0
Friday 16 Oct 2015 15:52

مسلم لیگ نون کا اقتدار، پھر سازشوں کے گرداب میں

مسلم لیگ نون کا اقتدار، پھر سازشوں کے گرداب میں
تحریر: تصور حسین شہزاد

پاکستان اس وقت چاروں طرف بحرانوں کے جس سیلاب میں گھرا تند و تیز مخالفانہ ہواؤں کے تھپیڑوں کا سامنا کر رہا ہے, اس کا تقاضا تو یہ ہے کہ وطن عزیز کو ان غیر یقینی حالات سے نکالنے کیلئے پوری قوم متحد و یکجان ہو کر ان طوفانوں کی راہ میں بند باندھنے کیلئے سیسہ پلائی دیوار بن جائے, مگر افسوس کہ جوں جوں ہمارے دشمن ہمارے خلاف متحد ہو رہے ہیں, توں توں ہم انتشار و افتراق کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ عوام تو رہے ایک طرف، خود ہماری حکمران اشرافیہ اور سیاسی زعماء جو دن رات اپنی حب الوطنی کا راگ الاپتے نہیں تھکتے, باہم دست و گریبان ہیں۔ حکومت اور حزب اختلاف کی کشاکش تو روایتی چیز ہے، یہاں تو حکمران جماعت کے اراکین پارلیمنٹ سے بڑھ کر وزیراعظم کی کابینہ کے ارکان باہم یوں جُوتم بیزار ہیں کہ الامان الحفیظ، پاکستان کی فوج دیگر سکیورٹی فورسز کے ساتھ مل کر ملک کو دہشتگردی کے چنگل سے نکالنے کی جدوجہد میں مصروف کار ہے۔ وہ اس وقت ملک دشمن قوتوں کیخلاف چومکھی لڑائی لڑنے پر مجبور ہے۔

یہ حالت جنگ قومی اتحاد و یکجہتی کی متقاضی ہے، شومئی قسمت کہ وہی ہمارے ہاں عنقا ہوتا جا رہا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف منجدھار میں گھری کشتی کے وہ کھیون ہار ہیں، جنہیں اپنی کشتی بچانے کیلئے طوفانی لہروں سے نبردآزما ہونے کی مشکل کا ہی سامنا نہیں بلکہ کشتی میں سوار اپنے ہی ساتھیوں کی باہمی کشاکش نے بھی شدید دشواری سے دوچار کر رکھا ہے، جو چاروں طرف سے گھری ہوئی کشتی کو لاحق خطرات سے بے نیاز گتم گتھا ایک دوسرے کو کشتی سے گرانے کیلئے پورا زور لگا رہے ہیں۔ کچھ اپنے ساتھیوں کو سمجھانے کی بجائے خود بھی اس کشتی میں سوراخ کرنے میں جتے ہیں، جسے پار لگانے کا قوم سے وعدہ کرکے آئے تھے۔ وزیراعظم کی حالت بھی دیدنی ہے، انہیں بے شک اپنی اندرونی کیفیت چھپانے میں ملکہ حاصل رہا ہے، لیکن اب وہ بھی عمر کے اس حصے میں ہیں، جہاں سخت جان پہلوانوں کے جسم بھی ڈھیلے پڑنے لگتے ہیں۔ آہنی احساس کے مالک نواز شریف کو درپیش امتحان انہیں جس آزمائش سے دوچار کئے ہوئے ہے، کیا وہ اس میں سے سرخرو ہو کر نکل سکیں گے۔ بدیہی طور پر تو ایسا ہونا ناممکن العمل دکھائی دیتا ہے۔

دہشتگردی کیخلاف جنگ لڑنے کیلئے طے شدہ نیشنل ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عمل کرنے کیلئے اس کے سبھی اسٹیک ہولڈرز کے درمیان جس طرح کا تال میل پیدا ہونا چاہئے تھا، وہ کہیں دور دور تک دکھائی نہیں دیتا۔ دہشتگردوں کو نیست و نابود کرنے کیلئے وفاقی وزارت داخلہ و دفاع کے درمیان باہمی معلومات کا تبادلہ، پالیسی سازی اور واضح حکمت عملی وضع کرنے کیلئے تعاون ناگزیر ہے، مگر ان دونوں وزارتوں کے انچارج وزراء کے باہمی تعلقات اس قدر کشیدہ ہیں کہ دونوں کے درمیان رسمی بات چیت بھی بند ہے۔ ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ بظاہر دانشمند دکھائی دینے والے انتی سی عقلمندی کا اظہار کرنے سے بھی قاصر ہیں کہ وہ ایسے آڑے وقت میں جب ملک پر چاروں طرف سے افتاد پڑی ہے، یہ آپسی جھگڑوں کو بے شک ختم نہ کریں، مگر کم از کم انہیں عام کرکے اپنی کمزوریاں تو دشمن پر ظاہر نہ ہونے دیں، تاکہ حریف کے حوصلے بلند نہ ہوں، لیکن وائے افسوس کہ کھیت کی باڑ ہی کھیت کے درپے آزار ہے۔

جمہوریت کی فصل تباہ کرنے کیلئے اب کسی دوسرے کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں، جمہوریت کے نام لیوا سیاستدان ہی اس پیڑ کی شاخوں پر مسلسل کلہاڑے چلا رہے ہیں، جس کی جڑیں ابھی زمین کی گہرائی تک نہیں پہنچیں۔ ملک نظام معیشت بدعنوان حاکموں کی ہوس زر کی نظر ہوا، ڈنواں ڈول ہے۔ کہنے کو ملکی زرمبادلہ کے ذخائر ماضی کے سارے ریکارڈ توڑ رہے ہیں، لیکن اس حقیقت کو بھی نہیں جھٹلایا جاسکتا کہ قوم کی گردن غیر ملکی قرضوں میں جکڑ کر پاکستان کی آئندہ کئی نسلوں کا مستقبل تاریک کر دیا گیا ہے۔ حکمران جن معاشی منصوبوں کی تکمیل کے سنہرے خواب دکھا کر عوام کو بے وقوف بنا رہے ہیں، وہ منصوبے جن ممالک کی مالی اعانت سے شروع کئے جا رہے ہیں، ان کے اپنے مفادات خطے کی کسی قوت سے پوشیدہ نہیں، بلکہ سمندر پار بیٹھی طاقتیں بھی اس میں جس طرح کی حصہ داری کیلئے باہم شیر و شکر ہو رہی ہیں، ان سے یہ اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں کہ پاکستان کی جغرافیائی اہمیت انہیں ہمارے ساتھ بہتر تعلقات پر اُکسا رہی ہے، وگرنہ ہمارا دیرینہ دشمن بھارت تو اپنے تئیں ہمیں ہزیمت سے دوچار کرنے کیلئے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کر رہا۔

پاکستان کیساتھ بھارت کی معاندانہ پالیسی کا تسلسل مودی سرکار کی اولین ترجیح ہے، اس کے ترکش کے سارے تیر کمانوں میں کسے جاچکے ہیں۔ وہ موقع ملتے ہی ہم پر وار کرنے میں پل بھر کی دیر نہیں لگاتا۔ یہ بات ہماری خفیہ ایجنسیوں کی تحقیق سے ثابت شدہ ہے کہ پاکستان کی ترقی کیلئے جو منصوبے بھی شروع کئے گئے، انہیں بھارت نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے متنازع بنانے کیلئے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ کالا باغ ڈیم کا منصوبہ ایسے ہی منصوبوں میں سرفہرست ہے۔ جس کیلئے لئے گئے غیر ملکی قرضے تو قوم مسلسل ادا کر رہی ہے، لیکن ان قرضوں کی بدولت جو ثمر ہمیں سستی بجلی اور صنعتی ترقی کے باعث خوشحالی کی صورت میں ملنا تھا، اس سے ہم ہنوز محروم ہیں اور اب ایک بار پھر کالا باغ ڈیم منصوبہ بننے کی اطلاع عام ہوتے ہی بھارتی ایجنٹوں کی سرگرمیاں عروج پکڑ رہی ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ جس طرح فوج نے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ کامیابی سے ہمکنار کروانے کیلئے اس کی راہ کی رکاوٹیں دور کرنے اور اس کی تکمیل کیلئے حفاظتی اقدامات کی ذمہ داری لی ہے۔ اسی طرح عسکری قیادت ملک کے مفاد میں شروع کئے گئے یا شروع ہونے والے سارے ترقیاتی منصوبوں کی نگرانی اور حفاظت کی بھی ذمہ داری اپنے سر لے، جب تک کوئی ڈنڈے والا چاک و چوبند ہو کر سر پر کھڑا نہیں ہوگا، دشمن کے ایجنٹ بھی مکروہ عزائم کی تکمیل کیلئے اسی طرح مذموم سازشوں کا جال بچھاتے رہیں گے، جن کی سرکوبی کیلئے ہم ملکی مفاد کے کسی اقدام کو ثمر بار نہیں کرسکتے۔

شاخ نازک پر آشیانہ بنائے وزیراعظم نواز شریف کو اس کے سب سے بڑے حریف عمران خان ایک دفعہ پھر دعوت مبارزت دے رہے ہیں۔ لاہور کے ضمنی انتخاب میں شکست فاتحانہ کے باوجود انہیں جمہوریت کی گاڑی کی سواری راس نہیں آ رہی۔ وہ جلد از جلد موجودہ پارلیمنٹ کی بساط لپیٹ کر وسط مدتی انتخابات کے انعقاد کے آرزومند ہیں۔ مسلم لیگ نون کے اندرونی اختلافات کے تناظر میں وہ پرامید ہیں کہ سابق گورنر پنجاب چودھری سرور کی محنت رنگ لائے گی۔ انہیں خاندانی حاکمیت قائم کرنے کیلئے کوشاں حکمران جماعت کے پاؤں تلے سے کھسکتی ریت کی آواز بھی سونامی کی آمد کی خبر دے رہی ہے۔ کیا وزیراعظم نواز شریف آستین کے سانپوں کے ڈنگ کھاتے ہوئے ملک کو درپیش بحرانوں اور اندرونی چیلنجز کا سامنا کر پائیں گے۔؟
مصنف : تصور حسین شہزاد
خبر کا کوڈ : 491519
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش