0
Tuesday 27 Oct 2015 18:26

پاک چین اقتصادی راہداری کے بیشتر فنڈز مشرقی راستے کیلئے مختص!

پاک چین اقتصادی راہداری کے بیشتر فنڈز مشرقی راستے کیلئے مختص!
رپورٹ : این ایچ حیدری

26 مئی 2015ء میں‌ رابطہ کمیٹی برائے سالانہ منصوبہ بندی کیجانب سے گوادر پروجیکٹ سے متعلق اجلاس کا انعقاد ہوا۔ مذکورہ اجلاس میں پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے تحت 2015ء میں پاک چین اقتصادی راہداری سے متعلق تشکیل دیئے گئے منصوبوں کو حتمی شکل دی گئی۔ اس سے متعلق سب سے پہلے 959 کلو میٹر پر محیط کراچی ٹو لاہور موٹر وے سے متعلق منصوبے کا ذکر کیا گیا۔ اس موٹر وے کیلئے بنیادی طور پر 51 ارب روپے مختص کئے گئے تھے، جس میں سے منصوبے پر 25 ارب روپے جون 2014ء تک خرچ ہوچکے تھے جبکہ باقی 25.5 ارب روپے 22 مئی 2015ء میں وفاق کیجانب سے جاری ہوئے۔ دوسرا 276 کلو میٹر پر محیط لاہور، عبدالحکیم، خانیوال حصے کو بھی اس میں شامل کردیا گیا۔ جسکے کل اخراجات 41.4 ارب روپے تھے۔ 2014ء میں مذکورہ حصے کیلئے 6 ارب روپے مختص کئے گئے تھے، لیکن وہ فنڈز جاری نہ ہوسکے۔ اب اس روٹ کی لمبائی کو کم کرتے ہوئے اسے 230 کلو میٹر تک پہنچا دیا گیا ہے، جبکہ اندازے کے مطابق اب اس منصوبے پر 131 ارب روپے خرچ ہونگے۔ اب اس منصوبے کیلئے 40 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، جبکہ یہ فنڈز بھی ابھی تک جاری نہ ہوسکے۔ اسی طرح تیسرے نمبر پر چینی سرمایہ کاری کے ساتھ 387 کلو میٹر پر محیط ملتان، سکھر روٹ کیلئے 8.89 ارب روپے مختص کیا گیا تھا، جسکے 3.89 ارب روپے فنڈز اب تک جاری کئے جاچکے ہیں۔ اس پروجیکٹ کو مکمل کرنے کیلئے مجموعی طور پر 259.4 ارب روپے فنڈز کی ضرورت ہیں، جس میں 90 فیصد اخراجات چین برادشت کرے گا۔ چوتھے نمبر پر 296 کلو میٹر پر محیط سکھر ٹو حیدر آباد روٹ کیلئے پچاس کروڈ روپے مختص کئے گئے تھے، جسکے لئے اب تک کوئی فنڈ ریلیز نہیں ہوا جبکہ اس منصوبے کو تکمیل تک پہنچانے کیلئے 44.4 ارب روپے فنڈز درکار ہے۔

460 کلو میٹر پر محیط ریکوٹ حویلیاں اسلام آباد سیکشن کے نام پر کراکرم ہائی وے کی توسیع کے منصوبے کو بھی پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام میں شامل کیا گیا۔ جسکی تکمیل کیلئے 364 ارب روپے درکار ہیں لیکن اب تک صرف 4.5 ارب روپے مذکورہ پروجیکٹ کیلئے مختص کئے گئے ہیں اور ابھی تک فنڈز بھی جاری نہیں‌ ہوئے۔ سال 2015-16ء تھکوٹ حویلیاں سیکشن روٹ کیلئے 28.5 ارب روپے فنڈز مختص کئے گئے ہے، جسکی لمبائی 120 کلو میٹر ہے۔ اس منصوبے کے کل اخراجات کا تخمیہ 95.4 ارب روپے لگایا گیا ہے، جس میں 6 ارب روپے زمین کی خیریداری کیلئے بھی ہے۔ اسی طرح سکھر حیدر آباد سیکشن کیلئے 10.5 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ لاہور عبدالحکیم روٹ کیلئے 131 ارب روپے اور تھکوٹ حویلیاں روٹ کیلئے 28.5 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں اپنے حریف کو سیاسی تسکین دینے کیلئے اسلام آباد ٹو ڈیرہ اسماعیل خان روڈ کیلئے 6.8 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، جس کیلئے کل 55 ارب روپے درکار ہیں۔ اسی طرح 1.8 ارب روپے برہان حویلیاں روٹ، جسکے کل اخراجات 39.5 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ مذکور پروجیکٹس کو گذشتہ سال پی ایس ڈی پی فنڈز برائے 2014-15ء میں شامل نہیں کیا گیا تھا، جبکہ موجودہ سال اسے شامل کردیا گیا۔ بنیادی طور پر اس منصوبے کے ذریعے خیبرپختونخواء کو اقتصادی راہدری کے مغربی حصے کی بجائے مشرقی راستے سے ملانا ہے۔

علاوہ ازیں مذکورہ اقتصادی راہداری کے منصوبے کو مکمل کرنے والی نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے گذشتہ دنوں ایوان بالا میں سینیٹ کمیٹی برائے مواصلات کو یہ بتایا ہے کہ اقتصادی راہداری کے مغربی راستے کیلئے 20 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، جبکہ پنجاب اور سندھ سے گزرنے والی مشرقی شاہراہ کیلئے 110 ارب روپے فنڈز مختص کئے گئے ہیں حالانکہ تمام تر حقیقت کے برعکس 8 اکتوبر کو پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے چئیرمین نے سینیٹ میں یہ کہا تھا کہ سب سے زیادہ فنڈز اقتصادی راہداری سے متعلق مغربی روٹ کیلئے مختص کئے گئے ہیں، تاکہ پسماندہ صوبوں خصوصاً بلوچستان اور خیبرپختونخواء کے احساس محرومی کو کم کیا جاسکے۔ پارلیمانی کمیٹی کو یہ معلوم ہونا چاہیئے کہ 16 اکتوبر تک مغربی راستے کیلئے ایک روپیہ فنڈ بھی جاری نہیں‌ کیا گیا۔ پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام مشرقی روٹ سے متعلق پانچ منصوبوں کا ذکر کرتا ہے، جن میں سے پانچ گذشتہ حکومتوں کے منصوبے تھے۔ سب سے پہلا منصوبہ گوادر، تربت اور خوشاب روٹ کا ہے، جوکہ سندھ میں رتوڈیرو تک جانے والی ایم 8 شاہراہ کا حصہ تھا، جسکی منظوری 1999ء میں ہوئی تھی اور آج اسے مکمل کرلیا گیا ہے۔ دوسرا این 85 شاہراہ جس میں خوشاب، نگ، باسیمہ اور سہراب روڈ شامل ہیں، اس روٹ کی مرمت کے فنڈز ستمبر 2007ء میں جاری ہوئے تھے۔ تیسرے نمبر پر ژوب، مغل کوٹ این 50 منصوبے کی ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے تعاون سے 2010ء میں‌ منظوری ہوئی تھی۔ چھوتھے نمبر پر مغل کوٹ، ڈی آئی خان سیکشن کی مرمت کا منصوبہ اپریل 2015ء میں منظور ہوا تھا۔ ان کیساتھ ساتھ کوئٹہ سے گوادر تک مختلف شاہراہوں کے ملانے کے حوالے سے بھی کام جاری ہے۔ یہ تمام مذکورہ پروجیکٹز مغربی شاہراہ کی 800 کلو میٹر پر محیط اقتصادی راہداری کا حصہ ہیں۔ جبکہ اسے مکمل طور پر پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے 2300 کلومیٹر زائد شاہراہوں کی تعمیر مزید درکار ہوگی۔ پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کی رپورٹ میں مغربی شاہراہ سے متعلق زمینوں کی خریداری کیلئے 10 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، جنکی تفصیلات مہیا نہیں کی گئی۔

رپورٹ میں ملک کے شمالی علاقوں میں دو منصوبوں کی منظوری کا ذکر کیا گیا ہے۔ جس میں پہلے نمبر پر برھان حویلیاں ایکسپریس وے اور تھکوٹ ٹو حویلیاں فیز 1 شامل ہیں۔ اسکے علاوہ دوسرے منصوبے کیلئے زمین کی خریداری کی غرض سے پروجیکٹ کا ذکر کیا گیا ہے، جسکی منظوری اب تک ممکن نہیں ہوسکی۔ مجموعی طور پر ان منصوبوں کے کل اخراجات کا تخمیہ 143 ارب روپے لگایا گیا ہے۔ جس میں سے 27.5 ارب روپے کی منظوری سال 2015-16ء کیلئے دیدی گئی تھی جبکہ شمالی اور مغربی شاہراہوں‌ سے متعلق منصوبوں کا ذکر پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کی رپورٹ میں کیا گیا ہے، تو اس موقع پر مشرقی راستوں سے متعلق کسی قسم کی تفصیلات نہیں‌ دی گئی۔ ان منصوبوں کو پاک چین اقتصاد کیساتھ منسلک نہیں کیا گیا، لیکن نیشنل ہائی وے اتھارٹی کو اس سے متعلق تمام تفصیلات معلوم ہونگی، کیونکہ اسکے بغیر سینیٹ میں مغربی و مشرقی حصوں کے بارے میں معلومات کی فراہمی ممکن نہ ہوتی۔ ملک کے مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کیجانب سے شاہراہ کی تبدیلی کیخلاف مزاحمت اور بعدازاں وزیراعظم نواز شریف کی زیرصدارت آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد کے باوجود حکومت اب بھی اقتصادی راہداری میں نیک نیتی کا ثبوت پیش کرنے میں ناکام دکھائی دے رہی ہیں۔ نیشنل ہائی وے اتھارٹی اور وفاقی پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کی رپورٹس میں تضاد سے یہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے، کہ آخر کار پنجاب اور سندھ سے ہی اس راہداری کا اصل روٹ ہوگا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو پی ایس ڈی پی کیجانب سے مشرقی شاہراہوں سے متعلق منصوبوں کی تفصیلات مہیا کی جاتی۔
خبر کا کوڈ : 494051
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش