0
Sunday 29 Nov 2015 11:36

کیا طیب اردغان ترکوں کے خیر خواہ ہیں؟

کیا طیب اردغان ترکوں کے خیر خواہ ہیں؟
تحریر: سید اسد عباس

ترکی سلطنت عثمانیہ کے زوال کے بعد سے کبھی بھی عالمی منظر نامے پر یوں ابھر کر سامنے نہیں آیا جیسا کہ آج کل آرہا ہے اور اس حوالے سے حالیہ دنوں میں اس کا سب سے بڑا کارنامہ ایک سابقہ سپر پاور کے جنگی جہاز کو مار گرانا ہے۔ ترک ذمہ داروں کے مطابق روسی جہاز مسلسل اس کی سرحدوں کی خلاف ورزی کر رہے تھے اور بار بار کے انتباہ کے بعد یہ انتہائی اقدام اٹھانا پڑا۔ اس واقعہ کے نتیجے میں دو روسی فوجی ایک جنگی جہاز کا پائلٹ اور دوسرا اس کو بچانے کی کوشش کرنے والا میرین جاں بحق ہوئے۔ کارنامہ تو واقعی کافی بڑا ہے، آج تک کسی مسلمان ملک نے ایسی جرات نہیں کی کہ کسی مغربی یا مشرقی طاقت سے یوں براہ راست ٹکر لے سکے۔ ایران نے عموماً امریکہ کے ڈرونز کو اتارا ہے لیکن ایسا نہیں کیا کہ ایک جنگی جہاز کو مار گرایا ہو، جس میں امریکہ کا کوئی جانی نقصان ہوا ہو، اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ امریکہ نے ایرانی سرحدوں کی ایسی کوئی خلاف ورزی ہی نہیں کی، جس کے لئے اس درجے پر جا کر کارروائی کرنی پڑے۔ باقی مسلمان ممالک میں اللہ کے فضل و کرم سے مغربی ممالک کے جہاز، ہیلی کاپٹر اور بحری بیٹرے یوں دندناتے پھرتے ہیں جیسے لا وارث چراگاہوں میں آوارہ مویشی۔

ہم فقط ایک دوسرے کو ہی آنکھیں دکھا سکتے ہیں اور ایک دوسرے پر ہی حملہ آور ہوسکتے ہیں، ان کی جانب دیکھنا ہمارے بس سے باہر ہے، یہ ایسا مقام ہے جہاں ہمارے پر پرواز جلتے ہیں اور ذہن کی تمام تر تیزیاں ماند پڑ جاتی ہیں۔ "ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات" کا اردو محاورہ ہمارے سامنے برہنہ رقص کرتا ہے اور ہم اپنا چہرہ اپنی ہی آستینوں میں چھپاتے پھرتے ہیں۔ ہم ضعیف سے زیادہ بے ہمت ہیں، اسی لئے عالمی طاقتیں ہم سے وہ باتیں بھی قبول کروا لیتی ہیں، جو ہم اپنے ہمسایوں کی بھی نہیں مانتے۔ بہرحال ملکی سالمیت کے فیصلے بہت سوچ سمجھ کر کرنے پڑتے ہیں، کبھی عقب نشینی اختیار کرنی پڑتی ہے اور کبھی جارحیت۔ اس معاملے میں اصل اہمیت وطن سے اخلاص اور اس کے مفاد کو حاصل ہے۔ وطن اور اہل وطن سے اخلاص ذمہ داران مملکت کے لئے نہایت اہم ہے۔ اسی لئے قومیں اپنے راہنماوں کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کرتی ہیں۔ اگر قیادت مخلص نہ ہو تو وہ عالمی سیاست کے دھارے میں یوں بہتی ہے کہ سالوں بعد غلطی کا احساس ہوتا ہے۔ رہبر و راہنما پوری قوم کو فروخت کرنے کی صلاحیت کا حامل ہوتا ہے۔ اقبال کا یہ مصرعہ تو آپ نے سن رکھا ہوگا:
قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند
شومی قسمت کہیے، سمجھئے یا کچھ اور مسلمانوں میں ایسے راہنماوں کی کوئی کمی نہیں ہے جو اپنے ذاتی مفادات کے لئے اپنی قوم کا مستقبل داو پر لگا سکتے ہیں۔ اگر تاریخی حوالے گنوانے بیٹھ جاؤں تو شاید اکا دکا ہی ایسے بچیں، جنہوں نے ملکی سالمیت اور قومی مفاد پر کبھی سودا نہ کیا ہو۔ ایسے لوگ بہت کم اوپر آتے ہیں اور اگر آجائیں تو بہت جلدی اس دنیا سے چلے جاتے ہیں۔ اب سارے شہیدوں کو ہی اس زمرے میں مت ڈال دی جیے گا۔ سودے بازی کے اپنے اصول ہیں، بات مانتے رہو تو خیر، اگر نہ مانی تو پھر تماشہ۔

ترک صدر طیب اردغان جن کا تعلق عدالت و ترقی پارٹی سے ہے 2003ء سے ایوان اقتدار میں ہیں۔ پہلے وہ ملک کے وزیراعظم رہے، اب وہ صدر ترکی کے طور پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ طیب اردغان کے دور اقتدار میں ترکی میں کئی ایک بنیادی تبدیلیاں ہوئیں، انہوں نے ریاستی اشرافیہ کو مکمل طور پر بدلا، سیاسی نظام میں حقیقی تبدیلیاں لائے، ریاست کو نئے سرے سے ایک شناخت دی، اسی طرح ترکی کو معاشی اور سماجی میدان میں بھی کافی ترقی حاصل ہوئی۔ پولینڈ سے شائع ہونے والے ایک تحقیقی مقالہ، جس کے چند اقتباسات حسب ذیل ہیں کے مطابق:  عدالت و ترقی پارٹی نے ترکی کو نہایت مستحکم انداز سے بدلا ہے، تاہم ابھی تک یہ کہنا مشکل ہے کہ آئندہ صورتحال کیا ہوگی۔ اپنے قیام کے نوے سال کے دوران یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ترکی ابھی تک ایک نامکمل تجربہ ہے، وہ سیکولر ریاست جو 1923ء میں کمال اور اس کے حامیوں کے زیر اثر تشکیل پائی تھی اور جس نے مشرق وسطٰی کی جانب پشت کر رکھی تھی، اب وجود نہیں رکھتی۔ آج ترک ریاست اور سیاست قانون کی پابند نہیں ہے بلکہ یہ ایک شخص کی مرضی کی مرہون منت ہے، جس کے خلاف آواز بلند کرنا آسان نہیں ہے۔ طیب اردغان کے کردار اور ان کی قوت کو مرتکز کرنے کی منطق کے پیش نظر ان کے دور اقتدار میں جمہوریت اور قانون کی حکمرانی مزید کمزور ہوگی۔ حکومت کی ترجیح اپنی قوت کو مستحکم کرنا نیز حقیقی و تخیلاتی دشمنوں سے نبرد آزما ہونا ہے۔ جس کے لئے بے پناہ پراپیگنڈہ کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ آراء کا اختلاف شدت اختیار کر رہا ہے۔ ترکی کی اقتصادی حالت ملک کے مستقبل کا فیصلہ کرے گی۔ (مارک ماٹوسیک، دا گریٹ لیپ ٹرکی انڈر اردغان)

یہ اقتباس مارک ماٹوسیک کے مقالے کا نتیجہ ہے۔ صورتحال اگرچہ کافی واضح ہے، لیکن کچھ معاملات کا اس مقالے میں احاطہ نہیں کیا گیا، مثلاً طیب اردغان کے بیٹے بلال اردغان کی کاروباری سرگرمیاں اور اس کے سیاسی اثرات، اسی طرح ان کی بیٹی سمیعہ اردغان کے فلاحی منصوبے اور ان کے سیاسی و تزویراتی اثرات بہت اہم ہیں۔ بلال اردغان ترکی کی ایک بڑی کمپنی بی ایم زیڈ کے بڑے شراکت دار ہیں، یہ کمپنی اردغان فیملی کے شراکت داروں پر مشتمل ہے۔ اس کمپنی کے بہت سے کاروبار ہیں، جن میں اہم کاروبار شپنگ ہے۔ طیب اردغان اپنے کاروبار کے سلسلے میں اس قدر مصروف ہیں کہ انہیں غلط و صحیح کا اندازہ نہیں ہو رہا یا وہ اسے غلط سمجھتے ہی نہیں ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق داعش کے زیر قبضہ عراق کے شہر موصل اور شام کے علاقوں سے نکالا جانے والا خام تیل بلال اردغان کے زیر استعمال جاپانی بحری جہازوں کے ذریعے یورپ اور ایشاء کے ممالک میں فروخت ہو رہا ہے۔ اسی طرح سمیعہ اردغان کا ترک سرحد پر قائم ہسپتال شامی جنگجووں کے علاج معالجہ اور دیگر ضروریات کے لئے استعمال ہو رہا ہے۔ شام میں روسی جہاز جس مقام پر حملہ آور تھا، یہ وہی علاقہ ہے جہاں یہ تیل اکٹھا کیا جاتا ہے، تاکہ اسے آگے بھیجا جا سکے، جہاز گرائے جانے کی وجہ جن لوگوں کو اب تک سمجھ نہیں آئی، انہیں روسی صدر کا یہ بیان پڑھنا چاہیے کہ اب ہم پہلا حملہ تیل کے ان کاروانوں پر کریں گے جو شام سے تیل ترکی پہنچاتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ جب تک داعش کی معیشت پر حملہ نہیں ہوتا، اس وقت تک ہمیں حقیقی کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی۔ بات ہے بھی درست، اب داعش کے لئے کھلے عام تیل کی ترسیل ممکن نہیں رہ گئی۔

ترک سرحد کا تحفظ یقیناً ترکی کا حق تھا، لیکن اس حق کے بے جا یا جائز استعمال کا نتیجہ یہ نکلا کہ روس نے ترکی پر اقتصادی پابندیاں عائد کر دی ہیں، جس سے ترکی کے تقریباً دو لاکھ افراد جو روس میں کام کر رہے تھے یا کام کرنے والوں کے ساتھ رہائش پذیر تھے براہ راست طور پر متاثر ہوئے ہیں۔ اسی طرح روس اور ترکی کے کاروباری تعلقات بھی بری طرح متاثر ہوئے ہیں، ۳۳ بلین ڈالر کا لین دین وقتی طور پر ہی سہی تعطل اور مشکلات کا شکار ہوجائے گا۔ بعض ترک مصنوعات یا برآمدات روس میں ممنوع قرار دے دی گئی ہیں۔ ترکی کے گیس کی ضروریات جس کا 54فیصد روس سے حاصل ہوتا ہے، کا کیا بنے گا ابھی اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ روسی سیاح جو ترک زرمبادلہ کا ایک اہم ذریعہ تھے، پر بھی پابندی عائد ہوگئی ہے۔ فوجی اور ایٹمی تعاون اس کے علاوہ ہے۔ ظاہر ہے روس نے کوشش کی ہوگی کہ اپنی معیشت کو کم سے کم نقصان پہنچاتے ہوئے ترک معیشت پر بوجھ ڈالا جائے، اس بات کا اندازہ لگنے والی پابندیوں کے مطالعہ سے بخوبی کیا جاسکتا ہے۔

ترکی کے نیٹو اتحادی تاحال مخمصے کا شکار ہیں، کچھ اس حملے کو غیر ضروری کہتے ہیں تو کچھ شاباشیاں دے رہے ہیں۔ دیکھنا تو یہ ہے کہ یہ اتحادی ترکی کو معاشی مشکل سے کیسے نکالتے ہیں۔ ترکی کے لئے بھی اچھا موقع ہے کہ وہ دوست و دشمن کی پہچان کرسکے۔ اس حملے کے جنگی اثرات کا اندازہ اس تازہ خبر سے لگایا جا سکتا ہے جو روسی خبر رساں ادارے نے دی کہ شام میں دفاعی نظام کی تنصیب کے بعد سے اب تک امریکہ اور ترکی کا کوئی طیارہ فضا میں نہیں آیا۔  ایسے میں یہ سوال بہت اہم ہو جاتا ہے کہ اتنے اچھے تجارتی تعلقات کی موجودگی میں، جب کہ ایک ملک آپ کی ریاست کے لئے براہ راست خطرہ بھی نہیں بن رہا، اگر بفرض محال چند سیکنڈز کے لئے غلطی بھی ہوتی رہی تو اس قدر انتہائی اقدام کی کیا ضرورت تھی، یہی بات روسی صدر نے بھی کی۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم ترکی کو دوست سمجھتے تھے اور یہ حملہ ہماری پشت میں خنجر گھونپنے کے مترادف ہے۔ بہرحال اب ترکی نے خطے میں ایک اور دوست کھو دیا ہے۔

ترک صدر اب بھی نہایت جارحانہ رویہ اپنائے ہوئے ہیں اور کہتے ہیں کہ ترک عوام ہر قسم کی پابندیوں کا سامنا کرسکتے ہیں، جس کے جواب میں ترکی سے ہی آوازیں اٹھنے لگی ہیں، جس میں سب سے اہم بیان ترکی کے راہنما دولت بیکلی کا ہے، جنہوں نے کہا ترکی کے عوام پہلے ہی بہت کچھ برداشت کرچکے ہیں۔ اپنے ٹوئٹر اکاونٹ میں انھوں نے لکھا کہ باتیں کرنا آسان ہے، آئیں ترک عوام کی مشکلات میں حصہ دار بنیں، آج سے صدارتی محل کو (گیس ہیٹر) کے بجائے گوبر جلا کر گرم کریں۔
ترک عوام یقیناً یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ کیا واقعی طیب اردغان ترکوں کے خیرخواہ ہیں۔؟
خبر کا کوڈ : 504284
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش