0
Saturday 24 Oct 2015 02:06

عاشورہ کی یاد کو زندہ رکھنا ضروری کیوں؟

عاشورہ کی یاد کو زندہ رکھنا ضروری کیوں؟
تحریر: آیت اللہ محمد تقی مصباح یزدی

کئی صدیاں قبل رونما ہونے والے واقعے کو زندہ رکھنے اور ہر سال اس کی یاد منانے کی کیا ضرورت ہے؟ ہوسکتا ہے یہ سوال کسی کے ذہن میں پیدا ہو۔ تحریر حاضر میں اس انتہائی بنیادی سوال کا جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ ہر انسان اس حقیقت کو اچھی طرح جانتا ہے کہ کسی بھی معاشرے میں ماضی میں رونما ہونے والے واقعات اس معاشرے کے مستقبل اور سمت و سو پر انتہائی گہرے اثرات مرتب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان واقعات کی یاد منانا درحقیقت ان پر تجدید نظر اور ان کی تعمیر نو کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے، تاکہ اس معاشرے کے افراد ان واقعات سے مثبت نکات اخذ کرسکیں۔ اگر ماضی میں رونما ہونے والا کوئی واقعہ اچھا اور مفید ہو تو اس کو زندہ رکھنا انسانی معاشرے کیلئے برکتوں کا باعث بن سکتا ہے۔ اسی طرح اس واقعے کے بارے میں تجدید نظر اور مزید غور و فکر کے بھی بہت اچھے اثرات ظاہر ہوں گے۔ مزید برآں، تمام انسانی معاشروں میں یہ رسم پائی جاتی ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح اپنے ماضی کے واقعات کی یاد تازہ رکھتے ہیں۔ ماضی کے اہم واقعات کو عظیم جان کر ان کا احترام کرتے ہیں۔ چاہے یہ واقعات ایسے اشخاص سے مربوط ہوں، جنہوں نے اپنے معاشرے کی ترقی میں اہم اور موثر کردار ادا کیا ہو، جیسے عظیم محققین اور موجد حضرات، یا ایسے اشخاص سے مربوط ہوں، جنہوں نے اپنی قوم کی آزادی میں اہم سیاسی و سماجی کردار ادا کیا ہو اور قومی ہیرو میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ دنیا کے ہر معاشرے میں ایسے افراد کی یاد کو زندہ رکھا جاتا ہے اور ان کی یاد میں تقریبات منعقد کرتے ہیں۔

یہ اقدام درحقیقت انسان میں موجود انتہائی مقدس فطری امور کا تقاضہ ہے، جو خدا نے ہر انسان میں قرار دیا ہے اور اسے "حق شناسی کا احساس" کہا جاتا ہے۔ ہر انسان میں فطری طور پر اپنے محسنین اور ایسے افراد جنہوں نے اس کے حق میں عظیم کارنامے انجام دیے ہیں، کا شکریہ ادا کرنے اور ان کی قدردانی کرنے کا جذبہ موجود ہے، اگر ماضی کے واقعات انسانی معاشرے کی فلاح و بہبود میں بھی موثر ہوں تو ایسے واقعات کی یاد کو زندہ رکھنا اور بھی زیادہ ضروری ہو جاتا ہے۔ ایسے واقعات کی یاد تازہ کرنے کا مطلب گویا ان واقعات کا ایک بار پھر رونما ہونا ہے، چونکہ ہمارا عقیدہ ہے کہ واقعہ کربلا اسلامی تاریخ کا ایک انتہائی اہم واقعہ ہے، جس کا مسلمانوں کی سعادت اور ہدایت میں بہت ہی اہم کردار بھی ہے، لہذا ہماری نظر میں یہ واقعہ انتہائی قدر و قیمت کا حامل ہے۔ جب ہم اس واقعے کی یاد مناتے ہیں اور اس پر توجہ کرتے ہیں تو اس کے نتیجے میں آج کا معاشرہ واقعہ کربلا کی برکتوں اور معنوی اثرات سے بہرہ مند ہوتا ہے۔

یہاں ایک اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر واقعہ عاشورہ کی یاد کو زندہ رکھنا اس قدر ضروری ہے تو صرف بحث و گفتگو کی حد تک تو بھی واقعہ کربلا کی یاد منائی جاسکتی ہے۔ ایسی صورت میں مجالس عزاداری اور جلوس و ماتم کی کیا ضرورت ہے؟ واقعہ کربلا کی یاد منانا صرف سینہ زنی، گریہ زاری، جلوس اور ماتم داری تک ہی محدود نہیں، خاص طور پر اس وقت جب جلوس و ماتم داری سے اقتصادی نقصان کا خطرہ ہو۔ بازار بند ہونے سے اقتصادی نقصان ہوتا ہے۔ محرم میں عزاداری کیلئے کئی دن چھٹی کرنی پڑتی ہے، جس کے نتیجے میں بازار بند ہو جاتے ہیں اور اس سے ملک کو اقتصادی نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔ جب لوگ رات کو دیر تک عزاداری میں مصروف رہتے ہیں تو اگلے دن ان میں کام کرنے کی سکت نہیں رہتی، جبکہ واقعہ عاشورہ کی یاد منانے کے اور بھی بہت سے راستے ہیں۔ مثال کے طور پر سمینارز، کانفرنسیں، مذاکرے، ٹاک شوز وغیرہ برگزار کئے جاسکتے ہیں۔ کیا ضرورت ہے کہ دو مہینے عزاداری، مجالس، جلوس اور ماتم داری میں مصروف رہیں؟ اگر ایک کانفرنس کم ہے تو اس سلسلے میں کئی کانفرنسیں رکھی جاسکتی ہیں۔

یہ سوال پہلے سوال کی نسبت زیادہ پیچیدہ ہے۔ اس کے جواب میں کہیں گے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ سیدالشھداء امام حسین علیہ السلام کی شخصیت کے بارے میں بحث و گفتگو، تقاریر، مقالات، مذاکرے اور کانفرنسوں کا انعقاد بہت اچھا اور مفید عمل ہے، جو انجام پانا چاہیئے، لیکن کیا ہم واقعہ عاشورہ کی برکتوں سے پوری طرح بہرہ مند ہونے کیلئے صرف اسی حد تک اکتفا کرسکتے ہیں؟ اس سوال کا جواب دینے کیلئے انسان کے مختلف نفسیاتی پہلووں کا جائزہ لینا ضروری ہے اور یہ دیکھنا ضروری ہے کہ وہ کون سے عوامل ہیں جو ہمارے ارادی افعال پر موثر ہیں؟ کیا کسی واقعے کے بارے میں صرف علم حاصل کر لینا ہی انسان کی شخصیت پر اس کے اثر انداز ہونے کیلئے کافی ہے یا اس کے علاوہ کچھ اور عوامل میں درکار ہیں۔؟ جب ہم اپنے ارادی افعال کا مطالعہ کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ ہمارے ارادی افعال پر دو قسم کے عوامل اثر انداز ہوتے ہیں۔ ایک قسم کے عوامل ہمارے علم اور آگاہی سے متعلق ہیں۔ انسان بعض چیزوں کو سمجھتا ہے اور پھر انہیں قبول کرتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان کے افعال پر اس کا علم و آگاہی بہت زیادہ اثر انداز ہوتا ہے، لیکن انسان کے ارادی افعال پر موثر عامل صرف یہی نہیں بلکہ اس کے علاوہ محرکات، رجحانات، احساسات اور جذبات بھی انسانی افعال پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہ وہ اندرونی اور نفسیاتی عوامل ہیں جو انسان کے ارادی افعال پر اثر ڈالتے ہیں۔

جب ہم مطالعے اور تحقیق کے ذریعے اس حقیقت کو درک کر لیتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کی تحریک کس حد تک انسانوں کی ہدایت اور سعادت میں موثر ثابت ہوئی تو یہ علم و آگاہی خود بخود ہمارے اندر عملی اقدامات انجام دینے اور امام حسین علیہ السلام کے نقش قدم پر چلنے کا جذبہ پیدا نہیں کرتی، بلکہ عملی طور پر امام حسین علیہ السلام کے نقش قدم پر چلنے کیلئے علم و آگاہی کے علاوہ ایک اور عامل کی ضرورت ہے۔ یہ دوسرا عامل مجالس عزاداری اور جلوس و ماتم داری کے ذریعے پیدا ہوتا ہے۔ مجالس عزاداری اور جلوس و ماتم داری ہمارے اندر ایک حسینی جذبہ پیدا کرتے ہیں اور ہمارے اندر امام حسین علیہ السلام کے نقش قدم پر چلنے کا محرک اور جذبہ معرض وجود میں آتا ہے۔ اس کی واضح مثال ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کی صورت میں قابل مشاہدہ ہے۔ انقلاب اسلامی ایران کے بانی امام خمینی رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہمارا انقلاب محرم اور صفر کی برکت سے کامیاب ہوا۔ محرم اور صفر میں عوام مجالس عزاداری اور جلوس و ماتم داری کے ذریعے انقلابی جوش و جذبے سے سرشار ہو جاتے تھے اور ظالم حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے تھے۔ لہذا مجالس عزاداری اور جلوس و ماتم داری ظلم کے خلاف فضا بنانے میں انتہائی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ 
خبر کا کوڈ : 493200
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش