0
Wednesday 28 Oct 2015 18:09

انقلاب حسين بزبان حضرت امام حسين (ع)

انقلاب حسين بزبان حضرت امام حسين (ع)
تحریر: ڈاکٹر علامہ شفقت شیرازی

جب خطرات و مشكلات نے چاروں طرف سے گهیرا تنگ كر ديا ہو، ہر شخص، ہر قوم، ہر ملک اور پوری دنيا پر طاغوتی قوتيں اور انكے مسلط كرده ظالم و جابر اور خود غرض افراد اپنا تسلط جمانے يا برقرار ركهنے كيلئے ہر قسم كے جائز و ناجائز حربے استعمال كر رہے ہوں، جہالت و گمراہی كا يہ عالم ہو كہ اسلام كو اسلام كے ذريعے اور دين و مذہب كو دين و مذہب كے ذريعے ختم كيا جا رہا ہو تو ايسے ميں  يہ سوال جنم ليتا ہے كہ كيا كوئی راه نجات يا وسيلہ نجات ہے؟ اور اگر جواب ہاں يا مثبت ہو تو پھر یہ سوال پيدا ہوتا ہے كہ وه كونسا راستہ اور وسيلہ ہے۔؟ ہم نے اختصار سے چند سوالون كے جوابات خود مولا حضرت امام حسين عليہ السلام  كي زبانی نقل كرنے كی كوشش كی ہے اور منجی بشريت، محسن انسانيت كی بارگاه ميں حاضر ہو كر عرض كرتے ہیں كہ مولا آپ کے بارے ميں ہمارے خاتم الانبياء حضرت محمد مصطفعى صلى الله عليہ وآله وسلم  نے ارشاد فرمايا تها "ان الحسین مصباح الہدی و سفینۃ النجاۃ" مولا سیدالشہداء ہم آپ کے ماننے والے ہیں، وقت کے یزید لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے مختلف شبہات پیدا کر رہے ہیں، اے فرزند رسول اپنے جد نانا کی طرح ہماری رہنمائی فرمائیں۔

محترم قارئين جوابات خود مولا امام عالی مقام كے خطبوں اور فرامين سے اخذ كئے گئے ہیں، تاكہ ہدايت كے اس چراغ سے نور و روشنی حاصل كی جاسكے۔
س: مولا آج ہر شخص آپ كا شيعہ ہونے كا دعويدار ہے، اے فرزند رسول مقبول آپ كی نظر ميں كون شخص شيعہ كہلانے كا حقدار ہے۔؟
ج:"ہمارے شيعہ وه ہوتے ہیں جنكے دل ہر قسم كی ملاوٹ، كدورت اور دهوكہ بازی سے پاک ہوں"
س: مولا ميرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، آپ اپنے انقلاب كے پيش نظر لوگوں كو كيسے ديکھ رہے ہیں۔؟
ج: "لوگ دنيا كے غلام ہیں اور دين انكی زبانوں كا چربہ ہے اور جہاں تک ان کے دنياوی امور دين سے چلتے ہیں تو اس وقت تک دين انكی زبانوں پر رہتا ہے، ليكن جب امتحان كی گھڑی آتی ہے تو دين كا نام لينے والے بہت كم نظر آتے ہیں"
س: يابن رسول الله ہمارے لوگ موت سے بہت ڈرتے ہیں، مولا آپ موت كو كس نگاه سے ديکھتے ہیں۔؟
ج: "موت سے حضرت آدم كے فرزند (حسينؑ) كو اتنا عشق ہے جتنا دوشيزه كو اپنے گلے كے گلوبند سے ہوتا ہے۔ مجهے اپنے اسلاف (آباء و اجداد) سے ملنے كا اتنا زياده شوق ہے، جتنا حضرت يعقوب (عليہ السلام) كو (اپنے گمشده فرزند) حضرت يوسف (عليہ السلام) سے ملنے كا تها"

س: مولا آپ کے قیام کا مقصد کیا تھا۔؟
ج: "ميں نے نہ تو كسی غرور و تكبر كى بنا ﭘر اور نہ ہی ظلم و فساد كيلئے خروج كيا، بلكہ ميں نے تو اپنے نانا كی امت كی اصلاح كيلئے قيام كيا ہے۔ ميں نے چاہا كہ امر بالمعروف اور نہی عن المنكر كو زنده كروں اور اپنے نانا جان اور اپنے بابا امير المومنين كی سيرت پر عمل پيرا ہوں"
س: يابن زهراء (عليها السلام) آپ کے انقلاب كے سامنے كون كون سے آپشن اور راستے تهے۔؟
ج: "كيا ايسا نہیں كہ مشكوک النسب كے مشكوک النسب بیٹے نے میرے سامنے دو راستے ركهے ہیں، ايک عزت كی موت مرنا اور دوسری ذلت كی زندگی جینا"
س: مولا تو پھر آپ نے كس راستے كو اختيار فرمايا تها۔؟
ج: "هيهات منا الذلة، ہم ذلت كو نفرين كرتے ہیں اور نہ اسے الله تبارك و تعالٰى پسند فرماتا ہے اور نہ الله كے رسول  صلى الله عليہ وآلہ وسلم، پاک و پاكيزه گود ميں پروان چڑھنے والے اور اہل  شرف و مروت والے مومن پست افراد كی اطاعت پر عزت و شرف كيساتھ شہيد ہونے كو ترجيح ديتے ہیں"

س: كيا آپ اتنا بڑا انحراف ديكھ رہے ہیں كہ آپ خود ميدان ميں اترنا چاہتے ہیں اور خواه اس قيام ميں خانواده رسول خدا اور مخلص اصحاب كی قربانی دينا پڑے۔؟
ج: "كيا آپ نہیں دیکھ رہے كہ حق پر عمل نہیں ہو رہا اور نہ ہی باطل سے روكا جا رہا ہے، ايسے حالات ميں مؤمن كے دل ميں يہی خواہش جنم ليتى ہے كہ حق كی راه ميں فدا ہو كر حق مطلق (اپنے رب) سے ملاقات كرے"
س: كيا عقل تسليم كرتی ہے كہ جگر چبانے والی ہندہ كا پوتا يزيد سيدۃ نساء العالمين كے فرزند حسينؑ يعنی مولاؑ آپ کو شہيد كرے۔؟
ج: كيا تم نے سيرت انبياء ميں نہیں پڑھا كہ "دنيا لاپرواه ہے، خداوند تبارك و تعالٰی كے نبی حضرت يحی بن ذكريا عليہ السلام (كو مظلوميت كے ساتھ شہيد كيا گيا اور ان) كا سر اقدس بنی اسرائيل كے باغی و سركش حاكم كو پيش كيا گيا۔ (كيا آپ نہيں جانتے كہ) بنی اسرائيل طلوع فجر اور طلوع شمس كے درميان 70 انبياء كو قتل كرتے تهے اور پهر اپنی دكانوں اور كارباروں ميں اس طرح مصروف ہو جاتے تهے كہ گويا انہوں نے كوئی جرم ہی نہیں كيا، خدا نے بهی انكی اس سركشی ميں انہیں ڈھیل دی اور بعد ميں ان سے بهيانک انتقام ليا"
خبر کا کوڈ : 494448
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش