0
Wednesday 21 Oct 2015 21:30

حسینؑ ۔۔۔ چرخِ نوعِ بشر کے تارے

حسینؑ ۔۔۔ چرخِ نوعِ بشر کے تارے
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com


ظلم انسانی فطرت سے سازگار نہیں۔ جب ضمیر مر جاتا ہے تو انسان ظلم کی بیساکھیوں کا سہارا لینا شروع کر دیتا ہے۔ ظلم فقط کسی کو ناحق مار دینے کا نام نہیں بلکہ چیونٹی کے منہ سے ایک دانہ چھین لینے کا نام بھی ظلم ہے اور حق بات کو تعصب، ضد اور ہٹ دھرمی کے باعث نہ ماننا بھی ظلم ہے۔ 61 ہجری میں ماہ محرّم کی دسویں تاریخ کو سرزمین کربلا پر تاریخ بشریّت کا ایک ایسا انوکھا واقعہ رونما ہوا، جس نے مقتول کو قاتل پر، مظلوم کو ظالم پر، پیاسے کو سیراب پر، اسیر کو آزاد پر اور محکوم کو حاکم پر غلبہ عطا کر دیا۔ یہ واقعہ اس لئے بھی انوکھا تھا کہ بظاہر صحرا کے وسط میں پیش آیا تھا اور حکام وقت کے منصوبے کے مطابق اسے وہیں پر دفن ہوجانا چاہیئے تھا، لیکن یہ واقعہ دفن ہونے کے بجائے ہر روز زندہ اور روشن تر ہوتا جا رہا ہے۔ یوں تو تاریخ عرب جنگوں سے بھری پڑی ہے، لیکن ان جنگوں میں اور اس معرکے میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ وہاں ظاہری اعداد و شمار اور غلبے کو فتح کا معیار سمجھا جاتا تھا، جبکہ یہاں ظاہری قلت کو حقیقی فتح کا درجہ حاصل ہے، یہاں بظاہر مر جانے والا درحقیقت فاتح ہے۔ ارباب فکر کے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ آخر وہ کونسی شئے ہے، جس نے لاو لشکر کے باوجود یزید کو سرنگوں کر دیا اور تہی دست ہونے کے باوجود امام حسین (ع) عالی مقام کو سربلند بنا دیا۔

ہمارے سامنے تاریخ بشریت دانش مندوں کے کارناموں سے بھری پڑی ہے اور علم و دانش کا سلسلہ اولاد آدم کے درمیان ابتداء آفرینش سے ہی چلتا آرہا ہے، مگر تاریخ بشریّت شاہد ہے کہ کسی بھی دانشور یا مفکّر نے اپنے علم و دانش سے امام حسین (ع) جیسا کام نہیں لیا۔ ممکن ہے کہ کوئی شخص یہ کہے کہ امام حسین (ع) کا قیام ظاہری حکومت کے لئے تھا، چنانچہ امام حسین (ع) عالی مقام کی شہادت کے بعد بنو امیہ کی حکومت کو گرانے کے لئے جو تحریکیں چلیں، انہوں نے خونِ حسین (ع) کے انتقام کا نعرہ لگایا اور ان تحریکوں نے امام حسین (ع) عالی مقام کی شکست کو فتح میں تبدیل کر دیا، لیکن اس ضمن میں ہم یہ عرض کئے دیتے ہیں کہ کیا امامؑ عالی مقام نے جناب محمّد بن حنفیّہ کے نام وصیّت نامے میں طلب حکومت سے انکار نہیں کیا تھا۔؟ کیا امام حسینؑ نے مکّے میں روز عرفہ کو یہ نہیں فرمایا تھا کہ میں فقط امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور اپنے نانا کی امّت کی اصلاح کے لیے نکل رہا ہوں۔؟ اگر امامؑ کا قیام حکومت کے لئے تھا تو خواتین اور بچوں کو کیوں ساتھ لے گئے؟ اگر امامؑ کی کوشش فقط حکومت کے لئے تھی تو جب آپؑ کو سامنے شکست نظر آرہی تھی تو صلح کیوں نہیں کی یا جنگی ساز و سامان کا بندوبست کیوں نھیں کیا؟ اور جو انتقامی تحریکیں اپنے آپ کو زیادہ عرصے تک قائم نہیں رکھ سکیں، وہ امام حسینؑ کو کیا فتح عطاء کر سکتی ہیں۔

یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی شخص یہ کہے کہ یہ دو شہزادوں یا دو خاندانوں یا دو قبیلوں یعنی بنی ہاشم اور بنی امیّہ کی جنگ تھی، چنانچہ بنی ہاشم کی سیاست بنو امیہ پر غالب آگئی اور یہ شکست فتح میں بدل گئی تو اس سلسلے میں ہم یہ کہیں گے کہ کسی انسان کا یہ سوچنا ہی اسلام فہمی سے دوری کی علامت ہے۔ چونکہ جس شخص کو ذرا سی بھی اسلامی معارف سے آگاہی ہو، اس پر یہ واضح ہے کہ امام حسینؑ محبوب رسول اور سردارِ جنّت کا درجہ رکھتے ہیں، لہٰذا حضرت امام حسینؑ سے بغض اور لڑائی کسی شہزادے، قوم یا قبیلے کے ساتھ لڑائی نہیں بلکہ خدا اور رسولؐ کے ساتھ جنگ، کربلا میں ظالم پر مظلوم کی فتح کے حقیقی سبب کو جاننے کے لئے ضرور ہے کہ ہم تحریکِ کربلا کا تحلیلی مطالعہ کریں اور جب ہم تحلیلی مطالعہ کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ امام حسین (ع) عالی مقام نے کتابِ کربلا کے ورق ورق کو اپنے تدبر اور بصیرت کے ساتھ مرتب کیا ہے۔

بلاشبہ کربلا کی عسکری جنگ کا نقشہ یزید اور اس کے حواریوں نے تیار کیا تھا، لیکن کربلا کی فکری جنگ کا نقشہ امام عالی مقام نے تیار کیا۔ آپ نے مدینے میں حاکم مدینہ کی طلب بیعت سے لے کر قیام ِ مکہ تک اور قیامِ مکہ سے لے کر میدان کربلا تک، لمحہ بہ لمحہ واقعات کو حسنِ تدبر کے ساتھ ترتیب دیا ہے۔ حاکم مدینہ کے دربار میں آپ کی گفتگو اور اس کے بعد شہادت تک کے تمام تر خطبات اور واقعات کو سامنے رکھ کر تجزیہ و تحلیل کرنے سے صاف طور پر پتہ چلتا ہے کہ وہ شئے جس نے کربلا کو ایک ابدی فتح میں تبدیل کر دیا وہ امام عالی مقام کا خلوص اور مدبرانہ حکمت عملی تھی کہ جس سے آپؑ نے اس تحریک کو جاویداں بنا دیا۔ آج اگر ہم مسلمان دنیا میں ناکام ہیں تو اسکی ایک اہم وجہ ہمارے درمیان دین کی خاطر فداکاری و جان نثاری سے گریز اور مدبرانہ حکمت عملی کا فقدان ہے۔

مدبرانہ حکمت عملی نہ ہونے کے باعث آج ہم یزیدان عصر اور اسلام دشمن طاقتوں سے ٹکرانے کے بجائے آپس میں ٹکرا رہے ہیں، دین کی خاطر جان نثاری اور فدا کاری کو نہ سمجھنے کے باعث ہمارے جان نثاری کے جذبے سے اسلام دشمن طاقتیں فائدہ اٹھا رہی ہیں اور ہم اپنے ہی ہم وطنوں کو خاک و خون میں غلطاں کر رہے ہیں۔ اگر ملت اسلامیہ خلوص دل کے ساتھ امام حسین (ع) کے نظریہ حرّیت، جانثاری اور آپؑ کی حکمت عملی کے سائے میں یزیدانِ وقت کے خلاف متحد ہوکر اپنی جدوجہد کا آغاز کرے تو دنیا کے کسی بھی خطے میں کوئی بھی باطل قوت مسلمانوں کو شکست نہیں دے سکتی اور ہم آج بھی فاتح بن سکتے ہیں۔ حضرت امام حسینؑ  مسلمانوں کے کسی ایک فرقے کے رہبر یا پیشوا نہیں ہیں، بلکہ دنیا کا ہر غیر متعصب انسان اور باشعور مسلمان خواہ کسی بھی فرقے سے تعلق رکھتا ہو، امام عالی مقام کا معتقد اور محب ہے۔

پس فکر ِامام سے فائدہ اٹھانے اور عصر حاضر میں سیرت امام حسینؑ پر چلنے کا حق بھی تمام مسلمانوں کو یکساں طور پر حاصل ہے۔ عصر حاضر کی کربلا میں ہماری نجات کا روشن راستہ یہی ہے کہ ہم فرقوں، مسالک اور فقہوں سے بالاتر اور غیر جانبدار ہوکر تحریک کربلا پر تحقیق کریں، سنی سنائی باتوں پر چلنے اور لکیر کا فقیر بننے کے بجائے فکر امام حسینؑ کو تجزیہ و تحلیل کے ساتھ پڑھیں اور دوسروں تک بھی آپ کا پیغام پہنچائیں۔ حسینیت ہم سے تقاضا کرتی ہے کہ ہم آپ کے بارے میں حضور اکرم، ختم الرسل حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جو کچھ فرمایا ہے، اس کا خود بھی مطالعہ کریں اور آج کی اس تنگ نظر، متعصب سرمایہ دارانہ، کافرانہ دنیا میں ایک حسینیؑ و اسلامی معاشرے کی تشکیل کے لئے جدوجہد کریں۔ ہمیں مجالسِ امام حسینؑ میں اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ حسینؑ ابن علیؑ سے دنیا کا ہر انسان محبت کرتا ہے اور یزید سے نفرت، چونکہ حسینیت انسانی فطرت سے سازگار ہے جبکہ ظلم اور یزیدیت انسانی فطرت سے سازگار نہیں۔
بقولِ شاعر:
کیا صرف مُسلمان کے پیارے ہیں حُسین
چرخِ نوعِ بَشَر کے تارے ہیں حُسین
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی، ہمارے ہیں حُسین
خبر کا کوڈ : 492781
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش