0
Monday 19 Oct 2015 10:36

خطے میں امن کی بحالی کا واحد راستہ

خطے میں امن کی بحالی کا واحد راستہ
تحریر: جعفر بلوری

امریکہ ایران اور بعض دیگر خودمختار ممالک کے علاوہ دنیا کے اکثر ممالک میں مختلف انداز میں فوجی موجودگی رکھتا ہے۔ 2007ء میں امریکی وزارت دفاع کی جانب سے Base structure report کے عنوان سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکہ دنیا کے 39 ممالک میں "بڑے" فوجی اڈے جبکہ 140 دیگر ممالک میں فوجی مراکز قائم کئے ہوئے ہے۔ امریکہ کے بین الاقوامی تحقیقات کے مرکز "کینیڈی" کی رپورٹ میں بھی کہا گیا ہے کہ امریکہ اس وقت دنیا بھر میں 700 سے 800 تک زمینی فوج، نیوی، ایئرفورس اور جاسوسی کے مراکز رکھتا ہے۔ دنیا کے 130 مختلف ممالک میں امریکہ کے 737 فوجی اڈے قائم ہیں جن میں سے بعض "عارضی چھاونیوں" کے طور پر سرگرم عمل ہیں۔ دنیا بھر میں ان فوجی اڈوں اور چھاونیوں کے قیام سے امریکہ کا کیا مقصد ہے، فی الحال یہ ہمارا موضوع سخن نہیں لیکن ایک ہدف جو خود وائٹ ہاوس نے اس وسیع فوجی نیٹ ورک کا بیان کیا ہے وہ میزبان ملک کی سیکورٹی کی حفاظت اور اسے اندرونی و بیرونی خطرات سے محفوظ بنانا ہے۔ عراق اور افغانستان کے ساتھ امریکہ کے انجام پائے سیکیورٹی معاہدے اس کے دو واضح نمونے ہیں۔ مثال کے طور پر چند ماہ قبل انجام پانے والے "کابل – واشنگٹن" سیکیورٹی معاہدے کی پہلی اور دوسری شق میں "افغانستان کی سلامتی اور استحکام کے فروغ" کے عنوان سے بعض مطالب بیان ہوئے ہیں جن کی بنیاد پر امریکہ کو دہشت گردی سے مقابلے اور افغانستان کو بیرونی اور اندرونی خطرات سے مقابلہ کرنے کے قابل بنانے کی "ذمہ داری" سونپی گئی ہے۔

اسی طرح امریکہ عراق کے ساتھ بھی دو سیکورٹی معاہدے انجام دے چکا ہے جن میں سے پہلا معاہدہ 2008ء جبکہ دوسرا 2012ء میں منعقد کیا گیا ہے۔ 2008ء میں طے پانے والے "بغداد – واشنگٹن" سیکورٹی معاہدے کی ایک شق میں بیان ہوا ہے کہ امریکہ عراق میں فوجی اڈوں کے قیام اور فوجی موجودگی کے عوض درج ذیل "ذمہ داریاں" انجام دے گا:
1)۔
ہر ایسی بیرونی جارحیت کا مقابلہ کرے گا جو عراق کی ملکی سالمیت اور قومی سلامتی یا اس کی سمندری اور ہوائی حدود کیلئے خطرہ ثابت ہو۔
2)۔
دہشت گروہوں سے مقابلے میں عراقی حکومت کی مدد کرنا خاص طور پر القاعدہ اور سابق ڈکٹیٹر صدام حسین سے وابستہ گروہوں اور تمام غیرقانونی گروہوں سے مقابلہ کرنا، دہشت گرد گروہوں کی حمایت کرنے والے نیٹ ورکس اور ان کے مالی ذرائع کی نابودی، دہشت گرد گروہوں کو شکست دینا اور عراق سے ان کا خاتمہ کرنا۔ عراقی حکومت کی مدد کا طریقہ کار بھی معاہدے میں واضح کیا گیا ہے۔
3)۔
عراقی حکومت کی اپنی مسلح افواج کی تشکیل اور ان کی ٹریننگ میں مدد کرنا اور اسے مسلح افواج کیلئے اسلحہ فراہم کرنا۔ اس مدد اور تعاون کی نوعیت عراقی حکومت کی جانب سے درخواست میں واضح کی جائے گی۔

اسی طرح امریکہ اور عراق میں طے پانے والے 2012ء کے سیکورٹی معاہدے میں بھی دونوں ممالک کے درمیان سیکورٹی امور میں تعلقات اور تعاون بڑھانے، عراق کی دفاعی صلاحیتوں کو بڑھانے، عراق کی مسلح افواج کو جدید اسلحہ سے لیس کرنے اور خطے کی سیکورٹی صورتحال پر دونوں ممالک کے اثرانداز ہونے کو ممکن بنانے پر زور دیا گیا ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ نے کس حد تک ان معاہدوں کی پابندی کی ہے؟ جب یہ ممالک جنہوں نے امریکہ کے ساتھ سیکورٹی معاہدے کر رکھے تھے، کسی بڑے سیکورٹی بحران سے روبرو ہوئے اور آدم خوار تکفیری دہشت گردوں کے بے سابقہ حملوں کا نشانہ بنے تو امریکہ نے کس حد تک اپنی "ذمہ داریاں" ادا کیں؟ کیا عراق اور افغانستان میں امریکہ کی فوجی موجودگی سے حقیقی طور پر ان ممالک کی سیکورٹی صورتحال بہتر بن گئی ہے؟ پورے یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ نے کم از کم ان دو ممالک یعنی افغانستان اور عراق میں نہ صرف بدامنی اور دہشت گردی سے نمٹنے سے متعلق اپنے کئے گئے وعدوں اور ذمہ داریوں کو نہیں نبھایا بلکہ الٹا ان ممالک میں بدامنی اور دہشت گردی کو فروغ دیا ہے۔ عراق اور افغانستان دونوں ممالک میں سیکورٹی بحران، ہرج و مرج، جنگ اور خونریزی ٹھیک اس وقت اپنے عروج کو پہنچی جب یہ ممالک امریکہ کے ساتھ سیکورٹی معاہدوں پر دستخط کر چکے تھے۔ اب جب آپ تحریر حاضر کا مطالعہ کر رہے ہیں، منحوس دہشت گرد گروہ داعش نے افغانستان میں بھی اپنی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا ہے اور عراق میں تو پہلے سے تکفیری دہشت گرد عناصر نے عوام کے خون سے ہولی کھیلنا شروع کر رکھی ہے۔ ہم پورے اطمینان سے یہ دعوی کر سکتے ہیں کہ عراق اور افغانستان میں پائی جانے والی بدامنی کے بڑے حصے کی اصلی وجہ "امریکہ کی فوجی موجودگی" ہے۔

امریکہ نے خاص طور پر عراق میں ایسا ہر اقدام انجام دیا ہے جو اس ملک میں سیکورٹی بحران کے مزید شدت اختیار کر جانے کا باعث بنا ہے۔ اس دعوے کے ثبوت کے طور پر درج ذیل نکات پر توجہ فرمائیں:
الف)۔ امریکی حکام نے ہمیشہ عراق میں مسلح افواج کے شانہ بشانہ تکفیری دہشت گرد عناصر سے نبرد آزما "عوامی رضاکار فورس" کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا ہے جبکہ عراقی حکام اور اہم شخصیات اسے تکفیری دہشت گرد عناصر کے مقابلے میں اپنا نقطہ قوت قرار دیتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ نے عراقی حکومت کو اسلحہ اور جنگی سازوسامان کی فراہمی کیلئے عوامی رضاکار فورس کے خاتمے کی شرط کیوں لگا رکھی ہے؟ جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ عوامی رضاکار فورس نے آمرلی، جرف الصخر اور تکریت کی تکفیری دہشت گرد عناصر سے آزادی میں انتہائی اہم اور بنیادی کردار ادا کیا ہے اور مستقبل قریب میں صوبہ الانبار اور صوبہ صلاح الدین میں بھی تکفیری دہشت گرد عناصر کے خلاف آپریشن میں انتہائی اہم کردار ادا کرنے والی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ امریکہ نے جس اسلحے اور جنگی سازوسامان کی فراہمی کیلئے مذکورہ شرط عائد کر رکھی ہے اس کی قیمت پہلے سے ہی عراقی حکومت سے وصول بھی کر چکا ہے اور بغداد – واشنگٹن سیکورٹی معاہدے کی رو سے اس اسلحے کی فراہمی اس کی ذمہ داری بھی بنتی ہے۔ آج عراق کے دوست اور دشمن یہ اعتراف کرتے نظر آتے ہیں کہ اگر عراق کی عوامی رضاکار فورس اور البتہ اسلامی جمہوریہ ایران کی مخلصانہ مدد نہ ہوتی تو آج داعش بغداد پر قابض ہوتی۔ عراقی وزیراعظم حیدر عبادی کا دورہ روس اور امریکہ کی بجائے روس سے اسلحہ اور جنگی سازوسامان کی خریداری اور اسی طرح انتہائی اہم شہر رمادی کی آزادی کیلئے فوجی کاروائی کی کمان عوامی رضاکار فورس کے سربراہ ہادی العامری کو سونپے جانا، درحقیقت امریکہ کی وعدہ شکنی کا ہی ردعمل جانا جاتا ہے۔

ب)۔ امریکہ نے عراق میں اہلسنت اور اہل تشیع مسلمانوں پر مشتمل عوامی رضاکار فورس کی مخالفت اور اسے ختم کرنے کے مطالبے کے ساتھ ساتھ یہ بھی اعلان کیا ہے کہ وہ کرد پیشمرگ اور عراق کے سنی قبائل کی مدد سے ایک "سنی فوج" تشکیل دینے کا ارادہ رکھتا ہے۔ امریکی حکام اس حد تک بے باک ہو چکے ہیں کہ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ انہیں سنی فوج کی تشکیل کیلئے عراقی حکومت کی اجازت کی ضرورت بھی نہیں۔ جبکہ عراقی حکومت نے اس امریکی خواہش کی بھرپور مخالفت کا اعلان کیا ہے اور اسے عراق کی قومی سلامتی کیلئے ایک خطرہ قرار دیا ہے۔ عراق کی مسلح افواج کو سنی اور شیعہ میں تقسیم کرنے اور ملک میں سرگرم علیحدگی پسند دھڑوں کو مضبوط کرنے کا نتیجہ سوائے قومی اور مذہبی اختلافات کی آگ بھڑکنے اور عراقی مسلح افواج کے کمزور ہو جانے کے کیا نکل سکتا ہے؟ امریکی حکام ایک عرصے سے رسمی طور پر اعلان کر چکے ہیں کہ وہ عراق کو توڑنا چاہتے ہیں۔

ج)۔ وائٹ ہاوس کے ترجمان جش ارنیسٹ نے چند ہفتے قبل جب رمادی پر داعش کا نیا نیا قبضہ ہوا تھا اور تکفیری دہشت گرد جنون آمیز طریقے سے رمادی کی سڑکوں پر بچوں اور خواتین کے گلے کاٹ رہے تھے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا: "فوجی امور انتہائی پیچیدہ ہیں اور ہم عراقیوں کیلئے کچھ نہیں کر سکتے۔ خود عراقیوں کو ہی اپنے ملک کی آزادی کیلئے کچھ کرنا ہو گا! البتہ میں اعتراف کرتا ہوں کہ رمادی پر داعش کا قبضہ داعش مخالف اتحاد کی ایک بہت بڑی ناکامی ہے"۔ پھر کچھ دن بعد امریکی وزیر دفاع کارٹر ایشٹون نے اسی موقف کو دہراتے ہوئے کہا: "عراقی فوج داعش کے خلاف لڑنے کا عزم اور صلاحیت نہیں رکھتی"۔ عراقی حکام اس طرح عراق کی مسلح افواج کے حوصلے پست کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور دوسری طرف منحوس دہشت گرد گروہ داعش کے حوصلے بڑھا رہے ہیں۔

لہذا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ خطے میں موجود اکثر فتنوں اور مسائل کی حقیقی وجہ خطے میں امریکہ کی فوجی موجودگی ہے۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہو گا کہ خود امریکہ سب سے بڑا فتنہ ہے۔ خطے کے بدامن ترین ممالک وہی ہیں جہاں امریکہ کی فوجیں موجود ہیں۔ اس ضمن میں امریکہ کیلئے دوست اور دشمن کا بھی کوئی فرق نہیں بلکہ کافی ہے کہ دوست کی تاریخ انقضا تمام ہو چکی ہو۔ خطے میں امریکہ کا اہم ترین اتحادی یعنی سعودی عرب اس وقت یمن کے خلاف جنگ کی حالت میں ہے اور سعودی عرب کے سرحدی علاقوں اور شیعہ اکثریت والے صوبوں میں امن و امان کی صورتحال مکمل طور پر خراب ہو چکی ہے۔ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی القدس بریگیڈ کے کمانڈر جنرل سلیمانی نے حال ہی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اسی مسئلے کی طرف اشارہ کیا ہے اور کہا ہے: "مسٹر اوباما، آپ کے فوجی اڈوں کا عراق کے شہر الرمادی سے فاصلہ کتنے کلومیٹر ہے؟ کیسے ممکن ہے کہ آپ ایک قوم کے دفاع کے بہانے اس ملک میں بیٹھے ہوں اور وہاں قتل و غارت جاری ہو اور آپ ہاتھ پر ہاتھ دھرے تماشہ دیکھتے رہیں؟ اس کا مطلب کیا ہے؟ کیا اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ بھی اس گھناونی سازش کا حصہ ہیں؟ اور کیا اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ دہشت گردوں کا مقابلہ کرنا ہی نہیں چاہتے؟"

جیسا کہ بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ "امریکہ شیطان بزرگ (سب سے بڑا شیطان) ہے"، آج خطے کے اسلامی ممالک میں اس کی شیطانی پالیسیاں کھل کر سامنے آ چکی ہیں۔ آج سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ عراق، شام اور حتی افغانستان میں داعش جیسے عظیم تکفیری فتنے کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ ہے جس کا بنیادی ترین مقصد خطے میں اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔ خطے میں امن و امان کی بحالی اور سیکورٹی چیلنجز کا مقابلہ کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ اسلامی ممالک آپس میں متحد ہو کر اپنی توانائیوں اور صلاحیتوں پر اعتماد کریں اور پوری توانائیاں تکفیری دہشت گرد عناصر کے خاتمے کیلئے صرف کر دیں۔ آج اسرائیل، امریکہ اور اسلام دشمن قوتیں تکفیری دہشت گرد عناصر اور گروہوں سے امید لگائی بیٹھی ہیں کیونکہ ان گروہوں کی باگ ڈور انہیں کے ہاتھوں میں ہے۔ لہذا تمام مسلمانوں اور اسلامی حکومتوں کا پہلا شرعی اور قومی فریضہ بنتا ہے کہ وہ ان اسلام دشمن طاقتوں کے ایجنٹوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیں۔ یہ وہی کام ہے جو ایران، عراق کی مسلح افواج، عراق کی رضاکار عوامی فورس اور حزب اللہ لبنان کے مجاہد عراق اور شام میں انجام دے رہے ہیں۔ دوسرے اسلامی ممالک کا بھی یہی فریضہ بنتا ہے کہ وہ عالمی استعماری قوتوں کا آلت دست بننے کی بجائے اسلام کے تحفظ کی خاطر دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں ایران اور حزب اللہ لبنان کی مدد کریں۔ خطے میں امن و امان کی بحالی کا یہی واحد راستہ ہے۔ 
خبر کا کوڈ : 492118
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش