0
Sunday 25 Oct 2015 21:05

بلتستان میں عزاداری کی تاریخ (1)

بلتستان میں عزاداری کی تاریخ (1)
رپورٹ: میثم بلتی

ظہورِ اسلام سے قبل اہل بلتستان پہلے زرتشتی مذہب، اس کے بعد بون چوس (تبت کا قدیم مذہب) اور اس کے بعد بدھ مت کے پیروکار تھے۔ بلتستان میں اشاعت اسلام کا سہرا امیر کبیر سید علی ہمدانی کے سر پر ہے، تاہم ان کے بلتستان آنے کے تاریخی شواہد کسی کے پاس نہیں۔ سید علی ہمدانی کے کشمیر آنے کے بارے میں نقل کیا گیا ہے کہ وہ 1373ء میں شاگردوں اور مریدوں کی بڑی تعداد کے ساتھ آئے تھے۔ بعض محققین امیر کبیر سید علی ہمدانی کی بلتستان آمد کا دور 1437ء سے 1446ء بتاتے ہیں اور اسی دور کو بلتستان میں اشاعت اسلام کے ابتدائی دور سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس وقت اسکردو پر غوتہ چو سینگے نامی راجہ حاکم تھا۔ تاہم اس سے قبل 1190ء میں مقپون ابراہیم نامی مسلمان راجہ کا نام بھی ملتا ہے۔ اس راجہ کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ شاید مصر کی طرف سے بھاگ کر بلتستان آیا تھا اور اپنی منفرد شخصیت کی بنا پر یہاں کا حاکم بنا۔ یہی راجہ بلتستان کے معروف راجہ خاندان مقپون کا بانی بتایا جاتا ہے۔ مقپون بوخا کے دور میں (1490ء سے 1515ء) میر شمس الدین عراقی بغرض تبلیغ اسلام اسکردو آئے اور کئی مؤرخین نے اس پر اتفاق کیا ہے کہ اسی دور میں بلتستان میں باقاعدہ اشاعت اسلام ہوئی۔

مقپون بوخا کا بیٹا شیر شاہ خاص طور پر میر شمس الدین عراقی سے متاثر تھا اور اس نے ان کی مریدی اختیار کر لی تھی، بعد میں 1515ء میں جب وہ خود برسر اقتدار آیا تو اس نے اسلامی رسومات کے فروغ اور اشاعت اسلام کے لئے سرکاری وسائل فراہم کئے۔ اسی دور کو بلتستان میں عزاداری کا ابتدائی دور کہا جا سکتا ہے۔ بعد میں بلتستان کے معروف راجہ علی شیر خان انچن (1588ء تا 1625ء) کے دور میں دیگر علوم و فنون اور رسوم و رواج کے ساتھ ساتھ رسمِ عزاداری اور فن شاعری کو بھی عروج ملنا شروع ہوگیا۔ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ میر شمس الدین عراقی نے خاص طور پر تشیع کی تبلیغ کی اور عزاداری کو بھی فروغ دیا۔ اسی نسبت سے یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ بلتی زبان و ادب نے یہاں سے نیا دور شروع کیا۔ اس سے قبل صدیوں سے بلتستان کی زبان بلتی میں شاعری ہو رہی تھی، مگر یہ آزاد شاعری تھی۔ اس شاعری کو مقامی زبان میں "خلو" کہا جاتا ہے، جو آج کل غزل کے لئے مستعمل ہے۔ بلتی زبان بلتستان، کرگل لداخ، بھوٹان، سکم اور شمالی نیپال میں مختلف بولیوں کی شکل میں بولی جاتی ہے، جبکہ بھارت کے بعض شہروں اور چین کے چار مختلف صوبوں میں بھی اس زبان کے بولنے والوں کی کچھ تعداد کی موجودگی کا بتایا جاتا ہے۔ اس زبان کا رسم الخط 632ء میں اس وقت کے راجہ کے حکم پر تھونمی سامبھوتہ نامی ایک شخص نے ہندوستان جا کر سنسکرت کے مطالعہ کے بعد وضع کیا۔ اس کی ہندی کی طرح کی لکھائی ہے اور بائیں سے دائیں لکھا جاتا ہے۔

اشاعت اسلام تک یہ زبان اور رسم الخط پورے تبت میں رائج تھا اور اس کا ادبی ذخیرہ بھی مشترکہ تھا، مگر تبلیغ اسلام کے ساتھ ہی بلتی زبان نے تبت سے الگ ہو کر اپنا الگ سفر شروع کیا۔ بہت جلد لوگوں نے اس زبان کے رسم الخط کو بھی بدھ مت کی نشانی سمجھ کر ترک کرنا شروع کر دیا، جس کی وجہ سے یہ زبان بےقاعدگی کا شکار ہوگئی اور اس نے زبان کی سطح سے گر کر بولی کی حیثیت اختیار کرلی۔ بعد میں فارسی رسم الخط کو بلتی زبان کے لئے استعمال کیا جانے لگا۔ رسم الخط کے متروک ہو جانے کے باعث بلتی زبان کا ادبی سرمایہ بھی ضائع ہوگیا۔ اسی سبب 1840ء تک کے بلتی شعر و ادب کا مستند ریکارڈ دستیاب نہیں، البتہ 1736ء اور 1776ء کے دور کی کچھ فارسی، بلتی تصانیف دستیاب ہیں، تاہم یہ طے ہے کہ اس دوران یہاں کی شاعری اپنا سفر طے کرتی رہی۔ اشاعت اسلام کے بعد بلتی زبان کی بہت سی ادبی اصطلاحات کی جگہ فارسی زبان کی اصطلاحات نے لے لی۔ پہلے پہل بلتی غزل (خلو) کو مقامی اسلامی اصطلاح کے مطابق ”خدا پی خلو“ کہا گیا، اسی طرح نعت کو ”رسول پی خلو“ اور منقبت کو” امام پی خلو“ کہا جانے لگا۔ 1840ء میں جب ڈوگرہ فوج کے ہاتھوں اسکردو کی سلطنت کا خاتمہ ہوا تو یہاں کی شاعری نے بھی کروٹ بدلی اور اپنے سنہرے دور کا آغاز کیا۔ اس سے قبل یہاں کی شاعری زیادہ تر لوک گیتوں تک محدود تھی، تاہم ان لوک گیتوں میں ہر قسم کے موضوعات کو شامل کیا جاتا تھا۔ 1840ء میں اسکردو پر مقپون احمد شاہ حکومت کرتا تھا اور بعض بزرگوں کے مطابق اسی دور میں اسکردو میں امام بارگاہ کلاں کے نام سے پہلی امام بارگاہ بنی، جس کے بعد امام بارگاہ لسوپی اور امام بارگاہ کھرونگ تعمیر ہوئیں۔ پہلی امام بارگاہ کی تعمیر کے ساتھ ہی باقاعدہ عزاداری کا سلسلہ شروع ہوا اور امام بارگاہ سے تعزیے کا جلوس برآمد ہونے لگا۔ اس سے قبل مجالس حکمرانوں کے درباروں میں ہوتی تھیں۔

بتایا جاتا ہے کہ مقپون راجاؤں نے عزاداری کے فروغ کے لئے ہر طرح کے وسائل فراہم کئے اور بہت سارے علماء و ذاکرین اور شعراء کو اسی مقصد کے لئے جاگیریں عطا کر دیں۔ دستیاب تاریخ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جس وقت ڈوگروں نے اسکردو کی حکومت کا نظم و نسق اپنے ہاتھوں لیا تو روز عاشور کے جلوس پر انہوں نے کسی قسم کی پابندی عائد نہ کی بلکہ انہوں نے عزاداری کے لئے خصوصی سہولیات فراہم کیں۔ بتایا جاتا ہے کہ جب جلوسِ عزا امام بارگاہ کلاں کے نزدیک پہنچتا تھا تو ڈوگرہ فوج کا ایک خصوصی دستہ تعزیہ اور عَلم کو سلامی (گارڈ آف آنر) پیش کرتا تھا اور جلوس کے اختتام تک احتراماً اپنی سنگینوں کو سرنگوں رکھتا تھا۔ آزادی کے بعد بھی کافی عرصہ تک پاکستانی فوج عزاداری کے لئے خصوصی سہولیات فراہم کرتی رہی۔ آزادی کے بعد اسکردو میں متعین ہونے والے فوجی یونٹ چھاؤنی سے اپنا الگ ماتمی دستہ بھی نکالتے تھے۔ 1840ء میں ڈوگرہ فوج کے ہاتھوں قید ہونے والے اسکردو کے آخری راجہ احمد شاہ مقپون کے چار بیٹے حسین علی خان محب، لطف علی خان عاشق، ملک حیدر بیدل اور امیر حیدر مخلص نے کشمیر میں قید اور نظر بندی کے دوران بےمثال شاعری تخلیق کی۔ بعد میں لطف علی خان عاشق کے فرزند محمد علی خان ذاکر نے بھی شاعری شروع کی۔ محب اور ذاکر کو آج بھی بلتستان میں رثائی ادب کے حوالے سے انیس اور دبیر کا درجہ حاصل ہے۔ ان شعراء نے دیگر موضوعات کے علاوہ خصوصی طور پر بلتی ادب کے دامن کو نوحہ، مرثیہ اور منقبت کی دولت سے مالا مال کر دیا۔ بعد میں حیدر خان حیدر، مراد خان اماچہ، بوا عباس، بوا جوہر، اخوند خدایار، سلطان شاہ، حاتم خان حاتم، ظفر علی خان ظفر، بوا اسفندیار، راجہ محمد علی شاہ بیدل، اخوند حسین، اخوند حسن، محمد علی خان واحد، بوا شجاع، غلام مہدی مرغوب سمیت بے شمار شعراء نے نوحوں سمیت دیگر کئی اصناف میں بلتی شاعری کے حسن میں اضافہ کیا۔ آج بھی بلتستان میں راجہ محمد علی شاہ صبا، غلام حسن حسنی، غلام مہدی شاہد سمیت کئی شعراء شاندار بلتی شاعری تخلیق کر رہے ہیں۔
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 492778
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش