0
Thursday 29 Oct 2015 22:33

چلاس میں کم سن بچے کے قتل کا الزام جنات پر عائد، والدین اور مقامی علماء جنات کیخلاف مقدمہ درج کرنے پر بضد

چلاس میں کم سن بچے کے قتل کا الزام جنات پر عائد، والدین اور مقامی علماء جنات کیخلاف مقدمہ درج کرنے پر بضد
رپورٹ: میثم بلتی

مفکر اسلام علامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے اپنی نظم کی کتاب ’’ ضرب کلیم ‘‘ میں ایک شعر آفاقی اور وسیع تر معنوں میں کہا ہے کہ
؎ بدل کے بھیس پھر آتے ہیں وہ زمانے میں
      اگرچہ پیر ہے آدم جواں ہیں لات و منات

برق و نور اور سائنس و ٹیکنالوجی کے اس جدید دور میں بھی حضرت انسان توہمات، شیطانی وسوسوں، جہالت اور وہم کے فسوں سے آزاد نہیں ہو سکے۔ دوسرے ادیان کے برعکس دین مقدس اسلام نے اپنی تعلیمات کے ذریعے انسانوں ورائے طبعیات موضوعات سے لے کر عدم و وجود اور ہستی کے تمام حقائق سے روشناس کرائے اور دنیا میں موجود تمام خشک و تر و اپنی مقدس کتاب میں احاطہ کیا۔ فرشتے، جنات، خلقت کائنات، قبر، حشر، قیامت سے لے کر عقائد و اعتقادات اور معاملات تک کی راہنمائی کی لیکن اس کے باوجود مسلم معاشرہ سے توہمات کی بیخ کنی نہیں ہو سکی۔ گلگت بلتستان میں رواں ماہ ایک ایسا واقعہ پیس آیا جو نہ صرف اہلیان گلگت بلتستان کے لیے باعث ننگ تھا بلکہ اس نے دور جہالت کی یاد تازہ کر دی۔ اس افسوسناک اور مضحکہ خیز واقعے نے لوکل میڈیا اور ریاستی اداروں کی توجہ کو بھی اپنی جانب مبذول رکھا۔ گلگت بلتستان میں موجود ضلع دیامر جہاں شرح خواندگی نہ ہونے کے برابر ہے اور اکثر و بیشتر جھگڑا و فساد کا مرکز رہا ہے، سانحہ چلاس، کوہستان، بابوسر اور نانگا پربت کے افسوسناک واقعات بھی اسی علاقے میں پیش آئے۔ یہ علاقہ ایک بار پھر انوکھے اور مضحکہ خیز واقعے کی وجہ سے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا رہا۔

دیامر کے علاقہ چلاس کے گاؤں سومال سے پانچ سالہ بچہ اسوقت لاپتہ ہوگیا جب وہ اپنی ماں کے ساتھ قریبی چشمے سے پانی لانے جا رہا تھا۔ گمشدگی کے دو ہفتے بعد بچے کی لاش جنگل سے ملی۔ لاش ملنے سے قبل والدین اور عزیزوں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے رابطہ کرنے کی بجائے جنات اور عاملوں سے مدد لیتے رہے۔ انہوں نے اپنے نورچشم کو دریافت کرنے کے لیے علاقہ بھر کے عاملوں کو بلوایا عاملوں کا کہنا تھا کہ بچہ جنات کے قبضے میں ہے۔ عاملوں نے مسلسل ایک ہفتے تک بچے کو بازیاب کرانے کی کوشش کی مگر کامیاب نہیں ہوئے اور دو ہفتے بعد بچے کی لاش قریبی جنگل سے ملی۔ جب لاش ملی تو بچے کے ہاتھ کٹے ہوئے تھے اور جسم پر تشدد کے نشانات تھے۔ اس واقعے کے بعد پولیس حرکت میں آئی اور دفعہ 174 کے تحت کارروائی شروع کی۔ مقتول کے والد محمد جان نے پولیس کو رپورٹ درج کرتے ہوئے اسے واقعے کو جنات کی کارروائی کا شاخسانہ قرار دیا اور رپورٹ جنات کے خلاف درج کرائی۔ غالبا یہ دنیا کا پہلا واقعہ ہے کہ جہاں پر جنات کے خلاف قتل کا مقدمہ بنایا گیا ہے۔ اس سلسلے میں مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں جنات کا بسیرا ہے اور اسی وجہ سے اس علاقے کو پریوں کا مسکن بھی کہا جاتا ہے۔

جنات کے خلاف رپورٹ درج کرنے کے بعد جی بی کے صوبائی وزراء بھی اس میدان میں کود پڑے اور بیانات داغنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ جی بی وزیر خوراک حاجی جانباز خان نے مقامی صحافیوں کو بتایا ہے کہ بچے کو جنات نے ہی قتل کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’میرے سامنے جنات کئی بچوں کو اٹھا کر لے جا چکے ہیں اور بعد میں ان کو چھوڑ بھی دیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ یہ جنات غیر مسلم تھے اور اسی لیے ان پر عملیات کا کوئی اثر نہیں ہوا اور انہوں نے اس بچے کو قتل کر دیا۔‘‘  اس انوکھے کیس کے تفتیشی افسر اے ایس آئی مجیب الرحمان کا کہنا ہے کہ بچے کے والدین قتل کا الزام جنات پر لگا رہے ہیں تاہم وہ جنات کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں کر سکتے۔ علاقے کے مقامی صحافیوں نے بتایا کہ پولیس نے روزنامچے میں جنات کے خلاف رپورٹ درج کی ہے تاہم پولیس اس حوالے سے بات کرنے سے گریزاں ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق پولیس نے روزنامچے میں جنات کے خلاف رپورٹ تو درج کر لی ہے لیکن اب دیکھنا ہے کہ جنات کی گرفتاری کا عمل کیسے ہوگا۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ماضی میں بھی علاقے میں اس قسم کے واقعات پیش آتے رہے ہیں اور جنات نے کئی بچوں اور بچیوں کو نقصان پہنچایا ہیں۔ صوبائی وزراء کے بعد مقامی علماء بھی اس سلسلے میں خاموش نہیں رہ سکے، انہوں نے بھی شرعی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے اسے جنات کی کارروائی کا شاخسانہ قرار دیا۔ اس سلسلے میں جمعیت علمائے اسلام کے رہنما مولانا سرور شاہ کا کہنا ہے کہ جنات کا انکار ممکن نہیں اور بچے کو قتل جنات نے ہی کیا ہے۔

اس واقعے پر ڈی آئی جی دیامر ریجن عنایت اللہ فاروقی نے  کہا کہ والدین جو مرضی کہیں پولیس اپنی ذمہ داری پوری کریگی۔  اس سلسلے میں بچے کے قتل کی وجوہات معلوم کرنے کے لیے قبر کشائی کر کے پوسٹم مارٹم کے لیے نمونے لے لیے گئے۔ دیامر کی ضلعی انتظامیہ کی جانب سے تشکیل دیئے گئے 3 رکنی میڈیکل بورڈ نے ڈپٹی کمشنر محمد عثمان اور پولیس حکام کی موجودگی میں بچے کی قبر کشائی کر کے پوسٹ مارٹم کے لیے نمونے حاصل کیے۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے ڈی آئی جی پولیس عنایت اللہ فاروقی نے کہا کہ جب تک پوسٹ مارٹم کی رپورٹ نہیں آ جاتی کسی کے خلاف بھی مقدمہ درج نہیں کیا جا سکتا، پوسٹ مارٹم کی رپورٹ اگلے تین سے چار روز میں آجائے گی۔ پولیس اس پورے واقعے سے لاعلم تھی کیونکہ نہ ہی بچے کے والدین اور نہ ہی علاقہ مکینوں نے بچے کے اغواء کے حوالے سے پولیس کو بتایا تھا تاہم اب پولیس پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کی روشنی میں کیس کی تحقیقات کرے گی۔
خبر کا کوڈ : 492532
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش