0
Thursday 22 Oct 2015 13:39

آئیں حسینؑ کا غم مل کر منائیں

آئیں حسینؑ کا غم مل کر منائیں
تحریر: ثاقب اکبر

آئیں امام حسینؑ کا غم مل کر منائیں، اس لئے کہ ہم سب اس رسولؐ کی امت ہیں، حسینؑ جس کے نواسے ہیں، اس لئے کہ امام حسینؑ کا غم واقعۂ کربلا کے وقوع پذیر ہونے سے پہلے خود نبی اکرمؐ نے منایا۔ اس طرح حسینؑ کا غم منانا اور حسینؑ کے غم میں آنسو بہانا پیغمبر اکرمؐ کی سنت ہوگیا۔ امام حسینؑ پیدا ہوئے، جب نبی اکرمؐ کی گود میں آئے تو آپؐ اپنے اس نواسے کو چومتے بھی جاتے تھے اور روتے بھی جاتے تھے۔ حضرت اسماؓء بنت عمیس جو امام حسینؑ کی تائی جان تھیں، نے حیرت سے پوچھا کہ یا رسول اللہ! اللہ نے آپؐکو یہ فرزند عطا فرمایا ہے، آپ اس پر رو کیوں رہے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا کہ یہ میرا بیٹا شہید ہو جائے گا۔

آنحضرتؐ سے مروی احادیث میں یہ بھی ہے کہ آپؐ نے فرمایا کہ جبرائیل میرے پاس آئے ہیں اور انھوں نے بتایا کہ میرا یہ فرزند کربلا میں شہید ہوگا۔ نیز جبرائیل اس سرزمین کی مٹی بھی لے کر آئے ہیں۔ پھر آپؑ نے یہ مٹی ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے سپرد کر دی اور فرمایا کہ اسے سنبھال کر رکھیں، جب حسینؑ شہید ہو جائیں تو یہ مٹی خون بن جائے گی۔ پھر ایک دن آیا جب وہ مٹی خون بن گئی۔ ام سلمہؓ کے دل پر کیا گزری یہ تو وہی جانتی ہیں۔ انھوں نے روز عاشور عصر کے قریب خواب دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے ہیں اور ان کے بال اور ریش مبارک مٹی سے اٹی ہوئی ہے۔ آپؐ نہایت غم زدہ ہیں۔ ام سلمہؓ کہتی ہیں کہ یہ کیفیت مجھ پر بڑی شاق گزری اور میں نے پوچھا: یا رسول اللہؐ! یہ آپ کی کیا حالت ہے تو آپؐ نے فرمایا کہ میں ابھی کربلا سے آرہا ہوں، جہاں میرے حسینؑ کو شہید کر دیا گیا ہے۔

ہاں یہ اُسی حسینؑ کی سوگواری کے دن ہیں، جن کے غم میں سید المرسلینؐ سوگوار ہیں، لہٰذا امت محمدیہؐ کا سوگوار ہونا ایمان کا ایک فطری تقاضا ہے۔ یہ وہی حسینؑ ہیں، جن کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں۔ آپؐ نے یہ بھی فرمایا: حسینؑ ہدایت کا چراغ اور نجات کا سفینہ ہیں۔ آپؐ نے حسنین کریمینؑ کے بارے میں فرمایا کہ حسن اور حسین جوانانِ جنت کے سردار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ساری امت امام حسنؑ اور حسینؑ سے پیار کرتی ہے۔ ساری امت ان کی خوشی میں خوشی اور ان کے غم میں غم کرتی ہے۔ حسنؑ اور حسینؑ سب کے ہیں، اس لئے کہ وہ رب کے ہیں اور رب کے رسولؐ کے پیارے ہیں۔ ان کی محبت پر کسی کی اجارہ داری نہیں۔ اسی لئے ضروری ہے کہ ہم مل جل کر محرم الحرام میں سید الشہداؑ ء کا غم منائیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ محبتوں کی ادائیں مختلف ہوتی ہیں اور محبت مختلف اداؤں سے ظہور پذیر ہوتی ہے۔ اسی لئے امام حسینؑ کی یاد منانے کے لئے پورے عالم اسلام میں اور پوری دنیا میں جہاں جہاں مسلمان ہیں، مختلف انداز سے آپؑ کی یاد منائی جاتی ہے، مختلف طرح سے آپؑ کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے اور مختلف طریقے سے آپؑ کی المناک شہادت پر اظہار غم کیا جاتا ہے۔ یہ ہر معاشرے، علاقے اور قوم کی اپنی اپنی روایات ہیں، وہ اپنے اپنے طریقے سے سیدالشہداؑء سے اپنی قلبی وابستگی کا اظہار کرتی ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم کسی پر اپنے طریقے کو مسلط نہ کریں اور خود بھی ایسا طریقہ اختیار کریں کہ جس سے دوسروں کو کوئی تکلیف نہ پہنچے، اس لئے کہ کوئی گروہ بھی جب امام حسینؑ کی یاد مناتا ہے تو اس کا مقصد نبی کریمؐ اور ان کے اہل بیتؑ سے اپنی محبت اور وفاداری کے اظہار کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ اس لئے اس اظہار کا تمام دوسرے لوگ احترام بھی کریں اور اس محبت کا اظہار کرنے والے بھی دوسروں کا خیال رکھیں۔ یقیناً یہ طرز عمل آنحضرتؐ کی بھی خوشنودی کا باعث بنے گا اور اس پروردگار کی رضا کا بھی جس کی رضا کے لئے ہی سیدالشہداؑ ء نے عظیم الشان قربانی پیش کی ہے۔

ان ایام میں امام حسین علیہ السلام کے قیام اور شہادت کے مقاصد کو پیش نظر رکھنے اور زیادہ سے زیادہ بیان کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ سوال ان دنوں میں زیادہ واضح ہو کر سامنے آنا چاہیے کہ امام حسینؑ نے یزید کی بیعت کیوں نہیں کی۔ نیز یہ بھی جاننے کی ضرورت ہے کہ آخر ایک امام حسینؑ یزید کی بیعت نہ کرتے تو یزید کو کیا فرق پڑتا تھا۔ یزید نے آخر کیوں اصرار کیا کہ امام حسینؑ اس کی بیعت کریں۔ یہ اصرار اُس خط سے آشکار ہوتا ہے، جو یزید نے اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنے گورنر ولید کو مدینہ میں لکھا، جس میں واضح کیا گیا کہ حسینؑ بیعت نہ کریں تو پھر ان کا سر مجھے ملنا چاہیے۔ امام حسینؑ نے بیعت کے مطالبے میں وہیں پر کہہ دیا تھا کہ مجھ جیسا یزید جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا۔

یزید جس انداز سے برسر اقتدار آیا، اسے امت کے تمام اہل علم و فضل نے مسترد کر دیا۔ اس لئے کہ اس کا اقتدار رسول اسلامؐ کے راستے سے بہت بڑا انحراف تھا۔ پھر یہی وہ یزید تھا جو سرعام حدود الٰہی کو پامال کرتا تھا۔ وہ ناحق قتل کرتا، حلال و حرام کی تمیز اس کے ہاں سے اٹھ گئی تھی، وہ سرعام شراب پیتا، اس نے بندر پال رکھے تھے، جن کے سر پر عمامہ رکھتا اور کھیل تماشوں میں مگن رہتا۔ ایسے میں اس کی یہ بھی خواہش تھی کہ اسے خلیفہ رسول کہا جائے اور امیرالمومنین کہہ کر پکارا جائے۔ وہ امام حسینؑ کی بیعت اس لئے چاہتا تھا کہ اس سارے طرز عمل کی تائید رسول اللہ کے خاندان سے حاصل کرسکے۔ اس نے سارے انسانوں کو گویا اپنا غلام سمجھ لیا تھا۔ اسی لئے امام حسینؑ نے فرمایا: مجھ جیسا یزید جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا۔ یزید نے بیت المال کو اپنا مال سمجھ لیا تھا۔ اس کے نزدیک وہی حق تھا جو وہ سمجھتا تھا، نہ کہ وہ جسے اللہ اور رسولؐ حق قرار دیں۔ اسی لئے امام حسینؑ نے فرمایا کہ ان ظالموں نے مجھے دو چیزوں میں سے ایک کے اختیار کرنے پر مجبور کر دیا ہے، اول یہ کہ میں یزید کی بیعت کروں یا پھر قتل کے لئے تیار ہو جاؤں۔ آپؑ نے فرمایا: ھیھات مناالذلہ یعنی ہمیں ذلت قبول نہیں۔

گویا امام عالی مقامؑ یزید کی بیعت کرنے کو ذلت قبول کرنے کے برابر سمجھتے تھے اور آپؑ یہ جانتے تھے کہ اللہ تعالٰی نے انھیں ایک عزت والے گھرانے میں پیدا کیا ہے۔ اللہ تعالٰی نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا ہے کہ عزت اللہ کے لئے ہے، اس کے رسول کے لئے ہے اور ایمان لانے والوں کے لئے ہے۔ قرآن کا عاشق اور قاری یہ حسینؑ کس طرح سے ذلت قبول کرسکتا تھا۔ انھوں نے اللہ کے راستے میں عزت کی موت کو اختیار کیا اور ذلت ہمیشہ کے لئے یزید کے نام کے ساتھ مختص ہو کر رہ گئی۔ آیئے اس عزت والے پیشوا امام حسینؑ کی یاد مناتے ہوئے ہم پوری دنیا میں عزت سے رہنے کا فیصلہ کریں، ہم یزیدی اور طاغوتی قوتوں کے سامنے سر جھکانے سے انکار کر دیں۔ ہم ہر سامراج اور استکبار و استعمار کے سامنے نہ کہہ دیں۔ پورا عالم اسلام عزت و افتخار کا راستہ اختیار کرے کیونکہ یہی راستہ ہمارے پیشوا نے اختیار کیا اور اس پر کاربند رہنے کے لئے ہر طرح کا ظلم و ستم سہ لیا۔ اگر آج عالم اسلام سیدالشہداء امام حسین ؑ کا راستہ اختیار کرلے تو پھر عزت ہی ہمیں نصیب ہوگی اور اللہ کا وعدہ ہے کہ تمھیں سربلند رہو گے، اگر تم مومن ہو۔
خبر کا کوڈ : 492935
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش