0
Wednesday 25 Nov 2015 16:48

ایران اور روس، اہم تاریخی موڑ سے عبور کیلئے اسٹریٹجک اتحاد

ایران اور روس، اہم تاریخی موڑ سے عبور کیلئے اسٹریٹجک اتحاد
تحریر: ڈاکٹر مصطفی رشیدی

مختلف دہشت گرد گروہوں پر مشتمل شام حکومت کے مخالفین پر روس کے ہوائی حملوں کے بعد یہ تصور پیدا ہو گیا کہ روس اپنی خارجہ پالیسی میں اہم تبدیلیاں لا رہا ہے اور بین الاقوامی برتاو کے نئے مرحلے اور پیراڈائم میں داخل ہو رہا ہے۔ بعض روس اور ایران اور حتی روس، ایران، عراق اور شام کے درمیان علاقائی سطح کا اتحاد تشکیل پانے کی باتیں کر رہے ہیں اور بعض دیگر بین الاقوامی سطح پر ایک نئی سرد جنگ اور ایک نئے بلاک کی تشکیل کا عندیہ دے رہے ہیں۔ لیکن موجودہ حالات کی روشنی میں طولانی مدت اتحاد کی تشکیل کے بارے میں کچھ کہنا اتنا آسان نہیں۔ لہذا اس بارے میں بین الاقوامی سطح پر سرگرم کھلاڑیوں کی شخصیت اور برتاو کا بغور جائزہ ہمیں صورتحال کو صحیح سمجھنے میں بہت زیادہ مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ 
 
1979ء میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد علاقائی اور بین الاقوامی ایشوز کے بارے میں اسلامی جمہوریہ ایران کا موقف کافی حد تک ایران کے آئین، امام خمینی رحمہ اللہ کے بیانات اور امام خامنہ ای کی تقاریر کی صورت میں واضح ہو چکا ہے۔ ایران نے اپنی خارجہ پالیسی کی بنیاد انہیں بیان کردہ اصولوں کی بنیاد پر رکھی ہے اور ایران کا سیاسی برتاو دنیا والوں کیلئے جانا پہچانا ہے۔ ایران کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ خطے کے مسائل کو عالمی طاقتوں کی مداخلت سے ہٹ کر علاقائی سطح پر اتحاد تشکیل دے کر حل کرنا چاہئے لہذا ایران نے مختلف علاقائی تنظیموں اور معاہدوں میں بھرپور حصہ لیا ہے۔ اسی طرح ایران نے خلیج تعاون کونسل جیسے ایسے علاقائی اتحادوں کی بھی ہمیشہ سے مخالفت کی ہے جو کسی نہ کسی طرح امریکہ جیسی غیر علاقائی طاقت سے وابستہ ہیں اور ان اتحادوں میں شامل ممالک پر خالص علاقائی اتحاد تشکیل دینے پر زور دیا ہے تاکہ یہ ممالک مل کر خطے کی سکیورٹی کو یقینی بنا سکیں۔ 
 
اسلامی جمہوریہ ایران کا حریت پسند اسلامی تحریکوں کے بارے میں بھی موقف انتہائی واضح ہے اور وہ خود کو ان کا حامی سمجھتا ہے۔ ایران میں کامیاب ہونے والے انقلاب کا اسلامی ہونا دنیا بھر کے مسلمانوں کا اس کی جانب متوجہ ہونے کا باعث بنا ہے جس کے نتیجے میں عالمی سطح پر مسلط بین الاقوامی نظام کے مقابلے میں ایران کی مرکزیت میں ایک بڑا عوامی بلاک ابھر کر سامنے آیا ہے۔ اس بلاک میں کئی ممالک کی حکومتوں کے علاوہ کثیر ممالک کے عوام بھی شامل ہیں۔ لہذا ایران ہمیشہ ایسے ممالک اور گروہوں کے ساتھ اتحاد تشکیل دینے کا خواہش مند رہا ہے جو مشرق وسطی اور دیگر مربوطہ خطوں کے مسائل کو علاقائی سطح پر ہی حل کرنے کے حامی ہیں۔ اس تناظر میں ایران کو ایسا ملک قرار دیا جا سکتا ہے جو علاقائی بحرانوں سے نمٹنے کی غرض سے تشکیل پانے والے اتحاد کو خیر مقدم کہتا ہے البتہ اس شرط کے ساتھ کہ اتحاد کی مرکزیت خطے کے ممالک کے پاس ہو۔ ایران کی محوریت میں اسلامی مزاحمتی بلاک کی تشکیل بھی ایران کی اس خصوصیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ لہذا مشرق وسطی اور مربوط خطے جیسے وسط ایشیا اور نیز عالم اسلام کے بارے میں ایران کا رویہ جانا پہچانا ہے۔ دوسری طرف ایران کے خلاف امریکہ کی دشمنی اور ٹکراو کے پیش نظر اسلامی جمہوریہ ایران نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ وہ سیاسی طور پر منزوی ہونے سے بچنے کیلئے دوسرے ممالک کے ساتھ ثقافتی، سیاسی، اقتصادی اور دفاعی تعلقات استوار کرے جس کے نتیجے میں ایران علاقائی سطح پر مختلف اتحاد تشکیل دے چکا ہے۔ افغانستان، عراق اور شام جیسے ممالک کے ساتھ مشترکہ سیاسی، سکیورٹی، اقتصادی، ثقافتی اور حتی دفاعی امور ہونے کے ناطے ایران نے ان ممالک کے ساتھ اتحاد تشکیل دینے کی کوشش کی ہے۔ 
 
شام اور عراق میں جنم لینے والے حالیہ بحرانوں کے دوران ایران خطے کے فعال ترین کھلاڑی کے طور پر ظاہر ہوا ہے اور اس نے ہمیشہ ان ممالک میں قانونی حکومتوں کی حمایت کی پالیسی اختیار کی ہے اور کوشش کی ہے کہ ان ممالک میں بیرونی طاقتوں اور ایسے علاقائی ممالک کے اثرورسوخ کو روکے جو اسلامی مزاحمت کو کمزور یا ختم کرنے کے درپے ہیں۔ شام حکومت کی سرنگونی درحقیقت اسلامی مزاحمتی بلاک کی کمزوری، عراق پر دباو میں اضافہ اور حزب اللہ لبنان اور مقبوضہ فلسطین میں سرگرم فلسطینی مجاہد تنظیموں کے ساتھ ایران کا زمینی رابطہ ختم ہونے کے مترادف تھا۔ لہذا ایران نے شام میں سکیورٹی بحران کے آغاز سے اپنا موقف واضح کر دیا اور صدر بشار اسد کی بھرپور حمایت کی۔ لہذا ایران ایک ایسا ملک ہے جو دیگر کھلاڑیوں کے قابل اعتماد ہونے کی حد تک، خطے کی سکیورٹی مضبوط بنانے کی غرض سے، دوستی اور دوطرفہ اعتماد کی بنیاد پر ان کے ساتھ اتحاد تشکیل دینے کیلئے پوری طرح آمادہ ہے۔ 
 
لیکن جس امر نے ایران اور روس کے درمیان ممکنہ اتحاد کے مسئلے کو پیچیدہ بنا رکھا ہے وہ روس کی خارجہ پالیسی اور تاریخ میں اس کے بین الاقوامی رویے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ روس اپنی خارجہ پالیسی کی بنیاد وقتی مفادات پر استوار کرتا ہے اور وہ جیوپولیٹیکل خطوں میں طولانی مدت کے اتحاد تشکیل دینے میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتا۔ روس ایک ایسا ملک ہے جو اپنے اکثر اتحادوں کی بنیاد خطرے کے احساس پر رکھتا ہے اور اس کے اتحاد دفاعی و سکیورٹی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر "شنگھائی معاہدہ" ابتدا میں صرف ایک فوجی اور سکیورٹی معاہدہ تھا اور بعد میں دیگر ممالک کی رکنیت اور چین جیسے ملک کی حمایت سے اقتصادی مرحلے میں بھی داخل ہو گیا۔ سابق سوویت یونین کے زمانے میں بھی تشکیل پانے والے بلاکس زیادہ تر دفاعی اور سکیورٹی نوعیت کے تھے۔ روس کی خارجہ پالیسی کی اس خصوصیت کے ساتھ ساتھ ایران، عراق اور شام کے ساتھ اس کے برتاو کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔ ایران اور مغربی ممالک کے درمیان جوہری مذاکرات میں روس کا متغیر رویہ اور آخرکار ایران کے خلاف اقوام متحدہ کی جانب سے لگائی جانے والی پابندیوں کی حمایت اور انہیں ویٹو نہ کرنا، معاہدے کے باوجود ایران کو ایس 300 میزائل سسٹم دینے سے انکار کر دینا اور ایسے ہی دیگر اقدامات ایران کے بارے میں روس کی متزلزل خارجہ پالیسی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ مشرق وسطی میں داعش جنم لینے سے پہلے روس عراق میں القاعدہ کو اسلحہ بیچتا رہا ہے جو عراق یا ایران جیسے مخصوص ممالک کے ساتھ اتحادی اسٹریٹجی کے نہ ہونے کا ثبوت ہے۔ 
 
مزید برآں، روس صرف فوجی طاقت ہے جس کی اقتصاد کا انحصار خام تیل اور گیس کی پیداوار پر ہے اور اس کی معیشت مغرب کے رحم و کرم پر ہے۔ حال ہی میں مغربی ممالک کی جانب سے روس کے خلاف عائد کی گئی اقتصادی پابندیاں اسی کمزوری کو سامنے رکھ کر لگائی گئی تھیں۔ لہذا روس خطے میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا اور اسی طرح ثقافتی سرگرمیوں کے ذریعے خطے کے ممالک میں سیاسی تبدیلیاں لانے کیلئے مناسب ثقافتی ہتھکنڈوں سے بھی عاری ہے۔ دوسرے الفاظ میں روس ایک عالمی سپر پاور بننے میں درکار طاقت کے تمام پہلووں کا حامل نہیں جس کے باعث مغرب کے مقابلے میں روس اکیلے کچھ کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ایران اور روس دونوں قدرتی گیس کے ذخائر سے مالا مال ہیں اور گیس برآمد کرنے والے ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔ لہذا روس کو یہ خطرہ ہے کہ کہیں ایران یورپ میں موجود گیس کے بازار میں روس کے بڑے حریف کے طور پر سامنے نہ آ جائے۔ اسی وجہ سے بعض اوقات روس بھرپور انداز میں ایران کی حمایت کرنے سے گریز کرتا ہے۔ دوسری طرف عالمی طاقتیں مشرق وسطی کے خطے پر ایران کے ممکنہ مکمل کنٹرول کی بابت بھی پریشان دکھائی دیتی ہیں کیونکہ خطے کے ممالک اور ایران کے درمیان گہرے ثقافتی روابط موجود ہیں اور اگر علاقائی سطح پر کوئی اتحاد معرض وجود میں آتا ہے تو اس میں ایران کا کردار مرکزی حیثیت کا ہو گا۔ 
 
لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایران، روس، عراق اور شام کے درمیان ایک وسیع البنیاد اتحاد کی تشکیل میں درپیش ان تمام موانع اور محدودیتوں کے باوجود خطے کے حالات اور ایران، روس، عراق اور شام کے ساتھ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے اپنائے گئے رویوں کی وجہ سے یہ ممالک کم از کم مختصر مدت کیلئے اتحاد تشکیل دینے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ یہ حالات حتی مشرق وسطی اور یوریشیا میں بڑی سیاسی تبدیلیوں کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔ امریکہ کی سربراہی میں مغربی ممالک کی جانب سے قدم بہ قدم روس کی سرحدوں سے قریب ہوتے ہوئے اسے ثقافتی، سیاسی، اقتصادی، فوجی اور سکیورٹی اعتبار سے اپنے گھیراو میں لینے کی کوششوں، جیسے وسط ایشیائی ممالک میں رنگی انقلابوں کا لانا اور نیٹو کا مشرق کی جانب پھیلاو نے روس کو نئے فیصلے کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ امریکہ اور مغرب کے یہ اقدامات باعث بنے ہیں کہ روس جو ہمیشہ خطرے کا احساس کرتے ہوئے عارضی مدت کے دفاعی اور سکیورٹی اتحادوں کی تشکیل دیا کرتا تھا اس بار خود کو درپیش طولانی مدت کے خطرات کے پیش نظر ایک طویل المیعاد اتحاد کی تشکیل دینے کا فیصلہ کر لے۔ ایسا اتحاد جس کا مقصد ایران، چین، روس اور دیگر ممالک جیسے عراق اور شام کو مغرب اور امریکہ سے درپیش خطرات کا مقابلہ کرنا ہے۔ 
 
لہذا امریکہ کی سرگردگی میں مغربی طرز عمل نے روس کو نہ چاہتے ہوئے بھی ایک تاریخی انتخاب انجام دینے پر مجبور کیا ہے جو یقینی طور پر مغرب کے حقیقی حریفوں جیسے ایران اور اسلامی مزاحمت کی طاقت اور اثرورسوخ میں اضافے کا سبب بنے گا۔ روس یوکرائن کے بحران، اپنے خلاف مغرب کی اقتصادی پابندیوں اور اپنے جیوپولیٹیکل علاقے میں نیٹو کی سالانہ جنگی مشقوں جن کا واضح نمونہ حال ہی میں برگزار ہونے والی “Trident Juncture 2015” نامی نیٹو کی جنگی مشقیں ہیں اور نیز نرم سیاسی تبدیلیوں اور اپنی خودمختار ریاستوں اور حتی اپنی سرزمین پر امریکہ، سعودی عرب اور قطر کے حمایت یافتہ سلفی شدت پسند دہشت گرد عناصر سے درپیش خطرات کو درک کرتے ہوئے اس نتیجے تک پہنچ چکا ہے کہ مشرق وسطی کے بارے میں کمزور یا حتی دفاعی موقف نہ صرف اس خطے سے روس کے اثرورسوخ کو ہمیشہ کیلئے ختم کر دے گا بلکہ روس کو شدید جیوپولیٹیکل محدودیت کا شکار کر دے گا اور مشرق وسطی کا بحران آہستہ آہستہ روس کی سرزمین میں داخل ہو جائے گا۔ ان حقائق کے پیش نظر روس نے مشرق وسطی کے بارے میں جارحانہ پالیسیاں اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور وہ ایران اور شام کے ساتھ وسیع البنیاد اتحاد تشکیل دینے کا عزم کر چکا ہے۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ یہ اتحاد براہ راست یا بالواسطہ طور پر عراق پر بھی اثرانداز ہو گا۔ اس اتحاد کی تشکیل کے نتیجے میں ایران، روس، شام اور عراق اپنے مشترکہ دشمن کے خلاف سرگرم عمل ہو چکے ہیں جو امریکہ کی سربراہی میں مغربی بلاک، خطے میں امریکی پٹھو حکومتیں، تکفیری دہشت گردی، خطے میں باغیانہ سرگرمیاں، سکیورٹی و فوجی خطرات اور ہر ایسی سرگرمی ہے جس کے نتیجے میں اتحاد میں شامل ممالک سیاسی گوشہ نشینی کا شکار ہو سکتے ہوں۔ 
 
لہذا اس وقت ایران اور روس کے پاس خطے کے بحرانوں اور درپیش خطرات سے مقابلہ کرنے کیلئے ایک اسٹریٹجک اتحاد تشکیل دینے کا سنہری موقع موجود ہے۔ یہ اتحاد عراق اور شام کی شرکت سے مزید تقویت پائے گا اور چونکہ اتحاد میں شامل ممالک کو اپنے دشمنوں سے درپیش خطرات طویل المیعاد ہیں لہذا روس بھی طویل مدت کیلئے اس اتحاد میں شامل رہنے پر مجبور رہے گا۔ روس اس اتحاد کی مدد سے ان ممالک کے ساتھ علاقائی معاہدے کی جانب حرکت کر سکتا ہے جبکہ گیس درآمد کرنے کے معاملے میں ایران سے درپیش ممکنہ خطرے کو بھی بات چیت کے ذریعے طے کیا جا سکتا ہے۔ ایران بھی کئی برس سے اس حقیقت کو سمجھ چکا ہے کہ عالمی استکبار امریکہ اور خطے میں اس کی پٹھو حکومتوں کا مقابلہ کرنے کیلئے اسے ایسے ممالک کے ساتھ اتحاد کی ضرورت ہے جو خود بھی استعماری طاقتوں اور ان کے اتحادیوں سے خطرے کا احساس کرتے ہیں۔ روس انہیں ممالک میں سے ایک ہے۔ روس بھی یوکرائن کے بحران اور مغرب سے درپیش خطرات کے پیش نظر اسی نتیجے تک پہنچ چکا ہے۔ 
خبر کا کوڈ : 500301
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش