1
0
Friday 4 Dec 2015 06:00

پاکستان کی افغان پالیسی کا نیا رخ

پاکستان کی افغان پالیسی کا نیا رخ

تحریر: سردار تنویر حیدر بلوچ

امریکی صدر اوباما افغانستان سے ایک لاکھ سے زائد امریکی فوجیوں کو واپس لے جا چکے ہیں۔ 2016ء میں مکمل فوجی انخلا کا اعلان اور اتحادی پاکستان کو اب اس کے حال پر چھوڑ کر امریکہ بھارت کو ایٹمی ڈیل اور دیگر ترجیحی مراعات دے کر جنوبی ایشیا میں ایک برتر طاقت بنانے میں ہر طرح کا دفاعی، معاشی اور سیاسی تعاون کر رہا ہے۔ پاک بھارت کشیدگی پر امریکی تشویش کا اظہار مگر کشمیر سمیت دیگر تنازعوں میں دو طرفہ حل کی تاکید پر مبنی پالیسی، روایتی جنگی ہتھیاروں اور فوج کی تعداد میں اگر بھارت پاکستان سے بہت زیادہ آگے ہے تو کوئی تشویش نہیں اگر بھارت ایٹمی میدان میں اپنا کام وسیع کرے تو اس کی معاونت اور مراعات میں واشنگٹن اگے آگے ہے، لیکن بھارت کے ’’کولڈ اسٹارٹ‘‘ کے جواب میں پاکستان اگر ٹیکٹیکل ایٹمی ہتھیار بنا لے تو بھارت کی پریشانی کم کرنے کیلئے واشنگٹن نیو کلیئر کنٹرول اور دیگر اقدامات کیلئے پاکستان پر دبائو ڈالتا ہے۔

نیٹو، افغان فورسز اور امریکی فوج مل کر بھی افغانستان میں امن قائم نہ کر سکیں۔  14 سال اور اربوں ڈالرز کے خرچ کے باوجود افغانستان میں امن قائم نہ ہو سکا مگر اسی مقصد کیلئے پاکستان پر ’’ڈو مور‘‘ کا دبائو، طالبان کی حمایت کے الزامات اور مطالبات کی بھرمار، ریمنڈ ڈیوس، سلالہ پر پاک امریکہ کشیدگی کے دیگر واقعات کا بوجھ اضافی تھا۔ افغانستان میں ’’فائٹنگ سیزن‘‘ کے آغاز کے ساتھ ہی طالبان نے قندوز کے شہر پر پیش قدمی اور کنٹرول حاصل کر کے سب کو چونکا دیا۔

اٹھائیس ستمبر کو طالبان دستوں کی طرف سے قندوز شہر پر مختصر مدت کے لئے قبضہ افغانستان میں آρئندہ پیش آρنے والے واقعات کی ایک مثل قرار دیا جاسکتا ہے۔ طالبان جنگجو ابھی بھی اس کے مضافات میںچھاپہ مار کارروائیاں کررہے ہیں۔ اس طرح قندوز شہر کو طالبان کی طرف سے ہمیشہ خطرہ لاحق رہے گا، اور اس پر فریقین میں سے کوئی بھی، جس کا بھی کسی وقت پلڑا بھاری ہوگا، قبضہ کرلے گا۔ اس سے پہلے طالبان نے ستمبر 2014ء اور پھر اپریل 2015ء میں قندوز شہر پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ طالبان کی طرف سے قندوز شہر، جو کہ قندوز صوبے کا دارالحکومت ہے، کو لاحق خطرے میں اضافہ ہورہا تھا۔ اْنھوں نے اس شہر کے نزدیک کچھ اہم ضلعی مقامات، جیسا کہ چہاردرا، دشت ِ آرچی اور امام صاحب پر قبضہ کرلیا تھا۔ اس کے بعد خان آباد اور قلعہ زل کو بھی خطرہ محسوس ہونے لگا اور بعد میں یہ ضلعی مراکز بھی اْن کے قبضے میں چلے گئے۔ طالبان کے لئے قندوز کی اہمیت یہ ہے کہ یہ جغرافیائی طور پر اْن کے مضبوط گڑھ، جو پاکستان کی سرحد کے نزدیک جنوبی اور مشرقی افغانستان میں واقع ہیں، سے بہت دور ہے۔ طالبان، جن کی صفوں میں زیادہ تر پشتون نسل کے لوگ ہیں، شمالی افغانستان میں کمزور سمجھے جاتے ہیں کیونکہ ان علاقوں میں غیر پشتون، جیسا کہ تاجک، ازبک، ہزارہ شیعہ اور ترکمن نسل کے افراد کی تعداد زیادہ ہے۔ شمال کے علاوہ مغربی اور وسطی افغانستان میں طالبان کی بڑھتی ہوئی طاقت سے اندازہ ہوتا ہے کہ اب بہت سے غیر پشتون افراد بھی ان کی صفوں میں شامل ہوچکے ہیں۔ اگرچہ درست اعدادوشمار دستیاب نہیں لیکن کچھ میڈیا رپورٹس کے مطابق پانچ سو کے قریب طالبان جنگجوئوں نے قندوز شہر پر حملہ کیا اور افغان نیشنل آرمی، افغان نیشنل پولیس اور افغان لوکل پولیس کہلانے والے ملیشیا کے مجموعی طورپر سات ہزار سکیورٹی اہلکاروں کو فرار ہونے پر مجبور کردیا۔ اس جنگ میں ان دستوں کی ناقص کارکردگی نے خطرے کی گھنٹیاں بجاتے ہوئے چار لاکھ نفوس پر مشتمل افغان نیشنل سیکورٹی فورسز کی کمزوری کے بارے میں بعض حلقوں کے خدشات کی تصدیق کردی۔ اس فورس کو تربیت دینے اور ہتھیار فراہم کرنے پر امریکہ نے 65 بلین ڈالر کے لگ بھگ خطیر رقم خرچ کی، لیکن وہ تعداد میں بہت کم اور ہتھیاروں کے اعتبار سے بہت پست طالبان کے حملے کا سامنا بھی نہ کرسکے۔ بہت سے افغان حلقوں نے اسے عالمی طاقتوں کی سازش قرار دیتے ہوئے امریکی اور علاقائی، خاص طور پر پاکستان کے، خفیہ اداروں کو مورد ِالزام ٹھہرایا۔

قندوز تاجکستان کی سرحد کے نزدیک واقع ہے اور اس کا ڈیورنڈ لائن سے فاصلہ پانچ سو کلومیٹر ہے۔ پاکستان سے افغانستان میں داخل ہونے والے جنگجوئوں کو قندوز کی لڑائی میں شرکت کرنے کے لئے پورے افغانستان سے گزرنے کی ضرورت تھی۔ اْنہیں وقت کے علاوہ سفر کرنے اور لڑنے کے لئے وسائل بھی درکار تھے ، اور پھر خطے میں جابجا چیک پوسٹوں میں سے بچ کر گزرنا آسان نہ تھا۔ کچھ حلقوں نے اسے داخلی سازش سے تعبیر کیا جس کے تانے بانے مخلوط حکومت میں شامل افسران نے بُنے تھے۔ وزیر ِ داخلہ نورالحق علومی، جو سابق دور میں کمیونسٹ تھے، نے دعویٰ کیا ہے کہ اس شکست میں بہت سے سکیورٹی اہلکاروں اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کا بھی ہاتھ ہے۔ ماضی میں وزیر موصوف کی طرف سے بیان سامنے آیا تھاکہ افغانستان کے دشمن جنوبی علاقوں جبکہ افغانستان کے ’’دوست‘‘ (افغان جنگجو سردار) شمالی علاقوں میں مسائل کے ذمہ دار ہیں۔

قندوز کی شکست کے بعد افغانستان میں غیر ملکی افواج کو دیر تک ٹھہرنے کا جواز مل سکتا ہے، کیونکہ اس واقعہ نے ثابت کیا کہ صرف ان کی مدد سے ہی افغان فورسز طالبان حملے کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوئی تھیں۔ قندوز پر قبضے نے نئے طالبان رہنما ملا اختر محمد منصور کی پوزیشن کو مستحکم کردیا ہے کیونکہ ان کے قائد بننے کے فوراً بعد طالبان 2001ء میں اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد پہلی مرتبہ کسی اہم شہر پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوئے۔ قندوز حملے کی قیادت ملاّ عبدالسلام نے کی۔ ملاّ عبدالسلام، جو ملاّ منصور کے بہت قریب ہیں اور ملاّ محمد عمر کی وفات کے بعد جانشینی کے مسئلے پر ان کی حمایت کرنے والے اولین طالبان کمانڈروں میں سے ایک تھے، کو طالبان کی طرف سے قندوز کا گورنر مقرر کیا گیا۔ اس سے پہلے ملاّ منصور کی پوزیشن کو غزنی جیل توڑ کر طالبان کے 355 قیدی، جن میں 148 پر سیاسی اور دہشت گردی کے الزامات تھے، کو رہا کرانے کی کارروائی نے بھی مستحکم کیا۔ ایسا لگتا ہے کہ تحریک طالبان میں منصور کے مخالفین کو یا تو اْنہیں اپنا قائد تسلیم کرنا یا غیر فعال ہوکر ایک طرف ہٹنا پڑے گا، کیونکہ قندوز پر حملے کے بعد اب اْن کی مخالفت کرنے والے طالبان کے لئے قابل ِ قبول نہ رہیں گے۔ منصور کی مخالفت کرنے والے قیادت سے اْس وقت بے آسرا ہوگئے جب ملاّ عمر کے خاندان نے اپنا ابتدائی موقف تبدیل کرکے ملاّ منصور کی قیادت کو تسلیم کرلیا۔

قندوز کی جنگ نے طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کی امیدیں چکنا چور کردی ہیں۔اس وقت طرفین غصے سے اتنے آگ بگولا ہیں کہ ان کے درمیان بات چیت کی گنجائش نکلتی دکھائی نہیں دیتی۔ قندوز پر حملے اور شمالی افغانستان کے درجنوں ضلعی مقامات پر قبضے نے طالبان کے حوصلے بڑھا دیئے ہیں۔ اب افغان حکومت طالبان کے حملوں کے خلاف اپنا دفاع کرنے کے لئے شدید دبائو کا شکار ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ سات جولائی کو مری میں ہونے والے مذاکرات کے بعد اب اگلا دور بہت تاخیر سے ہوگا، بشرطیکہ پاکستان طالبان کو بات چیت کرنے پر آمادہ کرسکا۔

جس طرح پاکستان کو امریکہ سے ملنے والی امداد اور اس کی بقایا رقم دہشت گردی کیخلاف جنگ کے نام پہ امریکہ کی طرف سے پاکستان کو افغانستان کیخلاف جنگ میں تعاون پہ ملنے والا معاوضہ ہے۔ اسی طرح پاکستانی حکام امریکی حلیف ہونے کے ناطے بھارت کی طرف سے ہونے والی اشتعال انگیز کارروائی کی شکایت بھی امریکہ سے ہی کرتے ہیں۔ جس طرح امریکی حکام افغان طالبان کو مذاکرات پہ لانے یا نہ لانے سے متعلق پاکستان سے اپنی توقعات اور شکایات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ افغانستان میں حقانی نیٹ ورک اور ملا عمر کے جنگجو بھی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں، ساتھ ساتھ امریکہ کی طرف سے ڈرون حملے بھی جاری ہیں، مذاکرات اور جنگ ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں دو امریکی ڈرون حملوں کے نتیجے میں سات مبینہ عسکریت پسند ہلاک جبکہ متعدد زخمی ہو گئے۔ پہلے حملے میں داعش کے ٹھکانے کو امریکی جاسوس طیارے نے پاک افغان سرحدی علاقے نازیان میں نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں تین عسکریت پسند ہلاک جبکہ پانچ زخمی ہوئے۔ سکیورٹی ذرائع کے مطابق جاسوس طیارے نے داعش کے ٹھکانے پر ایک میزائل فائر کیا جس سے ٹھکانہ بھی تباہ ہو گیا۔ دوسرا ڈرون حملہ خیبر ایجنسی سے ملحقہ افغان علاقے لعل پورہ میں ہوا جس کے نتیجے میں چار شدت پسند ہلاک جبکہ دو زخمی ہو گئے۔ سکیورٹی ذرائع کے مطابق ہلاک ہونے والے تمام مبینہ دہشتگرد تحریک طالبان پاکستان سے تعلق رکھتے تھے۔ گذشتہ ہفتے بھی پاکستانی سرحد کے قریب افغانستان کے علاقے نازیان اور باندرا میں 2 ڈرون حملوں کے نتیجے میں کم از کم 16 مبینہ دہشت گرد مارے گئے تھے، جس میں داعش کے جنگجو بھی شامل تھے. تقریباً ایک ماہ قبل ستمبر میں بھی نازیان میں امریکی ڈرون سے داعش کے ٹھکانے پر دو میزائل داغے گئے، جس میں داعش کے 4 مشتبہ دہشت گرد ہلاک جبکہ متعدد زخمی ہوئے تھے۔ داعش نے باقاعدہ طور پر افغانستان میں اپنی موجودگی کو تسلیم نہیں کیا لیکن ملک میں ان کی موجودگی کے خدشات بڑھتے جا رہے ہیں۔ 

امریکا کا کہنا ہے کہ شام اور عراق کے وسیع و عریض علاقے پر قابض داعش کی افغانستان میں موجودگی پہلے مرحلے میں ہے۔ افغانستان کے دور دراز علاقوں میں ہونے والے اکثر امریکی ڈرون حملوں کی معلومات سامنے نہیں آتیں۔ پاک فوج نے شمالی وزیرستان میں جون 2014ء میں آپریشن ضرب عضب اور خیبر ایجنسی میں اکتوبر 2014ء میں آپریشن خیبر۔ ون جبکہ مارچ 2015ء میں آپریشن خیبر۔ ٹو شروع کیا تھا جس کے بعد ان علاقوں سے عسکریت پسند افغانستان فرار ہو گئے۔ شمالی وزیرستان اور خیبر ایجنسی سے عسکریت پسندوں کے ٹھکانے ختم ہونے کے بعد امریکا کے پاکستان میں ڈرون حملوں میں کمی آئی ہے۔ حالیہ دنوں افغانستان میں قیام امن کے لیے پاکستان میں افغان حکومت اور طالبان نمائندوں میں مذاکرات ہوئے ہیں، ان مذاکرات کے دوران ہی طالبان مخالف شدت پسند تنظیم داعش کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے جس میں داعش کے خراسان (پاکستان اورافغانستان) کے امیر حافظ سعید خان اور اہم کمانڈر شاہد اللہ شاہد سمیت 200 سے زائد حامی مارے جا چکے ہیں۔ بعد ازاں داعش کی جانب سے ایک آڈیو پیغام جاری کیا گیا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ داعش کے خراسان کے امیر حافظ سعید خان ڈرون حملے میں نہیں مارے گئے بلکہ وہ زندہ ہیں۔

سفارتی مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکہ نوازشریف کے تحفظات کو بہت اہمیت دے رہا ہے۔ وہ بھارت کو پس پردہ ضرور یہ سخت پیغام دے گا کہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے باہمی تنازعات کا حل نکالے۔ وزیراعظم کے دورے کے دوران پاکستان کے سیکرٹری خارجہ نے ٹیکنیکل جوہری ہتھیاروں کی تیاری کا انکشاف کیا جس پر بھارت میں کھلبلی مچ گئی ہے۔ مشیرخارجہ سرتاج عزیز نے وضاحت کی ہے کہ بھارت کولڈسٹارٹ ڈاکٹرائن کے ذریعے پاکستان کو جھکانا چاہتا ہے اس کا ہمیں پرزور انداز میں جواب دینا ہے اور ہمارے جوہری ہتھیار اس سلسلے میں بہترین مزاحمت ہیں۔ امریکہ نے پاکستان کو ایف 18لڑاکا طیارے اور وائپر جنگی ہیلی کاپٹر دینے کا بھی معاہدہ کیا ہے۔ بھارتی وزیر دفاع دسمبر میں امریکہ جا رہے ہیں جہاں وہ اس پیشرفت پر پاکستان کے خلاف واویلا کریں گے۔ امریکہ پاکستان کی مستقبل میں کوئی خاص معاشی مدد نہیں کرے گا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہے کہ امریکہ نوے کی دہائی کی طرح پاکستان پر عالمی پابندیاں عائد کرنے کی بھی کوشش نہیں کرے گا۔ بظاہر یہ لگتا ہے کہ دورے سے پہلے پاکستان کو امریکی خارجہ پالیسی کے بارے میں ایسے خدشات تھے کہ کہیں وہ پاکستان کے خلاف برملا منفی رویہ نہ اپنائے اور صورت حال نوے کی دہائی کی طرف نہ پلٹ جائے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے اہم اعلانات اور بیانات سے اپنی پالیسی کو پہلی بار واضح انداز میں پیش کرنا مناسب سمجھا۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ وزیراعظم نے صدر باراک اوباما سے ملاقات کے ایک روز بعد واشنگٹن میں کہا کہ پاکستان طالبان کے ساتھ افغانستان کے امن مذاکرات کی بحالی میں مدد کے لیے تیار ہے۔ نوازشریف نے یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان نے خطرناک فوجی نظریہ اپنالیا ہے جس کے پیش نظر پاکستان کو بھی مجبوراً اس کے جواب میں کچھ دفاعی اقدامات کرنا پڑیں گے، ہندوستانی رہنما پاکستان مخالف بیانات دے رہے ہیں جبکہ پاکستان مسئلہ کشمیر سمیت تمام مسائل کے حل کے لئے انڈیا سے مذاکرات چاہتا ہے، پاکستان میں جمہوریت مستحکم اور دہشت گردی ختم ہورہی ہے۔ اس سے قبل وزیراعظم نوازشریف پینٹاگون پہنچے، امریکی صدر سے ملاقات کی، ملاقات میں انہوں نے صدر اوباما کو لشکر طیبہ اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف موثر کارروائی کی یقین دہانی کرواتے ہوئے کہا تھا کہ داعش کو پاکستان میں قدم نہیں رکھنے دیا جائے گا، پاکستان اپنی سرزمین افغانستان سمیت کسی بھی ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔

دورہ شروع ہونے سے پہلے ہی پاکستان کے سیکرٹری خارجہ نے برملا اعلان کیا کہ پاکستان نے ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار بنا لئے ہیں اور ان کا مقصد کلیتاً ہندوستان کے خلاف اپنا دفاع مضبوط کرنا ہے۔ دوسرا بیان وزیراعظم نواز شریف نے امریکہ کے ایک تھنک ٹینک"’پیس انسٹیٹیوٹ" میں دیا۔ اس بیان میں انہوں نے کہا کہ امریکہ کو افغان طالبان کے بارے میں واضح پالیسی اختیار کرنا چاہیئے۔ اگر امریکہ کی خواہش ہے کہ پاکستان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لائے تو پھر وہ یہ کیسے توقع کر سکتا ہے کہ پاکستان افغان طالبان کے خلاف بھرپور کارروائی کرے۔ وزیراعظم نے پہلی مرتبہ بالواسطہ حقانی نیٹ ورک کی پاکستان میں موجودگی کے بارے میں اس طرح کا بیان دیا ہے۔ حقانی نیٹ ورک کے بارے میں بھی امریکہ نے اپنا مطالبہ دہرایا لیکن پاکستان کی اس منطق کا اس کے پاس جواب نہیں ہے کہ اگر امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لائے تو پھر وہ کیسے ان عناصر کے خلاف بھرپور کارروائی کر سکتا ہے۔ اس سلسلے میں امریکہ کے پاس طالبان سے مذاکرات کے علاوہ کوئی متبادل راستہ نہیں ہے کیونکہ وہ میدان جنگ میں طالبان کو شکست نہیں دے سکا اور افغانستان کی قومی فوج طالبان کا مقابلہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔ایسی صورتحال میں پاکستان کا تعاون ناگزیر ہے۔ پاکستان امریکہ کا جو تعلق نائن الیون کے بعد سامنے آیا تھا وہ ختم ہو گیا ہے۔ اب امریکہ کی پاکستان میں دلچسپی بہت محدود ہے۔ لیکن دوسری طرف مثبت پہلو یہ ہے کہ پاک امریکہ تعلقات نوے کی دہائی کی طرف نہیں لوٹ رہے اب امریکہ پاکستان پر اس طرح کی پابندیاں لگانے سے گریز کرے گا جیسا کہ نوے کی دہائی میں پریسلر امینڈمنٹ کے تحت لگائی گئی تھیں۔ لہذٰا امریکہ وہ بھی شاید نہیں کرے گا جو ہندوستان کی خواہش ہے۔ اگرچہ واشنگٹن پاکستان مخالف دانشور حلقوں سے اٹا پڑا ہے لیکن پینٹاگون اور وائٹ ہاوس میں پاکستان کے خلاف پالیسی بنانے کے کوئی عنوان نظر نہیں آتے۔

وزیراعظم نواز شریف کے دورہ امریکہ سے پیشتر کچھ امریکی دانشور حلقوں اور میڈیا کے حوالے سےیہ خبریں عام تھیں کہ امریکہ پاکستان سے ٹیکٹیکل جوہری ہتھیاروں اور حقانی نیٹ ورک کے بارے میں سخت جوابدہی کرے گا۔ وائٹ ہاوس کے ترجمان نے بھی اس طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کے ساتھ جوہری سلامتی کے بارے میں گفت و شنید ہوگی۔ بعض حلقوں میں یہ بھی اندازے لگائے جا رہے تھے کہ شاید پاکستان کے ساتھ ایران کی طرح کا کوئی معاہدہ کیا جائے۔ یعنی پاکستان کو ایٹمی پروگرام کو محدود کرنے کے عوض ویسے ہی سول جوہری معاہدے کی پیشکش کی جائے جیسا کہ امریکہ ہندوستان کے ساتھ اس طرح کا معاہدہ کر چکا ہے۔ پاکستان کے ٹیکٹیکل جوہری ہتھیاروں کا مسئلہ زیادہ تر پاکستانی میڈیا میں اچھالا گیا تھا۔ غالباً پاکستان کی مقتدر طاقتیں وزیر اعظم سے یہ کہہ رہی تھیں کہ وہ اس معاملے پر کسی طرح کا کوئی دبائو قبول نہ کریں۔ یہ بھی مدنظر رہنا چاہیئے کہ وزیر اعظم کے دورہ امریکہ سے ایک دن پہلے آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل رضوان اختر نے اپنا دورہ امریکہ مکمل کیا تھا۔ ظاہر بات ہے کہ ان کے ساتھ بھی ٹیکٹیکل جوہری ہتھیاروں کا مسئلہ اٹھایا گیا ہوگا۔

نواز شریف نے باراک اوباما کو یقین دہانی کروائی کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق لشکر طیبہ اور اس سے منسلک تمام تنظیموں کے خلاف موثر کارروائی کی جائے گی۔ امریکی صدر نے خطے میں امریکی شہریوں کو اغواء کرنے کے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا۔ وزیر اعظم نواز شریف نے یقین دہانی کروائی کہ یرغمال امریکی اور دیگر غیر ملکی شہریوں کی محفوظ بازیابی کیلئے پاکستان ہر ممکن تعاون فراہم کرے گا۔ اعلامیہ کے مطابق ملاقات میں تیزی سے پنپنے والے دہشت گرد گروپ داعش سے متعلق امور پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیر اعظم نے یقین دہانی کروائی کہ داعش کو پاکستان میں قدم رکھنے کی اجازت ہر گز نہیں دی جائے گی۔ دونوں رہنماؤں نے انتہا پسندانہ سوچ اور نظریات کو ختم کرنے کے عزم کا بھی اعادہ کیا۔ دونوں رہنماؤں نے افغانستان میں مفاہمتی عمل کی حمایت کرتے ہوئے طالبان پر زور دیا کہ وہ کابل کے ساتھ براہ راست مذاکرات کریں۔ ملاقات میں پاکستان کے جوہری اثاثوں کی سلامتی اور ایٹمی عدام پھیلاؤ سے متعلق امور پر بھی بات چیت کی گئی۔ ملاقات میں پاکستان اور امریکا کے درمیان دفاع، علاقائی سلامتی، تجارت، سرمایہ کاری اور تعلیم سمیت دیگر شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے پر بھی بات چیت کی گئی۔

وزیراعظم نوازشریف نے کہا کہ امریکی صدر کے ساتھ علاقائی سلامتی پر بھی بات چیت کی گئی اور افغانستان کا معاملہ بھی زیر غور آیا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکی صدر نے پاکستان کی ترقی اور معیشت کی بحالی کا اعتراف کیا ہے، امریکا کیساتھ تجارت پانچ ارب ڈالر ہے اور ہماری خواہش ہے کہ اس میں اضافہ ہو۔ ملاقات کے دوران وزیراعظم کی جانب سے پاکستانی مصنوعات کی امریکی منڈیوں تک رسائی کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔ ان تمام امور کی اہمیت کے باوجود وزیر اعظم کے دورہ امریکہ میں بنیادی نکتہ افغانستان کی صورتحال اور داعش اور افغان طالبان کے درمیان جنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال تھی۔ امریکی حکومت کو نواز شریف سے زیادہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف کے آئندہ ماہ دورے کا انتظار ہے جو انہیں پاکستان کے اہم معاملات میں فیصلہ کن اتھارٹی سمجھتے ہیں۔ امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ میں اعلیٰ حکام اور تجزیہ کاروں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے انتہا پسندوں کے خلاف جنگ، افغان امن عمل اور پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام سمیت اہم سیکیورٹی پالیسی کے معاملات میں ملک کے منتخب رہنماؤں کی اتھارٹی کو گرہن لگا دیا ہے۔ ایک سینئر امریکی اہلکار نے کہا کہ موجودہ حالات میں سویلین ادارے کچھ معاملات پر ڈلیور کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تاہم جنرل راحیل شریف کے پاس یہ صلاحیت موجود ہے۔ رپورٹ کے مطابق دہشت گردی کے خلاف جنگ اور پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں امن و امان کی بحالی کی وجہ سے عوام جنرل راحیل شریف کو ہیرو قرار دیتے ہیں جبکہ ان کے اہم کردار کے باعث پاک آرمی کی عزت و وقار میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ میں دہشت گرد کارروائیوں میں ہلاک و زخمی ہونے والوں کی تعداد کا حساب رکھنے والے ’ساؤتھ ایشیا ٹیررازم پورٹل‘ کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں امن و امان کی صورتحال میں بہتری آئی ہے اور دہشت گرد حملوں میں ہلاک شہریوں اور فوجیوں کی تعداد میں 2006 کے بعد سب سے زیادہ کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ دہشت گرد حملوں میں کمی سے ملک کی اقتصادی سرگرمیاں دوبارہ بحال کرنے میں مدد ملی ہے۔ اس تناظر میں نواز شریف نے امریکی حکام سے لشکر طیبہ اور حقانی نیٹ ورک کیخلاف کروائی جو وعدہ کیا ہے، وہ صرف زبانی جمع خرچ تک محدود نظر آتا ہے، افغان ایشو پر امریکہ کے مذاکرات پاکستانی فوج سے ہوں گے، جنہیں افغان امن عمل، افغان طالبان اور کابل انتظامیہ کے درمیان مذاکرات کا نام دیا جائے گا۔

امریکہ کے دورے کے دوران اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری بان کی مون کی طرح امریکی وزیر خارجہ کو بھی پاکستان میں ہندوستانی مداخلت کے شواہد دیئے گئے اور اب حکام امید لگا بیٹھے ہیں کہ ان شواہد کی بنیاد پر امریکا ہندوستانی حکام سے بات کرے گا اور یوں پاکستان میں ’’را‘‘ کی مداخلت کا سلسلہ ختم ہو جائے گا۔ مسئلہ صرف پاکستان میں ہندوستان کی مبینہ مداخلت کا نہیں بلکہ ہندوستان افغانستان میں بھی پاکستان مخالف فضا کو سازگار بنانے کے لیے اقدامات کر رہا ہے، جو پاکستان کے لیے دردِ سر ہے۔ امریکی صدر نے افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کی بحالی کے لیے پاکستان کو کردار ادا کرنے کے لیے کہا ہے لیکن عین اسی وقت وزیراعظم نواز شریف کو بھی افغانستان میں ہندوستانی خفیہ ادارے کی سرگرمیوں سے متعلق بات کرنی چاہیے تھی۔ وزیراعظم کا یہ شکوہ درست ہے کہ افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات اور ان کے خلاف فوجی کارروائیاں ساتھ ساتھ نہیں چل سکتیں۔ وزیراعظم کے اس مؤقف سے اتفاق کیا جا سکتا ہے لیکن اس کے ساتھ اگر وزیراعظم مذکورہ مطالبہ بھی کرتے تو شاید نتائج جلد سامنے آتے۔ اس وقت امریکی صدر بارک اوباما پاکستان کا مقدمہ سننے کی پوزیشن میں ہیں اور اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اگلے سال وائٹ ہاوس میں نیا صدر چارج سنبھالے گا اور موجودہ صدر بارک اوباما وائٹ ہاؤس چھوڑنے سے قبل خطے میں امن کی کامیابی کا تاج اپنے سر پر سجا کر رخصت ہونا چاہتے ہیں، تاہم اب وہ اس پوزیشن میں نہیں کہ دہشت گردی کی رٹ لگا کر پاکستان سے 'ڈو مور' کا مطالبہ کر سکیں۔ اب پاکستان کا دنیا سے 'ڈو مور' کہنے کا وقت ہے۔ اور یہ بات وزیراعظم کے وفد میں شامل سیکریٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری نے میڈیا بریفنگ کے دوران تو بتائی لیکن وزیراعظم یہ بات برملا امریکی حکام سے کہنے کی "جسارت" نہ کر سکے۔

بارک اوباما وائٹ ہاؤس سے رخصت ہونے سے قبل خطے میں امن کے قیام کے لیے راستہ ہموار کرنے کے لیے کوشاں ہیں اور اس کے لیے ان کو جتنی ضرورت پاکستان کی ہے، کسی اور کی نہیں، اور یہ بات وہ خود بھی جانتے ہیں، تبھی تو وزیراعظم نواز شریف اور ان کے ہمراہ جانے والوں کو امریکا میں توقع کے برخلاف زیادہ پروٹوکول دیا گیا اور بین الاقوامی میڈیا نے بھی اس دورے کے دوران ہونے والی اہم ملاقاتوں کو زبردست کوریج دے کر اپنا حق ادا کیا۔ امریکا کو اگر خطے اور عالمی امن میں واقعی دلچسپی ہے تو معروضی حقائق کی روشنی میں ہندوستان پر دباؤ ڈالنا ہوگا کہ وہ نہ صرف پاکستان میں مداخلت سے باز رہے، بلکہ افغانستان میں بھی اپنا خفیہ ایجنڈا چھوڑ کر وہاں سے بھی چلتا بنے۔ امریکا کو افغانستان میں طالبان کی شرکت کے ساتھ پائیدار حکومت کے قیام کے لیے بھی فوری اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ اگر امریکا افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کو کامیاب بنانا چاہتا ہے تو اس اقدام کے لیے افغانستان میں ہندوستانی مداخلت کو روکنے کے لیے بھی اقدامات کرنے ہوں گے۔ اس کے علاوہ امریکی اور ہندوستانی حکومت پر بھی یہ واضح کرنا ہو گا کہ پاکستان نے ہمیشہ امن و استحکام کے لیے خطے سمیت عالمی سطح پر فعال کردار ادا کیا ہے لیکن پاکستان سے ہمیشہ "ڈو مور" کا مطالبہ ہوتا رہا، صرف زبان سے پاکستان کی قربانیوں کو سراہا گیا لیکن پاکستان کو اس کا حقیقی کریڈٹ آج تک نہیں دیا گیا جو یقیناً پاکستان کا حق ہے۔

خبر کا کوڈ : 497622
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
سلام ، سردار صاحب, ملا منصور مارا جاچکا اور آپ بھی خود کو اپ ڈیٹ کر لیں۔
ہماری پیشکش