین کے ٹوٹ جانے کے بعد بھی خطے میں اسلام پسند تحریکوں کا مقابلہ کرنے، اسرائیل اور رجعت پسند عرب حکام کے درمیان جاری نام نہاد امن مذاکرات کی کامیابی اور خطے میں انرجی کی ترسیل کو یقینی بنانے کی غرض سے حکمفرما آمرانہ حکومتوں کی حمایت کی ہے۔ تمام خلیجی عرب ریاستیں کویت پر صدام حسین کے حملے کے بعد امریکہ سے سیکورٹی اور فوجی معاہدے منعقد کر چکی ہیں۔ اسی طرح امریکہ مصر اور یمن کی آمرانہ حکومتوں کو بڑی مقدار میں سالانہ امداد بھی فراہم کرتا ہے۔ امریکہ نے لیبیان میں معمر قذافی کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے بعد طرابلس کے ساتھ گہرے اقتصادی تعلقات برقرار کر رکھے تھے۔

امریکہ کی جانب سے مشرق وسطی اور شمالی افریقہ میں سیاسی استحکام برقرار رکھنے کی تمام تر کوششوں کے باوجود 2010ء کے آخر میں اسلامی بیداری کی تحریکوں کا آغاز ہو گیا اور امریکی حکام اس نتیجے پر پہنچے کہ ان کی گذشتہ پالیسی زیادہ مفید واقع نہیں ہو سکتی۔ ان تحریکوں کے نتیجے میں اسلام پسند گروہ برسراقتدار آنا شروع ہو گئے اور صدر براک اوباما کی جانب سے انجام پانے والے تمام کوششیں ناکامی کا شکار ہو گئیں۔ اسی طرح مصر اور تیونس میں جمہوریت کا فروغ اسلامی جماعتوں کی کامیابی کی صورت میں ظاہر ہوا۔ اسلامی بیداری کی تحریکوں نے اسرائیل کے ساتھ رجعت پسند عرب حکمرانوں کے نام نہاد امن مذاکرات کو بھی شدید دھچکہ پہنچایا ہے۔ خطے میں اسلام پسندی کے بڑھتے ہوئے رجحانات کو روکنے میں ناکامی کے بعد امریکی حکام اور پالیسی ساز ادارے اپنی گذشتہ پالیسیوں پر نظرثانی کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ وہ ایسی پالیسیاں بنانے کی کوشش کر رہے ہیں جن کے نتیجے میں کم از کم اخراجات کے ذریعے مطلوبہ اہداف کے حصول کو ممکن بنایا جا سکے۔ انہیں میں سے ایک "خطے کے ممالک کو توڑ کر نئے چھوٹے چھوٹے ممالک کی تشکیل" پر مبنی حکمت عملی ہے۔ یہ حکمت عملی اس سے پہلے سوڈان میں کامیابی سے ہمکنار ہو چکی ہے اور اب تکفیری دہشت گرد گروہوں کے ذریعے مشرق وسطی اور شمالی افریقہ کے اسلامی ممالک میں اپنائی جا رہی ہے۔ 
خبر کا کوڈ : 491459
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Akhtar Hussain
Australia
use less views which are without any analysis
ہماری پیشکش