0
Monday 9 Nov 2015 22:24

حلب کا فیصلہ کن معرکہ

حلب کا فیصلہ کن معرکہ
تحریر: حامد رحیم پور

گذشتہ چند ماہ کے دوران شام میں جنگ کا نقشہ بہت بدل گیا ہے۔ ایک ماہ قبل تک تکفیری دہشت گرد گروہ "داعش" کی پیش قدمی جاری تھی اور وہ اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں یکے بعد دیگرے اضافہ کرتا چلا جا رہا تھا، یہاں تک کہ شام کے آدھے اور عراق کے دو تہائی حصے پر قابض ہوچکا تھا۔ دوسری طرف شام میں سرگرم دیگر حکومت مخالف مسلح دہشت گرد گروہ جیسے فری سیرین آرمی، احرار الشام اور النصرہ فرنٹ کی جانب سے ادلب اور جسر الشغور جیسے اہم شہروں پر قبضے نے ان کے حامی سعودی عرب اور ترکی اتحاد کو انتہائی پرامید کر دیا تھا اور وہ شام میں صدر بشار الاسد کی حکومت کی سرنگونی کی آس لگائے بیٹھے تھے۔ اس کے نتیجے میں مغربی طاقتیں شام کی تقسیم کے خواب بھی دیکھنے لگیں اور انہوں نے اپنے اس ناپاک منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے منصوبہ بندی شروع کر دی۔ دہشت گرد ترکی کی سرحد پر واقع شام کے شمالی حصے میں اپنے لئے پرامن ٹھکانہ بنانا چاہتے تھے اور اس علاقے میں ایک عارضی عبوری حکومت کی تشکیل کا منصوبہ بھی بناچکے تھے، تاکہ اس طرح شام حکومت کی اپوزیشن جس کا وجود اب تک صرف شام کی حدود سے باہر تک محدود تھا، کو شام کے اندر سرگرمیاں انجام دینے کا موقع میسر کرسکیں۔ لیکن شام میں روس کی جانب سے وسیع اور موثر فوجی کارروائی شروع ہونے کے بعد جنگ کا نقشہ ہی بدل گیا۔ روس کے ہوائی حملوں اور شام آرمی اور حزب اللہ لبنان کے زمینی حملوں کے نتیجے میں حلب کا بڑا حصہ تکفیری دہشت گردوں کے قبضے سے چھڑا لیا گیا اور حلب کی ممکنہ آزادی شام میں جاری جنگ کی تقدیر پلٹ دے گی اور دہشت گردوں کے مکمل خاتمے کا زمینہ فراہم کر دے گی۔

حلب کی اہمیت:
شام کے شہر حلب کی آزادی اس قدر اہم ہے کہ روزنامہ الحیات نے حلب کے معرکے کو زندگی اور موت کی جنگ قرار دیا ہے۔ دوسری طرف حلب شہر پر دہشت گرد گروہوں کا قبضہ اس حد تک خطرناک ہے کہ اقوام متحدہ میں شام کے سفیر کے بقول اس کا نتیجہ دوسرے ممالک تک جنگ کا دائرہ وسیع ہو جانے کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے۔ حلب شام پر اسد خاندان کی حکومت کی ابتدا سے ہی ملک کا تجارتی مرکز سمجھا جاتا ہے، جبکہ اسے شام کا سب سے بڑا شہر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ حلب کے حدود اربع اور ملک کے شمال کو جنوب سے ملانے والی شاہراہ پر واقع ہونے نے اس شہر کی اسٹریٹجک اہمیت کو دوبالا کر دیا ہے۔ درعا – دمشق – حمص – حماہ – ادلب – حلب روڈ شام کی اہم ترین شاہراہ ہے، جو اس ملک کے شمال کو جنوب سے ملاتی ہے۔ اگرچہ اس ٹرانزٹ روڈ کا رقبہ پورے ملک کی نسبت زیادہ نہیں ہے، لیکن بحیرہ قلزم کے کنارے واقع ہونے اور سرسبز اور صحت افزا ہونے کے باعث ملک کی 75 فیصد آبادی اس علاقے میں مقیم ہے۔ لاذقیہ اور طرطوس میں صدر بشار الاسد کے گہرے اثر و رسوخ کے پیش نظر، حلب کی ممکنہ آزادی کی صورت میں ملک کے اہم اور کلیدی علاقوں پر حکومت کا کنٹرول بحال ہو جائے گا۔ حلب کی اقتصادی، تجارتی اور سکیورٹی اہمیت کے علاوہ اس شہر کا ترکی کی سرحد پر واقع ہونے کے ناطے ترکی کی حکومت کو تکفیری دہشت گرد عناصر کی مدد اور پشت پناہی کا بہترین موقع ملا ہوا ہے اور اگر شام آرمی اس علاقے کو دہشت گرد عناصر سے پاک کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اس کا مطلب اس علاقے میں انقرہ کے اثر و رسوخ میں خاطر خواہ کمی ہوگی۔ مزید برآں، حلب کی آزادی شام کے مغربی حصے میں تکفیری دہشت گرد عناصر کے آخری اہم گڑھ "ادلب" کی آزادی کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔

حلب کی مکمل آزادی کے نتائج:
اس اسٹریٹجک شہر پر شام آرمی کا مکمل قبضہ، جہاں شام کی سکیورٹی فورسز نے تین برس بعد قدم رکھے ہیں، کئی پہلووں سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اول یہ کہ روس کی جانب سے داعش کے خلاف ہوائی حملوں اور شام آرمی اور حزب اللہ لبنان کی جانب سے زمینی پیش قدمی کے آغاز کے بعد طاقت کا پلڑا شام آرمی کے حق میں بھاری ہوچکا ہے اور حلب کی ممکنہ آزادی شام میں بحران کے آغاز سے اب تک شام آرمی کی پہلی بڑی کامیابی تصور کی جائے گی، جس کے نتیجے میں شام حکومت کی حامی قوتوں کا مورال بہت بلند ہو جائے گا۔ دوسری طرف تکفیری دہشت گرد عناصر پر ایک کاری ضرب ثابت ہوگی۔ اگرچہ اس وقت داعش دریائے فرات کے مشرقی حصے اور صوبہ حلب کے بعض حصوں پر قابض ہے، لیکن حلب کے مغربی حصوں کی آزادی داعش اور شام آرمی کے درمیان جاری جنگ کی شدت میں اضافہ کر دے گی اور شام آرمی کی کامیابی کی صورت میں ترکی کی سرحد پر واقع شام کے شمالی حصے بھی شام حکومت کے کنٹرول میں آجائیں گے۔ حلب میں واقع ترکی اور شام کے سرحدی علاقوں پر شام آرمی کے قبضے کا پہلا اثر دہشت گرد عناصر کو ترکی سے ملنے والی لاجسٹک اور فوجی مدد کے خاتمے کی صورت میں ظاہر ہوگا اور ترکی کے راستے تکفیری دہشت گرد عناصر کا شام میں داخلہ اور آمدورفت بھی بند ہو جائے گی۔ البتہ حلب کی آزادی کے نتائج اسی حد تک محدود نہیں بلکہ صوبہ حلب میں شام آرمی کی شمال اور پھر شمال مغرب کی جانب پیش قدمی کے نتیجے میں ادلب کی آزادی کا زمینہ بھی فراہم ہو جائے گا۔ ادلب پر اس وقت جیش الفتح کا قبضہ ہے۔

چونکہ ادلب کا شہر لاذقیہ اور طرطوس کے قریب واقع ہے، لہذا اس شہر پر شام آرمی کی حمایت میں ہوائی حملے بھی زیادہ آسانی سے انجام پا سکتے ہیں۔ دوسری طرف ادلب کے شمال اور مشرق سے شام آرمی اور حزب اللہ لبنان کی پیش قدمی دہشت گرد عناصر کے گرد گھیرا مزید تنگ کر دے گی۔ ویانا مذاکرات کے پہلے دور کے خاتمے کے بعد شام میں تمام متحارب گروہوں نے میدان جنگ میں اپنی پوزیشن مضبوط بنانے کی سرتوڑ کوششوں کا آغاز کر دیا ہے۔ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ مذاکرات کے اگلے دور میں اسی کی بات زیادہ سنی جائے گی، جس کی پوزیشن میدان جنگ میں زیادہ مضبوط ہوگی۔ اسی وجہ سے امریکہ کی فارین ریلیشنز کونسل کے سربراہ رچرڈ ہیس نے اپنے ٹوئٹر اکاونٹ پر یہ الفاظ لکھے: "امریکہ کی جانب سے شام میں اسپشل فورس کے دستے بھیجنے کے فیصلے کا نتیجہ شام کے سیاسی مستقبل کے بارے میں منعقد ہونے والے ویانا مذاکرات میں امریکہ کی طاقت میں اضافے کی صورت میں ظاہر ہونا چاہئے۔"
سعودی عرب اور ترکی نے بھی شام میں سرگرم تکفیری دہشت گرد عناصر کی فوجی اور مالی امداد میں اضافہ کر دیا ہے اور انہیں ٹاو میزائل بھی فراہم کر دیئے ہیں۔ چند دن پہلے امریکی وزیر دفاع ایشٹن کارٹر نے بھی عرب رہنماوں پر زور دیا تھا کہ وہ اپنی پالیسی تبدیل کریں اور ہوائی حملوں کی بجائے زمینی کارروائی پر زیادہ زور دیں۔ دوسری طرف شام آرمی اور اس کی حامی قوتوں نے بھی مذاکرات میں پلڑا بھاری کرنے کیلئے میدان جنگ میں پورا زور لگا رکھا ہے۔ اگر شام آرمی حلب کو مکمل طور پر دہشت گردوں کے کنٹرول سے آزاد کروانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو شام کے بارے میں پیش ہونے والا سیاسی راہ حل بھی بہت حد تک تبدیل ہو جائے گا، کیونکہ حلب پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد ویانا مذاکرات میں دمشق کا پلڑا بہت بھاری ہو جائے گا۔
خبر کا کوڈ : 496676
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش