0
Monday 26 Oct 2015 03:05

شہادتِ امام حسین (ع) کے مقاصد اور انکا حصول

شہادتِ امام حسین (ع) کے مقاصد اور انکا حصول
تحریر: علامہ محمد رمضان توقیر
مرکزی نائب صدر شیعہ علماء کونسل پاکستان


محرم کا انتظار شاید اب فطرت کا حصہ بنتا جا رہا ہے۔ امام حسین (ع) سے سچی عقیدت رکھنے والا ہر انسان محرم کی آمد کا بے چینی سے انتظار کرتا ہے۔ جوں جوں محرم قریب آتا ہے، اس بے چینی اور انتظار میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے، یہاں تک کہ محرم کا چاند مطلع فلک پر طلوع ہوتا ہے۔ حالانکہ رونا اور رلانا بظاہر معیوب لگتا ہے اور کمزوری کی علامت سمجھا جاتا ہے، لیکن یہ بھی ثابت شدہ انسانی تجربہ اور فطری جذبے کا حصہ ہے کہ رونے سے انسان کے دل و دماغ کا بہت بڑا بوجھ ختم یا کم ہوجاتا ہے۔ بالخصوص اپنی مغفرت و بخشش اور خاصان خدا کی مصیبت و پریشانی پر رونا انسان کو کمزور نہیں بلکہ صبور و با ہمت بناتا ہے اور رونے کے اس انداز سے انسان میں حق شناسی کی ایسی جرات پیدا ہوتی ہے کہ جو معیوب نہیں بلکہ باشرف ہے۔ یہ بھی انسانی فطرت کا لازمہ ہے کہ انسان اپنی جس قدر قیمتی یا قریبی چیز سے محروم ہوتا ہے یا جدا ہوتا ہے تو اس قدر اس دکھ پر افسردہ ہوتا ہے، جتنے قریبی رشتے سے جدائی کا صدمہ حاصل ہوتا ہے، اسی شدت سے غمزدہ ہوتا ہے۔

اسلام میں مسلمان کا بلحاظ مسلم اور بلحاظ انسان سب سے قیمتی اور قریبی رشتہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہے، جو اپنے جان و مال و اولاد سے عزیز تر ہیں۔ اسی رشتہ کے تسلسل میں امام حسین (ع) سے بھی اسی شدت اور والہانہ پن کے ساتھ ہر مسلمان کی عقیدت و قربت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ محرم کی آمد کے ساتھ ہی اس رشتے سے وابستہ جذبات و احساسات اور قلبی لگاؤ میں بیداری آنا شروع ہوجاتی ہے اور انسان بذات خود حسین (ع) کی ذات میں مستغرق ہوجاتا ہے۔ خاتم المرسلین (ص) نے اپنے نواسے اور امت کے امام جنابِ حسین (ع) کو جنتیوں کا سردار قرار دیا تھا۔ جنت چونکہ دائمی دنیا کا نام ہے، جس میں ھم فیھا خلدون کے فارمولے کے تحت انسانوں نے نہ ختم ہونے والی آخر تک رہنا ہے، اس لحاظ سے امام حسین (ع) انسانوں کی موجودہ دنیا کے بھی سردار و آقا ہوئے، کیونکہ اسی دنیا نے ہی اگلی دنیا کی کاشت کرنی ہے، یہاں امام حسین (ع) سے سچی عقیدت اور عملی وابستگی رکھنے والے انسان ہی جنت میں حسین (ع) کے ساتھ ھم فیھا خلدون کی مراعات کے حقدار ہوں گے۔ اسی فلسفے کے مطابق امام حسین (ع) کی ذات کو صرف تشیع یا اسلام سے محدود اور مخصوص نہیں کیا جاتا، بلکہ انسانیت کے عظیم اور آخری دائرے پر محیط کیا جاتا ہے اور انہیں محسن انسانیت کہا جاتا ہے۔

شہادت امام حسین (ع) بلاشبہ انسانیت کی معراج ہے، جس کی مثال نہ 61 ہجری سے پہلے موجود تھی نہ ہی شاید تا قیام قیامت سامنے آئے گی۔ مظلوم یا قربانی کی داستانیں رقم کرنے والے جتنے بھی آئے یا آئیں گے، ان میں کوئی حسین (ع) سا نہیں ہوسکتا، کیونکہ حسین (ع) بننے کے لئے جہاں ذاتی منصب و مقام درکار ہے، وہاں محمد رسول اللہ کا نواسہ ہونا لازم ہے، وہاں علی (ع) کا نور نظر ہونا واجب ہے، وہاں فاطمہ (س) کا لخت جگر ہونا ضروری ہے، وہاں حسن (ع) کا بھائی ہونا بھی شرط ہے۔ یعنی آخری نبی (ص) کا نواسہ، پہلے امام کا فرزند اور خاتون جنت کا دلبند ہونے کا شرف حسین (ع) کے بعد نہ کسی کو مل سکتا ہے اور نہ کوئی اس منزلت کا حامل ہوسکتا ہے۔ امام حسین (ع) نے جس انداز میں قافلہ کربلا مرتب کیا اور اس میں کم سن بچے، نو عمر لڑکے، نوجوان شہزادے، بام عروج پر موجود سنجیدہ عمر والے، بیمار و ناتوان اقربا، ساٹھ سال سے زائد سپاہی، مدینہ سے باہر کے اصحاب، مختلف قوموں قبیلوں اور علاقوں سے تعلق رکھنے والے انصار، با عصمت خواتین و مخدرات اور کم سن بچیوں کو شامل کیا۔

یہ انداز گذشتہ چودہ سو سال سے تاریخ دانوں اور اہل علم و حرب کے درمیان زیر بحث چلا آرہا ہے۔ اب تک اس انداز کی مختلف جہات اور پرتیں کھولی جاچکی ہیں، لیکن ابھی تک اس انداز میں امام حسین (ع) کے مقاصد و اہداف کی مکمل حقیقت تک نہیں پہنچا جا سکا۔ وقت خود بخود ثابت کر رہا ہے کہ امام حسین (ع) نے روایتی جنگی قافلہ تشکیل دینے کی بجائے یہ انداز اختیار کیا، جس نے شہادت کے بعد مقصد شہادت، علل شہادت، اسباب شہادت، اہداف شہادت اور واقعات شہادت کو رہتی دنیا تک پہنچانے اور محفوظ رکھنے کا ایک شاندار اور مستحکم انتظام کیا۔ جس کی وجہ سے آج حسین (ع) بھی زندہ ہیں اور مشنِ حسین (ع) بھی زندہ ہے۔ وقت گذرنے کے ساتھ امام حسین (ع) کی شہادت اور کربلا کے واقعات کے حقائق انسانیت پر آشکار ہوتے جا رہے ہیں اور یزیدیت کا مکر و فریب اور کذب و دجل بھی واشگاف ہوتا جا رہا ہے۔

سادہ لوح انسانیت اب بھی امام حسین (ع) کے سفر شہادت اور مقصد شہادت سے ناآشنا ہے اور یزیدی افکار کی حامل قوتوں کے منفی ریاستی پروپیگنڈے کا شکار ہوکر امام حسین (ع) کی منزلت، جدوجہد اور شہادت کو نہ صرف سطحی طور پر دیکھتی ہے، بلکہ امام عالی مقام (ع) کی جدوجہد اور شہادت کا محض سیاسی یا مفاداتی بنیادوں پر تجزیہ کرتی ہے، جس کی وجہ سے واقعات کربلا کے پس منظر میں موجود سازشیں اور یزیدی عزائم نظر انداز ہو جاتے ہیں اور سچائی دھندلانے لگتی ہے۔ اگر ہم امام حسین (ع) کی جدوجہد کی ذاتی یا گروہی یا مفاداتی نہیں بلکہ دینی، شرعی، اسلامی، اجتماعی سیاسی، قانونی اور انسانی و اخلاقی سمجھتے ہیں اور ان کی شہادت کے واقعات کو ظالمانہ، جارحانہ، جابرانہ، غیر منصفانہ اور غیر انسانی سمجھتے ہیں، تو ہمیں شہادت حسین (ع) کے حقیقی مقاصد و اہداف کو جدید دنیا کے ہر میڈیم کے ذریعے اجاگر کرنا چاہیئے اور حریت و آزادی و استقلال و حق پرستی کی ہر تحریک میں کربلا اور امام حسین (ع) سے رہنمائی و استفادہ کرنا چاہیئے، تاکہ دو شہزادوں کے اختلاف اور اقتدار کی جنگ کا غیر عاقلانہ، متعصبانہ، جانبدارانہ فلسفہ اور پروپیگنڈہ دم توڑ جائے اور امام حسین (ع) کی شکست و فتح کی ضرورت ہی باقی نہ رہے۔
نیزے پہ سربلند ہے اعلان جیت کا
اب کون کہہ سکے گا کہ ہارا حسین (ع) ہے
خبر کا کوڈ : 493586
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش