0
Tuesday 3 Nov 2015 22:49

شیخ نمر، آمریت کیخلاف جدوجہد اور آزادی کی راہ کا مجاہد عالم دین

شیخ نمر، آمریت کیخلاف جدوجہد اور آزادی کی راہ کا مجاہد عالم دین
تحریر: طہ مکی زادہ

سعودی عرب کے
شرقیہ علاقے میں واقع ہر قصبے اور گاوں کے تمام افراد شیخ نمر کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں اور العوامیہ، قطیف اور احساء کے لوگ ان کے حسن خلق اور نیک خصوصیات کے شیدائی ہوچکے ہیں۔ اس مجاہد عالم دین نے اپنی ساری زندگی علاقے کے افراد کے درمیان بسر کی ہے اور ان کی تمام خوشیوں اور دکھوں میں شریک رہا ہے۔ شیخ نمر نے ظلم کے خلاف جدوجہد کا درس مکتب اہلبیت اطہار علیھم السلام سے سیکھا ہے اور وہ آزاد اور باعزت زندگی کی خاطر جدوجہد کے تمام مراحل سے بخوبی آگاہ ہیں۔ اگر شرقیہ علاقے میں رہنے والے کسی بھی فرد سے اس مجاہد عالم دین کی سیاسی خصوصیات اور مجاہدانہ سرگرمیوں کے بارے میں سوال پوچھا جائے تو سب یک زبان ہو کر یہ کہتے نظر آئیں گے کہ شیخ نمر دوسری خلیجی جنگ کے دوران عراق اور سعودی عرب کی سرحد پر واقع علاقے پر صدام حسین کی جارحیت کے خلاف اپنی سرزمین کا عظیم مدافع تھا، جس نے صدام حسین کی ظالمانہ اور وسعت پسندانہ جنگ کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور شرقیہ کے جوانوں کو صدام حسین اور اس کی شیطانی جارحیت کے خلاف جہاد پر ابھارا۔ اسی طرح یہ عظیم مجاہد اپنے ملک میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کو ملک اور خطے کی سلامتی اور مفادات کے منافی قرار دیتا ہے اور اسی طرح سعودی عرب کی اندرونی آمرانہ حکومت کا بھی بہت بڑا مخالف ہے۔

شیخ نمر جب یہ دیکھتا تھا کہ شرقیہ علاقے کے لوگ کس قدر غربت اور افلاس میں زندگی گزار رہے ہیں تو وہ شدید غمگین ہو جاتا تھا، کیونکہ شرقیہ کا علاقہ تیل کی دولت سے مالا مال ہے اور امریکی کمپنی "آرامکو" نے تیل کی تمام تنصیبات اور پیٹروکیمیکل کے کارخانے اسی علاقے میں لگا رکھے ہیں۔ شیخ نمر حکومت کی جانب سے اپنے علاقے کے مکینوں کے ساتھ امتیازی سلوک اور ظالمانہ رویے کا بھی شدید مخالف تھا اور اس کے خلاف جدوجہد میں مصروف ہے۔ وہ جب دیکھتے تھے کہ شرقیہ علاقے کے شیعہ مکینوں کے ساتھ دوسرے درجے کے شہریوں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے تو انہیں شدید دکھ پہنچتا تھا۔ سرزمین حجاز میں شیعہ مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی موجود ہے، لیکن حکومت کی تعصب آمیز پالیسیوں کی وجہ سے انتہائی کٹھن حالات کا شکار ہے اور کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ شیخ نمر اور ان کے پیروکار شیعہ مسلمانوں کو ایک عام شہری کی حد تک حقوق دلوانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ قطیف اور احساء کے شیعہ شہری انتہائی محب وطن اور اپنی سرزمین کے دفاع کیلئے مر مٹنے کو تیار ہیں اور انہیں عزت کے ساتھ زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے۔ اگر انہیں شہری حقوق عطا کئے جائیں تو وہ بہت بہتر انداز میں وطن اور اسلام کی خدمت کرسکتے ہیں۔

شرقیہ کے علاقے میں بسنے والے شیعہ مکینوں کے سامنے سب سے بڑی مشکل حکومت کے امتیازی رویے اور قومی اور مذہبی تعصب آمیز پالیسیاں ہیں۔ وہ ہمیشہ یہ پوچھتے رہتے ہیں کہ صرف ان کی مساجد ہی کیوں داعش اور القاعدہ کے دہشت گردانہ بم حملوں اور فائرنگ کا نشانہ بنتی ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ ماہ حرام جس میں حتی جاہل زمانے کے عرب بھی جنگ اور قتل و غارت سے پرہیز کرتے تھے اور ان مہینوں میں جنگ نہیں کرتے تھے، سعودی عرب میں اسلام کے نام پر شیعوں کا خون بہایا جاتا ہے اور حتی مساجد کو دہشت گردانہ کارروائیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے؟ شیخ نمر اور ان کے ساتھی ان سوالات اور امتیازی اور ظالمانہ رویوں کا جواب جاننا چاہتے تھے۔ ہم پوچھتے ہیں کہ شیخ نمر اور ان کے ساتھیوں کا کیا قصور ہے؟ وہ کس جرم کے مرتکب ہوئے ہیں، جس کے بدلے انہیں سزائے موت دی جا رہی ہے؟ کیا سرزمین وحی میں پرامن طریقے سے صدائے احتجاج بلند کرنے کی سزا سزائے موت ہے؟ ریاض بخوبی آگاہ ہے کہ شیخ نمر کوئی عام شخصیت نہیں بلکہ وہ دنیا بھر کے اہل تشیع اور رائے عامہ میں انتہائی اہم مقام کے حامل ہیں۔ شرقیہ کے علاقے میں بھی ان کے چاہنے والوں کی کمی نہیں اور عوامیہ اور قطیف کے اکثر شیعہ جوانوں نے شیخ نمر سے عزت مندانہ زندگی اور آزادی کا درس حاصل کیا ہے۔

شیخ نمر کو سزائے موت سنائے جانے کے بعد ایران اور دنیا کے دوسرے ممالک سے معروف شیعہ شخصیات اور رہنماوں نے سعودی حکومت کو خبردار کیا ہے کہ اس اقدام کے انتہائی منفی نتائج برآمد ہوں گے۔ اسی طرح نجد، حجاز اور دوسرے شہروں کی معتبر شخصیات نے بھی آل سعود رژیم کو نصیحت کی ہے کہ وہ ایسے اقدام سے باز رہے۔ ملک فہد اور ملک عبداللہ دور کی حکومتوں نے الشرقیہ کے شیعہ اکثریتی علاقے میں امن و امان اور سیاسی استحکام پیدا کرنے کیلئے بہت زحمتیں انجام دی ہیں اور بھاری اخراجات کئے ہیں۔ اسی طرح شرقیہ کے مجاہد جوانوں کو پرامن زندگی گزارنے پر راضی کرنے پر بھی بہت محنت کی گئی ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ موجودہ حکومت ان زحمتوں اور محنتوں پر پانی نہیں پھیرے گی۔ ملک سلمان بن عبدالعزیز نے مجاہد عالم دین شیخ نمر کو سزائے موت سنا کر آل سعود خاندان کے اصولوں کی خلاف ورزی کی ہے، کیونکہ یہ خاندان خود کو "خادم الحرمین شریفین" کہلواتا ہے اور اب تک دینی و قرآنی طالب علموں اور علماء دین کو سزائے موت دینے سے گریز کرتا آیا ہے، چاہے وہ حکومت کی مخالفت کا اظہار ہی کیوں نہ کرتے ہوں۔

ملک سلمان کی حکومت اچھی طرح جانتی ہے کہ:
الف)۔
شیخ نمر کا الشرقیہ علاقے کے مکینوں کے درمیان بہت بڑا مقام ہے اور ان کے حامی نوجوانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔
ب)۔
ایک بیگناہ شیعہ عالم دین کو سزائے موت دینے کا عالم اسلام اور شیعہ دنیا میں بہت شدید ردعمل ظاہر ہوگا۔
ج)۔
شیخ نمر کی ممکنہ شہادت سعودی عرب کی سیاسی دنیا میں زلزلہ برپا کر دے گی اور اسی طرح خام تیل سے مالا مال علاقے الشرقیہ میں وسیع پیمانے پر ہنگامے اور بدامنی پھوٹ پڑے گی، جس کے نتیجے میں ملک فہد دور کا امن و امان اور سیاسی استحکام تباہ و برباد ہو جائے گا۔
د)۔
آل سعود رژیم اس وقت انتہائی کٹھن اور مشکل حالات سے گزر رہی ہے اور اسے شدید قسم کے خطرات درپیش ہیں۔ ایسے میں شیخ نمر کی سزائے موت کو عملی شکل دینا دور از عقل اقدام ثابت ہوگا۔

بعض امریکی ذرائع ابلاغ کی شائع کردہ رپورٹس کے مطابق بعض امریکی عہدیداروں نے سعودی حکام کے ساتھ شیخ نمر کی سزائے موت کے بارے میں مذاکرات انجام دیئے ہیں اور انہیں نصیحت کی ہے کہ وہ اس اقدام سے باز رہیں۔ امریکی عہدیداروں نے موجودہ حالات میں شیخ نمر کی ممکنہ سزائے موت کو غلط سیاسی اقدام قرار دیا ہے۔ دوسری طرف ملک سلمان کے بعض مشاورین اور نائب ولیعہد اور وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان سے وابستہ افراد جن کے اسرائیل کے ساتھ دیرینہ تعلقات استوار ہیں، شیخ نمر کو سزائے موت دینے پر مصر نظر آتے ہیں۔ وہ اس اقدام کو ایران اور عالم تشیع کے مقابلے میں سعودی عرب کی بڑی کامیابی سمجھتے ہیں۔ رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ ملک سلمان کے بعض عقل مند مشاورین بھی ہیں، جنہوں نے اسے نصیحت کی ہے کہ وہ شیخ نمر کی سزائے موت کو عملی شکل دینے سے باز رہے، کیونکہ اس اقدام کے غیر متوقع نتائج ظاہر ہوسکتے ہیں۔ 
خبر کا کوڈ : 495487
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش