0
Saturday 17 Oct 2015 17:28

مقبوضہ فلسطین میں نئی انتفاضہ کا آغاز

مقبوضہ فلسطین میں نئی انتفاضہ کا آغاز
تحریر: علی رضا

گذشتہ چند ہفتوں کے دوران مقبوضہ بیت المقدس میں اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کے اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ رژیم قبلہ اول مسلمین مسجد اقصٰی کو مکمل طور پر نابود کرنے کے درپے ہے۔ دوسری طرف مظلوم فلسطینی اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے مسجد اقصٰی کا دفاع کر رہے ہیں اور غاصب صہیونی رژیم کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہوگئے ہیں۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ مسلم حکام اور عرب ریاستیں غفلت کی نیند سو رہی ہیں اور ان کی طرف سے اسرائیلی مظالم کے خلاف نہ کوئی آواز اور نہ ہی کوئی موثر اقدام اٹھایا نہیں جا رہا۔ مقبوضہ فلسطین کی جاری صورتحال اور وہاں غاصب صہیونی رژیم کے خلاف ایک نئی عوامی انتفاضہ کا آغاز ایسی حالت میں ہو رہا ہے، جب اسلامی حکومتوں نے پراسرار خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور ان کی جانب سے مظلوم فلسطینیوں کی حمایت میں کسی قسم کا اقدام انجام نہیں پا رہا۔ گذشتہ چند دنوں کے دوران ایک ہزار سے زائد فلسطینی غاصب صہیونی رژیم کے گماشتوں کے ہاتھوں گرفتار ہوچکے ہیں اور 30 فلسطینی شہید جبکہ 3 ہزار سے زائد فلسطینی زخمی بھی ہوگئے ہیں۔

مظلوم فلسطینی عوام کی جانب سے غاصب صہیونی حکام کے خلاف شروع ہونے والی احتجاجی تحریک درحقیقت ایک مظلوم قوم کی جانب سے ریاستی دہشت گردی اور تشدد کے خلاف اعتراض ہے۔ ایسی رژیم جو اس بار مسجد اقصٰی پر قبضہ جما کر اسے مسمار کرنے اور یہودیوں کی آمد و رفت کی جگہ بنانا چاہتی ہے۔ 2000ء میں بھی سابق صہیونی وزیراعظم ایریل شیرون نے مسجد اقصٰی میں داخل ہو کر اس مقدس مقام کی توہین کی، جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر فلسطینی انتفاضہ کا آغاز ہوگیا تھا اور آج جب صہیونی رژیم مسجد اقصٰی کو مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان تقسیم کرنے کے درپے ہے تو ہم مقبوضہ فلسطین میں ایک نئی انتفاضہ کے آغاز کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ مظلوم فلسطینی عوام جنہیں عرب حکام نے اپنے حال پر چھوڑ دیا ہے، اپنے اس احتجاج میں اس قدر سنجیدہ اور غیض و غضب کا شکار ہیں کہ پورے فلسطین کے عوام ان کے ساتھ مل گئے ہیں اور ایک وسیع اور عظیم انتفاضہ کے آغاز کے لئے زمین ہوچکی ہے، جس کا مقصد غاصب صہیونی رژیم کو صفحہ ہستی سے محو کرنا ہے۔

فلسطین کی مظلوم سرزمین ایک بار پھر خون اور آگ کی لپیٹ میں ہے۔ غاصب صہیونی حکام جو گذشتہ چند سالوں کے دوران بارہا غزہ، مغربی کنارے اور دوسرے مقبوضہ علاقوں میں بیگناہ فلسطینی عوام کے خون سے ہولی کھیل چکے ہیں، اس بار ملت فلسطین کو کچلنے میں مصروف ہیں۔ فلسطینی قوم جس کی خداوند متعال کے علاوہ کوئی پناہگاہ نہیں اور سوائے ظلم کے دشمن علماء دین اور آزادی پسند افراد کے کوئی اس کا حامی نہیں اور کوئی ان کی حق طلبانہ آواز پر لبیک کہنے والا نہیں۔ بعض اسلامی ممالک کے غدار حکمرانوں نے مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور بعض دوسرے مسلمان حکمران مخفیانہ طور پر صہیونی حکام سے دوستی کی پینگیں بڑھا رہے ہیں۔ اسلامی ممالک میں اسلامی جمہوریہ ایران وہ واحد ملک ہے جو حقیقی طور پر مظلوم فلسطینیوں کا ساتھ دے رہا ہے۔ حال ہی میں ایران کی وزارت خارجہ نے فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی حکومت کے ظالمانہ اقدامات کی شدید مذمت کی ہے، جن کا مقصد فلسطینیوں کی صدائے احتجاج کو دبانا ہے۔

اسرائیلی حکومت غزہ اور مغربی کنارے میں بڑے پیمانے پر فلسطینی شہریوں کو اغوا کر رہی ہے اور اب تک بڑی تعداد میں فلسطینی جوانوں کو شہید اور زخمی کرچکی ہے۔ البتہ ایران ثابت کرچکا ہے کہ وہ مظلوم فلسطینیوں کی حمایت میں صرف بیانات تک ہی اکتفا نہیں کرتا بلکہ اس ضمن میں عملی اقدامات بھی انجام دیتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران صہیونی حکام کے تازہ مجرمانہ اقدامات اور بجلی کی ترسیل کو روکنے، سمندر اور خشکی سے اقتصادی محاصرہ کرنے، عام شہریوں پر حملہ ور ہونے اور فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کرنے جیسے فلسطینی عوام کے خلاف دھمکی آمیز اور دباو ڈالنے والے اقدامات کی مذمت کرتا آیا ہے اور غاصب صہیونی حکام کے خلاف مزاحمت اور جدوجہد کو فلسطینیوں کا قانونی اور جائز حق گردانتا ہے۔ اسی طرح ایران صہیونی حکام کی جانب سے بیت المقدس خاص طور پر مسجد اقصٰی کو یہودیانے کی کوششوں پر شدید پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے مسلمان حکومتوں اور اقوام اور نیز بین الاقوامی اداروں سے اسرائیلی مظالم کی روک تھام کیلئے فوری اور موثر ردعمل ظاہر کرنے کا مطالبہ کرتا آیا ہے۔

مسئلہ فلسطین کے بارے میں بعض اسلامی ممالک کے حکمرانوں کی غداری اور اسلام دشمن قوتوں سے سازباز اس قدر خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے کہ روزنامہ "رای الیوم" کے چیف ایڈیٹر عبدالباری عطوان اس بارے میں لکھتے ہیں: "زمانے کے تلخ حقائق میں سے ایک یہ ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو مقبوضہ فلسطین میں تیسری انتفاضہ کو کنٹرول کرنے اور حالات کو پرامن کرنے کیلئے اپنے عرب دوستوں کا دامن پکڑنے پر مجبور ہوگیا ہے۔ نیتن یاہو نے اپنے مخلص اور اتحادی دوستوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ محمود عباس پر دباو بڑھا دیں اور انہیں کہیں کہ وہ اپنی سکیورٹی فورسز کو فلسطینی جوانوں کا مقابلہ کرنے کیلئے اسرائیلی سکیورٹی فورسز کے شانہ بشانہ لڑنے کا حکم دیں۔ وہ جوان جو مسجد اقصٰی کی حمایت میں فلسطین کی گلیوں اور سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ انہیں عرب دنیا سے حمایت کی توقع نہیں بلکہ وہ صرف اتنا چاہتے ہیں کہ عرب حکمران فلسطین کے ساتھ شیطنت کرنے سے باز آجائیں اور فلسطینی عوام کو اپنے حال پر چھوڑ دیں اور انہیں ڈکٹیشن دینے سے گریز کریں۔ کیا شام، عراق، لیبیا اور یمن کی نابودی کافی نہ تھی؟۔"

روزنامہ رای الیوم کے چیف ایڈیٹر مزید لکھتے ہیں: "جنہوں نے اپنے اموال اور اسلحے کے ذریعے فلسطینی عوام اور مسجد اقصی کی مدد کرنے سے گریز کیا ہے، ان سے یہ توقع رکھی جاسکتی ہے کہ وہ عزت اور شرافت والی انتفاضہ کے خاتمے اور نیتن یاہو کی نجات کیلئے سرگرم عمل ہو جائیں۔ جب عرب لیڈران اسرائیلی سفراء کو اپنے اپنے ملک سے نکال باہر نہیں کریں گے اور اسرائیلی میڈیا کو ترک نہیں کریں گے اور تل ابیب کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے کی کوششیں جاری رکھیں گے تو وہ مسجد اقصٰی کی حفاظت کے لائق نہیں، بالکل اسی طرح جیسے وہ "مرد" کہلانے کے لائق نہیں۔" یہ معروف عرب لکھاری لکھتا ہے: "ان شہداء نے جو گذشتہ دس روز کے دوران صہیونی غنڈوں کی گولیوں سے زمین بوس ہوچکے ہیں اور اپنے ہزاروں شہید بھائیوں سے جا ملے ہیں، ہرگز عرب رہنماوں کی باتوں پر توجہ نہیں دی ہے اور ان کی ہدایات پر عمل پیرا نہیں ہوئے، کیونکہ ان عرب رہنماوں کی ذلت آمیز اور غدارانہ حکمت عملی کا نتیجہ آج صہیونی گماشتوں کی جانب سے مسجد اقصٰی کی بے حرمتی کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ کئی سالوں سے مظلوم فلسطینی عوام تن تنہا صہیونی حکام اور سکیورٹی فورسز کے مہلک اور وحشیانہ ہتھکنڈوں کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں اور ان سالوں کے دوران انہوں نے اسرائیل کی جانب سے یہودی بستیوں کی تعمیر، پانی کی ترسیل روکے جانے اور ایسے ہی بے شمار ظالمانہ اقدامات کے خلاف جدوجہد کی ہے۔ فلسطینی عوام اپنے زیتون کے باغات کی نابودی اور سینکڑوں جوانوں کی گرفتاری پر صبر کا مظاہرہ کئے ہوئے ہیں۔ انہوں نے خدا کے علاوہ کسی پر تکیہ نہیں کیا اور اب عرب اور غیر عرب ان کے خلاف سازشیں کرنا شروع ہوگئے ہیں۔"

مقبوضہ بیت المقدس میں مظلوم فلسطینیوں پر کیا بیت رہی ہے؟
ملت فلسطین قبلہ اول مسلمین کے دفاع میں اپنے عزیزوں کی جان نچھاور کر رہی ہے اور الخلیل، طول کرم، رام اللہ، غزہ اور دیگر فلسطینی شہروں میں اپنے اسماعیلوں کی قربانی پیش کر رہی ہے۔ فلسطینی عوام خون آلود اور صبر پیشہ مزاحمت کے ذریعے قبلہ اول مسلمین کو یہودیوں اور غاصب صہیونی رژیم کے مکمل قبضے میں جانے اور اس کے بعد غاصب صہیونیوں کے ہاتھوں مسجد اقصٰی کی مسماری میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ مقبوضہ فلسطین کی حالیہ صورتحال سے معلوم ہوتا ہے کہ غاصب صہیونی رژیم کے خلاف ایک نئی انتفاضہ کا آغاز مسلمان حکمرانوں کی غفلت اور عدم حمایت کی کیفیت میں شعلہ ور ہوچکا ہے۔ اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم اسلامی دنیا کی بحرانی صورتحال اور اسلامی ممالک کی توجہ بدامنی اور دہشت گردی کی سمت مبذول ہوجانے کا غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے انتہائی بے رحمی سے مظلوم فلسطینی عوام کے جائز احتجاج کو کچلنے میں مصروف ہے۔
اسرائیلی رژیم بعض غدار عرب حکمرانوں کے ساتھ مخفیانہ گٹھ جوڑ کی مدد سے قبلہ اول مسلمین مسجد اقصی کو مکمل طور پر مسمار کرنے کا فیصلہ کرچکی ہے۔ البتہ فلسطین کے غیور عوام اس شیطانی سازش کو اچھی طرح بھانپ چکے ہیں اور اپنی عزت، مال اور جان کے ذریعے قبلہ اول مسلمین کے دفاع میں مصروف ہیں۔ اب تک دسیوں فلسطینی جوان شہید جبکہ ہزاروں زخمی اور دستگیر ہو چکے ہیں۔ اب یہ مسلم دنیا کی شرعی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مظلوم فلسطینی قوم کے حق میں اٹھ کھڑے ہوں۔ جیسا کہ بانی انقلاب اسلامی امام خمینی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر تمام مسلمان ایک ایک بالٹی بھی اسرائیل پر پھینکیں تو پانی اسے بہا لے جائے گا، غاصب صہیونی رژیم کے ناپاک وجود کے خاتمے کیلئے پوری اسلامی دنیا کا متحد اور یک زبان ہو کر اس منحوس رژیم کے خلاف آواز اٹھانا اور موثر عملی اقدامات انجام دینا ضروری ہے۔ یہ وہ امر ہے جو آج ہر مسلمان اور ہر اسلامی حکومت کا پہلے درجے کا شرعی وظیفہ بنتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 491786
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش