2
0
Tuesday 24 Nov 2015 12:30

ہمارے ملّی مسائل ۔۔۔ اٹکی ہوئی سوئیاں

ہمارے ملّی مسائل ۔۔۔ اٹکی ہوئی سوئیاں
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com

دانش مند کہلانا کسے پسند نہیں!؟ البتہ دانش مندوں کی بھی اقسام ہیں، ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جن  کا کہنا ہے کہ  اگر لکھنے لکھانے اور میڈیا سے کوئی اثر اور فائدہ ہوتا تو سارے انبیائے کرام ؑ  آکر پہلے لوگوں کو انٹرنیٹ سکھاتے، فیس بک سمجھاتے اور کمپیوٹر کی تجارت کو رواج دیتے۔ ان کے نزدیک لکھنے لکھانے سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ بڑھتے ہیں، نفرتیں پیدا ہوتی ہیں، دوریاں جنم لیتی ہیں اور غیبت و حسد کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ لہذا وہ ہمیں اکثر مسائل کا حل خاموشی اختیار کرنے، منّت سماجت سے کام نکالنے اور حسبِ استطاعت کچھ لے دے کر معاملہ نمٹانے میں بتاتے ہیں۔ ہمارے خیال میں ایسے دانشمندوں کے افکار و نظریات انسانوں کو بے حس کرنے والی دوائیوں کے بہترین متبادل ثابت ہوسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے ہاں کے دانشمندوں کی ایک اور قسم بھی ہے، یہ ایسے دانشمند ہیں جو اصلاً دو جملے بھی نہیں لکھ سکتے، یا پھر خیر سے ایک جملہ بھی ٹھیک سے نہیں لکھ پاتے، البتہ اپنی باتوں سے یہ عالمِ امکان کو زیر و زبر کرنے کے ماہر ہوتے ہیں۔ یہ اپنے آپ کو ہرفن مولا ثابت کرنے کے درپے ہوتے ہیں۔ آپ دنیا کا کوئی مسئلہ ان کے سامنے پیش کریں، یہ اس میں اپنا سنہری تجربہ آپ کے سامنے رکھ دیں گے۔

اپنے اندر کے احساسِ کمتری کو چھپانے کے لئے ان کے پاس چند رٹے رٹائے جملے بھی ہوتے ہیں، مثلاً ہم تو تنظیمی ہیں، ہم تو انقلابی ہیں، ہم تو اتنا تجربہ رکھتے ہیں، ہم تو ۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ ایسے دانشمند فیڈبیک کے بنیادی اصولوں سے بھی آگاہ نہیں ہوتے اور انہیں کہیں پر کمنٹس دینے کا بھی پتہ نہیں ہوتا، یہ اگر کہیں اپنے کمنٹس کے ذریعے تیر مارنا بھی چاہیں تو  سیدھا وہاں مارتے ہیں جہاں نہیں مارنا ہوتا۔ مثلاً اگر کوئی آدمی فوری طور پر کہیں سے رپورٹنگ کرے یا کوئی خبر نقل کرے کہ فلاں جگہ فلاں حادثے میں اتنے لوگ ہلاک ہوگئے ہیں تو ایسے دانشمند فوراً کمنٹس میں لکھیں گے کہ ”ہلاک نہیں شہید ہوئے“ اس کے بعد یہ بحث کو کھینچ کر ہلاک اور شہید میں الجھا دیں گے اور اصل مسئلہ ان کی قیل و قال میں ہی دفن ہوجائے گا۔ ایسے دانشمند ہماری ملّی توانائیوں کو خواہ مخواہ ضائع کروانے میں یہ یدِ طولٰی رکھتے ہیں۔

علاوہ ازیں ہمارے ہاں اس طرح کے دانشمند بھی بکثرت پائے جاتے ہیں، جو سارے مسائل کو لغت اور اصطلاح کی روشنی میں کُلی طور پر حل کرنا چاہتے ہیں۔ مثلاً اگر کہیں پر شراب کی خرید و فروخت کا دھندہ ہو رہا ہو اور آپ اس کے خلاف آواز اٹھائیں یا کوئی میدانی تحقیق کریں تو فوراً یہ دانشمند ناراض ہو جاتے ہیں۔ ان کے نزدیک شراب فروشی اور شراب خوری کا علاج یہ ہے کہ آپ زمینی تحقیق کرنے کے بجائے شراب پر ایک علمی مقالہ اس طرح سے لکھیں: شراب در لغت۔۔۔۔ شراب در اصطلاح۔۔۔۔ شراب کا تاریخچہ۔۔۔۔ شراب کے طبّی فوائد و نقصانات۔۔۔ دینِ اسلام میں شراب کی حرمت۔۔۔۔ شرابی کے لئے دنیا و آخرت کی سزائیں۔۔۔ اور آخر میں حوالہ جات۔ آپ انہیں لاکھ سمجھائیں کہ قبلہ میڈیا میں میڈیم کے بغیر لکھا ہوا ایسے ہی ہے، جیسے آپ نے کچھ لکھا ہی نہیں، لیکن وہ اپنی ہی بات پر ڈٹے رہیں گے۔ معاشرے کے زمینی حقائق سے اربابِ علم و دانش کو دور رکھنا ایسے دانشمندوں کا اصلی فن ہے۔

اس کے علاوہ بھی ہمارے ہاں دانشمندوں کی ایک بہت ہی نایاب قسم بھی پائی جاتی ہے۔ یہ تعداد میں جتنے کم ہیں، معاملات کو بگاڑنے میں اتنے ہی ماہر ہیں۔ یہ ایک چھوٹے سے مسئلے کو پہلے بڑھا چڑھا کر بہت بڑا بناتے ہیں اور پھر آخر میں اس کا حل ایک چھوٹی سی مذمت کی صورت میں پیش کرتے ہیں۔ مثلاً اگر اسلام آباد میں کہیں پر خودکش دھماکہ ہوجائے اور آپ علاقے کو فوکس کرکے وہاں کے سیاستدانوں، بیوروکریسی، مقامی مشکوک افراد اور دیگر متعلقہ لوگوں اور اداروں کے بارے میں زبان کھولیں اور عوام کو شعور دینے کی بات کریں تو ہمارے ہاں کے یہ نایاب دانشمند فوراً ناراض ہوکر میدان میں کود پڑتے ہیں۔ اس وقت ان کا بیان کچھ اس طرح سے ہوتا ہے: خودکش دھماکے کہاں نہیں ہو رہے، پاکستان، عراق، شام، افغانستان وغیرہ وغیرہ۔ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے اور ان دھماکوں میں مارے جانے والے لوگوں کی اپنی غفلت کا بھی بہت عمل دخل ہے۔ لوگ خود بھی اپنے ارد گرد کھڑی گاڑیوں، موٹر سائیکلوں اور مشکوک افراد پر نگاہ نہیں رکھتے، ہم عوام کی غفلت کی مذمّت کرتے ہیں۔

یہ پہلے چھوٹی سی بات کو گھمبیر بناتے ہیں، ایک سادہ سے مسئلے کو پیچیدہ کرتے ہیں، کسی بھی مقامی ایشو کے ڈانڈے بین الاقوامی مسائل سے جوڑتے ہیں اور آخر میں ایک سطر کا مذمتی بیان دے کر یا لکھ کر بھاگ جاتے ہیں۔ ایسے دانشمندوں کا ہنر یہ ہے کہ یہ خود بھی کسی مسئلے کو اٹھانے کے فنّی تقاضوں سے آگاہ نہیں ہوتے اور دوسروں کو بھی بولنے کا موقع نہیں دیتے۔ میں ان کی ایک مثال اور دینا چاہوں گا کہ مثلاً آپ انہیں کہیں کہ پاکستان کے فلاں علاقے میں ایک مافیا رشوت کا بازار گرم کئے ہوئے ہے۔ یعنی فلاں جگہ پر مافیا انسانوں کا خون پی رہا ہے۔ اس کے بعد ہمارے ہاں کے ”نایاب دانشمند“ کچھ اس طرح سے قلمطراز ہونگے کہ دنیا میں جب تک پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہوتا، اس وقت تک لوگ ایک دوسرے کا خون پینے پر مجبور ہیں۔ یہی صورتحال پاکستان سمیت متعدد ترقی پذیر ممالک میں ہے۔ دنیا میں جہاں جہاں پینے کا صاف پانی میسّر نہیں، ہم وہاں کے محکمہ واٹر سپلائی کی مذمت کرتے ہیں۔ قارئینِ کرام! اپنے ہاں پائے جانے والے دانشمندوں کے بیانات، تقاریر، کمنٹس، نگارشات اور تحقیقات  کا جائزہ لیں اور فیصلہ آپ خود کریں کہ کیا یہ ممکن ہے کہ ہماری سوئیاں بھی اپنی اپنی جگہ اٹکی رہیں اور ہمارے ملّی و قومی مسائل بھی حل ہوجائیں۔
خبر کا کوڈ : 500011
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

aslam shigri
Pakistan
achi chez ki taraf rehnumai ki
قمر
Pakistan
ہمیشہ کی طرح کمال اور دل کی آواز۔۔۔۔
ہماری پیشکش