0
Wednesday 21 Oct 2015 11:50

داعش کی تخلیق ہم نے کی، سابق امریکی رکن کانگریس کا اعتراف

داعش کی تخلیق ہم نے کی، سابق امریکی رکن کانگریس کا اعتراف
تحریر: طاہر یاسین طاہر

داعش کیا ہے؟ دولتِ اسلامیہ عراق و شام۔ داعش اس کا مخفف ہے۔ ہمیں مگر نام سے کیا غرض؟ ہم اس کی وحشت و بربریت کو دیکھتے ہیں اور جان کی امان چاہتے ہیں۔ تاریخ کے طالب علم جانتے ہیں کہ نو آبادیاتی نظام کی تشکیل، اس کی بقا اور دیگر سامراجی مقاصد کے لئے سامراج کو کارندوں کی بھی ضرورت تھی۔ ہم اگر صرف برصغیر کی تاریخ اور اس کی تقسیم کے طریقہ کار کو دیکھیں تو ہمیں پولیس کا کردار ہی یہ سمجھانے کے لئے کافی ہے کہ نو آبادیاتی نظام کی بقا کے لئے عالمی سامراج نے کیسے کیسے بندوبست کئے ہوئے ہیں۔ پاکستانی سیاست آج بھی برادری، پیسے اور پولیس کی تکون سے چلتی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ کسی دن اس پر سیر حاصل بحث کریں گے۔ ابھی ہمارا موضوع مگر اور ہے۔ ہم پاکستانی ابھی تک انگریز کے بنائے ہوئے ایسے قوانین کے ذریعے انصاف کی توقع کرتے ہیں، جو قوانین بجائے عدل کے سائل کے لئے مزید پیچیدگیاں پیدا کرتے ہیں۔ امریکی سابق رکن کانگریس کا کہنا ہے کہ عراق پر امریکی حملے کی وجہ سے ہی داعش تخلیق ہوئی۔ اگرچہ یہ اعتراف اپنی جگہ پر بڑی بات ہے۔

’’عالمی اردو خبر رساں ادارے نیوز نور کی رپورٹ کے مطابق سابق امریکی کانگریس کے رکن رول پال نے کہا ہے کہ امریکہ کے عراق پر حملے سے ہی داعش نامی دہشتگرد گروہ وجود میں آیا ہے۔ اپنی ویب سائٹ پر شائع ایک مضمون میں انہوں نے کہا ہے کہ داعش پر امریکی حملوں سے صورت حال مزید ابتر ہوگئی ہے۔ کیونکہ اس گروہ کی تخلیق میں امریکہ کا کلیدی کردار رہا ہے۔ رول پال نے مزید کہا ہے کہ عراق پر امریکی حملے سے پہلے شام و عراق میں القاعدہ اور داعش جیسے دہشتگرد گروہوں کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کی بمباری سے اور خطے میں اس کے ملوث رہنے سے داعش کو مزید افراد بھرتی کرنے میں مدد مل رہی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ داعش دہشتگردوں کی اکثریت کا تعلق یورپ اور امریکہ سے ہے۔ گھر واپسی پر یہ دہشتگرد امریکہ اور یورپ کیلئے خطرہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ داعش کے خلاف ایران کے موقف کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ واشنگٹن کو داعش کے خلاف جنگ میں ایران کے تعاون کے تئیں شکرگزار رہنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ دوسروں کے معاملات میں دخل اندازی کرنے والی امریکی قوم ایران کو اس وقت شاباشی نہیں دے سکتی ہے کیونکہ وہ باقی دنیا پر یہ باور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ان کے بغیر کوئی بھی مسئلہ حل کرنا ناممکن ہے۔ سابق امریکی کانگریس کے رکن نے مزید کہا کہ اگر دنیا اس بات سے باخبر ہوجائے کہ وہ اپنے مقامی اور علاقائی مسائل امریکہ کی مداخلت کے بغیر حل کرسکتے ہیں تو امریکی عوام کو ان کا بنایا ہوا جدید نو آبادیاتی نظام ان کی سلامتی کیلئے خطرہ بن جائے گا۔"

ہمیں اس امر میں کلام نہیں کہ داعش کی تخلیق میں امریکہ، سعودی عرب، قطر، ترکی اور اسرائیل سمیت کئی مسلم ریاستوں کا کردار کلیدی ہے۔ سابق امریکی رکن گانگریس رول پال کا مگر یہ کہنا کہ امریکی حملے سے پہلے شام و عراق میں القاعدہ و داعش جیسے دہشت گرد گروہوں کا کوئی وجود ہی نہیں تھا، درست بات نہیں، ہم سب جانتے ہیں کہ عراق پر امریکی حملے سے پہلے ہی القاعدہ معرضِ وجود میں آچکی تھی اور اس کی تخلیق میں بھی امریکہ کا کردار کلیدی ہی تھا۔ رول پال کی اس بات سے تو اتفاق ہے کہ داعش پر جیسے جیسے امریکی اور اس کے اتحادی طیاروں کی’’نام نہاد‘‘ بمباری ہوتی رہی اور اس کی افرادی قوت میں کمی آتی گئی تو داعش نے اسی رفتار سے نئی افرادی قوت بھرتی کی۔ یہ افرادی قوت مشرقِ وسطٰی کے ممالک اور بالخصوص امریکہ و یورپ کی نوجوان نسل ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا دوہرا معیار داعش کو مضبوط کرنے کا باعث بنا۔ داعش نہ صرف عراق و شام بلکہ پوری دنیا پر اپنی نام نہاد وحشیانہ خلافت کے خواب دیکھ رہی ہے۔ القاعدہ اور النصرہ البتہ جہاں مسلمانوں کا قتال کرنے میں داعش کے ساتھ ساتھ ہیں، وہیں یہ دونوں گروہ داعش سے بر سرِ پیکار بھی ہیں۔ یہ وہی القاعدہ ہے جسے امریکہ نے اپنی ’’ہٹ لسٹ ‘‘پر رکھا ہوا تھا، مگر آج امریکہ داعش کے مقابلے میں القاعدہ، النصرہ اور دیگر تکفیری دہشت گردوں کو ’’معتدل دہشت گرد‘‘ کہہ کر ان کی مدد کر رہا ہے۔

امریکہ ایک تسلیم شدہ عالمی طاقت ہے، مگر اس کی بد دیانتیاں بھی تسلیم شدہ ہیں۔ دھوکہ، فریب کاری اور عیاری میں اس کا کوئی ثانی نہیں، لیکن ہمیں یہ بھی خیال رہے کہ امریکہ وہی کرے گا، جو اس کی ریاستی پالیسی اور امریکی عوام کے لئے بہتر ہوگا۔ سو وہ ایسا کرتا رہے گا۔ داعش کے لئے امریکہ اور اس کے اتحادی طیاروں نے فضا سے اگر دو بم فائر کئے تو داعش کی مدد کے لئے کئی ٹن اسلحہ بھی گرایا۔ خطے میں مگر عسکری و سیاسی تبدیلی روس کی داعش اور دیگر دہشت گردوں کے خلاف فضائی کارروائیوں سے رونما ہونا شروع ہوئی۔ امریکہ اور اس کے اتحادی واویلا کر رہے ہیں کہ روس کی فضائی کارروائیوں سے دہشت گرد گروہ داعش مضبوط ہوگا۔ مگر کیسے؟ غیر جانبدار تجزیہ کار کہتے ہیں کہ روس کی جارحانہ فضائی کارروائیوں اور پھر روسی فضائیہ کی مدد سے شامی فوج کی پیش قدمی نے داعش کو زبردست عسکری و مالی نقصان پہنچایا ہے۔ امریکہ کو شکایت ہے کہ روس بلاتخصیص معتدل و غیر معتدل دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں کر رہا ہے۔ بے شک روس کی ان کارروائیوں سے امریکہ اور اس کے مسلم و غیر مسلم اتحادیوں کے مفادات پر زد پڑی ہے۔ کیا دہشت گرد اچھے اور برے بھی ہوتے ہیں؟ کیا ان میں اعتدال ہوتا ہے؟ اگر ان میں اعتدال ہو تو انھیں انتہا پسند ہی کیوں کہا جائے۔؟

سوال بڑا سادہ ہے، اسے لفظوں کے خواہ کتنے ہی حسیں پیرہن کیوں نہ پہنا دئے جائیں، داعش ہو یا طالبان، القاعدہ ہو یا النصرہ، الشباب ہو یا بوکو حرام، احرارالہند ہو یا کوئی اور نام۔ یہ سب اپنے تکفیری رویوں اور دہشت گردانہ کارروائیوں میں ایک سے ہیں۔ داعش نے البتہ جلدی کی، اس کے مقابل القاعدہ نے اپنی توجہ افغانستان اور عراق پر مرکوز رکھی۔ امریکی سابق رکن کانگریس کو یہ تو احساس ہے کہ داعش کو امریکہ و یورپ سے افرادی قوت مل رہی ہے، مگر کیا امریکہ کے اس سابق رکن کانگرس نے کوئی ایسی تجویز دی کہ یورپ و امریکہ سے داعش کے لئے جانے والی افرادی قوت کو کیسے روکا جاسکتا ہے؟ کئی ایک کالموں میں لکھا، مکرر عرض ہے کہ امریکہ اور اس کے مسلم و غیر مسلم اتحادی خطے کی ہیئت تبدیل کرنے کے لئے دہشت گرد گروہوں پر انحصار کر رہے ہیں۔ داعش کے انسانیت سوز مظالم کے خلاف دنیا بھر کے عدل پسند سراپا احتجاج ہوئے تو امریکہ و اس کے اتحادیوں نے بھی داعش کو دہشت گرد مان لیا، مگر القاعدہ کو جس کی خاطر امریکہ نے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، جس کے سربراہ اسامہ بن لادن کو ایبٹ آباد میں آ کر مارا اور جس کی دوسرے و تیسرے درجے کی قیادت کے لئے یمن و پاکستان میں ڈرون حملے بھی کئے، اب اسی القاعدہ کو امریکہ اسلحہ بھی دے رہا ہے اور اسے ’’معتدل دہشتگرد تنظیم‘‘ بھی مان رہا ہے۔

امریکی سابق رکن کانگرس نے جرات کا مظاہرہ کیا اور تسلیم کیا کہ داعش کی تخلیق امریکہ نے کی۔ رول پال نے مشرقِ وسطٰی میں جاری داعش کے درندوں کی درندگی کے خلاف ایران کے کردار کی بھی تعریف کی۔ لیکن وہ کوئی ایسا منصوبہ نہ دے سکے، جس سے ’’معتدل و غیر معتدل‘‘ کی تمیز کئے بغیر دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہوسکے۔ داعش کے دہشت گرد جس طرح مسلمانوں کے گلے کاٹتے ہیں، القاعدہ والے بھی اسی طرح یہ کام سرانجام دیتے ہیں۔ دونوں کی تخلیق امریکہ نے اپنے مفادات کے لئے کی۔ دونوں خود کو اسلام کی نمائندہ تنظیم کہتے ہیں۔ مگر کیا ایسے قاتل، امن، سلامتی اور رواداری کی تعلیمات دینے والے اسلام کے نمائندے ہوسکتے ہیں؟ داعش میں نوجوانوں کی تیز رفتار شمولیت کا ایک پہلو ’’جہاد النکاح‘‘ کا فتویٰ بھی ہے۔

آخری تجزیے میں روس سارے دہشت گردوں سے ایک سا سلوک کرے گا، جبکہ امریکہ اپنے اتحاد سمیت داعش کے خلاف دکھاوے کے فضائی حملوں کے ساتھ ساتھ معتدل دہشت گردوں کے لئے آسمان سے اسلحہ بھی گراتا رہے گا۔ روس اگر اپنی کارروائیوں میں مزید تیزی لاتا ہے تو عین ممکن ہے کوئی نیا گروہ کسی نئے نام سے جنم لے لے۔ داعش والے جس طرح بچوں، عورتوں، بوڑھوں اور نوجوانوں سے انسانیت سوز سلوک کر رہے ہیں، بالکل اسی طرح القاعدہ و النصرہ والے بھی اپنی دہشت ناکی کی بنیاد ’’ظواہر پرستی‘‘ پر رکھے ہوئے ہیں۔ صرف مشرقِ وسطٰی ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کا امن اس وقت داؤ پر لگا ہوا ہے۔ دنیا اگر دہشت گردی کے خاتمے میں سنجیدہ ہے تو پھر اسے امریکہ کے دوہرے معیار کی مذمت کرنی چاہیے۔ گذشتہ دنوں یورپی یونین کی خارجہ امور کی سربراہ نے بھی کہا تھا کہ ہم نے دہشت گردی برآمد کی ہے اور آج ہم اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ خاتون کا اشارہ شاید، شامی و دیگر جنگ زدہ علاقوں سے آنے والے پناہ گزینوں کی طرف تھا۔ ہمیں مگر اطمینان سے نہیں بیٹھنا چاہیے۔ داعش کے ہمدرد پاکستان میں موجود ہیں اور گذشتہ دنوں جہلم و کراچی سے داعش کے ’’سلیپرز سیل‘‘ گرفتار بھی ہوئے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ موجودہ عہد میں خلافت کا نظام کتنا اور کس قدر کامیاب رہے گا، مگر جو طریقہ کار داعش اور دیگر تکفیریوں نے نام نہاد خلافت کے لئے اپنایا ہے، وہ صرف مسلمانوں ہی نہیں پوری دنیا کے انسانوں کے لئے تباہی کے سوا کچھ بھی نہیں۔
خبر کا کوڈ : 492677
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش