0
Monday 19 Oct 2015 21:14

مسلمانوں سے ایک گزارش

مسلمانوں سے ایک گزارش
تحریر: سید اسد عباس

محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت پر ایمان لانے والو! ان کے پیغام کو دل و جان سے قبول کرنے والے مسلمانو!  ماہ محرم وہ اہم ماہ ہے جس سے ہجری سال کا آغاز ہوتا ہے۔ اس ماہ کی اہم مناسبت نواسہ رسول ؐ، جگر گوشہ علی ؑ و بتول ؑ اور ان کے خاندان نیز اصحاب وفا کی شہادت کا واقعہ ہے، جو سنہ 61ھ میں وقوع پذیر ہوا۔ شہادت حسین ؑ و آل حسین ؑ تاریخ اسلام کا کوئی چھوٹا واقعہ نہیں ہے۔ اس واقعہ کی اہمیت اس سبب سے ہے کہ حسین ؑ وہ ہستی ہیں، جنہیں ہمارے نبی پاک ؐ نے جوانان جنت کے سرداروں میں سے ایک سردار کہا۔ حسین ؑ اوائل اسلام کے عام و خاص افراد میں سے ایک فرد نہیں ہیں بلکہ یہ وہ ہستی ہیں جنہیں محمد عربی نے اپنا فرزند کہا اور کہا کہ حسین ؑ کا دکھ میرا دکھ ہے، حسین ؑ کی خوشی میری خوشی ہے۔ حسین ؑ اصحاب تطہیر میں سے پانچویں ہے۔ حسین ؑ سوار دوش رسالت ہیں۔ حسین ؑ بوسہ گاہ رسول ؐ ہیں۔ حسین ؑ کے بارے میں رسالت مآب نے فرمایا کہ یہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں۔

کبھی رسالت مآب نے اس بچے کو اپنا پھول کہا، کبھی اپنا ٹکڑا ۔ مختصر یہ کہ کتب احادیث کو کھنگال لیجئے، رسالت مآب کی حسنین کریمین ؑ کے بارے میں متعدد احادیث جابجا نظر سے گزریں گی۔ نہ صرف یہ کہ رسالت مآب ؐ نے ان شہزادوں کے اوصاف بیان کئے بلکہ ان کی شہادت کے حوالے سے بھی اپنے اصحاب کو آگاہ کیا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ احادیث رسالت مآب کی بچوں سے محبت کی علامت ہیں اور بعض کا خیال ہے کہ ان اقوال کو اہتمام سے بیان کیا گیا، جس کے بڑے مقاصد تھے ۔ بہرحال جو بھی تھا ایک بات ثابت ہے کہ رسالت مآب کو یہ بچے دل و جان سے عزیز تھے۔ ان کی آنکھوں کا نور تھے۔ ان کے قلبی سکون کا باعث تھے۔ امت رسول ؐ جس کو عشق رسول ؐ کا دعویٰ ہے، سے بجا طور پر یہ توقع کی جاسکتی تھی کہ ان شہزادوں کو رحلت رسول ؐ کے بعد بھی وہی مقام اور منزلت دیتی جو ان کی زندگی میں دیتی تھی۔

ہمیں اصحاب رسول ؐ کی زندگیوں میں بھی بہت سے ایسے واقعات ملتے ہیں، جہاں اصحاب نے حسنین کریمین کو اقوال رسول اکرم کی روشنی میں باقی افراد سے بڑھ کر احترام دیا۔ روایات میں ہے کہ کسی سبب حضرت عمر بن خطابؓ کے فرزند اور امام حسین ؑ کے مابین کسی بات پر نزاع ہوا، تو امام حسین ؑ نے کہا کہ تم ہمارے غلام کے فرزند ہو، جس کی شکایت لے کر فرزند خلیفہ ثانی اپنے والد کے پاس گئے۔ حضرت عمرؓ نے جواب دیا کہ اگر حسین ؑ نے یہ بات کی ہے تو ان سے کہو کہ لکھ دیں، تاکہ میں اس تحریر کو اپنے کفن میں رکھوا سکوں اور رسول اکرم ؐ کے حضور اس تحریر کے ساتھ پیش ہو سکوں۔ اصحاب رسول ؐ پیروی حکم رسالت میں حسنین کریمین کو یابن رسول اللہ ؐ کہہ کر پکارتے تھے۔ تاہم تاریخ اسلام اس بات کی بھی گواہ ہے کہ اس خانوادے کے افراد کو جنہیں رسالت مآب نے اپنا کنبہ کہا، جن کی طہارت کی گواہی قرآن نے دی اور جن کی مودت کو قرآن کریم نے اجر رسالت قرار دیا، کو قتل کیا گیا اور قتل کرنے والے غیر نہیں بلکہ اسی امت کے افراد تھے۔ قتل کس نے کیا، کس کی ایما پر قتل ہوئے، قتل کی وجوہات کیا تھیں، یہ تاریخی حقائق ہیں، جنہیں کوئی بھی اہل علم آسانی سے جان سکتا ہے۔

سوال تو یہ ہے کہ آج ہماری کیا ذمہ داری ہے؟  کیا ہمیں عشق رسول ؐ کا حق ادا کرنا ہے؟ اور صحابہ کرامؓ، اولیائے کرام ؒ کی تاسی میں حسین ؑ سے اپنے عشق و محبت کا اظہار کرنا ہے، یا اس بات پر ایک دوسرے سے الجھنا ہے کہ مارا کس نے اور روتا کون ہے؟ کوئی حسین ؑ کے دکھ پر کیسے دکھی ہوتا ہے، اسے کیسے مناتا ہے، یہ اس کا ذاتی فعل ہے، ممکن ہے آپ کسی کے عمل سے شدید اختلاف بھی رکھتے ہوں، لیکن اگر کوئی کام شریعت کے متفقہ قوانین سے متصادم نہیں ہے تو ہمیں دوسرے کو اسے انجام دینے کا حق ضرور دینا چاہیے۔ عشق رسول ؐکا تقاضا ہے کہ ہم ان کے نواسے کے غم کو اپنے دلوں میں مقام دیں۔ اس غم پر دکھ کا اظہار کریں اور یہ اظہار کسی غیر سے نہیں بلکہ خود رسول اکرم ؐ کی ذات سے کرنا ہے۔

کیا ہمیں نہیں کہنا چاہیے کہ:  اے رسول اللہ ؐ! آپ نے اپنے اس فرزند کے بارے میں امت کو متعدد بار تنبیہ کی، آگاہ کیا، لیکن اس کے باوجود امت کے چند ناہنجاروں نے مل کر آپ کے اس گلاب کو میدان کربلا میں یک و تنہا کچل دیا، اس کے خانوادے کو قتل کیا۔ اسے اولاد، انصار و اصحاب کی جدائی کے غم دیئے۔ آپ کی نواسیوں اور ان کی اولادوں کی بے حرمتی کی، انہیں جنگی قیدیوں کی مانند سرعام پھرایا، تاکہ اپنی فتح کو راسخ کرسکیں۔ کیا مجھے نہیں کہنا چاہیے کہ:  اے رسول اللہ ؐ! میں آپ کا امتی، آپ کے خاندان پر ڈھائے جانے والے ہر ستم سے اظہار برات کرتا ہوں۔ میں حسین ؑ کو قتل کرنے والوں ان کے خاندان پر مظالم کے پہاڑ توڑنے والوں سے اظہار نفرت کرتا ہوں۔ میں حرم رسول ؐ کو بازاروں میں پھرائے جانے والوں سے اظہار نفرت کرتا ہوں۔ کیا ہمارا حق نہیں ہے کہ ہم کہیں کہ:  اے رسول اللہؐ! اگر میں اس دور میں موجود ہوتا تو بالیقین آپ کے خانوادے کا دفاع کرنے والوں میں سے ہوتا اور اگر اس راہ میں مجھے اپنی جان کی قربانی بھی دینی پڑتی تو میں اس سے دریغ نہ کرتا۔ اے نبی اللہؐ! آپ گواہ رہیے گا کہ آپ کا درد میرا درد ہے، آپ کا دکھ مجھے اپنے دکھ سے عزیز ہے، جیسے آپ کی خوشی میری خوشی ہے۔ اے نبی اللہؐ! میرے اس اظہار عقیدت و محبت کو قبول فرمائیں اور روز محشر مجھے اپنی شفاعت سے بہرہ مند فرمائیں۔

قارئین کرام!  حسین ؑ کی محبت کسی خاص مسلک کی جاگیر نہیں ہے، یہ انسانیت کا مشترکہ سرمایہ ہے۔ مسلمان تو بدرجہ اتم اس سرمایہ کے وارث ہیں۔ عشق رسول کا تقاضا ہے کہ ان کو عزیز ہر شے سے محبت کا کھل کر برملا اظہار ہو۔ جیسے رسالت مآب ؐ کے اصحابؓ ہمارے لئے محترم ہیں، اسی طرح ان کا فرزند بھی ہمارے لئے محترم ہونا چاہیے اور اس احترام کا اظہار ہمارے عمل سے ظہور کرے تو کیا کہنے۔ کوئی فرزند رسولؐ، حسین ؑ سے کیسے اظہار عقیدت کرتا ہے، اس میں نقص نکالنے اور اس عمل سے تہی دامن ہوکر بیٹھ رہنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اگر کوئی فعل آپ کی نظر میں شریعت مقدسہ سے متصادم ہے تو اس کی زبان کے ذریعے اصلاح کی کوشش کریں۔ اگر اصلاح نہیں ہوتی تو آپ کے اظہار کی ذمہ داری ختم نہیں ہوتی ہے۔

ایسا نہیں کہ حسین ؑ کسی ایک مسلک کی جاگیر ہیں۔ حسین ؑ فرزند رسول ؐ تھے، حسین ؑ فرزند رسول ؐ ہیں اور حسین ؑ تا قیام قیامت فرزند رسول ؐ رہیں گے۔ روز محشر قول رسول ؐ کی روشنی میں حسین ؑ ہی جوانان جنت کے سردار ہوں گے۔ ایسا نہ ہو کہ اس روز ہمیں فقط اس وجہ سے پشیمانی کا سامنا کرنا پڑے کہ ہم تو سمجھے تھے کہ آپ سے اظہار محبت فقط ایک ہی مسلک کی ذمہ داری ہے اور آپ کے غم میں غمگین ہونا کسی ایک مسلک کا وطیرہ۔ غم حسین ؑ رسول اکرم ؐ کا غم ہے۔ یہ شہادت اور اس کی یاد دلوں کو نہ فقط حسین ؑ اور ان کے نانا سے قریب کرتی ہے بلکہ یہ انسان کے اندر دین حقیقی کے دفاع کے لئے قربانی دینے کا جذبہ بھی پیدا کرتی ہے۔
وما علینا الا البلاغ
خبر کا کوڈ : 492303
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش