0
Monday 10 Jan 2011 14:47

دہشت گرد قابض

دہشت گرد قابض
تحریر: سعداللہ زارعی
اسلام ٹائمز- "دہشتگردی" اور "قبضہ" دو ایسے مفاہیم ہیں جنکا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ ایک طرف قابض قوتیں مقبوضہ سرزمین کے مقامی باشندوں کی جانب سے مزاحمت کی قوت کو توڑنے کیلئے مزاحمت میں مرکزی کردار کے حامل افراد کی شناسائی کرتے ہوئے انہیں اپنے راستے سے ہٹانے کی کوشش کرتی ہیں تو دوسری طرف قابض قوتوں کی جانب سے دہشت گردانہ اقدامات کا طبیعی ردعمل سامنے آتا ہے، یعنی مقبوضہ معاشرہ دہشت گرد قابض کو نابود کرنے کیلئے میدان میں اتر آتا ہے اور قابض قوتوں اور دہشت گردوں کو جانی اور مالی نقصان پہنچاتا ہے۔
لہذا جب تک قبضہ جاری رہتا ہے، دہشت گردانہ اقدامات اور اسکے ردعمل میں انجام پانے والی مزاحمتی کاروائیاں بھی جاری رہتی ہیں۔
دہشت گردی کا ایک اور پہلو قابض قوتوں کی جانب سے غیرقانونی اور غیراخلاقی ہتھکنڈوں کا استعمال ہے۔ قابض قوت اپنے مقاصد کے حصول کیلئے تمام تر فوجی، سیکورٹی، انٹیلی جنس، قانونی، ڈپلومیٹک توانائیوں اور بین الاقوامی و مقامی تعاون کو بروئے کار لاتا ہے، لیکن اکثر اوقات اپنے مد مقابل کو شکست دینے میں ناکام رہتا ہے اور یہ تمام توانائیاں اسکو تسلیم کرنے پر مجبور کرنے کیلئے ناکافی ثابت ہوتی ہیں۔ چنانچہ قابض قوت اخلاقی و قانونی حدود کو پار کرتے ہوئے "ڈرٹی وار" (Dirty War) شروع کر دیتی ہے۔ ڈرٹی وار کی اصطلاح پہلی بار ارجنٹائن میں 1976 سے 1983 کے درمیان امریکہ اور اسکی اتحادی رژیم کی جانب سے خاص منصوبہ بندی کے تحت سیاسی مخالفین، بائیں بازو کے پرونیسٹ افراد، کے وسیع قتل عام کیلئے استعمال کی گئی جسکے نتیجے میں سات یا آٹھ سالوں میں تقریباً 30 ہزار افراد کو موت کی نیند سلا دیا گیا۔
گذشتہ سو سال کی سیاسی تاریخ پر ایک نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے
کہ اکثر اوقات دہشت گردی کی نوعیت شخصی، قومی، مذہبی یا گروہی نہیں ہے بلکہ ہمیشہ سے انتہائی منظم انداز میں انجام پاتی ہے اور ایک یا چند عالمی طاقتوں کی طرف سے آشیرباد کی حامل ہوتی ہے۔ گذشتہ بیس سالوں سے دہشت گردی کا عمل مزید پیچیدہ ہو گیا ہے اور اس میں دیگر عوامل جیسے انٹیلی جنس، میڈیا، ڈپلومیٹک اور انتظامی حمایت کا اضافہ ہو چکا ہے۔ 1945 سے لے کر آج تک دنیا نے دہشت گردی کی مختلف اقسام کا سامنا کیا ہے۔
1945 سے 1991 تک، یعنی دنیا پر دوقطبی نظام کی حاکمیت کے دوران دہشت گردی ایک منظم ڈھانچہ کی حامل رہی ہے اور جاسوسی اداروں کی فعالیت کا باقاعدہ حصہ شمار کی جاتی رہی ہے۔ اس مدت میں مختلف جاسوسی اداروں جیسے سی آئی اے (CIA)، کے جی بی (KGB)، ایم آئی 6 (MI6)، وغیرہ نے اپنے مخالفین کی بڑی تعداد کو دہشت گردانہ اقدامات کے ذریعے راستے سے ہٹایا۔ اسی طرح لاطینی امریکہ میں بائیں بازو کی حکومتوں کا تختہ الٹنا اور پرونسٹ یا سنڈنسٹ رہنماوں کا قتل عام انہیں سرگرمیوں کا ایک حصہ تھا جنکی تعداد چلی، ارجنٹائن اور دوسری حکومتوں کا تختہ الٹنے کے دوران ہزاروں سے زیادہ ہے۔
1991 میں دنیا میں دوقطبی نظام کے خاتمے کے بعد امریکیوں نے "ڈرٹی وار" کے ہتھکنڈے کو مشرقی بلاک کو توڑنے میں انتہائی اہم قرار دیا اور اسکے وسیع استعمال پر زور دیا۔ یہ نعرہ کہ "جو بھی ہمارے ساتھ نہیں ہے ہمارے خلاف ہے" جو بعد میں رسمی طور پر امریکی صدر جرج بش کے ذریعے میڈیا میں ظاہر ہوا، مشرقی بلاک کے ٹوٹنے کے بعد امریکہ کے ڈپلومیٹک، انٹیلی جنس اور آپریشنل اداروں کی جانب سے اپنے مخالفین کو کچلنے کیلئے ایک اہم لائحہ عمل رہا ہے۔ 1992 سے 2000 تک بل کلنٹن کے دورہ صدارت میں مارٹن انڈائک، مائیکل لڈن اور ٹام کیسی جیسے سیاسی ماہرین نے دہشت گردانہ
اقدامات کو عالمی سطح پر شدت پسندی کے خاتمے کیلئے ضروری قرار دیا۔ اس مدت میں دہشت گردانہ اقدامات کا نتیجہ دنیا کے مختلف مقامات پر سینکڑوں امریکہ اور اسرائیل مخالف افراد کا قتل تھا۔ اسرائیلی اس دوران نہایت آزادی کے ساتھ اور اعلانیہ طور پر تیونس، اردن، شام اور دوسرے ممالک میں فلسطینی رہنماوں کو قتل کرنے میں مصروف رہے۔ اسی طرح سی آئی اے نے سینکڑوں امریکہ مخالف افراد کو گولی مارنے، زہر دینے یا کینسر کی مرض میں مبتلا کرنے کے ذریعے موت کی نیند سلا دیا۔ جرج بش کی حکومت کے دوران دہشت گردانہ اقدامات کو فوجی حمایت بھی حاصل ہو گئی۔ عراق میں امریکہ کی فورسز میں متعدد فوجی بریگیڈز کے علاوہ بلیک واٹر جیسے 1٫5 لاکھ غیررسمی جنگجو افراد بھی شامل تھے جو جہاں چاہتے جا سکتے تھے اور جسکو چاہتے قتل کر سکتے تھے۔ ان ڈیتھ سکواڈز کے ہاتھوں قتل ہونے والے عراقی شہریوں کی تعداد لاکھوں سے بھی زیادہ ہے۔ امریکیوں نے کبھی بھی خود کو ان دہشت گردوں اور انکے اقدامات کے بارے میں ذمہ دار قرار نہیں دیا ہے۔ جرج بش کی صدارت کے دوران عراق، یمن، افغانستان اور پاکستان میں بے شمار دہشت گردانہ اقدامات انجام پائے اور سب جانتے ہیں کہ ان کے پیچھے امریکہ اور برطانیہ کے سیکورٹی اداروں کا ہاتھ تھا۔
جرج بش کی صدارت کے بعد بھی دہشت گردی اسی آب و تاب سے جاری ہے۔ گوانٹانامو جیسے عظیم جیل کا اپنا کام جاری رکھنا اور اس میں قیدیوں کے حقوق کا پامال ہونا اس کا ایک واضح نمونہ ہے۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ گذشتہ ہفتے FDD، جو ایک آپریشنل ادارہ ہے اور تھنک ٹینک کے جھوٹے نام سے سرگرم عمل ہے، کے رسمی اجلاس میں ایک عالیرتبہ امریکی عہدیدار نے واضح انداز میں کہا: "اپنے مخالفین کو کنٹرول کرنے میں ہماری سیکورٹی اور انٹیلی جنس فورسز
کے ہاتھ کھلے ہونے چاہئیں اور انہیں اپنے اقدامات پر ہر گز انوسٹی گیشن، ڈانٹ ڈپٹ یا قانونی چارہ جوئی کا سامنا نہیں کرنا چاہئے۔ کیونکہ وہ ایسے اقدامات میں مصروف ہیں جو ہم امریکیوں کی قومی سلامتی اور قومی مفادات کا تقاضا ہیں"۔
دہشت گردی کے بارے میں درج ذیل اہم نکات قابل ذکر ہیں:
1۔ مشرق وسطی یا بہتر ہو گا کہ کہیں مغربی ایشیا میں دہشت گردی ایک مشترکہ موضوع بن گیا ہے۔ اگر صحیح انداز میں دیکھیں تو جان لیں گے کہ اس خطے کے تمام اجزاء امریکی خارجہ پالیسی کا بڑا مسئلہ ہیں۔ یعنی اگر 1980 کے عشرے کے شروع میں صرف ایران امریکہ کیلئے درد سر تھا تو آج ان ممالک کی اکثریت اس کیلئے مسئلہ بن چکی ہے اور باقی ممالک بھی اسی سمت میں جا رہے ہیں۔
2۔ مغربی ایشیا کے تقریباً تمام ممالک یہ صلاحیت رکھتے ہیں کہ خود مسلح باغیوں کا مقابلہ کر سکیں۔ ان کے پاس اس کام کیلئے مضبوط انٹیلی جنس ادارے بھی موجود ہیں اور مضبوط فورسز بھی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پھر یہ دہشت گردی کیوں کنٹرول نہیں ہوئی بلکہ اس میں مزید اضافہ ہوا ہے؟۔ اس سوال کا جواب صرف انکے "حامی مراکز" کو نظر میں رکھ کر ہی دیا جا سکتا ہے۔ درج ذیل مثالیں اس مسئلے کو مزید واضح کرنے میں مدد دے سکتی ہیں:
۱۔ گذشتہ سال دو اخباروں "انڈیپنڈنٹ" اور "واشنگٹن پوسٹ" نے دو مختلف رپورٹس پیش کیں۔ ان دونوں رپورٹس میں جو چیز مشترک تھی وہ یہ تھی: "ہم عراق میں 10 ہزار امریکی فوجیوں کے اڈے سلیمانیہ بیس گئے، اس بیس کے اردگرد پژاک گروپ کے مسلح افراد کو دیکھا جو کندھوں پر اسلحہ اٹھائے گھوم رہے تھے اور واضح تھا کہ انہیں ہماری فورسز کی حمایت اور مدد حاصل تھی"۔
۲۔ دہشت گرد گروہ جنداللہ کا سربراہ عبدالمالک ریگی جسے گذشتہ سال ایران میں پھانسی دیدی گئی ہے، گرفتاری
کے وقت قرقزستان کے دارالحکومت بیشکک جا رہا تھا تاکہ ایک امریکی فوجی اڈے میں اپنا مرکز بنا سکے۔ خود عبدالمالک ریگی نے بعد میں اعتراف کیا کہ وہ اس امریکی فوجی اڈے میں امریکہ کے فوجی، انٹیلی جنس اور مالی تعاون سے مشرقی ایران میں دہشت گردانہ منصوبے بنانے کا پروگرام رکھتا تھا۔
۳۔ عراق میں گذشتہ چند سالوں کے دوران دہشت گردانہ اقدامات امریکہ سے وابستہ عرب ممالک جیسے سعودی عرب اور اردن کی جانب سے انجام پائے ہیں۔ حال ہی میں اردن نے یہ دعوی کیا ہے کہ اس نے حارث الضاری کے دہشت گرد گروہ کو خبردار کیا ہے کہ وہ عراق کے خلاف اردن کی سرزمین استعمال نہیں کر سکتا۔ اردن نے اس طرح سے عراق کی نئی حکومت کو یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ آج سے ہماری پالیسی دہشت گردی کا مقابلہ کرنا ہے۔ یہ بیان نہ صرف گذشتہ چند سالوں میں عراق میں انجام پائے دہشت گردانہ اقدامات میں اردن کے ملوث ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے بلکہ ایک طرح کی بلیک میلنگ بھی ہے۔ یعنی اردن کی حکومت نوری مالکی سے مطالبہ کر رہی ہے کہ وہ عراق کی مشرقی سرحدوں سے دہشت گردانہ اقدامات کے خاتمے کے بدلے اسے کچھ امتیازات سے نوازے۔ اردن اور سعودی عرب موجودہ حالات کے پیش نظر شاید یہ فیصلہ کر لیں کہ وہ عراق میں مزید دہشت گردوں کو نہیں بھیجیں گے لیکن وہ اصولی طور پر اپنی پالیسی ترک نہیں کر سکتے۔ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ عراق میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کا واحد راستہ یہی ہے۔
3۔ دہشت گردانہ اقدامات کا بغور مطالعہ کرنے سے واضح ہو جاتا ہے کہ دہشت گردی کا عمل انتہائی منظم انداز میں انجام پا رہا ہے۔ ایک شخص یا ایک گروہ کی جانب سے دوسرے شخص یا گروہ کے خلاف دہشت گردانہ اقدامات کو کوئی بھی قبول نہیں کرتا لہذا اگر دہشت گردی کا عمل ایک شخص یا ایک گروہ کی جانب سے
انجام پا رہا ہو، چاہے جس محرک کے تحت ہو، تو اسکی جڑیں ختم کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔ ایک چھوٹا سا انٹیلی جنس اور فوجی گروہ اسکے خاتمے کیلئے کافی ہے۔ لیکن وہ دہشت گردانہ اقدامات جو عدالت خواہی، مساوات طلبی، مذہبی اقدامات یا آزادی خواہی کے جھوٹے پروپیگنڈے کے زیر سایہ انجام پاتے ہیں کبھی بھی ایک گروہ کی جانب سے انجام پانے والے دہشت گردانہ اقدامات کے ساتھ موازنے کے قابل نہیں ہیں۔ ایک خطے میں خاص افراد کو قتل کرنے کی غرض سے کئی ماہ قبل ہی مخصوص ٹی وی اور ریڈیو چینلز جنکے مالکین کا سب کو علم ہے، ان افراد کے خلاف منفی پرپیگنڈہ شروع کر دیتے ہیں اور دہشت گردانہ اقدامات انجام پانے کے بعد ان اقدامات کو اپنے حقوق کی دستیابی کیلئے سیاسی جدوجہد کا رنگ دے دیا جاتا ہے۔ جو نکتہ انتہائی اہم ہے وہ یہ کہ دہشت گردانہ اقدامات کی مکمل منصوبہ بندی جیسے اسکا وقت اور اسکی جگہ پہلے سے ہی جاسوسی اداروں کی جانب سے دہشت گرد گروہوں کو دی جا چکی ہوتی ہے، اور دہشت گردانہ اقدام کے بعد یہی جاسوسی ادارے انہیں اپنے نگرانی میں وہاں سے فرار کروانے کیلئے سرگرم عمل ہو جاتے ہیں۔ یہ وہ حقائق ہیں جو گذشتہ چند سالوں میں انجام پانے والے تمام دہشت گردانہ اقدامات میں مشاہدہ کئے گئے ہیں۔
ان تمام حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے واضح ہو جاتا ہے کہ ہمارے خطے میں دہشت گردی کا عمل قبضے اور تسلط کے عمل کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور دہشت گردی کا مکمل خاتمہ صرف اور صرف خطے سے قابض قوتوں کے فوجی قبضے کے خاتمے سے ہی ممکن ہے۔ اسکے علاوہ مندرجہ بالا رابطے کے مدنظر خطے کے ممالک کے تعاون سے ایک طرف تو ان دو مسائل کے خاتمے کیلئے چارہ جوئی کی جا سکتی ہے اور دوسری طرف دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے ٹھوس اقدامات انجام دیئے جا سکتے ہیں۔
مترجم : سید ضیغم عباس ھمدانی
خبر کا کوڈ : 49914
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش