0
Wednesday 21 Oct 2015 21:46

عزاداری خدا پسند یا من پسند؟

عزاداری خدا پسند یا من پسند؟
تحریر: سجاد حسین اسکردو

دین نام ہے ان عقائد اور اعمال کا جنہیں اللہ تعالٰی نے بندوں کی ہدایت اور نجات کے لیے انبیاء (ع) کے ذریعے نازل فرمایا، لہٰذا ہر وہ عمل عبادت ہے جو اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے انجام دیا جائے اور اس عمل کے کرنے کا حکم اللہ، رسول اللہ (ص) اور آئمہ اطہار (ع) نے دیا ہو اور اس کو بجا لانے کا طریقہ بھی وہی درست ہے، جسے اللہ کے حکم سے اللہ کے رسول (ص) اور آئمہ ہدٰی نے امت کو سکھایا ہو، کیونکہ اللہ تعالٰی کا حکم ہے:
ما اتاکم الرسول فخذوہ و ما نھاکم عنہ فانتھوا (حشر: ۷)
یعنی رسول تمہیں جو کچھ دیں، اسے اپنا لو اور جس سے روک دیں، اس سے رک جاؤ۔
اس کے علاوہ فرمایا گیا ہے کہ
اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول و اولی الامر منکم (نساء:۵۹)
یعنی اللہ کی اطاعت کرو نیز رسول کی اطاعت کرو اور اولو الامر کی اطاعت کرو۔
اسی طرح
و من یطع الرسول فقد اطاع اللہ (نساء: ۸۰)
جو رسول کی اطاعت کرے تو اس نے اللہ کی اطاعت کی۔ اللہ کے رسول (ص) نے فرمایا: ’’میں تمہارے درمیان دو گرانبہا چیزوں کو اپنا جانشین بنا کر جا رہا ہوں، ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری عترت اہل بیت (ع)۔ یہ دنوں ہمیشہ ساتھ رہیں گی، یہاں تک کہ کوثر پر دونوں ایک ساتھ میرے پاس حاضر ہوں گی۔ تم میری عترت سے نہ آگے بڑھو نہ پیچھے رہو، ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے۔‘‘ لہٰذا اگر ہم دین کے نام پر کوئی ایسا عمل انجام دیں، جس کا اللہ، رسول اللہ (ص) اور آئمہ ہدیٰ نے حکم نہ دیا ہو بلکہ اپنی ذاتی پسند و ناپسند یا علاقائی رسم و رواج یا سیاسی، مذہبی شخصیات کے ذاتی رجحان کی بناء پر کسی کام کو عبادت سمجھ لیں اور دین کے نام پر اسے انجام دینا شروع کر دیں تو اسی کو بدعت کہا جاتا ہے۔

جیسا کہ اللہ تعالٰی کا فرمان ہے:
و رھبانیۃ ابتدعوھا ما کتبناھا علیھم الا ابتغاء رضوان اللہ فمارعوھا حق رعایتھا فآتینا الذین آمنوا منھم اجرھم و کثیر منھم فاسقون (حدید:۲۷)
اور رہبانیت جیسے انہوں نے خود سے اپنا لی تھی، اسے ہم نے واجب نہیں کیا تھا، مگر یہ کہ وہ اللہ کی رضا مندی حاصل کریں، لیکن انہوں نے اس کی صحیح رعایت نہیں کی، پس ان میں سے ماننے والوں کے لئے ثواب ہے، لیکن ان کی اکثریت احکام خداوندی کی حدود سے تجاوز کرنے والے ہیں۔ اس آیت کریمہ سے یہ بات واضح ہوتا ہے کہ شرعی حدود سے ہٹ کر کوئی ایسا کام کریں، جسے شریعت نے نہ کہا ہو، لیکن ہم اسے عبادت سمجھ کر انجام دیں تو وہی بدعت ہے۔ اگرچہ بظاہر وہ بھلا ہی کیوں نہ لگے۔ امام زمان ارواحنا لہ الفداء کی غیبت کے زمانے میں عادل و بیدار، زمان شناس اسلام دشمن طاقتوں کے مکر و فریب سے آشنا اور دین و ملت کے خلاف ہونے والی ریشہ دوانیوں اور سازشوں سے بخوبی آگاہ، فقہاء و مراجع عظام کے فتاویٰ وہ اہم معیار ہیں، جن کے ذریعے کسی عمل کے بارے میں فیصلہ کیا جاتا ہے کہ وہ شریعت مقدسہ کے مطابق ہے یا نہیں، وہ عمل بدعت ہے یا سنت، کیونکہ عصر غیبت میں وہ معصوم (ع) کی طرف سے ہم پر حجت ہیں اور معصوم (ع) نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم شرعی معاملات میں ان کی طرف رجوع کریں۔

امام حسن العسکری (ع) نے فرمایا:
اما من کان من الفقہاء صائنا لنفسہ حافظا لدینہ مخالفا علیٰ ھواہ مطیعا لامر مولاہ فللعوام ان یقلدوہ و ذالک لا یکون الا بعض فقہاء الشیعۃ (وسائل الشیعہ حدیث ۳۳۴۰۱) فقہا میں سے جو اپنے نفس کو محفوظ رکھنے والا، دین کا نگہبان، خواہشات کی مخالفت کرنے والا اور اپنے مولا اور آقا کے احکام کی اطاعت کرنے والا ہو، تو عوام ان کی تقلید کریں اور صرف شیعہ مجتہدین میں سے بعض ہی ان صفات کے حامل ہوتے ہیں۔
امام زمان عجل اللہ فرجہ الشریف کا فرمان ہے:
اما الحوادث الواقعۃ فارجعوا فیھا الی رواۃ احادیثا فانہم حجتی علیکم و انا حجۃ اللہ علیھم و الراد علیھم کا لراد علینا۔ (وسائل الشیعہ،حدیث نمبر ۳۳۴۲۴) نئے رونما ہونے والے مسائل میں ہماری احادیث بیان کرنے والے فقہاء کی طرف رجوع کرو، کیونکہ وہ میری طرف سے تم پر حجت ہیں اور میں اللہ کی طرف سے ان پر حجت ہوں۔ پس جس نے ان کی بات مسترد کی تو گویا اس نے ہماری بات مسترد کر دی۔ ان آیات و احادیث سے یہ روز روشن کی طرح واضح ہوتا ہے کہ ہر وہ عمل جس کو کتاب خدا، رسول (ص) سیرت آئمہ ہدیٰ (ع) اور مراجع عظام کے فتویٰ کی روشنی میں شرعی جواز حاصل نہ ہو وہ بدعت کہلائے گا، چاہے جس عنوان سے جو بھی شخص انجام دے۔

عزاداری امام حسین (ع) اپنی اصل ماہیت اور فلسفہ وجودی کے اعتبار سے عبادت ہے، کیونکہ یہ شہداء کربلا کی یاد کو زندہ رکھتی ہے، امت کے دلوں میں اسلام کی خاطر ایثار و قربانی کے جذبات کو پروان چڑھاتی ہے۔ جذبہ شہادت کو ہر وقت شعلہ ور اور شمع آزادی کو ہر لمحہ فروزان رکھتی ہے۔ عزاداری کی مجالس و مراسم میں سید الشہداء (ع) اور ان کے اصحاب باوفا کی سیرت طیبہ، اہداف و مقاصد اور ان کی قربانیوں کا تذکرہ ہوتا ہے اور انہیں خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ عزاداری کے نام پر جو کچھ انجام دیتے ہیں اور جو کچھ بیان کیا جاتا ہے، وہ سب کا سب ہر شکل و صورت میں شریعت کے مطابق اور امام عالی مقام (ع) کے اہداف کی ترویج کے لئے مفید ہو بلکہ ممکن ہے کہ زمان گزرنے کے ساتھ ساتھ جاہل دوستوں کے جذبات اور چالاک دشمنوں کی سازشوں کے نتیجے میں کچھ اعمال و رسوم ایسی بھی شامل ہوگئی ہوں، جو شرعی جواز سے عاری ہوں اور امام عالی مقام (ع) اہداف و مقاصد سے متصادم ہوں۔

یہ نہ صرف ایک احتمال ہے بلکہ دین و ملت کے خیر خواہ، قیام حسینی کے عاشق اور دنیا میں دین حقہ کے معاملات کے ماہر علماء و محققین نے بہت سی ایسی باتوں کی نشاندہی بھی کی ہے، جسے ہم امام حسین (ع) کے نام پر بڑی عقیدت و احترام سے قربۃ الی اللہ انجام دیتے ہیں، لیکن وہ نہ صرف شرعی جواز سے عاری ہیں بلکہ دین کی بدنامی اور غیر جانبدار مگر دین کے متلاشی حق جو افراد کو مذہب حقہ سے دور اور متنفر کرنے کا باعث بننے کی وجہ سے حرام ہیں۔ اس حوالے سے درد دین رکھنے والے علماء و معلمین نے بہت سی کتابیں بھی لکھی ہیں، جن میں سے چند ایک بطور نمونہ یہ ہیں:
1۔ جناب آیت اللہ حسین نوری کی آداب اہل منبر
2۔ شہید مرتضٰی مطہری کی حماسہ حسینی اور تحریفات عاشورا
ہمیں امید ہے کہ عاشقان اہل بیت (ع) عزاداری کو خدا پسند اور مفید طور پر منانے کے لئے ان خطوط پر چلنے کی کوشش کریں گے، جنہیں آئمہ اطہار (ع) اور مراجع عظام نے معین فرمایا ہے اور دشمنان اسلام کو کوئی ایسا موقع فراہم نہیں کریں گے، جسے وہ دین حق کے خلاف اسلحہ کے طور پر استعمال کرسکیں۔
خبر کا کوڈ : 492760
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش