0
Friday 7 Jan 2011 22:09
گولڈ سٹون رپورٹ

”محمود عباس رجیم“ نے اسرائیل کے خلاف رائے شماری کیوں ملتوی کرائی؟

”محمود عباس رجیم“ نے اسرائیل کے خلاف رائے شماری کیوں ملتوی کرائی؟
تحریر:محمد علی زیدی 
اوسلو معاہدے کے تحت اقتدار کے مزے لوٹنے والی فلسطینی اتھارٹی اور فتح کی قیادت کے ان مزوں کی قیمت فلسطینی عوام کو کیا ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ اس کا اندازہ اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کونسل میں گولڈ سٹون رپورٹ پر بحث اور رائے شماری ملتوی کرانے میں اتھارٹی اور” محمود عباس رجیم “کے کردار سے ایک مرتبہ بھر بخوبی ہو گیا ہے۔ جب اسرائیل غزہ پر اپنی جنگی جارحیت کے باعث عالمی برادری کے سامنے بری طرح ”ایکسپوز“ ہونے جا رہا تھا اور اس کا اصل چہرہ سامنے آنے والا تھا تو محمود عباس کی زیر قیادت اتھارٹی کے سفیر ابراہیم خریشہ نے اسرائیل کو ”بیل آﺅٹ“ کرانے کے لیے وہ کچھ کر دیا جو خود اسرائیل، امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل کے دیگر مغربی سرپرستوں کے بھی بس میں نہیں تھا۔
 یہی وجہ ہے کہ محمود عباس اور اتھارٹی کو پورا ماہ اکتوبر فلسطینی عوام، انسانی حقوق کی تنظیموں اور عالمی ضمیر کی لعن طعن کے ماحول میں گزارنا پڑا۔ لعن طعن کی یہ بارش ابھی تک شد و مدد سے جاری ہے۔ حد یہ ہے کہ خود فتح کے اندر موجود باضمیر شخصیات اور پی ایل او کے سینئر لوگوں نے بھی فلسطینی اتھارٹی کے غیر انسانی، ظالمانہ اور برادر کشی پر مبنی فیصلے کی نہ صرف مذمت کی ہے بلکہ ہر جگہ ”محمود عباس رجیم“ کا چہرہ بے نقاب کر دیا ہے۔
عالمی اداروں کی مجموعی روائت یہی بن کر رہ گئی ہے کہ جب بھی اسرائیل کے حوالے سے کوئی ایسا ایشو زیر بحث آتا ہے جس میں اسرائیل کی سبکی ہونے کا احتمال ہوتا ہے، اولاً تو ایسی قرارداد یا تحریک کسی عالمی فورم میں پیش ہی نہیں ہونے دی جاتی اور اگر چارو ناچار ایسا ہو جائے تو امریکا اور اسرائیل کے دیگر پشتی بان اسے ویٹو کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔ یوں انسانی عظمت، احترام، تحفظ اور مساوات کے اصول ایک طرف اور امریکا کی زیر قیادت اس کا لاڈلا اسرائیل اپنے دوسرے مغربی سرپرستوں کے ہمراہ دوسری جانب کھڑا ہوتا ہے۔ یہی منظر غزہ پر اسرائیل کی جنگی جارحیت (دسمبر 2008ء تا جنوری 2009ء) کے دوران اقوام متحدہ میں دیکھنے کو ملا تھا۔ لیکن اب اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کونسل میں گولڈ سٹون رپورٹ پیش ہوئی تو اس کا راستہ براہ راست روکنا تو شاید ان عالمی طاقتوں کے بس میں نہ تھا البتہ بالواسطہ طور پر اس کا اہتمام ضروری سمجھا گیا۔
یہ رپورٹ اگرچہ اسرائیلی فوج اور غزہ کی منتخب پارلیمانی جماعت حماس دونوں کے رویوں، فیصلوں اور اقدامات سے متعلق تھی۔ لیکن حماس نے اس رپورٹ کو کھلے دل سے بالکل اسی طرح خوش آمدید کہا جس طرح کہ اس رپورٹ کی تیاری کے دنوں میں غزہ آمد پر تحقیقاتی کمیشن کے ارکان کو خوش آمدید کہا اور پوری طرح تعاون فراہم کیا تھا۔ گویا وہ جو کہتے ہیں ہاتھ کنگن کو آرسی کیا؟ والی صورت حال تھی۔
لیکن دوسری جانب اسرائیل اور اس کے سرپرست ہی نہیں، اس کے فدویانہ حواری بھی کافی مشکل میں نظر آئے۔ خصوصاً اس وقت جب رپورٹ پر بحث میں اسرائیلی فوج اور حکومت کا اصلی چہرہ پوری طرح بے نقاب ہونے لگا اور اس کی روشنی میں یہ بات بڑی صراحت کے ساتھ سامنے آ گئی کہ اسرائیل نے بین الاقوامی جنگی قوانین کی کھلی کھلی خلاف ورزیاں کر کے غزہ میں انسانی حقوق کی بدترین پامالی کی ہے، جو انسانیت کے خلاف جرائم کی ذیل میں آتے ہیں۔ اس لیے ضروری تھا کہ حقوق انسانی کی کونسل میں قواعد کے مطابق اس رپورٹ پر رائے شماری ہوتی۔ لیکن دنیا بھر میں جمہوریت کا طوفان اٹھانے والے امریکا اور مغربی ممالک رائے شماری سے اسرائیل کو بچانے کے لیے سرگرم ہو گئے۔ ووٹنگ سے بچنے کا ایسا ہی حربہ اختیار کیا گیا، جس طرح تیسری دنیا کے ممالک میں جمہوریت کا ڈھول پیٹنے والی سیاسی جماعتیں خود جمہوریت اور جمہوری فیصلوں کا سامنا کرنے سے گریزاں رہتی ہیں اور جب بھی ان کے اپنے اندر جمہوری رویوں اور الیکشن کی بات کی جاتی ہے تو وہ ووٹ کی طاقت سے ڈر سی جاتی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے اس غیر جمہوری رویے کو کہیں بھی اور کوئی بھی قابل تعریف قرار نہیں دیتا۔ 
یہی صورتحال عالمی طاقتوں اور ان کے لاڈلوں کے ساتھ ہے کہ جب جمہوری فیصلوں کی زد ان کے اپنے مفادات پر پڑتی ہے تو یہ طاقتیں دم دبا کر بھاگ اٹھتی ہیں۔ البتہ دوسروں کے خلاف جمہوریت کو بھی ایک ہتھیار اور حربے کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔ اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کونسل میں گولڈ سٹون رپورٹ پر رائے شماری سے فرار کے حوالے سے یہی کچھ دیکھنے میں آیا۔
امریکا اور اس کے دیگر حواریوں نے فلسطینی اتھارٹی کے حکام اور سفارتکاروں کے ساتھ خفیہ ملاقاتیں کیں، ان پر دباﺅ ڈالا کہ فلسطینی اتھارٹی رائے شماری کی ”تلوار“ سے اسرائیل کو بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ بعینہ جیسے مقتول کے وارثوں کو دباﺅ میں لاکر یا لالچ دیکر قاتلوں کے حق میں بیان لے لیا جائے یا مدعی عین اس وقت عدالت سے مقدمے کی سماعت اگلی تاریخ تک ملتوی کرنے کے لیے کہہ دے، جب عدالت قاتل کے خلاف فیصلہ دینے کے موڈ میں نظر آ رہی ہے۔ اس مقصد کے لیے اسرائیلی حکام اور فلسطینی اتھارٹی کے نمائندے کے درمیان واشنگٹن میں خفیہ ملاقات بھی ہوئی۔ جسے ایک عرب خبر رساں ادارے ”الشہاب“ نے بعد ازاں رپورٹ کیا۔ الشہاب کی رپورٹ کے مطابق خفیہ اجلاس میں اسرائیلی حکام کا دباﺅ تھا کہ فلسطینی اتھارٹی کھل کر گولڈ سٹون رپورٹ کے خلاف اسرائیل کی حمائت کرے۔ گویا جو کام ایک یہودی النسل گولڈ سٹون نہ کر سکا کہ حقائق کو جھٹلاتا، وہ کام اسرائیل نے اپنی فرمانبردار فلسطینی اتھارٹی سے لینا چاہا۔ تاہم فلسطینی اتھارٹی نے اس حد تک آگے جانے سے انکار کر دیا۔ لیکن اسرائیلی دباﺅ، دھمکیوں اور” بلیک میلنگ “کے آگے سر جھکاتے ہوئے گولڈ رپورٹ پر رائے شماری ملتوی کرانے پر آمادگی ظاہر کر دی۔ یہ آمادگی بھی کسی تکنیکی جواز کے بہانے یا سہارے نہ ظاہر کی گئی بلکہ اسرائیل کے ہاتھوں بلیک میل ہوتے ہوئے ایسا کیا گیا کیونکہ اسی خفیہ اجلاس کے دوران اہم اسرائیلی عہدیدار نے اپنے ”لیپ ٹاپ“ میں موجود محمود عباس اور اسرائیلی وزیر دفاع ایہود باراک اور سابق وزیر خارجہ زیپی لیونی کی اس ملاقات کی ویڈیو ٹیپ دکھائی جو جنوری 2009ء کے دوران غزہ پر اسرائیلی جنگی جارحیت کے دنوں میں بنی تھی اس ویڈیو ٹیپ میں محمود عباس غزہ جنگ کو جاری رکھنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ واشنگٹن کی اسی خفیہ ملاقات کے دوران اسرائیلی فوجی ترجمان اور فلسطینی اتھارٹی کے عہدیدار کی غزہ جنگ کے دنوں کی ”ٹیلی فونک“ گفتگو کی ”ریکارڈنگ“ بھی سنائی گئی اور یوں محمود عباس کے نمائندے ”الشہاب“ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی حکام کو تحریری ضمانت دی کہ اتھارٹی گولڈ سٹون رپورٹ پر رائے شماری ملتوی کرنے کا مطالبہ کرے گی۔ بعد ازاں ایسا عملاً ہو گیا، حقوق انسانی کی کونسل کو رائے شماری ملتوی کرنا پڑی، یہ کتنا بڑا واقعہ بلکہ سانحہ تھا کہ اس نے انسان دوست اور انسانی حقوق پر یقین رکھنے والے تمام ممالک کے نمائندوں کو ہی نہیں خود اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے نمائندے رچرڈ فولک کو بھی ورطہءحیرت میں ڈال دیا۔
”فلسطینی اتھارٹی کے سفیر نے رائے شماری مارچ 2010ء تک ملتوی کرنے کی سفارش کیوں کی“؟ رچرڈ فولک کا کہنا تھا انہیں ”یقین نہیں آرہا کہ خود فلسطینیوں نے ہی اسرائیل کو مشکل سے نکالنے میں کردار ادا کیا حالانکہ اسرائیل کے پاس اس مشکل سے نکلنے کا کوئی راستہ نہ تھا“۔
”محمود عباس رجیم “کے اس فیصلے کے خلاف پوری دنیا کے باضمیر لوگوں کے ہاں گویا ایک بھونچال آ گیا اور صرف چند دنوں کے اندر اندر محمود عباس خود اپنی جماعت، فتح، پی ایل او اور مسلم دنیا کے عوام میں ہی نہیں انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور دنیا بھر میں پھیلے فلسطینی عوام کے لیے اس قدر ناپسندیدہ ہو گئے جس طرح سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں ہو کر اور ناپسندیدگی کی ایک علامت بن گئے تھے۔ اسی صورتحال کا محمود عباس کو سامنا ہے جو اپنی صدارتی مدت پوری ہونے کے دس ماہ بعد بھی ابھی تک منصب صدارت پر (غیر آئینی طور پر) فائز ہیں۔ محمود عباس کی وجہ سے فلسطینی اتھارٹی ہی نہیں خود فتح اور پی ایل او کی ساکھ بھی خطرے میں ہے۔ نتیجتاً فتح اور پی ایل او میں بھی محمود عباس کی ہدایت پر رائے شماری کے التواء کی سفارش سخت تنقید کا باعث بن رہی ہے اور تو اور فلسطینی اتھارٹی میں وزیر اقصادی امور باسم خوری نے بھی گولڈ سٹون رپورٹ پر رائے شماری ملتوی کرانے کے خلاف احتجاجاً وزارت سے استعفیٰ دے دیا ہے۔
یورپی ممالک کے ارکان پارلیمنٹ، انسانی حقوق کی تنظیمیں، مغرب و مشرق میں فلسطینی جماعتیں، فلسطین کی سیاسی و سماجی تنظیمیں، ہر کوئی محمود عباس کی زیر قیادت اتھارٹی اور اس کے حکام کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنا رہا ہے۔ اس صورتحال میں اس چیز کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ وہ ممالک جنہوں نے فلسطینی اتھارٹی کو تسلیم کر رکھا ہے اور اس کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر رکھے ہیں وہ بھی آئندہ دنوں فلسطینی اتھارٹی کو فلسطینی عوام کی نمائندہ تسلیم کرنے سے انکاری ہو جائیں اور فلسطین کی ان جماعتوں کے نقطہ نظر کو درست تسلیم کرتے ہوئے آگے بڑھانا شروع کر دیں کہ” محمود عباس رجیم“ فی الواقع فلسطینیوں کی نمائندہ نہیں بلکہ اسرائیلی حکومت کی توسیع کا دوسرا نام ہے۔
 عالمی سطح پر بالعموم اور مسلم دنیا میں بالخصوص ذرائع ابلاغ اور مشرق وسطیٰ کے حالات پر گہری نظر رکھنے والے دانشوروں اور ابلاغی نمائندوں نے بھی سخت حیرت و افسوس کا اظہار کیا ہے۔ ان ذرائع ابلاغ اور مبصرین کے مطابق فلسطینی اتھارٹی کی حیثیت آئندہ دنوں مزید مجروح ہو سکتی ہے۔ خصوصاً ایسے حالات میں جب باضمیر عالمی برادری اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کو گولڈ سٹون رپورٹ کے تناظر میں دیکھ رہی ہے اور محمود عباس اور ان کی فتح، فلسطینی جماعتوں اور مزاحمتی تنظیموں سے خود مطالبہ کر رہی ہے کہ وہ بھی اسرائیل کو تسلیم کریں۔ اس لیے بعید نہیں کہ فلسطینی اتھارٹی کے سفیروں کے بارے میں دنیا بھر میں یہ سوال اٹھنا شروع ہو جائے کہ یہ فلسطینی عوام کی نمائندگی کے اہل بھی ہیں یا نہیں؟
تازہ اطلاعات کے مطابق حقوق انسانی کونسل نے رپورٹ پر رائے شماری ملتوی ہونے پر سامنے آنے والے شدید ردعمل کے پیش نظر اس رپورٹ پر دوبارہ غور شروع کیا اور اس رپورٹ کی توثیق بھی کر دی ہے۔
گولڈ سٹون رپورٹ پر رائے شماری ملتوی کرانے کا سب سے بڑا نقصان فلسطینی عوام کے کاز کے ساتھ ساتھ خود”محمود عباس رجیم“ کو ہو گا اور آئندہ جنوری میں فلسطینی اتھارٹی جن عام انتخابات کی بات کر رہی ہے اگر وہ ممکن ہو جاتے ہیں تو صاف طور پر حماس غزہ کے ساتھ ساتھ مغربی کنارے میں بھی سب سے بڑی پارلیمانی قوت کے طور پر ابھر سکتی ہے، جیسا کہ مغربی اخبارات اور ذرائع ابلاغ بھی حماس کی غزہ کے بعد مغربی کنارے میں بڑھتی ہوئی ہر دلعزیزی کے بارے میں رپورٹس نظر آنے لگی ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ امریکا، اسرائیل اور خود فلسطینی اتھارٹی ایسے انتخابات کو ہونے دے گی جس میں حماس غالب اکثریت کے حق میں متحرک ہو گی۔ کیونکہ اس سے پہلے کے تمام انتخابات میں حماس کی جیت کے بعد سپیکر سمیت چالیس سے زائد ارکان اسمبلی کو اسرائیل نے گرفتار کر کے فلسطینی اتھارٹی کے لیے ”فری ہینڈ“ یقینی بنا دیا تھا۔ اب جبکہ فتح اپنی مالی کرپشن کی کہانیوں، بدانتظامی کے شاخسانوں اور اسرائیل نوازی کی پے درپے مثالوں سے فلسطینی عوام میں مزید بدنام ہو چکی ہے تو حماس کی جیت کی راہ روکنا مشکل ہو گا۔ غالباً گولڈ رپورٹ پر رائے شماری رکوانے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اگر جنوری میں انتخابات کرانے ہیں تو کم از کم اس سے پہلے گولڈ سٹون رپورٹ کو فائلوں میں بند کر دیا جائے۔ مبادا حماس کی انتخابی مہم کا اہم ایشو اسرائیلی جرائم اور ”محمود عباس رجیم“ کا تعاون بن جائے۔
ادھر اقوام متحدہ کی حقوق انسانی کونسل میں اسرائیلی حکومت رپورٹ کی توثیق کے موقع پر بھی مکمل بے بس دکھائی دی ہے۔ جیسا کہ خود اسرائیلی وزیر اعظم نے بھی گزشتہ دنوں تسلیم کیا تھا کہ اس رپورٹ کے خلاف اسرائیل کے لیے اکثریت کی حمایت حاصل کرنا مشکل ہے۔ توثیق کے موقع پر ایسا ہی ہوا۔ توثیق کے حق میں 26 ووٹ آئے تو اس کے خلاف صرف 6 ووٹ پڑے جبکہ 11 ممبران نے رائے دینے سے احتراز برتا۔
تاہم یہ حقیقت اپنی جگہ اہم ہے کہ رائے شماری جب بھی ہوگی اسرائیلی چہرے کا گھناﺅنا پن سامنے آنا نوشتہ دیوار ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ وہ وقت بھی دور نہیں جب سلامتی کونسل یا عالمی عدالت انصاف کو اسرائیلی جرائم کی بنیاد پر اسرائیل کے حکمرانوں اور اس کی ”روگ آرمی“ کے خلاف اپنا فیصلہ سامنے لانا ہو گا اور ان دو ہزار سے زائد مقدمات کا بھی فیصلہ ہو گا جو فلسطینی شہریوں نے اسرائیل کی طرف سے جنگی جرائم کی بنیاد پر درج کرائے گئے ہیں۔ اس لیے اسرائیل ہی نہیں اس کے سارے حواری بھی جلد عدالتی کٹہرے میں ہوں گے۔
٭٭٭
خبر کا کوڈ : 49410
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش