0
Wednesday 21 Oct 2015 20:02

بیعت یزید سے انکار حسینی (ع) کے اسباب

بیعت یزید سے انکار حسینی (ع) کے اسباب
تحریر: ضیاء الافاضل مولانا سید غافر رضوی قمی

اس سے قبل کہ انکار بیعت کے اسباب و علل بیان کئے جائیں، بیعت کے معنی و مفہوم سے آگاہی نہایت ضروری ہے کہ لغوی اعتبار سے بیعت کے کیا معنی ہیں اور اصطلاح میں بیعت کا کیا مفہوم ہے۔ جب ہم بیعت کے حقیقی مفہوم اور معانی کو درک کر لیں گے تو یہ بھی بخوبی واضح ہو جائے گا کہ امام حسین ؑ نے یزید کی بیعت سے کیوں انکار کیا!
بیعت کے لغوی معنی: درحقیقت لفظ ’’بیعت‘‘ عربی لفظ ہے، لغات و قوامیس کے اعتبار سے بیعت کے معنی ’’بیچنا۔ فروخت کرنا‘‘ ہے۔
(۱): مولوی فیروزالدین صاحب نے اس کا ترجمہ اس انداز سے کیا ہے: ’’اطاعت کا عہد کرنا۔ کسی کا مرید بننا۔‘‘
(۲): اسی طرح منتہی الا رب میں بھی بیعت کے معنی ’’عہد و پیمان‘‘ کے لکھے ہیں اور بیعت لفظ باع کا مصدر ہے، جس کے معنی ہیں ’’فروخت کر دیا۔‘‘
بیعت کا اصطلاحی مفہوم
: اصل میں بیعت دو یا چند لوگوں کے درمیان قول و قرار ہے، جس کی بیعت کی جاتی ہے، وہ یہ عہد کرتا ہے کہ جتنے لوگوں نے اس کی بیعت کی ہے، ان لوگوں کی جان، ان کے اموال اور ان کی ناموس غرض ان کی ہر چیز ہر قسم کے نقصان سے محفوظ رہے گی۔
(۳): بیعت کا مفہوم یہ ہے کہ ایک یا چند انسان دوسرے انسان کے ہاتھوں میں اپنا ہاتھ دیتے ہیں، گویا اپنے آپ کو اس کے حوالے کر دیتے ہیں کہ آج سے تم ہی ہمارے آقا و مولا اور سرپرست ہو، ہم تمہاری رعایا ہیں اور تم ہمارے حاکم ہو، آج سے ہم تمہاری اطاعت میں آگئے ہیں۔ آج سے تمہارا ہر حکم ہمارے ہر عمل پر ترجیح کا حامل ہوگا۔ ہمارا سر تمہاری اطاعت میں خم رہے گا۔

(۴): اگر بیعت کے لغوی و اصطلاحی معانی کو جمع کرکے نتیجہ نکالا جائے تو یہ نتیجہ نکلے گا کہ ’’بیعت کرنے والا شخص اپنی ذات کو سامنے والے شخص کے ہاتھوں فروخت کر رہا ہے، اب یہ اس کا اپنا طریقۂ کار ہے کہ کس چیز کے عوض اپنے نفس اور اپنی ذات کو سامنے والے کے حوالے کرتا ہے!‘‘ چونکہ خرید و فروش میں دو فریق میں عہد و پیمان ہوتا ہے اور اس معاملہ میں دو چیزیں (ایک دوسرے کے عوض میں) بیچنے اور خریدنے والے کے درمیان منتقل ہوتی ہیں، لہٰذا اس کے یہ معنی ہوئے کہ طرفین کے درمیان عہد و پیمان اور دو چیزوں کا ایک دوسرے کی طرف منتقل ہونا۔ جس کو قانونی زبان میں ردّ و بدل کہتے ہیں۔ کوئی بھی معاملہ بغیر بدل کے جائز نہیں اور جس معاہدۂ بیع کی بنیاد پر بیعت کو قائم کیا گیا ہے، اس میں بھی یہی شرط ہوتی ہے۔ بیع و شراء قرآن کریم میں اس طرح ذکر ہوا ہے۔ (اور...لوگوں میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو مرضی معبود کے عوض اپنا نفس بیچ دیتے ہیں)۔

(۵): اس بیع و شراء میں دونوں طرف سے حصول بدل ہے۔ ایک فریق نے اپنا نفس بیچا اور دوسرے نے اس کے عوض اپنی رضامندی عنایت کی، لیکن یہ خدا اور بندہ کے درمیان کا معاملہ ہے۔ اگر بادشاہ اور رعایا کے درمیان بھی ہو تو تب بھی قانون کے تحت انجام پائے گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ فریقین کے عہد و پیمان کے جواز کے لئے ان دونوں کا آزاد ہونا ضروری ہے، اگر جبر و اکراہ آگیا تو پھر عہد و پیمان کی نوعیت بدل جاتی ہے۔ بیعت کی اصل نوعیت اور ماہیت معلوم کرنے سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ اسلام میں حکومت اس عہد و پیمان پر مشتمل ہے، جو رعایا اور حاکم کے درمیان ہوتا ہے، حاکم وعدہ کرتا ہے کہ میں تمہارے اوپر شریعت اور سنت رسول کے مطابق حکومت کرونگا اور رعایا اقرار کرتی ہے کہ اگر تم نے احکام خدا و رسول کے مطابق عمل کیا تو ہم تمہارے ہر ایک حکم کی اطاعت کرینگے، گویا یہ اطاعت بادشاہ کے اسلامی طرز عمل پر موقوف ہے، لیکن حکومت کا یہ تخیل اسلام کے علاوہ کسی اور مذہب میں نہیں پایا جاتا۔ دیگر قوانین میں حکومت کی بنا طاقت و جبر پر ہوتی ہے۔

اسلامی حکومت کا سنگ بنیاد رضایت خدا اور مذہب الٰہی ہے، یعنی اسلامی بادشاہ کو یہ اجازت نہیں کہ عوام کے کاندھوں پر اپنی من مانی تھونپے بلکہ اسے حکم خداوندی کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے پھونک پھونک کر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے، تاکہ عوام الناس کے ذہنوں میں کسی قسم کا کوئی خدشہ نہ پیدا ہونے پائے اور وہ آرام کے ساتھ اس کی اطاعت میں سر تسلیم خم رکھیں۔ اگر ایک اسلامی بادشاہ حکم خداوندی کی مخالفت کرے اور جن لوگوں نے اس کی بیعت کی ہے، ان لوگوں پر اپنی مرضی تھوپنے کی کوشش کرے تو اس صورت میں بدامنی پھیلنے کا اندیشہ ہے، کیونکہ عوام بغاوت کرے گی، جس کے سبب اس کی حکومت کے پائے لرز جائیں گے اور اس کو نالائق، نامعقول، ظالم اور جابر جیسے خطابات سے نوازا جائے گا۔

اسی تناظر میں بیعت یزید سے انکار حسینی ؑ کے اسباب کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو اچھی طرح واضح ہو جائے گا کہ امام حسین ؑ نے یزید کی بیعت سے کیوں انکار کیا!، آخر اس کے اسباب و علل کیا ہیں!، کیا امام حسین ؑ یزید کو بادشاہ وقت اور حاکم اسلامی کے عنوان سے قبول نہیں کرتے تھے؟ کیا یزید حکومتی امور کو بحسن و خوبی انجام نہیں دے رہا تھا؟ ان تمام باتوں کو سمجھنے کے لئے امام حسین ؑ کے خطبات اور یزیدی حکومت کے نشیب و فراز کا مطالعہ نہایت ضروری ہے۔ جب امام حسین ؑ کو دربار ولید میں طلب کیا گیا کہ یزید کی بیعت کریں تو آپ ؑ اپنے ہاشمی سورماؤں کی ہمراہی میں دربار ولید کی جانب گامزن ہوئے، لیکن دربار کے نزدیک پہنچنے کے بعد نوجوانوں سے فرمایا: تم سب دروازے پر ٹھہرے رہو، اگر تم یہ محسوس کرو کہ میری آواز بلند ہوگئی ہے تو فوراً دربار میں داخل ہو جانا۔ تمام نوجوانوں نے حکم امام ؑ کے سامنے سرتسلیم خم کیا اور آپ ؑ دربار میں داخل ہوئے... آپ ؑ سے بیعت کا مطالبہ کیا گیا تو آپ ؑ نے جواب دیا: ’’مثلی لا یبایع مثلہ‘‘ مجھ جیسا اس جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا۔

امام حسین ؑ کے اس تاریخ ساز جملہ نے یزیدی دنیا میں تہلکہ مچا دیا، کیونکہ امام (ع) کا یہ جملہ صرف حسین ؑ و یزید کے درمیان موقوف نہیں رہا تھا، بلکہ آپ (ع) نے رہتی دنیا تک کے لئے یہ پیغام دیا تھا کہ حسینی مزاج یزیدی مزاج کی بیعت گوارا نہیں کرسکتا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ خدا کے صالح اور نیک بندے، شیطان صفت فرد سے اپنے ضمیروں کا سودا کریں۔ جب یہ تلخ حقیقت شیطانی کانوں میں پہنچی تو ایک شیطان نے بڑھ کر مشورہ دیا کہ ابھی موقع ہے، اگر حسین ؑ بیعت نہیں کر رہے ہیں تو حسین ؑ کا سر قلم کر دے، جب یہ مکروہ آواز، امام حسین ؑ کے گوش مبارک سے ٹکرائی تو امام حسین ؑ کی پیشانی پر بل پڑگئے اور آستین الٹتے ہوئے فرمایا: ’’أتقتلنی یابن الزرقاء‘‘ اے چشم نیلگوں ماں کے بیٹے کیا تو مجھے قتل کرے گا!!!۔ امام ؑ کی آواز کا بلند ہونا تھا کہ تمام ہاشمی جوان آستین الٹتے ہوئے ولید کے دربار میں برہنہ شمشیروں کے ساتھ داخل ہوگئے، نزدیک تھا کہ خون کی ندیاں بہہ جائیں، لیکن امام ؑ نے ان سورماؤں کو اپنی آنکھوں کے اشارہ سے روک دیا، امام حسین ؑ نے بیعت یزید سے کیوں انکار کیا؟ اس کے اسباب سمجھنے کے لئے یزید کی زندگی کا مطالعہ نہایت ضروری ہے، پہلے تاریخی اعتبار سے یزید کا کردار دیکھنا ہوگا کہ وہ اسلامی حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے کے قابل تھا یا نہیں۔؟

تاریخ کے آئینہ میں یزید کا کردار:
مشہور و معروف مورخ ’’ابن کثیر دمشقی‘‘ نہایت متعصب مورخ ہے اور ان لوگوں میں سے ہے جو یہ کہتے ہیں کہ حسین ؑ یزید سے لڑنے کے لئے گئے تھے، وہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہے: یزید شراب پینے اور رقص و سرور اور شکار میں منہمک رہنے میں شہرت پاچکا تھا، وہ رنڈیوں اور لونڈیوں کی صحبت پسند کرتا تھا، کتوں اور بندروں کے ساتھ کھیلتا تھا، مینڈھوں اور مرغوں کی لڑائی کا شائق تھا، کوئی صبح ایسی نہیں ہوتی تھی کہ وہ شراب سے مخمور نہ اٹھے، بندر کو علماء کے کپڑے پہنا کر، گھوڑے پر بٹھا کر بازاروں میں پھراتا تھا، بندروں کو سونے اور چاندی کے ہار پہناتا تھا اور جب کوئی بندر مرتا تھا تو اس کے غم میں رنجیدہ ہوتا تھا۔

(۶): اسی طرح دوسرے مورخین نے بھی یزید کے مکروہ چہرے سے نقاب اٹھاتے ہوئے اس کی رکیک حرکتوں کا تذکرہ کیا ہے، ان تمام حرکتوں کو انکار بیعت کے اسباب شمار کرسکتے ہیں، لیکن بہتر یہ ہے کہ خود امام حسین ؑ کی زبانی بیان کئے ہوئے اسباب پر نظر کی جائے اور ان کو دوربین نگاہوں سے دیکھا جائے۔ خود امام حسین ؑ جب دربار ولید میں پہنچے اور ولید نے آپ ؑ سے یزید کی بیعت طلب کی تو آپ ؑ نے بیعت سے انکار کرتے ہوئے ساتھ ہی ساتھ اس انکار کے اسباب بھی بیان فرمائے، آپ ؑ نے فرمایا: ’’یزید رجل فاسق، شارب الخمر، قاتل النفس المحترمۃ، معلن بالفسق، و مثلی لا یبایع مثلہ‘‘۔ یزید، فاسق شخص ہے، شراب خوار ہے، بے گناہوں کا قاتل ہے، کھلے عام فسق و فجور کا مرتکب ہوتا ہے اور مجھ جیسا اس جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا۔

(۷): یوں تو یزید کی رکیک حرکتیں معتبر کتب میں کافی مقدار میں بیان ہوئی ہیں، لیکن مروج الذہب کے مطابق، جو گفتگو امام حسین ؑ نے ولید سے کی ہے، اس میں انکار بیعت کے چار اسباب بیان کئے ہیں، جن میں سے ہر ایک سبب کی مختصر وضاحت ضروری ہے۔
انکار بیعت کا پہلا سبب: یزید فاسق شخص ہے، امام حسین ؑ نے سب سے پہلا سبب یہ بیان کیا ہے کہ میں یزید کی بیعت اس وجہ سے نہیں کرسکتا کیونکہ وہ فاسق ہے، فسق ایک ایسی صفت ہے جو قرآن کریم اور احادیث نبوی ؐ میں مذموم قرار پائی ہے، قرآن میں مادّۂ فسق تقریباً ۵۴ بار استعمال ہوا ہے، لیکن کسی بھی مقام پر مدح و ستائش نہیں ہوئی بلکہ ہر مقام پر مذموم قرار پایا ہے۔ فسق کا ظاہری اثر یہ ہے کہ فاسق انسان قابل ہدایت نہیں ہوتا، جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے، (بے شک خداوند عالم، فاسقین کی ہدایت نہیں فرماتا۔

(۸): یوں تو قرآن کریم میں فسق کے آثار و نتائج اور بھی بیان ہوئے ہیں لیکن ہم ان سب آثار سے غض نظر کرتے ہوئے صرف اسی اثر (عدم ہدایت) پر بحث کرتے ہیں۔ جو انسان شقی القلب ہو جائے اور اس کی ہدایت کے تمام راستے بند ہو جائیں، کیا یہ ممکن ہے کہ وہ دوسرے لوگوں کی ہدایت کرسکے؟ جی نہیں! منطقی قانون ہے کہ ’’فاقد شئے معطی شئے نہیں ہوسکتا‘‘ یعنی جو شخص کسی صفت سے خالی ہو، وہ شخص دوسرے شخص کو اس صفت سے مزین نہیں کرسکتا۔ حاکم اسلامی کی اہم ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری یہ بھی ہے کہ امت مسلمہ کو راہِ ہدایت پرگامزن رکھے، اس کو کسی بھی لمحہ راہِ مستقیم سے نہ بھٹکنے دے، جو شخص خود ہی راہِ ہدایت سے منحرف ہو، وہ دوسرے لوگوں کو راہِ ہدایت پر کیسے گامزن رکھے گا!۔ یہی وجہ تھی کہ امام حسین ؑ نے بیعت یزید سے انکار کر دیا کہ یزید ... اسلامی حاکم بننے کا مستحق نہیں ہے۔

انکار بیعت کا دوسرا سبب
: یزید شراب خوار ہے: فقہی اعتبار سے شراب، ایسی نجس چیز ہے کہ اگر یہ لباس پر گر جائے تو اس لباس میں نماز باطل ہے، یعنی یہ ایسی چیز ہے کہ حرام ہونے کے ساتھ نجس بھی ہے۔
(۹): شراب کی نجاست خود قرآن کریم سے بھی ثابت ہے، جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے: (اے صاحبان ایمان! شراب، جوا اور بت... نجس ہیں اور یہ سب شیطانی عمل ہیں...
(۱۰): قرآن کریم میں شراب کی حرمت پر صراحتاً آیت موجود ہے، جو اس کے حرام ہونے پر دلالت کرتی ہے، ارشاد ہوتا ہے: (اے میرے رسول! وہ لوگ تم سے شراب اور جُوے کے متعلق سوال کرتے ہیں تو ان سے کہہ دیجئے کہ یہ دونوں چیزیں گناہانِ کبیرہ ہیں، ان دونوں چیزوں میں لوگوں کے لئے منافع بھی ہے، لیکن گناہ کے مقابل منافع بہت کم ہے۔
(۱۱): ڈاکٹری اور حکمت کے اعتبار سے شراب ایسی مہلک شئے ہے، جو انسان کے گُردے اور پھیپھڑوں کو بیکار کر دیتی ہے، خونی فساد، خون کی روانی میں کمی، رعشہ، کینسر، فالج، زخم معدہ، ویٹامین کی کمی، جنونی کیفیت اور عقل کا زائل ہونا جیسے امراض کا سرچشمہ شراب ہی کو قرار دیا گیا ہے۔

(۱۲): شراب کے نشہ میں چور انسان اپنا آپ کھو بیٹھتا ہے، اس کی عقل زائل ہو جاتی ہے، جس کی وجہ سے اپنے اور بیگانہ میں کوئی فرق محسوس نہیں کر پاتا، اس صورت میں وہ اپنی ماں، بہن، بیٹی اور دیگر محرمات کے ساتھ جنسی رابطہ برقرار کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا، جس انسان کو خود اپنا ہوش نہ ہو، جو اپنے خانوادہ کو خوشحال زندگی نہ دے سکے، اس سے یہ امید کیسے کی جائے کہ وہ پوری قوم کی رہنمائی کرسکتا ہے!، جو شخص اعلاناً حکم خداوندی کی مخالفت کرتا ہو، محرمات الٰہی کو حلال اور حلال الٰہی کو حرام قرار دے، اس کو حاکم اسلامی بننے کا حق نہیں ہے۔ یہی وجہ تھی کہ امام حسین ؑ کے انکار بیعت کا ایک سبب یزید کا شرابی ہونا ہے۔ آپ ؑ نے فرمایا کہ جو شخص حلال خدا کو حرام اور حرام خدا کو حلال شمار کرے، جو ہر وقت اپنے وجود کو شراب میں غرق رکھے، اسے یہ حق نہیں کہ اسلامی مملکت کی باگ ڈور سنبھالے۔ لہٰذا میں یزید کی بیعت نہیں کرونگا، کیونکہ وہ شرابی ہے اور شرابی شخص اسلام کی حفاظت نہیں کرسکتا، بلکہ حاکم اسلامی کو یاد خدا میں غرق ہونا چاہئے۔

انکار بیعت کا تیسرا سبب: یزید بے گناہوں کا قاتل ہے، اسلامی اعتبار سے قتل کا حکم یہ ہے: (ہم نے یہ مقرر کر دیا ہے کہ نفس کے بدلہ میں نفس، آنکھ کے بدلے میں آنکھ، ناک کے بدلے میں ناک، کان کے بدلہ کان، دانت کے بدلہ دانت اور معمولی زخموں پر قصاص ہے...
(۱۳): خداوند عالم دوسرے مقام پر بندگان خدا کی صفت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے: (اللہ کے بندے وہ ہیں جو اپنی ہوائے نفس کی خاطر کسی بے گناہ انسان کو قتل نہیں کرتے۔
(۱۴): اور بے گناہ انسان کے قاتل کی سزا بہت زیادہ سنگین ہے، احادیث میں ایک بے گناہ انسان کا قتل، پوری امت کے قتل سے تعبیر کیا گیا ہے، اسی وجہ سے اس گناہ کو گناہ کبیرہ شمار کیا جاتا ہے۔ صرف ایک بے گناہ انسان کا قتل پوری قوم کے قتل کے برابر ہے تو بے شمار بے گناہوں کا قتل کرنا کتنا سنگین گناہ ہوگا! اور یہ رکیک حرکت یزید کے وجود میں پائی جاتی تھی کہ وہ محترم اور بے گناہ شخصیتوں کا قتل کرتا تھا۔ امام حسین ؑ نے یزید کا چہرہ دنیا کو دکھاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ یزید، محترم اور بے گناہوں کا قاتل ہے، لہٰذا میں اس کی بیعت نہیں کرونگا، حاکم اسلامی کا فریضہ یہ ہوتا ہے کہ امت اسلام کو ہر قسم کے خطرات سے محفوظ رکھے، لیکن اگر حاکم ہی جان کا دشمن ہو جائے تو پھر امت کہاں جائے!۔ امام ؑ نے یہ آشکار کر دیا کہ یزید جیسے گنہگار کو امت اسلام کی حکومت سنبھالنے کا کوئی حق نہیں ہے، بلکہ امت مسلمہ کا حاکم وہ ہوگا، جو اس کی حفاظت کرسکے۔

انکار بیعت کا چوتھا سبب: یزید کھلم کھلا فسق و فجور کا مرتکب ہوتا ہے: فاسق اس شخص کو کہتے ہیں جو مجمع عام میں گناہوں کا مرتکب ہو، اس کی تفصیلی گفتگو پہلے سبب میں کی جاچکی ہے کہ فسق خداوند عالم کے نزدیک بہت ہی مذموم صفت ہے۔ امام حسین ؑ نے ایسے شخص کی بیعت سے انکار کیا ہے، جو مجمع عام میں لوگوں کی ہتک حرمت کرتا ہے اور کسی بھی گناہ کو گناہ تصور نہیں کرتا بلکہ اپنے لئے باعث فخر سمجھتے ہوئے انجام دیتا ہے اور تمام لوگوں کو اپنے گناہوں پر گواہ بناتا ہے۔ روایات شاہد ہیں کہ وہ گناہ جو مخفیانہ طریقہ سے انجام دیا جائے، وہ کسی حد تک قابل بخشش ہے، لیکن جو سرعام انجام دیا جائے تو اس کے لئے معافی کا کوئی خانہ نہیں ہوتا۔ امام حسین ؑ نے یہ سمجھا دیا، دیکھو جو شخص کھلم کھلا گناہوں کا مرتکب ہوتا ہے، وہ اسلامی حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے کا مستحق نہیں ہے، کیونکہ اگر خود حاکم ہی گناہوں میں مبتلا ہوگا تو پھر امت کا کیا ہوگا، یہی وجہ تھی کہ آپ ؑ نے فرمایا: ’’علیٰ الاسلام السلام اذا بُلِیَتِ الامۃ بِرَاعٍ مِثْلَ یَزِید‘‘ ایسے اسلام پر دور سے سلام، جس کا حاکم یزید جیسا فاسق و فاجر ہو۔

(۱۵): جی ہاں! امام حسین ؑ نے مختلف مقامات پر انکار بیعت کے مختلف اسباب بیان فرمائے ہیں، جن میں چار اسباب کی توضیح دی گئی کہ میں نے یزید کی بیعت سے کیوں انکار کیا ہے!۔ ان اسباب کے علاوہ یزید کے وجود نحس میں جُوا، بندر کا کھیل اور مرغوں کا مقابلہ وغیرہ جیسی بہت سی صفات پائی جاتی تھیں، جو اسلامی حاکم کے شایان شان نہیں ہیں اور ان رکیک صفات کو امام حسین ؑ کی جانب سے انکار بیعت کے اسباب میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ صرف یہی نہیں کہ آپ ؑ نے یزید کی بیعت سے انکار کیا بلکہ آپ ؑ نے مختلف مقامات پر یہ بھی واضح کیا کہ اسلامی باگ ڈور سنبھالنے کا حقدار یزید نہیں بلکہ ہم آل رسول ؐ ہیں، جیسا کہ آپ ؑ نے لشکر حر کو خطاب کرتے ہوئے ایک خطبہ میں ارشاد فرمایا: ’’ایھا الناس! انا ابن بنت رسول اللہؐ، ونحن اولیٰ بولایۃ ھذہ الامور علیکم من ھوٓلاء المدعین ما لیس لھم‘‘ اے لوگو! میں بنت رسول کا بیٹا ہوں، ہم لوگ ان امور (امور زعامت، ریاست اور خلافت) میں تم پر ان لوگوں سے زیادہ حق رکھتے ہیں، جو بے بنیاد حکومت کا دعویٰ کر رہے ہیں۔

(۱۶): جب آپ ؑ ولید سے خطاب کرتے ہوئے انکار بیعت کے اسباب بیان کر رہے تھے تو آپ ؑ نے آخر کلام میں ایسا تاریخ ساز جملہ ارشاد فرمایا کہ دنیائے یزیدیت میں زلزلہ آگیا، آپ ؑ نے فرمایا: ’’مثلی لا یبایع مثلہ‘‘ مجھ جیسا یزید جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا۔ اگر آپ ؑ یہی فرما کر خاموش ہو جاتے کہ میں یزید کی بیعت نہیں کروں گا تو مورخ کو یہ لکھنے کا موقع مل جاتا کہ ایک شاہ نے دوسرے شاہ کی بیعت سے انکار کیا تھا، لیکن امام حسین ؑ نے اس کا سدّباب کر دیا اور فرمایا کہ انکار بیعت شاہانہ بل بوتہ پر نہیں ہے بلکہ یہاں مزاج کو پرکھا جا رہا ہے کہ کون سا مزاج رحمانی ہے اور کون سا مزاج شیطانی ہے!۔ آپ ؑ نے مورخ کو یہ لکھنے پر مجبور کر دیا کہ حسین (ع) نے بیعت یزید سے انکار نہیں کیا بلکہ حسینی مزاج نے یزیدی مزاج کی بیعت سے انکار کیا ہے۔ قیام قیامت تک کے لئے یہ جملہ محفوظ رہ گیا کہ کوئی بھی حسینی مزاج یزیدی مزاج کے ہاتھوں میں اپنا ہاتھ نہیں دے سکتا۔

حوالہ جات:
(۱) قاموس اللغۃ؛ مفردات راغب؛ لسان العرب؛ تاج العروس؛ المنجدعربی وفارسی؛ کتاب العین، مادّہ باع کے ذیل میں۔
(۲) فیروزاللغات: ص۱۴۸، جدید ایڈیشن چھوٹا سائز)۔
(۳) مقدمہ ابن خلدون۔
(۴) آیۃ اللہ میلانی:http://www.al-milani.com/farsi/library/lib-pg.php?booid=2&mid=4&pgid=79)۔
(۵) سورۂ بقرہ؍۲۰۷۔
(۶) البدایہ والنہایہ فی التاریخ الجز الثامن: ص ۵۳۲۔ البلاغ المبین: محمد سلطان مرزادہلوی،حصہ۲، ص۸۸۶۔
(۷) مروج الذھب: ج۳، ص۶۷۔
(۸) سورۂ توبہ؍۲۴۔
(۹) من لا یحضرہ الفقیہ: ج۴، ص۵۶؛ توضیح المسائل مراجع: ج۲، ص۶۸۰، مسئلہ۱۱۔
(۱۰) سورۂ مائدہ؍۹۰۔
(۱۱) سورۂ بقرہ؍۲۱۹۔
(۱۲) مضرات شراب از نظر علمی http://islami-islami.blogfa.com/post/10/۔
(۱۳) سورۂ مائدہ؍۴۵۔
(۱۴)سورۂ فرقان؍۶۷۔
(۱۵) http://www.shia12.org/ar/moharam.asp۔
(۱۶)فتوح ابن اعثم: ج۵، ص۳۱ و ۷۸؛ مقتل خوارزمی: ج۱، ص۱۹۶۔
خبر کا کوڈ : 492726
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش