0
Wednesday 9 Dec 2015 08:33

مسئلہ افغانستان کا حل خطہ میں پائیدار امن کیلئے ضروری

مسئلہ افغانستان کا حل خطہ میں پائیدار امن کیلئے ضروری
رپورٹ: ایس اے زیدی

افغانستان میں قیام امن گذشتہ کئی دہائیوں سے ایک بہت بڑے عالمی مسئلہ کے طور پر دیکھا جارہا ہے، اس حوالے سے پاکستان کے کردار کو ہمیشہ کلیدی حیثیت رہی ہے، افغانستان میں موجودہ قیادت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد پاکستان نے وہاں امن کیلئے مخلصانہ کوششیں کی ہیں، کیونکہ شائد پاکستان کے مقتدر حلقہ جان چکے ہیں کہ افغانستان میں امن کے بغیر پاکستان میں امن قائم کرنا ناممکن ہے، تاہم اس حوالے سے افغان قیادت کا رویہ کچھ ٹھیک نہیں رہے، اسے امریکی پشت پناہی کہا جائے یا بھارتی لابنگ، افغان صدر اشرف غنی سمیت دیگر اعلیٰ حکام پاکستان کے کردار کو اب بھی شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں، واضح رہے کہ ماضی میں افغانستان کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی غیر مناسب رہی ہے۔

پاکستان میں شروع ہونے والی ’’ہارٹ آف ایشیاء‘‘ کانفرنس کو افغانستان سمیت خطہ میں قیام امن کیلئے اہم قدم قرار دیا جارہا ہے، اور امید کی جارہی ہے کہ افغانستان کے پڑوسی ممالک اور دیگر عالمی قوتیں ملکر اس اہم مسئلہ کا بہتر حل تلاش کریں گے، جس کو بالخصوص پڑوسی ممالک مطمئن ہوں۔ گذشتہ دنوں پاکستان کے قوم پرست پشتون سیاسی رہنماوں نے افغانستان کا دورہ کیا، پاکستان کے اس اعلیٰ سطحی سیاسی وفد کے دورہ افغانستان کے دوران وہاں کے شمالی علاقوں سے تعلق رکھنے والے حکومتی رہنماؤں کے سخت رویے کے باعث فوری طور پر بریک تھرونہ ہوسکا تاہم معاملات میں سدھار لانے کے لیے فوری طور پر دونوں جانب سے بیان بازی بند کرنے اور حکومتی عہدے داروں کی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔ جس کی پہلی کڑی فرانس میں وزیراعظم پاکستان اور افغان صدر کے درمیان ملاقات تھی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اس دورہ افغانستان کے دوران یہ بات بالکل واضح ہوگئی کہ وہاں حکومت میں شامل پشتون قیادت مائل بہ مذاکرات اور معاملات میں سدھار لانے کے لیے تیار ہے، تاہم افغانستان کے شمالی علاقہ جات سے تعلق رکھنے والے حکومتی رہنماء اس سلسلے سخت موقف اپنائے ہوئے نظر آئے اور پاکستان کے ساتھ معاملات کو ٹریک پرلانے کے حوالے سے سنجیدہ دکھائی نہیں دیے اور شمالی علاقہ جات سے تعلق رکھنے والے افراد کے حکومت، بیوروکریسی اور دیگر شعبوں میں اثروسوخ کے باعث ہی فوری طور پر کوئی بریک تھرو نہیں ہوسکا۔ ذرائع کے مطابق یہ بات بالکل واضح ہے کہ وہاں پر افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی، چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ اور سابق صدر حامد کرزئی کے الگ، الگ گروپ ہیں اور ہر گروپ اپنے طور پرمعاملات کو لے کر چل رہا ہے۔

پاکستان کو ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اور ان کے ساتھیوں پر بھی فوکس رکھناہوگا، ذرائع نے بتایا کہ افغان طالبان اور وہاں کی حکومت کے درمیان دوبارہ مذاکرات کا معاملہ کافی آگے کی بات ہے، جو میدان ہموار ہونے کے بعد ہی شروع ہوسکتے ہیں۔ تاہم اب ایک مرتبہ پھر افغان طالبان کے سربراہ ملا منصور اختر کی ہلاکت کی خبروں سے صورت حال میں تبدیلی آسکتی ہے۔ پاکستان میں شروع ہونے والی کانفرنس افغانستان کے مسئلہ کے حوالے سے کوئی حل تلاش کرنے میں کامیاب ہوتی ہے تو اس میں طالبان اور دیگر جنگجووں کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، یا تو جنگجووں کو مذاکرات کی عالمی میز پر لانا ہوگا، یا پھر ان کیخلاف کوئی اور حل دیکھنا ہوگا، تاہم یہ واضح ہے کہ خطہ میں پائیدار امن کیلئے مسئلہ افغانستان کا کوئی مستقل حل تلاش کرنا ضروری ہے۔
خبر کا کوڈ : 502992
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش