0
Tuesday 10 Nov 2015 02:29

70 سالہ خاموش تماشائی UN

70 سالہ خاموش تماشائی UN
تحریر: عمران خان

یو این ہیڈکوارٹر نیویارک 24 اکتوبر 2015ء کو نیلے رنگ کی روشنیوں سے جگمگا رہا تھا۔ یہ روشنیاں دنیا کے ممالک کی نمائندہ تنظیم اقوام متحدہ کے ستر برس پورے ہونے کی خوشی میں روشن تھیں۔ روشنیوں میں نہائے نیویارک میں جب دنیا کی سب سے بڑی عالمی تنظیم کا عالمی دن منایا جارہا تھا، اسی وقت دنیا کے ستر فیصد شہری امن، خوراک، تعلیم، سماجی، معاشی، معاشرتی حقوق کی معجزانہ روشنی کو ترس رہے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ یو این یعنی اقوام متحدہ کے قیام کا بنیادی مقصد جنگوں کی لعنت سے چھٹکارا تھا۔ اس بات میں کوئی ابہام نہیں ہونا چاہئے کہ اس تنظیم نے اپنے اس بنیادی مقصد میں سو فیصد کامیابی حاصل کی ہے، اور ہم پلہ طاقتوں کے درمیان جنگ نہیں ہونے دی۔ بس فرق محض اتنا ہے کہ اس تنظیم نے دنیا سے جنگوں کا خاتمہ کرکے ظلم کا تحفہ دیا ہے، کیونکہ ہم پلہ قوتیں آپس میں ٹکرائیں، تو یقینی طور پر جنگ ہوگی، مگر طاقت کے غرور میں مست کئی کئی ملکوں کی افواج وسائل کی لوٹ مار اور مفادات کے حصول کی خاطر کمزور ممالک پر چڑھ دوڑیں تو یقینی طور پر اسے جنگ نہیں، بلکہ ظلم ہی کہا جائے گا۔ اقوام متحدہ کے قیام کے بعد دنیا نے جنگوں کے بجائے ظلم کا سامنا کیا۔ اس ظلم کی تصویری صورت افغانستان، عراق، شام، یمن، فلسطین، کشمیر وغیرہ میں باآسانی دیکھی جاسکتی ہے۔ ذیل تحریر میں ستر سالہ اس عالمی بزرگ کے کردار کا مختصر جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے۔

بیسوی صدی کے دوران دنیا میں مختلف نوعیت کے بڑے بڑے واقعات رونما ہوئے۔ ان میں سے چند ایک واقعات ایسے ہیں جو تاریخ میں نہیں بھلائے جاسکتے۔ ان واقعات میں پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم کو بھی ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ دوسری جنگ عظیم نے دنیا میں بڑے پیمانے پر تباہی مچائی۔ اس جنگ میں 61 ملکوں نے حصہ لیا۔ ان کی مجموعی آبادی دنیا کی آبادی کا 80 فیصد تھی اور فوجوں کی تعداد ایک ارب سے زائد، تقریباً 40 ملکوں کی سرزمین جنگ سے متاثر ہوئی اور 5 کروڑ کے لگ بھگ لوگ ہلاک ہوئے۔ سب سے زیادہ نقصان روس کا ہوا۔ تقریباً 2 کروڑ روسی مارے گئے اور اس سے زیادہ زخمی ہوئے۔ روس کے 1710 شہر اور قصبے 70000 گاؤں اور 32000 کارخانے تباہ ہوئے۔ پولینڈ کے 600000، یوگوسلاویہ کے 1700000 فرانس کے 600000 برطانیہ کے 375000، اور امریکا کے 405000 افراد جان سے گئے۔ تقریباً 6500000 جرمن موت کے گھات اترے اور 1600000 کے قریب اٹلی اور جرمنی کے دوسرے حلیف ملکوں کے افراد مرے۔ جاپان کے 1900000 آدمی مارے گئے۔ جنگ کا سب سے ظالمانہ پہلو ہیروشیما اور ناگاساکی پر امریکا کا ایٹمی حملہ تھا۔ جاپان تقریباً جنگ ہار چکا تھا لیکن دنیا میں انسانی حقوق کے نام نہاد ٹھیکے دار امریکہ نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لئے انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایٹم بم کا استعمال کرکے لاکھوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ دنیا کی تباہی کے بعد جنگ کے فاتح ممالک نے اس عالمی تنظیم کے قیام کے پر غور کیا۔

تاریخ انسانی کے اس سب سے بڑے ادارے کے قیام کیلئے 1945ء میں 25 اپریل سے 26 جون تک سان فرانسسکو، امریکہ میں پچاس ملکوں کی ایک کانفرنس منعقد ہوئی تھی۔ اس کانفرنس میں یو این کے قیام پر مشاورت کی گئی۔ مقصد پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم کے نتیجے میں ہونے والے بے پناہ انسانی جانوں کے ضیاع اور املاک کی تباہی کو روکنا بتایا گیا اور اسی بنیاد پر اقوام متحدہ کا منشور یا چارٹر مرتب کیا گیا۔ جسے عالمی سطح پر 24 اکتوبر 1945ء کو لاگو کیا گیا اور پھر یہی دن اس ادارے کے قیام کا دن قرار پایا۔ اقوام متحدہ کا نام امریکہ کے سابق صدر مسٹر روز ویلٹ نے تجویز کیا تھا۔ اقوام متحدہ کے بنیادی اور ابتدائیہ مقاصد یہ تھے کہ مشترکہ مساعی سے بین الاقوامی امن اور تحفظ قائم کرنا، قوموں کے درمیان دوستانہ تعلقات کو بڑھانا، بین الاقوامی اقتصادی، سماجی، ثقافتی اور انسانوں کو بہتری سے متعلق گتھیوں کو سلجھانے کی خاطر بین الاقوامی تعاون پیدا کرنا، انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کے لئے لوگوں کے دلوں میں عزت پیدا کرنا، ایک ایسا مرکز پیدا کرنا، جس کے ذریعے قومیں رابطہ عمل پیدا کرکے ان مشترکہ مقاصد کو حاصل کرسکیں۔ آرٹیکل نمبر 2 کے تحت تمام رکن ممالک کو مرتبہ برابری کی بنیاد پر ہے۔ ہر وہ ملک جو اقوام متحدہ کے چارٹر کی شرائط تسلیم کرے اور ادارہ کی نظر میں وہ ملک ان شرائط کو پورا کرسکے اور اقوام متحدہ کی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لئے تیار ہو، برابری کی بنیاد پر اقوام متحدہ کا رکن بن سکتا ہے۔ اگر تمام ممالک کو برابری کی بنیاد پر مرتبہ حاصل ہے کی شق کو سامنے رکھا جائے تو یو این اپنے ہی چارٹر سے منحرف دیکھائی دیتی ہے۔ شروع شروع میں اس کے صرف 51 ممبر تھے۔ بعد میں بڑھتے گئے۔ اس وقت اس کے ارکان ممالک کی تعداد 193 ہے۔

سلامتی کونسل، اقوام متحدہ کا ایک ادارہ ہے، جس کے پانچ مستقل اور دس غیر مستقل نمائندے ہوتے ہیں۔ غیر مستقل ممبر دو سال کے لئے منتخب کئے جاتے ہیں جب کہ پانچ مستقل اراکین میں امریکا، روس، چین، برطانیہ اور فرانس شامل ہیں۔ ان پانچ اراکین کو یہ حق حاصل ہے کہ سلامتی کونسل میں پیش کی جانے والی کسی بھی قرارداد کے خلاف رائے دیں تو وہ قرارداد مسترد ہو جاتی ہے، چاہے کونسل کے دس غیر مستقل اور باقی چار مستقل اراکین اس قرارداد کے حامی ہی کیوں نہ ہوں۔ ان کی اس پاور کو عرف عام میں ویٹو پاور یا حق استبداد کہتے ہیں۔ اس طرح یہ ایک انتہائی ظالمانہ حق ہے، جو ان پانچ ناخداوں کو حاصل ہے۔ یعنی ویٹو پاور جمہوریت کا قاتل ہے، دوسرے معنوں میں اقوام متحدہ جمہوریت کی نفی کرتا ہے۔ آسان لفظوں میں یہ کہ جو قراردادیں ویٹو پاور ممالک کے مفادات کا ضامن ہوتی ہیں، انھیں منظور کر لیا جاتا ہے اور جن قراردادوں سے ان کے نظریات اور مفادات پر زک لگنے کا اندیشہ ہوتا ہے، انھیں مسترد کر دیا جاتا ہے۔ جس سے ایک بات تو واضح ہے کہ اقوام متحدہ کے قیام کے وقت جب امریکی صدر روزویلٹ نے ہم اقوام متحدہ کے ممالک کی اصطلاح پیش کی تھی، تو اس سے مراد دنیا بھر کے ممالک نہیں بلکہ جنگ کے فاتح یا اتحادی ممالک تھے، اور جن ممالک کو اس عالمی تنظیم میں ویٹو کا اختیار حاصل ہے، انہی کے مفادات کا تحفظ ہی اس تنظیم کا مطمع نظر تھا۔ اقوام متحدہ کی قدرے کم طاقت کی حامل جنرل اسمبلی میں ہر رکن ملک کے پاس حق رائے دہی استعمال کرنے کا اختیار ہے، لیکن سکیورٹی کونسل کے سامنے جنرل اسمبلی اپنی اہمیت اس صورت میں کھو دیتی ہے، جب جنرل اسمبلی سے منظور ہونیوالی قرارداد کو ان پانچ ناخداؤں میں سے کوئی ایک بھی ویٹو کر دیتا ہے۔ گرچہ اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل اور سویڈن کے سفارتکار ہیمر ڈاگ شلیڈ کے ان الفاظ کو اقوام متحدہ کے مقاصد کا بہتر ترجمان سمجھا جاتا ہے کہ ’’اقوام متحدہ بنی نوع انسان کو جنت میں لیجانے کیلئے نہیں بنائی گئی بلکہ انہیں جہنم سے بچانے کیلئے بنائی گئی ہے‘‘ تاہم عصر حاضر میں دنیا بالخصوص اسلامی دنیا کی صورت حال ان الفاظ کی نفی کرتی ہے، کیونکہ مظالم کی روک تھام میں اقوام متحدہ کا کردار ہمیشہ غیر موثر رہا ہے، جس کے نتیجے میں فلسطین، کشمیر، افغانستان، عراق، برما، شام اور یمن آج بھی جل رہے ہیں۔

مسئلہ فلسطین اقوام متحدہ کے وجود اور اس کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ اقوام متحدہ کی تاریخ میں سب سے زیادہ جو قراردادیں پیش کی گئیں، وہ مسئلہ فلسطین سے متعلق تھیں، جبکہ ان قراردادوں کی مخالفت میں امریکہ پیش پیش تھا۔ امریکہ نے اب تک اقوام متحدہ کی تاریخ میں سب سے زیادہ ویٹو پاور کا استعمال کیا ہے۔ یہ بھی حسن اتفاق ہے کہ امریکہ نے اپنی اس ویٹو قوت کا سب سے زیادہ استعمال اسرائیل کے حق میں اور فلسطین کی مخالفت میں استعمال کیا ہے۔ دنیا بھر کے پرامن شہری آج بھی اقوام متحدہ سے یہ آس امید لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ مسئلہ فلسطین کے حل میں اپنا کردار ادا کریگی، مگر اس سے بھی انکار ممکن نہیں کہ مسئلہ فلسطین کے خالق دونوں بڑے سلامتی کونسل کے ممبر ہیں۔ برطانوی افواج نے اپنی نگرانی میں یورپ سے یہودیوں کو موجودہ اسرائیل اور ماضی کے آزاد فلسطین میں منتقل کرکے انہیں آباد کیا۔ مشرق وسطٰی کے سینے میں اسرائیل نامی خنجر گھونپنے کے بعد صہیونی ریاست کے دفاع کی ذمہ داری امریکہ نے قبول کی۔ اقوام متحدہ کی ویب سائٹ پر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ صرف 1947ء میں فلسطین کا موضوع سو سے زائد مرتبہ زیر بحث رہا۔ اس مسئلے کے اہم ترین ایشوز میں شامل ہے۔ فلسطینیوں کا حق خود ارادی، حق قومی آزادی و خود مختاری اور اس زمین، گھر اور ملکیتوں پر ان کی واپسی کا حق کہ جہاں سے صہیونی دہشت گردوں نے انھیں زبردستی بے دخل کر دیا تھا۔ دیگر اہم ترین ایشوز کو آزاد فلسطینی ریاست کی دائمی اور حتمی حیثیت سے منسلک قرار دیا گیا ہے، ان میں بیت المقدس یعنی یروشلم، فلسطینی مہاجرین، ناجائز نسل پرست اسرائیلی یہودی بستیاں، پانی اور سرحدیں ہیں۔ ماہرین مسئلہ فلسطین کو خطے میں قیام امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیتے آئے ہیں۔ جنرل اسمبلی میں فلسطین کے حق میں قراردادوں کی منظوری کے باوجود اقوام متحدہ ان قراردادوں پر عملدرآمد کرانے سے قاصر رہی۔ صرف اسرائیل کے خلاف جنرل اسمبلی میں ڈھائی سو سے زائد قراردادیں پیش ہوچکی ہیں، جن میں سے متعدد منظور ہوئیں، مگر اسرائیل نے اقوام عالم کی اس عالمی تنظیم کی قراردادوں کو ہمیشہ ہوا میں اڑا دیا۔ فلسطین عوام آج بھی اسرائیلی ظلم و استبداد کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ کی جانب سے 29 نومبر کو فلسطین کا عالمی دن قرار دیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کی حقیقت فلسطینیوں پر اتنی آشکارا ہے کہ فلسطینی اپنا قومی دن 29 نومبر کو منانے کے بجائے یوم القدس اور یوم نکبہ مناکر اقوام متحدہ سے بالواسطہ طور پر بیزاری کا اظہار کرتے ہیں۔

فلسطین کی طرح مسئلہ کشمیر بھی اقوام متحدہ کی ناکامی کا مظہر ہے۔ اقوام متحدہ کی اپنی قرارداد کے مطابق بھارت کشمیری عوام کو عالمی نگرانی میں حق خود ارادیت دینے کا پابند ہے۔ اقوام متحدہ یا سلامتی کونسل نے کبھی بھارت کو اپنی قرارداد پر عملدرآمد کیلئے مجبور نہیں کیا اور نہ ہی کشمیری عوام کی جدوجہد یا قربانیوں کا اعتراف کیا۔ نصف صدی گزرنے کے باوجود آج بھی کشمیری مسلمان بھارت کے ریاستی جبر کا شکار ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل اراکین یعنی برطانیہ اور امریکہ نے بھارت کو سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت دینے کیلئے باقاعدہ لابنگ شروع کر رکھی ہے۔ ایک ایسا ملک جو بذات خود اقوام متحدہ کی قرارداوں کی خلاف ورزی کا مسلسل مرتکب ہو رہا ہے، اسی کو اس عالمی تنظیم کے سب سے بڑے ادارے میں مستقل رکنیت اور ویٹو کا اختیار دینے کی کوششیں جاری ہیں۔ مسئلہ کشمیر و فلسطین میں تو اقوام متحدہ کی پرمذمت غفلت دکھائی دیتی ہے۔ تاہم کرہ ارض کے کئی سانحات ایسے بھی ہیں، جن میں اقوام متحدہ کا کردار مجرمانہ حد تک کارفرما ہے۔ 1994ء میں اپریل سے جولائی تک محض 100 دن کے اندر روانڈا میں آٹھ لاکھ افراد کی نسل کشی کی گئی۔ ان ایک سو دنوں کے اندر اقلیتی گروپ ٹوٹسی اور اس سے ہمدردی رکھنے والے ہوٹو قبائل کے افراد کو چن چن کر قتل کیا گیا، جبکہ اقوام متحدہ نے اپنی تمام تر توجہ وہاں سے اپنا عملہ اور سرکاری حکام کو باحفاظت باہر نکالنے پر مرکوز رکھی۔ اس حوالے سے متعدد ایسی رپورٹس جاری ہوچکی ہیں، جن میں یو این کے کردار پر سنگین سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ اسی طرح جولائی 1995ء میں بوسنیا کی سرب فوجوں نے ہزاروں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی، اس قتل عام میں مرنے والے افراد کی زیادہ تعداد نوجوانوں پر مشتمل تھی۔ اس قتل عام کا تاریک ترین پہلو یہ بھی ہے کہ یہ تمام مسلمان اقوام متحدہ کے زیرسایہ ان علاقوں میں پناہ گزین تھے، جنہیں اقوام متحدہ نے سیف زون کا نام دیکر ان مسلمانوں کو یہاں آباد کیا تھا۔ یہ علاقے عملی طور پر اقوام متحدہ کی فورسز کی حفاظت میں تھے، جبکہ سرب فوجیوں نے انہی کے سامنے 8000 مسلمانوں کو قتل کیا۔

امریکہ میں نائن الیون کا واقعہ پیش آنے کے محض پندرہ منٹ بعد ہی اس کے ذمہ داروں کا تعین کرلیا گیا اور ان ذمہ داروں کا ہر جگہ تعاقب کا اعلان کرکے امریکہ افغانستان پر چڑھ دوڑا۔ آہستہ آہستہ دیگر ممالک بھی امریکی اتحاد کا حصہ بنتے چلے گئے۔ یو این کا منشور کسی بھی ملک کو دوسرے ملک پر حملے کی اجازت نہیں دیتا۔ امریکی موقف کو سامنے رکھا جائے تو بھی نائن الیون کی ذمہ داری القاعدہ پر عائد ہوئی تھی، ناکہ افغانستان کی حکومت پر۔ اس کے باوجود اقوام متحدہ نے افغانستان کو کھنڈر بننے سے بچانے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا، بلکہ نیٹو فورسز کو افغانستان پر حملے کی باقاعدہ اجازت دی۔ ایک اسامہ بن لادن کی تلاش میں اس امریکی حملے کا ہزاروں افراد نشانہ بنے، اور آج پورا خطہ بدامنی کا ایسا گڑھا بن چکا ہے، جو روزانہ کی بنیاد پر کئی قیمتی انسانی زندگیاں نگل رہا ہے۔ نائن الیون کے سٹیج ڈرامے سے افغان جنگ کے اثرات تک اقوام متحدہ عضو معطل کی طرح لاتعلق رہی۔ ابھی افغانستان سے جنگ کے بادل نہیں ٹلے تھے کہ 20 مارچ 2003ء کو امریکہ نے اقوام متحدہ کے تمام تر قوانین، قواعد و ضوابط کو روندتے ہوئے عراق پر حملہ کر دیا۔ اس حملے کیلئے عراق پر ایٹمی، کیمیاوی اور جراثیمی ہتھیاروں کا الزام عائد کیا گیا۔ لاکھوں افراد اس جنگ میں لقمہ اجل بن گئے۔ اسی جنگ کے اثرات پورے خطے پر مرتب ہوئے تو آج کا مشرق وسطٰی ایک الاؤ کا روپ دھار چکا ہے۔ جس کی آگ پر امریکہ اور اسرائیل اپنے مفادات سینک رہے ہیں۔

آج عراق دنیا کا ایک ایسا ملک ہے، جہاں سب سے زیادہ دھماکے ہوتے ہیں۔ لاکھوں عراقی و شامی مہاجرین آج سمندروں میں یورپ و دیگر ملکوں کی جانب امن کی تلاش میں سرگرداں ہیں، جبکہ عراقی سونے کے ذخائر امریکہ منتقل ہوچکے ہیں، تو تیل کے ذخائر سے اسرائیل استفادہ کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ کا وجود کہیں بھی کمزور ممالک، ان کے وسائل کے تحفظ کیلئے نظر نہیں آتا، بلکہ ہمیشہ ہی بڑی طاقتوں کی محافظ کے طور پر سرگرم دکھائی دیتی ہے۔ یہی اقوام متحدہ دہشت گردی کی حوصلہ شکنی اور اس سے نجات کی قرارداد منظور کرتی ہے، پھر یہی اقوام متحدہ شام میں بشارد حکومت کے مخالفین کو مسلح کرنے کی روش کی حوصلہ افزائی کرتی دکھائی دیتی ہے۔ یہی اقوام متحدہ ایٹمی پھیلاؤ پر تشویش کا اظہار کرکے دنیا کو اس سے پاک کرنے کا عزم ظاہر کرتی ہے اور یہی اقوام متحدہ ناجائز غیر قانونی ریاست اسرائیل کے ایٹمی ذخائر سے مجرمانہ چشم پوشی کرتی ہے۔ یو این کی اسی مجرمانہ روش اور غفلت کے باعث ہزاروں بچے ایلان کردی کی صورت میں بحیرہ روم کی موجوں کی نظر ہوگئے، تو ہزاروں برمی مسلمان بدھ متوں کی لگائی آگ میں زندہ جل کر کوئلہ بن گئے۔ جو اقوام متحدہ کسی ایک ملک میں لوگوں کو جمہوری حق نہ ملنے پر واویلا شروع کرتی ہے، وہی دوسرے ملک میں انسانوں کو زندہ رہنے کا حق نہ ملنے پر خاموش نظر آتی ہے۔ دوہرے معیار کی بنیادوں پر بنائی گئی، اس ستر سالہ عمارت میں سے نہتوں، کمزوروں کا لہو ٹپکتا محسوس ہوتا ہے۔

کل تک عراق کے خطرناک ہتھیاروں کا واویلا کرنے والے ٹونی بلیئر نے اعتراف کیا ہے کہ عراق پر حملہ غلطی تھی، اور لاکھوں مسلمانوں کے قتل عام کے جواب میں اس نے ایک لفظ ’’سوری‘‘ بھی ادا کیا ہے۔ تاحال یہ بھی معلوم نہیں ہوسکا کہ یہ ’’سوری‘‘ کس کو مخاطب کرکے کیا گیا ہے۔ عراق کی ماؤں کو کہ جن کے بچے امریکی و برطانوی بمباری کا شکار بنے، یا برطانوی عوام کو کہ جن کے ٹیکسوں سے لاکھوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا، یا اقوام متحدہ کو۔ کیا اقوام متحدہ اس اعتراف کے بعد اس جنگ کے ذمہ داران کے خلاف کوئی کارروائی کرے گی۔؟ تو یقیناً اس سوال کا جواب بھی نفی میں ہوگا۔ اقوام متحدہ کا کردار بڑی طاقتوں کے مفادات کی محافظت تک ہی محدود نہیں، بلکہ ان مفادات کے حصول کیلئے بھی نمایاں رہا ہے۔ ایسے ممالک جو امریکہ اور اس کے حواریوں کے مذموم عزائم کی راہ میں رکاوٹ سمجھے جاتے تھے۔ ان تمام ممالک کو کسی نہ کسی طرح اقوام متحدہ نے اقتصادی، معاشی پابندیوں میں جکڑ کر انہیں اس حد تک کمزور کیا کہ وہ مزاحمت ترک کر دیں، اگر ترک نہ کریں تو اس مزاحمت میں شدت باقی نہ رہے۔ اقوام متحدہ نے جن جن ممالک کو اقتصادی، تجارتی یا معاشی پابندیوں کا شکار بنایا، وہ تمام ترقی پذیر یا پسماندہ ہیں۔ پابندیوں کا شکار ہونے والے ممالک میں کوئی ایک بھی ایسا ملک نہیں، جسے انسانیت کا مجرم قرار دیا جاسکے۔ (جاپان پر ایٹمی حملے کے بعد یہ اعزاز صرف امریکہ کے حصے میں آیا ہے)۔ اقوام متحدہ کی جانب سے پابندیوں کا شکار ہونے والے ممالک میں کانگو، شمالی کوریا، اریٹریا، ایران، عراق، شام، لبنان، لائبیریا، لیبیا، صومالیہ، سوڈان وغیرہ شامل ہیں۔ ان ممالک میں ماسوائے شمالی کوریا کے کوئی ایک ملک بھی ایٹمی طاقت نہیں ہے، نہ ہی ان میں سے کوئی ملک سائنس و ٹیکنالوجی، ترقی، عسکری قوت میں سکیورٹی کونسل کے پانچ بڑوں کا ہم پلہ ہے۔ لہذا ان ممالک سے دنیا کو اس قدر خطرہ نہیں، جتنا ترقی یافتہ ملکوں سے ہے، مگر اس کے باوجود یہ ممالک اقوام متحدہ کی زیادتیوں کا زیادہ شکار ہیں۔

ایٹمی ہتھیاروں کے تناظر میں دیکھا جائے تو صرف امریکہ کے پاس ایٹمی ہتھیاروں کی اتنی مقدار موجود ہے، جو پورے کرہ ارض کو کئی بار مکمل طور پر تباہ کرسکتی ہے۔ امریکہ دنیا کا واحد ملک ہے، جو اس طاقت کا استعمال کر چکا ہے۔ غیر روایتی ہتھیاروں کا جب بھی استعمال ہوا ہے، امریکہ یا اس کے حواریوں کی جانب سے ہوا ہے، مگر کرہ ارض کے حقیقی دشمنوں کے خلاف اقوام متحدہ خاموش ہے۔ یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ بسا اوقات ایٹمی ہتھیاروں کی حفاظت سے متعلق سوالات اٹھائے جاتے ہیں، اور اس ضمن میں تنقید کا شکار عمومی طور پر پاکستان جیسے ممالک بنتے ہیں، مگر اب تک جتنے بھی ایٹمی ہتھیار چوری ہوئے ہیں، یا غلطی سے سمندر برد ہوئے ہیں، وہ ان ممالک کے تھے جو سلامتی کونسل کے مستقل ممبرز ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے شام و عراق میں موجود دہشت گردوں کو روایتی و غیر روایتی ہتھیاروں کی ترسیل سے اقوام متحدہ نے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کی ہوئی ہیں، مگر انہی دونوں ممالک میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام کام کرنے والے انسانی حقوق کے اداروں کے کام کرنے پر پابندی ہے۔ اسی طرح کمزور اور جارحیت کا شکار ہونے والے ممالک پر اقوام متحدہ کی جانب سے ہتھیاروں کی خرید و فروخت پر پابندی عائد ہے، تاہم یمن میں امریکی ساختہ فاسفورس بم سعودی عرب گرا رہا ہے، مگر سعودی عرب اور امریکہ دونوں پابندیوں سے مستثنٰی ہیں۔

وہی بھارت جس کے ماتھے پر کشمیری اور اقلیتوں کے لاکھوں افراد کے قتل عام کا ٹیکہ سجا ہے، امریکہ کے ساتھ جوہری معاہدے کرچکا ہے۔ امریکہ کی تخلیق کردہ داعش کو ختم کرنے کیلئے امریکہ ہی نے گرینڈ الائنس کا اعلان کیا اور پھر اسی داعش کو ’’غلطی‘‘ سے اسلحہ فراہم کرنے کا بھی اعتراف کیا۔ یعنی جو ممالک جنگیں مسلط کرتے ہیں، نان اسٹیٹ ایکٹر یا دہشت گرد بناتے ہیں۔ اپنی من پسند حکومتوں کے قیام کیلئے دوسرے ممالک کو خانہ جنگی و اندرونی انتشار میں مبتلا کرتے ہیں۔ خطرناک، مہلک ترین اسلحہ کے بیوپاری ہیں، بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں بکھیرتے ہیں، انسانیت سوز جنگی جرائم کے مرتکب ہیں، اتفاق سے اقوام متحدہ کی لگام انہی کے ہاتھ میں ہے۔ وہ جب جس جانب چاہیں، اسے موڑ دیتے ہیں اوراس ٹرن کو اقوام عالم کے فیصلے کے طور پر دنیا پر مسلط کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے قیام کے وقت دوسری جنگ عظیم کے فاتح ممالک کو اس ادارے میں خصوصی اختیارات ’’ویٹو‘‘حاصل ہوا۔ وہی فاتح ممالک اس تنظیم پر اجارہ داری قائم کئے ہوئے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم یا اس کے بعد کسی مظلوم یا مفتوح قوم یا ملک کو اس تنظیم میں کوئی اختیار، پذیرائی نہیں ملی۔ باالفاظ دیگر اقوام متحدہ طاقتوروں کا ایک ایسا گروہ ہے، جس میں کمزور ممالک شامل تو ہوسکتے ہیں، مگر اپنے تحفظ کی سند حاصل نہیں کرسکتے۔ یہ ہے عالمی ادارہ اقوام متحدہ کی حقیقت جس پر دنیا تکیہ کر بیٹھی ہے کہ یہ دادرسی کا ادارہ ہے۔
خبر کا کوڈ : 496722
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش