0
Friday 30 Oct 2015 11:57

مشرق وسطٰی کے قضیے میں روس کی عملی شرکت

مشرق وسطٰی کے قضیے میں روس کی عملی شرکت
تحریر: ثاقب اکبر

مشرق وسطٰی میں امریکہ اور اس کے اتحادی تو طویل عرصے سے عملاً شریک ہیں۔ نیا مشرقِ وسطٰی بنانے کا اعلان پندرہ سال قبل سابق امریکی وزیر خارجہ نے کیا تھا۔ امریکی بحری بیڑے اور زمینی افواج خطے میں کئی دہائیوں سے موجود ہیں۔ بحرین میں پانچواں امریکی بحری بیڑہ لنگر انداز ہے۔ اسرائیل امریکی سرپرستی میں ایک ایٹمی طاقت بن چکا ہے۔ قطر میں امریکی موجود ہیں۔ اردن کے شاہ عبداللہ وسیع تر امریکی منصوبے میں پوری طرح فٹ ہیں۔ مصر میں اخوان المسلمین کی اکثریتی حکومت سے امریکی مطمئن نہیں ہوسکتے تھے، لہٰذا فوج کو واپس اقتدار میں لے آیا گیا۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اس کی مالی سرپرستی کی۔ اسرائیل کو بھی تسلی ہوگئی کیونکہ مصری جرنیلوں سے امریکی اور اسرائیل روابط بہت دیرینہ ہیں۔ بحرین میں عوامی تحریک کو کچلنے اور شاہی خاندان کو بچانے کے لئے سعودی عرب کی قیادت میں خلیج تعاون کونسل کی فوجیں داخل ہوگئیں۔ ایران پر پابندیاں عائد کی گئیں۔ عراق سے پہلے کویت پر چڑھائی کے زمانے میں چڑھائی کی گئی اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی اور بچی کھچی کسر صدر بش کی قیادت میں فوجیں داخل کرکے نکال دی گئی اور امریکی و برطانوی فوج نے عراق کو اس حالت میں ترک کیا کہ جب اسے تین حصوں میں تقسیم کرنے کے وسیع تر منصوبے کی ٹھوس بنیادیں ڈالی جا چکی تھیں۔ اب معاملہ فقط شام کا رہ گیا تھا۔ اسے لبنان کے سابق وزیراعظم رفیق حریری کے قتل کیس میں پھانسنے کی کوشش کی گئی، لیکن بیل منڈھے نہ چڑھی اور وہ منصوبہ بھرے بازار میں آشکار ہوگیا۔ شام میں ایک ایسی حکومت کا قیام امریکی منصوبے کا ناگزیر حصہ تھا اور ہے کہ جو اردن کی طرح اسرائیل کے سامنے رام ہو کر وقت گزارے۔ دہشت گردوں کو ارد گرد کے ممالک میں تربیت دے کر شام میں داخل کر دیا گیا، تاکہ بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ کیا جائے، جو اسرائیل کے سامنے سرنگوں ہونے کے بجائے ابھی تک حماس، جہاد اسلامی اور حزب اللہ جیسی اسرائیل دشمن تنظیموں کے ساتھ ہمدردی اور تعاون کے راستے پر گامزن تھے۔

امریکہ چونکہ دنیا کی واحد سپر پاور بن چکا ہے، لہٰذا وہ دنیا کو ہر خطے اور ہر حصے میں اپنے ڈھب پر لانے کے لئے سرگرم ہے۔ مشرق وسطٰی میں وہ ’’انا ولا غیری‘‘ کا نعرہ بلند کئے ہوئے تھا، لیکن چند رکاوٹیں اس کے راستے میں ابھی تک حائل تھیں، جن کا ہٹایا جانا اس کے لئے ناگزیر تھا۔ تاہم شام کی حکومت سخت جان ثابت ہوئی۔ حزب اللہ بھی لبنان میں اسرائیل کے مقابلے میں توانا رہی۔ ایران تمام تر پابندیوں کے باوجود امریکی کنٹرول میں نہ آسکا۔ ابھی نئے امریکی منصوبے زیر عمل آرہے تھے۔ داعش پر فضائی حملوں کے نام پر نیا دام تزویر بچھایا جا رہا تھا۔ ترکی بھی فضا اور زمین سے شام کے ایک حصے پر اپنے سکیورٹی زون کے نام پر قبضے میں کرنے کا اعلان کرچکا تھا۔ یمن پر سعودی بمباری کا سلسلہ جاری تھا کہ اچانک روس نے عملی طور پر مشرق وسطٰی کے قضیے میں شرکت کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے کے پیچھے بہت سی وجوہات ہیں۔ بعض مبصرین کی رائے ہے کہ اس کی فوری وجہ وہ ضرب کاری ہے جو تیل کی عالمی قیمتوں کو ریکارڈ سطح پر گرائے جانے سے اس کی اقتصاد پر پڑی ہے۔

روس ایک عرصے سے امریکہ کے مقابلے میں گومگو کی کیفیت میں تھا۔ سوویت یونین کے زوال کے بعد اس نے کوشش کی کہ کسی طرح مغربی دنیا کے ساتھ اس کی قربت پیدا ہو جائے، جس کے نتیجے میں اس کی معاشی حالت کو سہارا مل جائے، لیکن اس کی کوششیں قابل ذکر حد تک کامیاب نہیں ہوسکیں۔ پھر اس نے چین کے ساتھ مل کر نئی اقتصادی حکمت عملی تشکیل دی۔ اس نے امریکی قیادت میں نئی مہم جوئیوں سے اپنے آپ کو علیحدہ رکھا، لیکن ماضی قریب کی دوسری عظیم سپر پاور کے ضبط کے بندھن بالآخر ٹوٹ گئے اور اس نے شام کے محاذ میں اپنے آپ کو اس انداز سے شریک کر لیا کہ دوسروں کے پاس احتجاج کے لئے قابل ذکر مواد نہیں تھا۔ اس لئے کہ جس عنوان سے امریکہ اور اس کے اتحادی شام میں فضائی حملے کر رہے تھے، اُسی عنوان سے روس نے فضائی کارروائیوں کا آغاز کر دیا اور وہ تھا ’’داعش اور دیگر دہشت گردوں کے خلاف کارروائی۔‘‘ اب دیکھنا یہ ہے کہ روس کی اس شرکت کے خطے میں اور عالمی سطح پر سیاسی بساط پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ روسی فضائیہ کی شام میں کارروائیوں کا آغاز عالمی سیاست کا نیا اور تاریخی موڑ ثابت ہوگا۔ ہم آج کے کالم میں اس کے تمام پہلوؤں پر تو بات نہیں کرسکتے، کیونکہ یہ مضمون ایک کالم سے بہت زیادہ ہے، لیکن اس پیش رفت سے جو فوری اثرات مرتب ہوئے ہیں، ان کی طرف اشارہ کرتے ہیں، تاکہ اس سے مستقبل کی تصویر کشی میں مدد مل سکے۔

روسی فضائیہ کے حملوں کے ساتھ ساتھ شام کی زمینی افواج دہشت گردوں کے خلاف پیش رفت جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس وقت تک مختلف علاقوں میں کئی سو مربع کلو میٹر کے علاقے دہشت گردوں کے قبضے سے آزاد کروائے جا چکے ہیں۔ اس میں بہت سے اہم قصبے اور دیہات شامل ہیں جن میں بطور مثال حدادین، الجابریۃ، الوضیحی، عبطین، کدار، الملیحۃ، ثکنۃ کدار، السابقیۃ، الصفیرۃ، بلاس، جورۃ الجحاش، رسم الشیخ قیقان، دیر صلیبۃ، کفر عبید، الایوبیۃ، القراصۃ، الحمیرۃ، خلصۃ، الحویرۃ الکسارۃ، مجبل الوضیحی،النعام، الناصریہ، الحویجۃ وغیرہ شامل ہیں۔ شامی فوج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ روس کے فضائی حملوں کے نتیجے میں داعش کے دہشت گرد شکست کھا کر پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ ان میں سے پانچ سو داعشی دہشت گردوں کو 16 اکتوبر کو یمن کے دوسرے بڑے شہر عدن میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ اس مقصد کے لئے دو طیارے ترکی کے، ایک قطر کا اور ایک متحدہ عرب عمارات کا فراری داعشیوں کو لے کر عدن پہنچا۔ یاد رہے کہ اس وقت عدن سعودی حمایت یافتہ منصور الہادی کے وفاداروں کے تصرف میں ہے۔

شام میں اگرچہ روسی فضائیہ شام کی زمینی فوجوں کے تعاون سے دہشت گرد گروہوں کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہے، تاہم مغربی ذرائع کے مطابق روس کی زمینی فوج کے چند دستے بھی شام میں منتقل کئے گئے ہیں۔ حال ہی میں وال اسٹریٹ جنرل نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ مشرقی یو کرائن میں مامور خصوصی ایلیٹ فوج کے دستوں میں سے بعض کو شام میں منتقل کیا گیا ہے۔ اگر یہ رپورٹ درست ہے تو پھر یہ کہے بغیر چارہ نہیں کہ روس مشرق وسطٰی کے معاملات میں مزید قدم آگے بڑھانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس سلسلے میں یہ خبر بھی قابل ذکر ہے کہ جاری ہفتے کے شروع میں بغداد میں متعین روسی سفیر ایلیا مورگونف نے عراق کے وزیراعظم حیدر العبادی سے ان کے دفتر میں ملاقات کی ہے اور انھیں روسی صدر ولادی میر پیوٹن کا ایک خط حوالے کیا ہے۔ اس ملاقات کے بارے میں عراقی حکومت نے باقاعدہ ایک بیان جاری کیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ خط میں روسی صدر نے عراق کو اسلحہ کی فراہمی اور دہشت گردوں کے مقابلے کے لئے اطلاعات کے تبادلے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ اس کے جواب میں عراقی وزیراعظم العبادی کا کہنا تھا کہ دہشت گرد گروہ داعش کے مقابلے میں عراق کو بین الاقوامی امداد کی شدید ضرورت ہے۔

یہ بات اہم ہے کہ قبل ازیں امریکہ اور اس کے اتحادی بظاہر داعش کے خلاف شام میں فضائی حملوں میں مصروف تھے اور عراقی حکومت کو بھی امریکہ داعش کے خلاف مدد فراہم کرنے کے وعدے کرتی چلی آئی ہے۔ البتہ عملی طور پر شام میں امریکی حمایت یافتہ گروہ ان حملوں کے نتیجے میں مزید قوی ہوئے ہیں اور عراق میں بھی امریکہ داعش کے خلاف کوئی نتیجہ بخش مدد فراہم نہیں کرسکا۔ جب کہ شام میں روسی حملوں کے بعد مختلف محاذوں پر داعش اور دیگر دہشت گرد گروہوں کی عقب نشینی کا سلسلہ جاری ہے۔ امریکی کارروائیوں کے بعد دہشت گردوں کے مزید قوی ہونے کی شکایت صدر بشار الاسد بھی کرچکے ہیں۔ اس کا اظہار انھوں نے ایک امریکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا تھا۔ قبل ازیں سعودی وزیر دفاع محمد بن سلمان نے ماسکو میں روسی صدر ولادی میر پیوٹن سے ملاقات کی اور مشرق وسطٰی میں کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر معاملہ کرنے کی کوشش کی۔ بظاہر اس میں انھیں کوئی کامیابی نہ ہو سکی۔ دوسری ملاقات اگست میں ہوئی، یہ ملاقات بھی ناکامی پر منتج ہوئی۔ باخبر ذرائع نے اس ملاقات کو ’’سرد اور سنگین‘‘ قرار دیا۔ سعودی عرب کی رائے یہ تھی کہ بشار الاسد کا اب شام کے مستقبل میں کوئی کردار نہیں ہونا چاہیئے، جسے روس قبول کرنے کے لئے تیار نہیں۔ ایک اطلاع کے مطابق سعودی عرب نے جو رقم پاکستان کو ’’غیر مشروط‘‘ طور پر عطیہ کی تھی، اس سے آٹھ گنا زیادہ رقم کی پیشکش روس کو کی گئی، لیکن بظاہر اب روسی نقطۂ نظر سے بہت دیر ہوچکی ہے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ روس کے پیش نظر فوری اقتصادی مشکلات کا ہی معاملہ نہیں، وہ عالمی سطح پر اپنے لئے کسی نئے اور مستحکم تر کردار کی تلاش میں ہے۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ جب سے روسی فضائیہ نے شام میں سرگرم عمل دہشت گردوں کے خلاف کارروائی شروع کی ہے، امریکی فضائیہ کی کارروائیوں میں بہت حد تک کمی واقع ہوچکی ہے۔ پینٹا گون کے ذرائع نے جو رپورٹ جاری کی ہے، اس کے مطابق قبل ازیں امریکی طیارے ہر روز اوسطاً 7 مرتبہ شام میں اپنے متعین اہداف کو نشانہ بناتے تھے، یہ تعداد اب کم ہو کر اوسطاً 4 رہ گئی ہے۔ دریں اثناء فلسطین میں تیسرے انتفاضہ کے آغاز کی خبریں آرہی ہیں، جب کہ سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر نے ایک صہیونی اخبار معاریو کو انٹرویو دیتے ہوئے ریاض تل ابیب تعلقات کی تصدیق کی ہے اور کہا ہے کہ مسئلہ فلسطین ان کے ملک کی ترجیح نہیں ہے، پہلے شام کا مسئلہ حل ہونا چاہیئے۔ حیرت ناک امر یہ ہے کہ سعودی شہزادہ الولید بن طلال اپنے وزیر خارجہ سے بھی آگے بڑھ گئے ہیں۔ انھوں نے کہا ہے کہ فلسطین کے ساتھ جنگ کی صورت میں اسرائیل کا ساتھ دوں گا۔ کویتی اخبار القبس نے الولید بن طلال کے جاری کردہ بیان کے بارے میں لکھا ہے کہ فلسطین کے ساتھ جنگ کی صورت میں وہ یہودیوں اور اسرائیلی جمہوری خواہشات کا ساتھ دیں گے۔ تیسرے انتفاضہ کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کا مرکز مغربی کنارہ ہے۔ قبل ازیں اسرائیل کے خلاف مزاحمت کا مرکز ایک عرصے سے غزہ چلا آرہا تھا۔ فلسطینی ذرائع ابلاغ سعودی عرب پر تنقید کر رہے ہیں کہ وہ فلسطینی مظلوم عوام کا ساتھ نہیں دے رہا۔ بظاہر ایک حد تک سعودی عرب اپنے اسرائیل سے روابط کو زیادہ نمایاں نہیں کرنا چاہتا، لیکن یوں معلوم ہوتا ہے کہ جوں جوں شام، عراق اور یمن وغیرہ میں معاملات آگے بڑھیں گے تو یہ تعلقات پردہ اخفا سے باہر آجائیں گے۔
خبر کا کوڈ : 494563
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش