0
Saturday 28 Nov 2015 23:19

عالمی امن کیلئے حقیقی خطرہ کون، ایران یا امریکہ؟

عالمی امن کیلئے حقیقی خطرہ کون، ایران یا امریکہ؟
تحریر: جیک ڈریسر (ویت نام جنگ کے دوران یو ایس آرمی کے ماہر نفسیات)۔

ایک طبقاتی معاشرے میں معاشرے کا چھوٹا حصہ جو حکمران طبقے پر مشتمل ہے معاشرے کے زیادہ بڑے حصے کے افکار و نظریات کو کنٹرول کرتا ہے۔ حکمران طبقہ اس کام کیلئے عوام کو معلومات فراہم کرنے والے ذرائع اور ان کے طرز فکر پر اپنا کنٹرول قائم کرتا ہے اور ایسے مسائل کو حد سے زیادہ تکرار کرتا ہے جو معاشرے میں بے چینی اور پریشانی کی لہر پیدا کرتے ہیں۔ ہم عوام اس پریشانی اور اس کی شدت میں کمی کے نتیجے میں حاصل ہونے والے سکون کے زیر اثر اس راستے پر گامزن ہو جاتے ہیں جو حکمران طبقے نے حقیقت کا چھوٹا سا حصہ آشکار کر کے ہمارے لئے انتخاب کیا ہوتا ہے۔ امریکی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی رپورٹس جو ہمیشہ امریکی افسانوں سے پر ہوتی ہیں اور تاریخی حقائق کو بیان نہیں کرتیں عمدی طور پر ایسے انداز میں پیش کی جاتی ہیں کہ نہ صرف سننے والے کو کسی قسم کی معلومات فراہم نہیں کرتیں بلکہ الٹا اس کی گمراہی کا سبب بنتی ہیں۔ میرے مدعا کی مزید وضاحت کیلئے ایران کے جوہری پروگرام سے بہتر کوئی واضح اور حالیہ مثال نہیں پائی جاتی۔ یہ ایک ایسا واضح مسئلہ ہے جو ایران کے ساتھ ہمارے گذشتہ اور شاید آئندہ تعلقات کا جائزہ لینے سے بخوبی جانا جا سکتا ہے۔ کس کو کس کی نسبت عدم اعتمادی کا اظہار کرنا چاہئے؟ کون سی قوتیں جارح ہیں اور کون بین الاقوامی پابندیوں کا مستحق ہے؟ کسی کے ہاتھ میں کون سا کارڈ ہے اور حقیقی خطرات کون سے ہیں؟ ان سوالات کا جواب جاننے کیلئے ان مسائل کا تاریخی جائزہ لینا ضروری ہے جن کے ذریعے ہم آج کی "خبریں" جان سکتے ہیں۔ 
 
1953ء میں امریکہ نے ایران میں ڈاکٹر محمد مصدق کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹوا کر ایران میں جمہوریت کا خاتمہ کر دیا۔ اس اقدام سے امریکہ کا مقصد ایران کی تیل کی صنعت پر مغرب کے کنٹرول کو محفوظ بنانا تھا۔ اسی امریکہ نے ایران میں محمد رضا شاہ پہلوی جیسے بے رحم ڈکٹیٹر کو برسراقتدار لا کر اور اس کے زیر اثر "ساواک" جیسی خوفناک انٹیلی جنس ایجنسی بنا کر ایران کو وسط ایشیا میں 25 سال کیلئے اپنا مضبوط اڈہ بنایا رکھا۔ لیکن یہ اڈہ 1979ء کے عوامی انقلاب میں نابود ہو گیا۔ خطے میں امریکی مفادات کا خطرے میں پڑ جانے کے پیش نظر اس وقت ایسا دکھائی دے رہا تھا کہ تہران میں امریکی سفارت خانے پر ایران کے انقلابی طلبہ کا قبضہ امریکہ کی جانب سے اس ملک کے خلاف فوجی کاروائی کیلئے کافی ہو گا لیکن اس کے بدلے ایران کے خلاف اقتصادی پابندیاں لگا دی گئیں اور ایرانی عوام کو اس دن سے لے کر آج تک ان پابندیوں کے ذریعے سزا دی گئی۔ اسی طرح امریکہ میں ایران کے اربوں ڈالر ضبط کر لئے گئے اور اس کی خام تیل کی پیداوار کو بھی 40 فیصد تک کم کر دیا گیا۔ 
 
1980ء میں امریکہ نے عراق کو ایران کے خلاف اکسایا جس کے نتیجے میں ایران اور عراق کے درمیان 8 سالہ جنگ کا آغاز ہو گیا اور جنگ کے دوران امریکہ بھرپور انداز میں عراق کی حمایت بھی کرتا رہا۔ اس جنگ میں تقریبا 5 لاکھ ایرانی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ امریکہ مطمئن تھا کہ جنگ کے نتیجے میں ایران اور عراق دونوں کمزور ہو جائیں گے لہذا اس نے ایران کے خلاف پابندیوں کی شدت میں مزید اضافہ کر دیا۔ 1988ء میں اقوام متحدہ کی قرارداد کے نتیجے میں ایران اور عراق میں جنگ بندی ہو گئی۔ ابھی اس جنگ بندی کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ خلیج فارس میں موجود امریکی جنگی بحری جہاز یو ایس ایس وینسینس نے دو میزائل فائر کر کے ایران کے مسافر بردار جہاز فلائٹ نمبر 655 کو تباہ کر دیا جس کے نتیجے میں جہاز میں سوار تمام 290 مسافر جن میں 66 بچے بھی شامل تھے قتل ہو گئے۔ اس امریکی جنگی بحری جہاز کے کیپٹن کے خلاف عدالتی کاروائی کی بجائے اسے تمغے سے نوازا گیا۔ اس طرح ہم نے ان قتل ہونے والے ایرانیوں کے حق میں احترام کا اظہار کیا۔ 
 
ایران ایک جارح ملک نہیں اور اس نے گذشتہ دو صدیوں کے دوران کسی ملک پر حملہ نہیں کیا۔ امریکہ اور اسرائیل کے انٹیلی جنس ادارے اور بین الاقوامی ایٹمی توانائی کی ایجنسی کی تائید اس امر کی تصدیق کرتے ہیں کہ این پی ٹی پر دستخط کرنے والا ملک ایران ہر گز جوہری ہتھیار بنانے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ اسی طرح اس امر کی بھی تصدیق ہو چکی ہے کہ اس کی جانب سے کسی ملک کو جوہری ہتھیاروں کے ذریعے کسی قسم کا کوئی خطرہ درپیش نہیں۔ ایرانی نہ تو پاگل ہیں اور نہ ہی وہ خودکشی کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس کے برعکس اسرائیل ہے جس نے این پی ٹی معاہدے پر بھی دستخط نہیں کئے اور اپنی 67 سالہ مختصر تاریخ کے دوران کئی بار مقبوضہ فلسطینی سرزمین اور تمام ہمسایہ ممالک پر حملہ کر چکا ہے۔ مزید برآں، اسرائیل خطے میں موجود واحد ایٹمی خطرہ ہے جس کے پاس سمندر اور خشکی میں نصب میزائل سسٹم بھی موجود ہیں۔ امریکہ دو ماڈرن، ترقی یافتہ، سیکولر اور سوشلسٹ معاشروں کو مکمل طور پر نابود کر چکا ہے، افغانستان میں بدامنی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ پیدا کر چکا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس ملک میں افیون کی پیداوار سے بھی فائدہ اٹھا رہا ہے اور اس کے ذریعے مغرب میں انارکی پھیلنے سے بھی مطمئن ہو چکا ہے اور اس کے علاوہ امریکہ نے شام اور یمن کے خلاف بھی وسیع پیمانے پر اعلانیہ جنگ شروع کر رکھی ہے۔ 
 
اب جبکہ حقیقی جارح قوتیں، حقیقی متاثرہ ممالک اور حقیقی خطرات واضح ہو چکے ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے ایران پر فوجی حملے کے جنون آمیز مطالبے اور ہماری طرف سے ایران کے خلاف شدید اقتصادی پابندیوں کے پیچھے کیا عوامل کارفرما ہیں؟ جبکہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں واضح طور پر کسی بھی خودمختار ملک کی ملکی سالمیت کے خلاف طاقت کے استعمال یا طاقت کے استعمال کی دھمکی کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے۔ سعودی حکومت وہابی ٹولے کے ساتھ گٹھ جوڑ ہونے کے ناطے ایران کی شیعہ حکومت کی شدید مخالف ہے اور اسے خطے میں اپنا حریف تصور کرتی ہے۔ سعودی حکومت اسرائیل کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے ایران سے مطالبہ کرتی ہے کہ حزب اللہ لبنان کی حمایت اور مدد ختم کر دے۔ حزب اللہ لبنان ایسی قوت ہے جو 1982ء میں لبنان کے خلاف اسرائیلی حملے اور 18 سال تک جنوب لبنان پر اسرائیلی قبضے کے دوران ملک کا دفاع کرنے میں مصروف تھی اور لبنانی عوام اسے اسرائیلی جارحیت کے خلاف اپنی پناہ گاہ تصور کرتے ہیں۔ سعودی رژیم نے اپنے بجٹ کا بڑا حصہ اسی کام کیلئے مختص کر رکھا ہے جبکہ اسرائیل کی یہودی لابی نے شام کے خلاف ہماری پراکسی وار شروع کروانے کیلئے شدید سیاسی دباو ڈال رکھا ہے۔ شام ایران اور حزب اللہ لبنان کے درمیان اسٹریٹجک پل کی حیثیت رکھتا ہے۔ 
 
لیکن سوال یہ ہے کہ اسرائیل اور سعودی رژیم سے ہٹ کر شام حکومت کے خلاف فوجی کاروائی میں امریکہ کو کیا فائدہ ہے؟ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ روس اور چین کے لیڈران کسی شور شرابے کے بغیر انتہائی خاموشی سے اور مغرب سے زیادہ ماہرانہ انداز میں برجنسکی کی شطرنج پر اپنی اسٹریٹجی کو عملی جامہ پہنانے میں مصروف ہیں۔ ایران کے خلاف لگائی جانے والی امریکی پابندیاں درحقیقت روس کے خلاف امریکہ کی نئی سرد جنگ میں ایک ہتھیار کے طور پر استعمال ہو رہی ہیں۔ امریکہ نے اس بہانے کے ساتھ کہ اقوام متحدہ کی جانب سے پابندیوں کا شکار ممالک شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن نہیں بن سکتے، اس تنظیم میں ایران کی رکنیت کو روکا ہوا ہے۔ اگلے سال تک شنگھائی تعاون تنظیم میں پاکستان اور بھارت کی رکنیت کے بعد ایران کی رکنیت وسطی، جنوبی اور مشرقی یوریشیا پر روسی – ایشیائی تسلط کی تکمیل ثابت ہو گی اور انرجی سے مالامال بحیرہ کیسپین کے گرد ان کا گھیراو مکمل ہو جائے گا۔ ایران نے 2008ء سے شنگھائی تعاون تنظیم میں رکنیت کی درخواست دے رکھی ہے لیکن اسے رکنیت تب ملے گی جب اقوام متحدہ کی جانب سے اس پر عائد کی گئی پابندیاں اٹھا لی جائیں گی۔ ایسی صورت میں امریکہ رکاوٹ نہیں بن سکے گا۔ شنگھائی تعاون تنظیم ایک سیاسی، اقتصادی اور فوجی اتحاد ہے جو جلد ہی دنیا کی نصف آبادی کا نمائندہ اتحاد بن جائے گا۔ اس تنظیم کا مقصد بریٹن ووڈز مالیاتی اداروں کو چیلنج کرنا ہے اور ماضی کے وارسا پیکٹ کو زندہ کرتے ہوئے اسے نیٹو کے مقابلے کے اتحاد میں تبدیل کرنا ہے۔ حالیہ برس میں چین، بھارت اور روس کی مسلح افواج نے دوسری جنگ عظیم میں کامیابی کی سالگرہ کے موقع پر ایک ساتھ ماسکو میں پریڈ کا مظاہرہ کیا۔ شنگھائی تعاون کونسل "برکس گروپ" کے تین براعظموں پر مشتمل اتحاد سے برابری کرتا ہے جس میں برازیل بھی شامل ہے۔ برازیل ایسا ملک ہے جو بذات خود سنٹرل امریکا کے اتحادوں "میرکوزور"، "البا" اور "یوناسور" کے برابر ہے۔ یوناسور اپنے جدید بانکو ڈل سور کے ساتھ ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے گا اور اس کا مقصد خود کو ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے تحمیلی اصولوں سے رہائی دلوانا ہے۔ 
 
ایران کے ساتھ مذاکرات کرنے والے فائیو پلس ون گروپ میں شامل دوسرے ممالک امریکی کانگریس کے اقدامات کو نظرانداز کرتے ہوئے اس کے خلاف مزید پابندیاں عائد نہیں کریں گے۔ یورپی یونین ایران سے قدرتی گیس برآمد کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ ایران اور روس دنیا میں موجود قدرتی گیس کے ذخائر یا تیسرا حصہ اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں اور یورپی یونین کو اس گیس کی شدید ضرورت ہے۔ ایران اور روس پہلے ہی آپس میں ایک بڑا تجارتی معاہدہ انجام دے چکے ہیں اور روس بہت جلد ائیر ڈیفنس سسٹم S-300 ایران کو دینے والا ہے جو امریکہ اور اسرائیل کے مقابلے میں ایران کی بخوبی حفاظت کرے گا۔ اسی طرح ایران چین کی جانب سے شروع کردہ عظیم راہ ابریشم پراجیکٹ سے متصل ہونے کیلئے زمینی اور سمندری راستوں کی تعمیر کا کام بھی شروع کر دے گا۔ ایران "ایشین انفرااسٹرکچر انوسٹمنٹ بینک" کے بانی اراکین میں سے ایک ہے۔ اس بینک کا مقصد ان پراجیکٹس کی تکمیل کیلئے ضروری فنڈز مہیا کرنا ہے۔ چینی کمپنیاں اس وقت خلیج فارس میں ایران کے قدرتی گیس کے وسیع ذخائر سے گیس نکالنے اور عراق کی سرحد پر واقع تیل کے ذخائر سے تیل نکالنے میں مصروف ہیں۔ اس اقدام کا مقصد مغرب کی جانب سے ایران پر عائد کردہ پابندیوں کا مقابلہ کرنا ہے۔ یہ تیل اور گیس چینی کرنسی یوآن اور دیگر کرنسیوں کے بدلے فروخت کی جاتی ہے۔ 
 
منرو ڈاکٹرائن کے اطلاق کا وقت گزر چکا ہے اور دنیا کے قدرتی ذخائر پر کنٹرول کیلئے امریکی طاقت تیزی سے زوال پذیر ہو رہی ہے۔ ایران ہمارے مطالبات ماننے سے انکار کر چکا ہے اور ترقی کی جانب گامزن دنیا اس ملک کیلئے تالیاں بجانے میں مصروف ہے۔ ناوابستہ تحریک (Non Aligned Movement) کے 120 اراکین نے 2015ء کے اجلاس کیلئے تہران کو انتخاب کیا ہے اور اس وقت اس تحریک کی سربراہی بھی ایران کے ہاتھ میں ہے۔ ہم اس فیصلہ کن کھیل میں یا تو ہمیشہ کیلئے ہار جائیں گے یا ایسی حکمت عملی اختیار کریں کہ کھیل کے میدان میں باقی رہ سکیں۔ میری نظر میں کم از کم اس وقت ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کی پابندی ہمارے لئے بہت ضروری ہے۔ 
خبر کا کوڈ : 501200
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش